• 20 اپریل, 2024

متقی وہ ہے جو دوسروں پر نیکی اور تقویٰ کا اثر قائم کرے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرماتے ہیں:

’’حضرت مسیح موعود ؑنے اس مضمون (تقویٰ) کو ہمارے دلوں میں بٹھانے کے لئے مختلف جگہوں پر اس کی مزید تفصیلات بیان فرمائی ہیں تاکہ ہمارے دلوں میں اس کی اہمیت راسخ ہو جائے اور ہمارے ہر عمل اور خُلق سے اس کا اظہار ہونے لگے۔حضرت مسیح موعودؑ نے اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ انسان کے متقی ہونے کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ وہ عبادت کرنے والا ہو یا صرف حقوق اللہ کی ادائیگی کر رہا ہو بلکہ متقی وہ ہے جس کا اخلاقی معیار بھی اعلیٰ ہو، اور وہ اپنے اخلاق سے دوسروں پر اپنی نیکی اور تقویٰ کا اثر قائم کرے۔چنانچہ آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اخلاق انسان کے صالح ہونے کی نشانی ہے۔

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ ایک مومن کی زندگی کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اسلام کی تعلیم کی خوبصورتی ہمیشہ ظاہر کی جائے اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب تقویٰ پر چلتے ہوئے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ

تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں۔ عُجب، خود پسندی، مال حرام سے پرہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے۔ جو شخص اچھے اخلاق کو ظاہر کرتا ہے اس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےایک تو یہ کہ برائیوں سے بچنا یہ تقویٰ ہے۔ اچھے اخلاق کا اظہار کرنا یہ تقویٰ ہے جس سے دشمن بھی دوست ہو جاتا ہے۔ (المومن:97) آپ فرماتے ہیں اب خیال کرو کہ یہ ہدایت کیا تعلیم دیتی ہے؟ اس ہدایت میں اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اگر مخالف گالی بھی دے تو اس کا جواب گالی سے نہ دیا جائے بلکہ اس پر صبر کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مخالف تمہاری فضیلت کا قائل ہو کر خود ہی نادم اور شرمندہ ہو گا اور یہ سزا اس سزا سے بہت بڑھ کر ہو گی جو انتقامی طور پر تم اس کو دے سکتے ہو۔ فرماتے ہیں یوں تو ایک ذرا سا آدمی اقدام قتل تک نوبت پہنچا سکتا ہے لیکن انسانیت کا تقاضا اور تقویٰ کا منشاء یہ نہیں ہے۔ خوش اخلاقی ایک ایسا جوہر ہے کہ موذی سے موذی انسان پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ فرماتے ہیں کسی نے کیا اچھا کہا ہے کہ ( فارسی میں)

لُطف کن لُطف کہ بیگانہ شود حلقہ بگوش

(کہ مہربانی سے پیش آؤ تو بیگانے بھی تمہارے حلقہ احباب میں شامل ہو جائیں گے)

پس یہ وہ اصولی بات ہے جو ہمیشہ ہمیں پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اپنے ہر عمل کو تقویٰ کے تابع کرتے ہوئے اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہو۔پھر اس بات کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہ اخلاق سے کیا مراد ہے اور ان کا مقصد کیا ہے؟ جو اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہے اس کا مقصد کیا ہے؟ اور ہمارے سامنے ان اخلاق کا نمونہ کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ

اوّل اخلاق جو انسان کو انسان بناتا ہے۔ اخلاق سے کوئی صرف نرمی کرنا ہی مراد نہ لے لے۔ (جو اخلاق انسان کو انسان بناتے ہیں ان سے صرف اتنی مراد نہیں ہے کہ تم دوسروں سے نرمی سے پیش آؤ) فرمایا خُلق اور خَلق دو لفظ ہیں جوبالمقابل معنوں پردلالت کرتے ہیں۔ خَلق ظاہری پیدائش کا نام ہے۔ جیسے کان ناک یہاں تک کہ بال وغیرہ بھی سب خَلق میں شامل ہیں اور خُلق باطنی پیدائش کانام ہے۔ ایسا ہی باطنی قُویٰ جو انسان اور غیرانسان میں مابہ الامتیاز ہیں وہ سب خُلق میں داخل ہیں یہاں تک کہ عقل فکر وغیرہ تمام قوتیں خُلق ہی میں داخل ہیں۔فرماتے ہیں خُلق سے انسان اپنی انسانیت کو درست کرتاہے۔ اگر انسانوں کے فرائض نہ ہوں تو فرض کرنا پڑے گا (انسانوں کے جو فرائض ہیں وہ اگر ادا نہ کرتا ہو یا مقرر نہ ہوں تو پھر فرض کرنا پڑے گا، دیکھنا پڑے گا) کہ آدمی ہے؟ گدھا ہے؟ یا کیا ہے؟ جب خُلق میں فرق آجاوے توصورت ہی رہتی ہے۔ انسان بننے کے لئے تو اعلیٰ اخلاق ضروری ہیں اور اگر خُلق اچھا نہیں، اگر ان میں فرق آجاتا ہے تو پھر ظاہری صورت انسان کی رہ جاتی ہے اور جو اصل انسانیت ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 9 جون 2017ء)

پچھلا پڑھیں

خطبہ جمعہ کا خلاصہ مورخہ 27 دسمبر 2019ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 دسمبر 2019