• 20 اپریل, 2024

دعا کی اصل حقیقت

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’سیّد صاحب کا یہ مذہب ہے کہ دعا ذریعہ حصولِ مقصود نہیں ہو سکتی اور نہ تحصیل مقاصد کے لئے اس کا کچھ اثر ہے اور اگر دعا کرنے سے کسی داعی کا فقط یہی مقصد ہو کہ بذریعہ دعا کوئی سوال پورا ہوجائے تو یہ خیال عبث ہے کیونکہ جس امر کا ہونا مقدّر ہے اسکے لئے دعا کی حاجت نہیں اور جس کا ہونا مقدّر نہیں ہے اسکے لئے تضرع و ابتہال بے فائدہ ہے۔ غرض اس تقریر سے بتمام تر صفائی کھل گیا کہ سیّد صاحب کا یہی عقیدہ ہے کہ دعا صرف عبادت کیلئے موضوع ہے اور اس کو کسی دنیوی مطلب کے حصول کا ذریعہ قرار دینا طمع خام ہے۔

اب واضح ہو کہ سیّد صاحب کو قرآنی آیات کے سمجھنے میں سخت دھوکا لگا ہوا ہے مگر ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس دھوکے کی کیفیت کو اس مضمون کے اخیر میں بیان کریں گے اس وقت ہم نہایت افسوس سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر سیّد صاحب قرآن کریم کے سمجھنے میں فہم رسا نہیں رکھتے تھے تو کیا وہ قانونِ قدرت بھی جس کی پیروی کا وہ دم مارتے ہیں اور جس کو وہ خدا تعالیٰ کی فعلی ہدایت اور قرآن کریم کے اسرار غامضہ کا مفسر قرار دیتے ہیں اس مضمون کے لکھنے کے وقت ان کی نظر سے غائب تھا؟ کیا سیّد صاحب کو معلوم نہیں کہ اگرچہ دنیا کی کوئی خیر و شر مقدّر سے خالی نہیں تاہم قدرت نے اسکے حصول کیلئے ایسے اسباب مقررکر رکھے ہیں جن کے صحیح اور سچے اثر میں کسی عقلمند کو کلام نہیں مثلاً اگرچہ مقدّر پر لحاظ کر کے دوا کا کرنا نہ کرنا درحقیقت ایسا ہی ہے جیسا کہ دُعا یا ترکِ دُعا مگر کیا سیّد صاحب یہ رائے ظاہر کر سکتے ہیں کہ مثلاً علم طب سراسر باطل ہے اور حکیم حقیقی نے دواؤں میں کچھ بھی اثر نہیں رکھا۔ پھر اگر سیّد صاحب باوجود ایمان بالتقدیر کے اس بات کے بھی قائل ہیں کہ دوائیں بھی اثر سے خالی نہیں تو پھر کیوں خدا تعالیٰ کے یکساں اور متشابہ قانون میں فتنہ اور تفریق ڈالتے ہیں؟ کیا سیّد صاحب کا یہ مذہب ہے کہ خداتعالیٰ اس بات پر تو قادر تھا کہ تربد اور سقمونیا اور سنا اور حب الملوک میں تو ایسا قوی اثر رکھے کہ انکی پوری خوراک کھانے کے ساتھ ہی دست چھوٹ جائیں یا مثلاً سم الفار اور بیش اور دوسری ہلاہل زہروں میں وہ غضب کی تاثیر ڈال دی کہ ان کا کامل قدر شربت چند منٹوں میں ہی اس جہان سے رخصت کر دے لیکن اپنے برگزیدوں کی توجہ اور عقد ہمت اور تضرع کی بھری ہوئی دعاؤں کو فقط مردہ کی طرح رہنے دے جن میں ایک ذرّہ بھی اثر نہ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ نظامِ الٰہی میں اختلاف ہو اور وہ ارادہ جو خدا تعالیٰ نے دواؤں میں اپنے بندوں کی بھلائی کے لئے کیا تھا وہ دعاؤں میں مرعی نہ ہو؟ نہیں نہیں ! ہرگز نہیں ! بلکہ خود سیّد صاحب دعاؤں کی حقیقی فلاسفی سے بے خبر ہیں اور ان کی اعلیٰ تاثیروں پر ذاتی تجربہ نہیں رکھتے اور ان کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی ایک مدت تک ایک پرانی اور سال خوردہ اور مسلوب القویٰ دوا کو استعمال کرے اور پھر اس کو بے اثر پاکر اس دوا پر عام حکم لگادے کہ اسمیں کچھ بھی تاثیر نہیں۔‘‘

(برکات الدعاء،روحانی خزائن جلد6 ص 7 ،8)

پچھلا پڑھیں

خطبہ جمعہ کا خلاصہ مورخہ 27 دسمبر 2019ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 دسمبر 2019