• 23 اپریل, 2024

خلفاء سے تعلق اور کبڈی وگھوڑدوڑ کی کمنٹری سے متعلق چندسرمایۂ حیات یادیں

غالباً 1963-64ء میں ہیڈ ماسٹر صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول نے مجھے کہا! ٹی آئی کالج میں پرنسپل صاحب کی کوٹھی میں مرزا فرید احمد کو بورڈ کے معیار پر آٹھویں جماعت کی تیاری کرانے جایا کریں۔تو ایک دن میں صاحبزادہ مرز افرید احمد کو پڑھا کر نکل رہا تھا کہ حضرت مرزاناصراحمد (خلیفۃ المسیح الثالثؒ) پرنسپل تعلیم الاسلام کالج سے اپنے گھر( کوٹھی) میں آ رہے تھے۔صحن ہی میں آمنا سامنا ہوگیا۔ آپ نےفرمایا۔مرز افرید احمد کو پڑھایا ہے؟ میں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کرلیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا اُن سے ملاقات کا۔ چہرے کی روحانیت اور کشش دل میں اُترگئی اور میرا دل و دماغ مسرّت وسکون سے بھر گیا۔

1965ء میں جب آپ مسندِ خلافت پرمتمکن ہوئے تو ایک دن میرا بیٹا نصیر احمد (آج کل سیکرٹری مجلس کارپرداز) اور سیّد حسین احمد دونوں میرے پاس ہائی سکول میں آئے اور کہا کہ حضرت صاحب نےفرمایا ہے۔ ماسٹر احمد علی سے کہو کہ مرزا انس احمد کی بیٹی کو مڈل کا امتحان بورڈ کےمعیارپر تیار کرائیں۔تو میں صاحبزادہ مرزا انس احمد کی رہائش گاہ جا کر عزیزہ کو پڑھانے جاتا رہا اسی دوران صاحبزداہ صاحب موصوف کی بیگم صاحبہ نےکہا۔ ماسٹر صاحب! چھوٹی بچی نے پانچویں جماعت کا امتحان سنٹر کے تحت دینا ہے۔ اسے بھی تیاری کروایا کریں چنانچہ اسے بھی سکالرشپ کےمعیار کی تیاری کراتا رہا۔ یوں سارے خاندان حضرت اقدس مسیح موعودؑ سےمیرا غائبانہ تعارف ہوگیا۔ ایک روز میرے گھر حضرت مرزا ناصر احمدؒ کا خادمِ خاص لال دین صدیقی آیا اور مجھے ایک چِٹ پکڑا کر ساتھ 3 سرخ نوٹ 100 روپے والے تھما دیئے اور کہا حضرت صاحب نےفرمایا ہے بچی مڈل کے امتحان میں سے اچھی فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوگئی ہے۔خود بھی منہ میٹھا کریں اور گھر میں بھی کروائیں۔

حضرت مرزا طاہر احمدؒ صدر مجلس انصار اللہ تھے تو پہلا آل پاکستان طاہر کبڈی ٹورنامنٹ ہو رہا تھا تو اس میں حضرت خلیفہ ثالثؒ نے صاحبزادہ مرزا طاہر احمدؒ کے پہلو میں بیٹھ کر کبڈی پررننگ کمنٹری کرنے کا حکم مجھےدیا تو آپ کی ہدایات کے مطابق کمنٹری کرتا رہا اور آپ کی حوصلہ افزائی سےبلا جھجک پنجابی زبان اور دیہاتی لہجہ میں کمنٹری کرتا رہا جو سارے شائقین بھی پسند کرنے لگے تھے۔ یہی کمنٹری آگے گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ میں بھی کرنے کی بنیاد بنی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مجھے بلوا کر اپنے ساتھ کرسی پر بٹھا کر رننگ کمنٹری کرنےکا ارشاد فرمایا۔ اب تو میں کھل کر کمنٹری کرنے والا بن چکا تھا۔ شائقین اور گھوڑ سوار بھی کمنٹری سے محظوظ ہوتے تھے۔

خلیفۃ المسیح الرابع حضرت مرزا طاہر احمدؒ نے بھی اپنے پہلو میں بٹھا کر کمنٹری کرنے کیلئے فرمایا تھا۔ساری جماعت میں میرا یہ کمنٹری کرنا پسند کیا جاتا تھا۔ خصوصاً ربوہ میں ہر چھوٹا بڑا، مرد و زن کمنٹری کو سراہتا تھا۔
بات ہو رہی تھی خلفاء سےتعلق کی۔ تو اب اس طرف آتا ہوں۔ حضرت مرزا طاہر احمدؒ جماعت احمدیہ ادرحماں کی درخواست پر مقامی اجتماع انصار اللہ میں خطاب فرمانے کے لئےجانے لگے تو مجھے اپنے ساتھ گاڑی میں ادرحماں لے گئے اور وہاں کھانا کھاتے ہوئے بھی اپنے پہلو میں بٹھا کر کھانا کھلایا اور واپسی پر گاڑی میں اپنے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بٹھا کر ربوہ لائے۔ سارا راستہ مجھ سےمصروفِ گفتگو رہے۔

نصیر پور خورد میں میرے ماموں زاد بھائیوں کی درخواست پر مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنے جانے لگے تو مجھے اپنے ساتھ گاڑی میں لے گئے اور وہاں میرے ماموں زاد بھائی چوہدری منظور الہٰی رانجھہ کے گھر کے صحن میں نیچے زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے اپنے پہلو میں بٹھایا تو میں نے حضرت مرزا طاہر احمدؒ کے گھٹنہ سےگھٹنہ جوڑ کر کھانا کھایا۔ واپسی پر تخت ہزارہ سے چلتے ہوئے اپنے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بٹھا کر سارا راستہ علاقہ کے زمیندار سیاستدانوں کا تعارف حاصل کرتے اور گفتگو کرتے آئے۔آپ کے کندھے سےکندھا ملاکر ربوہ آپ کے گھرتک آیا۔ ہاں یہ فضل ِ خداوندی ہی تو ہے۔

ایک بار گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ ہونے والا تھا کہ محترمی بی بی امۃ الجمیل کا ایک آدمی آیا اور مجھےکہا! بی بی جی آپ کو بلا رہی ہیں۔ میں آپ کے دولت خانہ پر حاضر ہوا تو کہا! یہ ہے ملک ہارون خان صاحب، کوٹ فتح خان ضلع اٹک سے، حضرت چوہدری فتح محمد سیالؓ کے نواسے اپنا گھوڑ اٹورنامنٹ میں شامل کرنے آئے ہیں۔ان سے آپ کا تعارف کرنےکیلئے آپ کو بلوایا ہے۔اس پایہ کے افراد میں بھی مجھے جانا پہچانا جاتا تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ایک بار بہترین کمنٹری کرنے کا ایوارڈ، ایک لفافہ میں کچھ نقدی اور سند اپنے دستِ مبارک سے عطا فرمائی اور جب میں آپ کے ہاتھ سے سند پکڑنے لگا تومیرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا۔ میں نے ماسٹر صاحب کو پکڑا ہوا ہے۔جس جس گھوڑا سوار نے بدلہ لینا ہو، آجائے۔ اس موقعہ پر میرے ایک عقیدت مند نےتصویر بنالی جو میرے لئے سرمایۂ حیات ہے۔ جب بعد ریٹائرمنٹ وقف کی سکیم کے تحت اپنے آپ کو خدمتِ دین کیلئے وقف کیا تو حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور ناظم وقفِ جدیدمکرم اللہ بخش صادق کو خط لکھا۔ احمد علی کو اپنے پاس دفتر بلالیں اور مجھے بذریعہ خط ارشاد فرمایا دفتر وقف جدید جا کر ناظم ارشاد وقفِ جدید سےملیں اور جب ہم آپ سے ملاقات کرنے 1992ء میں لندن حاضر ہوئے تو میری اہلیہ ذکیہ بیگم مستورات کے ساتھ مستورات سے ملاقات کے وقت حاضر ہوئی تو تعارف کراتے ہوئے جب پہلا لفظ منہ سے بولی کہ حضور ماسٹر صاحب کی….
تو حضور نے فرمایا:۔ اُن کا کیا حال ہے۔ اُن کے بہت تشویشناک خط آتے رہے ہیں۔ اس نے عرض کیا حضور اب صحت سے ہیں۔ تو یہ کہہ کر خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ کیا انہیں بھی ساتھ لائی ہو؟
گویا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی یادوں میں خاکسار موجود تھا اور جب میری براہِ راست آپ سےملاقات ہوئی تو بہت محبت اور نوازش سےوقت دیا، ہر طرح کی خیروعافیت دریافت فرماتےرہے۔ کیا کیا تحریر کروں خلفاء سے تعلق بارے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو تو نویں ،دسویں میں اردو پڑھانے کا موقعہ ملا تھا اور طالبعلمی کےوقت آپ سے پیار اور عزت و احترام کا جو سلوک رہا وہ آپ ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔جب خلافت سے پہلے آپ ناظراعلیٰ صدر انجمن احمدیہ ربوہ اور امیر مقامی کی ذمہ داری بجالانے میں دفاتر میں تشریف فرما تھے تو میں جرمنی سے بچوں کو مل ملا کر واپس ربوہ پہنچا تو آپ سےملاقات کرنے دفتر میں حاضرہوا۔ مجھ سے پہلے آپ کا ایک کلاس فیلو کرنل ڈاکٹر داؤداحمد ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔مجھے دیکھ کر گیٹ پر بیٹھے محافظ نے میری عزت افزائی کی اور اُسی وقت اندر بلا لیا اور ساتھ کرنل ڈاکٹر داؤد احمد کو بھی بلوا لیا۔
دورانِ ملاقات ڈاکٹرصاحب سےمخاطب ہوکرفرمایا۔
داؤد تمہیں یاد ہوگا ایک بار ماسٹر صاحب ہمارا ہوم ورک چیک کر رہے تھے اور میری کاپی دیکھ کر کہا۔پڑھو کیا لکھا ہے؟ چونکہ میں نے جلدی جلدی میں گھر سےنکلتے نکلتے لکھا تھا۔میں خود بھی نہ پڑھ سکا۔تو ماسٹر صاحب نےکہا ہاتھ نکالو۔ جب میں نے اپنی ہتھیلی آگےکی تو ماسٹر صاحب نےمارنے کیلئے اٹھائی ہوئی سوٹی نیچے کر کےکہا تھا اتنی خوبصورت انگلیوں پر مارنے کو میرا دل نہیں چاہتا۔ میں نے عرض کیا آج چھوڑ دیں آئندہ صاف کر کےلکھا کروں گا توآپ نے چھوڑ دیا تھا۔اس کے بعد ہمیشہ اردو کا ہوم ورک صاف لکھ کرلاتا تو ماسٹر صاحب بعض الفاظ اپنےہاتھ سےحاشیہ میں لکھ کرکہتے دیکھ کر مشق کرو۔ یوں مشق کروایا کرتے کہ میری لکھائی خوشخط اور صاف ہوگئی ہے اور آج سوائے مرزا غلام احمد صاحب کےخاندان کےدیگر سب سے میرا خط اچھا ہے۔میں تو یہ سن کرخوشی سے جھوم ہی اٹھا اور ایک تحفہ جو آپ کوپیش کرنےکیلئے ساتھ لے گیا تھا آپ کی میز پر رکھ کر اجازت لے کر اٹھ آیا۔

اسی طرح انگلینڈ میں جب ہم دونوں آپ سے ملاقات کرنے حاضر ہوئے تو بہت سے ملاقاتی انتظار میں ہم سے پہلے بیٹھے تھے۔ پرائیویٹ سیکرٹری عزیزم منیر احمد جاوید نے ہمارے حاضر ہونے کی آپ کو اطلاع کردی تو اسی وقت آپ نے ہمیں بلوا لیا اور مصافحہ کرنے کے بعد میں آپ سے بغل گیر ہوگیا اور عرض کیا حضور!میں نے تو یوں برکت حاصل کرنی ہے۔
فرمایا:۔ آپ کا حق ہے جس طرح پسند کریں اور آپ نے کندھا جھکا کر میری اہلیہ ذکیہ بیگم سے السلام علیکم کیا تو اس نےآپ کو پیاردیا۔

آپ جب یہاں کینیڈا تشریف لائے تو ملاقات کا پروگرام تھا لیکن مجھے میرے بیٹے نے یہ کہہ کر روک دیا کہ آپ تو حضور انور کو اور حضور انور آپ کو جانتے ہی ہیں ملاقاتی زیادہ ہیں کسی ایسے فرد کو موقع دیں جس نے پہلی بار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو ملنا ہے تو میں رُک گیا۔

نمازوں وغیرہ میں یا کسی اجتماعی تقریب میں حضور انور ایدہ اللہ نے مجھےدیکھ لیا اس کے بعد آپ کے لندن واپس چلے جانے کے بعد جب میرے بیٹے ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن نےآپ سے ملاقات کی تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کیسے عمدہ طور پر شکوہ فرمایا۔ ماسٹر صاحب کینیڈا میں تھے مگر ملے نہیں! کیا محبت اور پیار کا اظہار ہے۔جب اپنی جانب دیکھتا ہوں میں کیا اورمیری حیثیت کیا! تو مسرّت اور شکرانے سے سینہ بھر جاتا ہے اور سرافضال وانعاماتِ خداوندی کے آگے جھک جاتا ہے۔ الحمدللّٰہ علیٰ ذٰلک

(ماسٹر احمد علی۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

خطبہ جمعہ کا خلاصہ مورخہ 27 دسمبر 2019ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 دسمبر 2019