• 19 اپریل, 2024

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پُر اثر واقعات

آنحضرتؐ کی عمر

حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ پر چالیس سال کی عمر میں پہلی وحی نازل ہوئی۔ اس کے بعد آپ 13 برس تک مکہ میں رہے پھر آپؐ نے ہجرت کی ہجرت کے بعد آپؐ مدینہ میں 10 برس رہے او ر وفات کے وقت آپ کی عمر 63 سال کی تھی۔

آنحضرتؐ کا گلا گھونٹنا

لوگوں نے حضرت عبداللہ بن عمروبن عاصؓ سے پوچھا کہ آنحضرتؐ کو مکہ میں سب سے بڑی تکلیف کیا پہنچی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک دن آنحضرت ﷺ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ نے آکر اپنی چادر آپ کے گلے میں ڈال دی پھر اسے مروڑنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ چادر آپؐ کے گلے میں پھانسی کے پھندے کی طرح ہوگئی۔ وہ ظالم اسے اور چکر دیتا رہا۔ یہاں تک کہ آپ کا دم بند ہوگیا اور قریب تھا کہ آپ مرجائیں۔ حضرت ابوبکرؓ بھی اس وقت وہاں تھے انہوں نے اس کمبخت کے ہاتھ پکڑ لئے اور بمشکل آپ کو چھڑایا اور قرآن کی یہ آیت پڑھی ’’کیا تم اس شخص کو صرف اس قصور پر قتل کرتے ہو کہ وہ صرف اللہ کو اپنا پروردگار کہتا ہے۔‘‘

جناب ابوطالب کو امداد کا ثواب

ایک دفعہ حضرت عباسؓ آپ کے چچا نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ یارسول اللہؐ! کیا آپ کی وجہ سے آپؐ کے چچا ابوطالب کو بھی کوئی ثواب ہوگا۔ کیونکہ وہ آپؐ کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپؐ کی خاطر لوگوں سے مقابلہ کیا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں ان پر تو اتنی تھوڑی تکلیف ہے کہ جہنم کا عذاب صرف ان کے ٹخنوں تک ہے۔ اگر وہ میری امداد نہ کرتے تو دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوتے۔ مگر جہنم کی آگ ٹخنے تک کی بھی ایسی سخت ہوگی کہ اس کی گرمی سے ان کا دماغ کھولنے لگے گا۔

ابوجہل کا تکبر

بدر کے دن فتح کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کوئی جاکر ابوجہل کا حال تو دیکھو۔ اس پر ابن مسعودؓ اس کی تلاش میں نکلے دیکھا کہ اسے معاذؓ اور معوذؓ نے قتل کر دیا تھا۔ مگر ابھی ذرا سا دم باقی تھا۔ابن مسعود نے اس سے کہا کہ آپ ہی ابوجہل ہیںنا۔ اس نے کہا ہاں۔ اس پر ابن مسعودؓ نے اس کی داڑھی پکڑ لی وہ بولا کیا آج مجھ سے بھی بڑا کوئی آدمی مارا گیا ہے؟ ابن مسعودؓ اس کی گردن کاٹنے لگے۔ تو کمبخت بولا کہ لمبی گردن رکھ کر سرکاٹنا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ میں سب کا سردار ہوں۔ ابن مسعود ؓنے کہا کہ تیری یہ حسرت بھی پوری نہ ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے سرکو اس طرح کاٹا کہ گردن بالکل اس کے ساتھ نہ تھی اور اسے لا کر آنحضرت ﷺ کے قدموں میں ڈال دیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ اس امت کا فرعون تھا۔ (بلکہ فرعون سے بدرجہا زیادہ شقی کیونکہ فرعون تو جب ڈوبنے لگا تو اس کا تکبر سب ہوا ہوگیا اور وہ کہنے لگا کہ میں موسیٰ کے رب پر ایمان لایا۔ مگر یہ ابوجہل مرتے مرتے بھی تکبر کے مارے کہتا تھا کہ ذرا لمبی گردن رکھ کے کاٹنا۔ فرعون تو دریا میں غرق ہوا مگر ابوجہل بدر کے کنویں میں غرق کیا گیا۔)

بدر کے بعد کفار کے مُردوں کو خطاب

آنحضرت ﷺ بدر میں فتح کے بعد تین دن تک ٹھہرے۔ تین دن کے بعد آپؐ سوار ہوئے اور اس کنویں کے کنارے پر تشریف لائے۔ جہاں کفار کی لاشوں کو ڈلوادیا تھا۔ وہاں کھڑے ہو کر آپؐ نے نام بنام ایک ایک سردار کو پکارا اور کہا کہ کیا تمہیں یہ آسان نہ تھا کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی بات مان لیتے۔ ہم سے تو جو وعدہ ہمارے رب نے کیا تھا وہ سچا ہوگیا کیا تم نے بھی آگے جا کر اپنے رب کا وعدہ سچا پایا۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا یہ مردے سنتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ خدا گواہ ہے یہ مردے اس وقت زندوں سے زیادہ میری بات سن رہے ہیں۔
جنگ بدر میں جو صحابہؓ شریک ہوئے ان کو آنحضرت ﷺ نے سب سے زیادہ فضیلت والا فرمایا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارہ میں فرمایا ہے کہ اے اہل بدر! اب جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا۔
جو مسلمان بدر میں شریک ہوئے تھے ان کو بدری کہتے ہیں۔

آنحضرتؐ کا ایک عبرتناک خواب

آنحضرت ﷺ کی عادت تھی کہ صبح کی نمازپڑھ کر جائےنماز پر ہی سورج نکلنے تک بیٹھے رہتے۔کبھی تو حاضرین اپنے حالات اور جاہلیت کے زمانہ کی باتیں سناتے اور کبھی آنحضرت ﷺ خود لوگوں سے پوچھا کرتے کہ اگر تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے تو بیان کرے اس پر اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو وہ آپؐ کو سناتا اور آپؐ اس کی تعبیر فرماتے ایک دن آپ ؐنے اسی طرح پوچھا۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ آج ہم نے کوئی خواب نہیں دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ وہ یہ کہ میرے پاس دو آدمی آئے اور مجھے ایک جگہ لے گئے۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہے اور دوسرا کھڑا ہے جو کھڑا ہے اس کے ہاتھ میں لوہے کی ایک سیخ ہے۔ وہ اس سیخ کو بیٹھے ہوئے آدمی کے جبڑے میں اس زور سے گھسیڑتا ہے کہ اس کی گدی تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر نکال کر دوسرے جبڑے کی طرف یہی عمل کرتا ہے اور برابر اسی طرح عذاب دیئے جاتا ہے میں نے پوچھا۔ یہ کیا ہے۔ تو ان دونوں نے بیان کیا کہ یہ ایسا آدمی ہے جو جھوٹی باتیں مشہور کیا کرتا تھا اور ہوتے ہوتے اس کی باتیں دنیا بھر میں مشہور ہو جاتی تھیں اور یہ اس کی سزا ہے۔

پھر ہم آگے چلے تو دیکھا کہ ایک شخص چت لیٹا ہے اور ایک دوسرا آدمی اس کے سرہانے پتھر لئے کھڑا ہے اور زور سے اس کے سر پر پتھر مارتا ہے۔ جب پتھر لڑھک کر پرے جاپڑتا ہے تو وہ مارنے والا پھر اسے اٹھا کر لاتا ہے اور جب تک وہ آئے اس شخص کے سر کا زخم اچھا ہو جاتا ہے۔ واپس آکر پھر وہ اسے پہلی طرح سرپر پتھر مارتا ہے۔ غرض اسی طرح ہوتا رہتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا۔ مگر یہ نہ رات کو قرآن پڑھتا نہ دن کو اس پر عمل کرتا تھا۔ اب اس کو برابر یہی سزا ہوتی رہے گی۔

پھر ہم آگے چلے تو ایک غار دیکھا جس کا منہ تنگ تھا مگر اندر اس کے بہت جگہ تھی۔ اس میں آگ جل رہی تھی اور اس آگ میں ننگے مرد اور ننگی عورتیں جل رہی تھیں۔ جب آگ زور سے بھڑکتی تو وہ لوگ اس کے شعلوں کے ساتھ اچھلتے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو مجھے بتایا گیا کہ یہ بدکار لوگ ہیں۔
پھر ہم آگے چلے تو دیکھا کہ ایک خون کی نہر ہے جس کے بیچ میں ایک آدمی کھڑا ہے اور ایک آدمی اس کے کنارے پر کھڑا ہے۔ کنارے والے آدمی کے پاس بہت سے پتھر رکھے تھے۔ جب اندر والا آدمی باہر نکلنا چاہتا تو باہر والا پتھر کھینچ کر اس کے منہ پر مارتا جس سے وہ پھر بیچ میں جا پڑتا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے جواب ملا کہ یہ سود کھانے والا شخص ہے۔

پھر ہم آگے گئے تو ایک نہایت سرسبز باغ میں پہنچے۔ اس میں ایک بڑا بھاری درخت تھا اور اس درخت کی جڑ میں ایک بزرگ بیٹھے تھے۔ ان کے گرد بہت سے بچے بھی تھے اوردرخت کے پاس ہی بیٹھا ہوا ایک اور شخص آگ دہکا رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں جواب ملا کہ یہ بزرگ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور بچے جو ان کے گرد ہیں یہ وہ بچے ہیں جو چھوٹی عمر میں معصوم مر گئے ہیں اور یہ شخص جو آگ دہکا رہا ہے یہ دوزخ کا داروغہ مالک نام ہے۔

پھر میرے دونوں رفیق مجھے اس درخت پر چڑھا لے گئے اوپر جا کر میں نے ایک گھر دیکھا وہ مجھے اندر لے گئے وہاں بہت سے جوان مرد اور عورتیں اور بچے تھے۔ پھر اس گھر سے نکل کر مجھے درخت کی دوسری شاخ پر لے گئے۔ وہاں بھی ایک گھر تھا اور بہت شاندار اور خوبصورت تھا اور اس میں بہت سے بڈھے اور جوان تھے۔ میں نے پوچھا یہ گھر کیسے ہیں۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ پہلا گھر تو عام جنتیوں کا ہے اور دوسرا شہیدوں کا۔ پھر میں نے پوچھا کہ تم دونوں شخص کون ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم جبرائیل اور میکائیل ہیں اور انہوں نے مجھے کہا کہ ذرا اپنا سراٹھا کر دیکھئے۔ تو میں نے دیکھا کہ بادل کی طرح اوپر کوئی چیز ہے۔ میں نے کہا یہ کیا انہوں نے کہا کہ یہ آپ کا گھر ہے میں نے کہا ذرا مجھے اس میں لے چلو انہوں نے کہا ابھی آپ کی زندگی کچھ باقی ہے اگر باقی نہ ہوتی تو آپ اسے دیکھ لیتے۔

ایک پہیلی

ایک دن آنحضرت ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جس کے پتے نہیں گرتے اور وہ مومن سے مشابہ ہے۔بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟حاضرین مختلف جنگلی درختوں کے نام لینے لگے۔آخر نہ بتا سکے تو عرض کیا یا رسول اللہؐ! آپ ہی بتا دیجئے۔ آپ نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔ حضرت عمرؓ کے لڑکے عبداللہ بھی اسی مجلس میں تھے انہوں نے گھر میں آکر اپنے والد سے کہا کہ میرے دل میں بھی کھجور کا درخت ہی تھا۔ مگر بڑے بڑے آدمیوں کی شرم کی وجہ سے میں بول نہ سکا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا بیٹا اگر تم اس وقت آنحضرت ﷺ کی پہیلی بوجھ دیتے تو مجھے بہت ہی خوشی ہوتی۔

بچوں سے مذاق

ایک صحابی کہتے ہیں کہ مجھے خوب یاد ہے جب میری عمر 6 برس کی تھی تو میں آنحضرت ﷺکے سامنے گیا۔ آپ اس وقت ایک ڈول میں سے پانی پی رہے تھے۔ پانی پی کر آپؐ نے ایک کلی بھر کر ہنسی سے میرے منہ پر ماری۔

بچوں کے لئے کام کی باتیں

ایک دفعہ ابن مسعودؓ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ!اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ اچھا ہے۔ آپ نے فرمایا وہ نماز جو وقت پر پڑھی جائے انہوں نے عرض کیا اس کے دوسرے درجہ پر فرمایا کہ ماں باپ کی فرمانبرداری۔

صفائی پسندی

آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ہر شخص جمعہ کے دن نہائے، مسواک کرے، صاف کپڑے پہنے، خوشبو لگائے پھر مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے جائے۔

کیا میں اپنے خدا کا شکرگزار بندہ نہ بنوں

مغیرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ تہجد کی نماز میں اتنی اتنی دیر تک عبادت کرتے رہتے تھے کہ آپؐ کے پیر کھڑے کھڑے سوج جایا کرتے تھے۔ جب لوگ عرض کرتے کہ حضورؐ اتنی تکلیف نہ اٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو آپؐ کو بخش دیا ہے۔ یہ سن کر آنحضرت ﷺ فرماتے تو کیا میں اپنے خدا کا شکر گزار بندہ بھی نہ بنوں؟

شرم و حیا ایمان کی نشانی

ایک دفعہ آنحضرت ﷺ مدینہ جارہے تھے کہ آپؐ نے دیکھا ایک انصاری اپنے چھوٹے بھائی پر خفا ہورہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ بھلے مانس تو اتنی شرم کیوں کرتا ہے آپؐ نے فرمایا یہ کیوں کہتے ہو شرم و حیا تو بہت اچھی چیز ہے بلکہ ایمان کی نشانی ہے۔

آنحضرتؐ کو شہادت کا شوق

ایک دن آنحضرت ﷺ نے صحابہؓ کے سامنے بیان کیا کہ میرا دل تو یہی چاہتا ہے کہ خدا کے راستے میں مارا جاؤں۔ پھر زندہ کیا جاؤں۔ پھر مارا جاؤں۔ غرض اسی طرح ہمیشہ قربان ہوتا رہوں۔

اسلام کی پانچ بنیادیں

آنحضرت ﷺ نے ایک دن فرمایا کہ اسلام کے پانچ اصول یہ ہیں۔
(1) اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدؐ اس کے رسول ہیں۔
(2) نماز پڑھنا۔
(3) زکوٰۃ دینا۔
(4) رمضان کے روزے رکھنا۔
(5) حج کرنا۔

(الفضل22 جنوری 1929ء)

(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ )

پچھلا پڑھیں

خطبہ جمعہ کا خلاصہ مورخہ 27 دسمبر 2019ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 دسمبر 2019