• 24 جولائی, 2025

’’اللہ کی رسی کو پکڑنے اور نظام سے وابستہ رہنے میں آپ کی بقا ہے‘‘

22 اگست 2003 کو خطبہ جمعہ میں امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’اللہ کی رسی کو پکڑنے اور نظام سے وابستہ رہنے میں آپ کی بقا ہے, نظام کی کامیابی اطاعت میں ہے۔ اللہ کی رسی کو پکڑنے اور نظام سے وابستہ رہنے میں آپ کی بقاء ہے۔‘‘… ’’یاد رکھیں کہ دینی اور روحانی نظام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں کے ذریعہ اس دنیا میں قائم ہوتے ہیں اس لئے بہر حال انہی اصولوں کے مطابق چلنا ہوگا جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں اور نبی کے ذریعہ، انبیاء کے ذریعہ پہنچے اور اسلام میں آنحضرت ﷺ کے ذریعہ یہ نظام ہم تک پہنچا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا حسان ہے احمدیوں پر کہ نہ صرف ہادی ٔکامل ﷺکی امت میں شامل ہونے کی توفیق ملی بلکہ اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی اس نے عطا فرمائی جس میں ایک نظام قائم ہے، ایک نظام خلافت قائم ہے، ایک مضبوط کڑا آپ کے ہاتھ میں ہے جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں ۔لیکن یاد رکھیں کہ یہ کڑا تو ٹوٹنے والا نہیں لیکن اگر آپ نے اپنے ہاتھ اگر ذرا ڈھیلے کئے تو آپ کے ٹوٹنے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے۔ اس لئے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور نظام جماعت سے ہمیشہ چمٹے رہو۔ کیونکہ اب اس کے بغیر آپ کی بقا نہیں۔ یادرکھیں شیطان راستہ میں بیٹھا ہے۔ ہمیشہ آپ کو ورغلاتا رہے گا لیکن اس آیت کو ہمیشہ مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ

(سورۃ البقرہ: آیت 209)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم سب کے سب اطاعت (کے دائرہ) میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو۔ یقینا وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔‘‘

نظامِ جماعت

نظامِ جماعت ، درحقیقت وہ نظام ہے جو دربارِ رسالتﷺ سے وابستہ اور اُس کے عاشق صادق، غلام ، حضرت مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام نے سنتِ نبویﷺ کے عین مطابق قائم کیا۔ اورخلافت کی برکت سے اس نظام کا سلسلہ، خلیفہ وقت کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اُنؑ کے ذریعہ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاملتا ہے۔ اور یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اورہماری روحوں میں اُتری ہوئی ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت سب انسانوں سے اعلیٰ وارفع اور آپ کامقام اللہ تعالیٰ کے انتہائی قرب میں ہے۔

خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے ہر معاملہ میں براہ راست ہدایات پائیں۔ اس میں روحانی، معاشی، معاشرتی اورمدنی ہدایات بھی شامل ہیں۔ ان ہدایات کی روشنی میں ، جوقرآن کریم میں ہمیشہ کے لئے درج کردی گئی ہیں، جو نظام سامنے آتا ہے وہ پھولوں کے ایک خوبصورت اور مہکتے ہوئے گلدستہ کی مانند ہے۔ الٰہی نظام ہونے کی وجہ سے اس نظام کا ہر ایک پہلو، دوسرے پہلو سے جڑا ہوا ہے۔

روحانی ترقی کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ معاشی ، معاشرتی اور مدنی، حقوق و فرائض سے کماحقہ عہد برآہوا جائے۔ اسی طرح معاشی، معاشرتی اور مدنی نظام کو کامیاب کرنے کے لئے بھی یہ ضروری قرار دیا گیاہے کہ اُن میں روحانیت کو پوری طرح مدِ نظر رکھا جائے۔ یعنی یہ تمام کڑیاں آپس میں ملنے کے بعد ہی ایک بنیادی اسلامی ڈھانچہ قائم کرسکتی ہیں۔

اس انتہائی اہم موضوع کی اہمیت سمجھنے اور اس کی گہرائی میں جانے سے پہلے ضروری ہے کہ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے کہ رسول کریم ﷺ کے احکامات کی تعمیل کرنا ہر مومن کا فرض ہے۔

قرآن کریم میں اکثر جگہ پر اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کا واضح حکم دیا گیا ہے۔ مثلاً

قُلْ اَطِیْعُوااللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْافَاِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ

(سورۃ اٰل عمٰرن: آیت 33)

ترجمہ: تُو کہہ دے اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی۔ پس اگر وہ پِھر جائیں تو یقیناً اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔

نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ

(سورۃ التکویر،: آیت 22)

ترجمہ: بہت واجب الاطاعت (جو) وہاں (یعنی صاحبِ عرش کے حضور) امین بھی ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَآاَرْسَلْنَامِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَلَوْاَنَّھُمْ اِذْظَّلَمُوْٓ اَنْفُسَھُمْ جَآءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوااللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوااللّٰہ تَوَّابًارَّحِیْماً

(سورۃ النّسآء: آیت 65)

ترجمہ: اور ہم نے کوئی رسُول نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اور اگر اس وقت جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا وہ تیرے پاس حاضر ہوتے اور اللہ سے بخشش طلب کرتے اور رسول بھی ان کے لئے بخشش مانگتا تو وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بارباررحم کرنے والا پاتے۔

احادیث

حذیفہؓ بن یمان سے روایت ہے کہ مَیں نے عر ض کیا یا رسول اللہ ہم برائی میں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھلائی دی۔ اب اس کے بعد بھی کچھ برائی ہے؟ آپ ؐنے فرمایا ہاں۔ مَیں نے کہا پھر اس کے بعد بھلائی ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا ہاں۔ مَیں نے کہا پھر اس کے بعد برائی۔ آپ نے فرمایا: ہاں۔ مَیں نے کہا کیسے؟ آپؐ نے فرمایا میرے بعد وہ لوگ حاکم ہوں گے جو میری راہ پر نہ چلیں گے۔ میری سنت پر عمل نہیں کریں گے اور ان میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے دل شیطان کے سے اور بدن آدمیوں کے سے ہوں گے۔ مَیں نے عرض کی: یارسول اللہ! اس وقت مَیں کیا کروں۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تو ایسے زمانہ میں ہو تو حاکم کی بات کو سن اورمان خواہ وہ تیری پیٹھ پھوڑے اور تیرا مال لے لے۔ پس توُ اس کی بات سنے جا اور اس کا حکم مانتا رہ۔

(صحیح مسلم کتاب الامارۃباب الامر بلزوم الجماعۃ عنہ ظہورالفتن)

تو اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ظلم کی حد تک بھی تمہارے ساتھ تمہارے عہدیداران کی طرف سے سلوک ہو رہاہے تب بھی تم ان کی اطاعت کئے جاؤ۔ آنحضرت ﷺنے اطاعت کو اتنی اہمیت دی تھی کہ مختلف زاویوں سے امت کو اس بارہ میں سمجھاتے رہے۔

چند احادیث ہیں

حضرت ابن عمرؓبیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچا وہ اللہ تعالیٰ سے (قیامت کے دن) اس حالت میں ملے گا کہ نہ اس کے پاس کو ئی دلیل ہوگی نہ عذر۔ اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے امام وقت کی بیعت نہیں کی تھی تو وہ جاہلیت اور گمراہی کی موت مرا۔

(صحیح مسلم کتاب باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین)

پھر ایک حدیث میں آتاہے۔حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا: تنگدستی اور خوشحالی، خوشی اور ناخوشی،حق تلفی اور ترجیحی سلوک، غرض ہر حالت میں تیرے لئے حاکم وقت کے حکم کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الامارہ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ وتحریمھا فی المعصیۃ)

پھر حضرت عبادہ بن ولید اپنے دادا کی روایت اپنے والد کی زبانی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت ﷺ سے سننے اور بات ماننے کی بنیاد پر بیعت کی تھی۔سختی اور راحت اور خوشی اور ناخوشی میں خواہ ہمارے حق کا خیال نہ رکھا جائے اوراس بنیاد پر کہ ہم جھگڑانہ کریں گے۔ اس شخص کی سرداری میں جو اس کے لائق ہے اور ہم سچ بات کہیں گے جہاں ہوں گے۔ اللہ کی راہ میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔

(صحیح مسلم کتاب الامارہ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ وتحریمھا فی المعصیۃ)

اطاعت ِنظامِ جماعت کی پابندی کی بنیادی وجوہات

جس طرح رسول کریم ﷺ کے احکامات کی تعمیل کرنا ہر مومن کا فرض ہے ، اسی طرح آپؐ کے مقررکردہ جانشینوں کی احکامات کی تعمیل کرنا بھی ہر مومن کا فرض ہے۔ اس کی مثال ہمیں خلافت ِ راشدہ کے دور میں نظر آتی ہے۔ جب ہر مسلمان، خلیفۃ وقت کے سامنے اپنی گردن اُسی طرح جھکا دیتا تھا جیسے وہ حضرت رسول کریم ﷺ کے سامنے جھکاتا تھا۔

خلافت راشدہ کے بعد بوجوہ، مسلمان نظامِ خلافت سے محروم ہوگئے۔ لیکن چونکہ اسلام کی حقانیت نے پوری دُنیا پر غلبہ حاصل کرنا تھا لہذا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مشروط وعدہ یوں فرمایا:

وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَااسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ص وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًاط یَعْبُدُوْ نَنِیْ لَایُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیئًاط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ

(سورۃ النور: آیت 56)

ترجمہ: تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔

بلاشک و شبہ خلافت احمدیہ ہی مندرجہ بالا الٰہی وعدہ کی سچائی کا ثبوت ہے۔ لہٰذا خلافت کی اہمیت کو سمجھنا اور اس کی اطاعت کرنا بھی ہر احمدی کا فرض ہے۔

حضرت رسول کریم ﷺ کو الٰہی منشا ء کے تحت اپنے غلام اور عاشق صادق کی آمد کی خبر تھی لہٰذا آپؐ نے چودہ سو سال پہلے ہی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اطاعت کو فرض قرار دیا۔

’’حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا۔ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچاوہ اللہ تعالیٰ سے (قیامت کے دن) اس حالت میں ملے گا کہ نہ اُس کے پاس کوئی دلیل ہوگی نہ عذر۔ اورجو شخص اس حالت میں مرا کہ اس نے امام وقت کی بیعت نہیں کی تھی تو وہ جاہلیت اور گمراہی کی موت مرا۔‘‘

(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الامربلزوم الجماعۃ عندظہورالفتن)

اسی طرح حضرت مسیح موعود مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام نے الٰہی حکم کے ماتحت اسلام کی خلافت ثانیہ کو جاری رکھنے کے لئے واضح ہدایت فرمائی ۔ آپ نے فرمایا کہ:
’’…تمہارے لئے دوسری قدرت کابھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سِلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔…‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ305)

نظامِ خلافت کی اہمیت حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واضح کرتے ہوئے فرمایا:
’’بے شک مَیں نبی نہیں ہوں۔ لیکن مَیں نبوت کے قدموں پر اور اس کی جگہ پر کھڑا ہوں۔ ہر وہ شخص جو میری اطاعت سے باہر ہوتا ہے، وہ یقیناً نبی کی اطاعت سے باہر جاتا ہے۔ …میری اطاعت اور فرمانبرداری میں خداتعالیٰ کی اطاعت اورفرمانبرداری ہے۔‘‘

(الفضل 4ستمبر 1937ء)

یہ وہ نظامِ خلافت ہے جس کو ہم نظامِ جماعت بھی کہتے ہیں۔ یعنی مومنوں کا ایک ایسا گروہ جو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لایا اور اب اُن کے جانشینوں کو اللہ تعالیٰ کے مقررہ کردہ سردار سمجھ کر اُن کی پوری طرح اطاعت کرتا ہے۔

اس عقیدہ (جس کو تفصیل سے دوسری بے شمار کتب و مضامین میں ثابت کیا جاچکا ہے) کہ خلافتِ احمدیہ ہی روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی نمائیدگی کا افضل حق رکھتی ہے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ نظامِ جماعت، جس کے سربراہ خلیفۂ وقت ہیں، کی پابندی کس قدر ضروری ہے۔

یہ وہی نظام ہے جس کا مقابلہ دُنیا کی بڑی بڑی حکومتیں مل کربھی نہیں کرسکتیں۔

اطاعت

اب جب کہ اس بات کی کھلی کھلی وضاحت ہوگئی ہے کہ مقام خلافت کیا ہے ، اب اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ اطاعت کے آداب کیا ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقَالُوْاسَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَاوَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ۔

(سورۃ البقرہ: آیت 286)

ترجمہ: اور انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ تیری بخشش کے طلبگار ہیں۔ اے ہمارے ربّ! اورتیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔

اطاعت کے بارہ میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: تنگدستی اور خوشحالی اور ناخوشی، حق تلفی اورترجیحی سلوک، غرض ہرحالت میں تیرے لئے حاکم وقت کے حکم کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔‘‘

(صحیح مسلم کتاب الامارہ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ وتحریمھا فی المعصیۃ)

اسی طرح مطاع اور مطیع کے بارہ میں حدیث نبوی ﷺ ہے۔

’’حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا: سنو اور اطاعت کرو۔ خواہ تم پر ایسا حبشی غلام (حاکم بنا دیا جائے) جس کا سر منقّہ کی طرح (چھوٹا) ہو۔‘‘

(صحیح بخاری، کتاب الاحکام، باب السمع و الطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ)

اولین زمانہ اسلام میں مومنین نے اطاعتِ رسول کی عظیم مثالیں قائم کیں۔ اُنہوں نے ہمیشہ آپؐ سے وفا کاسلوک رکھا اور اپنے عہد احسن رنگ میں نبھائے۔ وہ عہد کیا تھے ؟ ملاحظہ فرمائیے:
’’حضرت عبادہ بن ولید اپنے دادا کی روایت اپنے والد کی زبانی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت ﷺ سے سننے اوربات ماننے کی بنیاد پر بیعت کی تھی۔ سختی اور راحت اور خوشی اور ناخوشی میں خواہ ہمارے حق کا خیال نہ رکھا جائے اوراس بنیادپر کہ ہم جھگڑا نہ کریں گے۔ اس شخص کی سرداری میں جو اس کے لائق ہے اورہم سچ بات کہیں گے جہاں ہوں گے۔ اللہ کی راہ میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔‘‘

(صحیح مسلم کتاب الامارہ۔ باب و جوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ و تحریمھافی المعصیۃ)

اس کی وضاحت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس خطاب سے بھی ہوتی ہے:
’’…اب تم اپنی ذات کے بارہ میں نہ سوچوبلکہ جماعت کے بارہ میں سوچو۔ اور اپنے ذاتی حقوق خود خوشی سے چھوڑو اور جماعتی حقوق کی ادائیگی کی کوشش کرو۔ یہاں وہی مضمون ہے کہ اعلیٰ چیز کے لئے ادنیٰ چیز کو قربان کرو۔ پھر جو ہمارا عہدیداریا امیر مقررہوگیا اب اس کی اطاعت تمہارا فرض ہے۔ اس کی اطاعت کریں اوریہ سوال نہ اُٹھائیں کہ یہ کیوں بنایا گیا۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ برادریاں لعن طعن کرتی ہیں کہ ہمارے خاندان کے، اس کے ساتھ یہ یہ مسئلے تھے اور تم اس کی اطاعت کررہے ہو۔‘‘

(الفضل 23دسمبر 2003)

ہماری ذمہ داریاں

بطور احمدی ہمارا سب سے پہلا فرض ہے کہ خلیفہ وقت سے براہِ راست رابطہ قائم رکھیں اوراس رابطہ کو اپنی نسلوں میں جاری کریں۔اس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُن تمام پروگراموں میں حتی المقدور کوشش کرکے شامل ہوں جن میں خلیفہ وقت موجود ہو۔ مثلاً خطبہ ونمازجمعہ، پنج وقتہ نماز، نمازعیدین، جلسے، اجتماعات اور کلاسز وغیرہ۔ الحمداللہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل اور www.alislam.org کی بدولت ہمیں یہ سہولت بھی حاصل ہوگئی ہے کہ اگر وسائل کی کمی اور مجبوری کی بناء پر اگر ہم بذاتِ خود مندرجہ بالا پروگراموں میں شامل نہ ہوسکیں تو کم از کم اپنے گھر بیٹھے اُن کا نظارہ کرسکتے ہیں اور خلیفہ وقت کی تمام ہدایات واحکامات کو براہ راست سن کر، اُن پر بلاتاخیر عمل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

ہمارا فرض ہونا چاہئے کہ پوری کوشش کرکے خلیفۂ وقت سے ملیں اور اپنے دُکھ سُکھ بتائیں۔ رابطہ کا دوسرا سب سے اہم ذریعہ خط و کتابت ہے۔ خلیفۂ وقت کو باقاعدگی سے خط لکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اس سے ہمارا تعلق خلافت سے مضبوط اور ہماری زندگیاں بابرکت ہوتی ہیں۔ کوشش کرنی چاہئے کہ ہر معاملہ میں یا کم از کم ہر اہم معاملہ میں، مثلاً تعلیم، شادی، عائلی مسائل اور کاروبار وغیرہ کے معاملات میں خلیفہ وقت سے مشورہ ضرور کیا جائے۔ اور جو مشورہ بھی ملے اُس پر لازماً عمل بھی کیا جائے۔

خلافت احمدیہ کی برکت سے احمدی مسلمانوں کی ایک اپنی تہذیب اور ایک اپنا تمدن ہے۔ یہی تہذیب و تمدن ہے جو اسلام نے ہمیں بتایا ہے۔ اسی رہن سہن کی بدولت دُنیا کا کوئی مخالف، کوئی حکومت اور کوئی معاشرہ ، جماعتِ احمدیہ کے کردار پر انگلی نہیں اُٹھا سکتا۔ اور ہم صرف اور صرف خلافت اور نظامِ جماعت کی وجہ سے اس کردار کے حامل ہیں۔

آج کے بدلتے ہوئے عالمی سیاسی اورحربی حالات میں، دُنیا کئی حصوں میں بٹ چکی ہے۔ طاقتور میڈیا اور سائنسی ٹیکنالوجی کی بدولت صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح قرار دینا کوئی مشکل نہیں رہا۔ بےشمار نوجوانوں کو جہاد کی اصلی روح سے عاری کرکے اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کے لئے زندہ بم بنادیا گیا ہے۔ اور اِنہی خودکش بمباروں کو ہیرو کے طورپر پیش کیا جارہا ہے۔ ہم احمدیوں پر یہ اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا عظیم احسان ہے کہ نظامِ خلافت اور نظامِ جماعت کی بدولت ، اُس نے ہمیں حقیقی روشنی دکھائی اور ہمارے لئے حق وباطل واضح کردیا۔

یہ ہماری ذمہ داری ہونی چاہئے کہ ہم ہر اُس معاملہ پر ، جس پر خلیفۂ وقت نے رائے یا فیصلہ دے دیا ہو اُس کی تائید کریں۔ اور قطعی پر یہ کوشش نہ کریں کہ اُس فیصلہ کو معذرت خواہانہ انداز میں پیش کریں۔ نظامِ جماعت جو بھی فیصلہ کرے اُس کی حمایت ڈنکے کی چوٹ پر کرنی چاہئے۔ اور اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں ہونی چاہئے کہ اس کے نتیجہ میں غیر لوگ ہمیں کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

اسی طرح شادی بیاہ ، موت و زندگی کے معاملات بھی ہوتے ہیں۔ یہ مواقع بڑے نازک ہوتے ہیں۔ شادی بیاہ پر اگر کسی کو اُس کی غلطی کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ ناراض ہوجاتا ہے کہ آپ سے ہماری خوشی نہیں دیکھی گئی۔ اسی طرح کسی کی وفات اُس کے عزیزوں کے لئے بڑے دُکھ کا مقام ہوتا ہے اس دکھ کی حالت میں، یا فوت شدہ کی محبت میں بعض غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ مثلاًکچھ لوگ قبروں پر پھول چڑھاتے ہیں۔ نظامِ جماعت کی بدولت ایسے لوگوں کو بڑی آسانی سے سمجھایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دُنیا کے ہرکونے پر بسنے والا احمدی بھی نظامِ جماعت کا احترام کرتا ہے اور نظامِ جماعت کی طرف سے کسی معاملہ کے بارہ میں توجہ دِلائی جائے تو اُس کی اصلاح کی پوری کوشش کرتا ہے۔

ہمیں اس بات کے لئے بھی ہمیشہ دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ ہم نظام کو قائم رکھیں اور اُس سے وابستہ رہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےنصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو۔ وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کرسکتی جو درخت سے جدا ہو۔ اسی طرح وہی شخص سلسلہ کامفید کام کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھےتو خواہ وہ دُنیا بھر کے علوم جانتا ہو۔ وہ اتنا بھی کام نہیں کرسکے گا، جتنا بکری کا بکروٹہ کام کرسکتا ہے۔ پس مَیں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اُسے اپنی تنظیم کرنی چاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم نومبر 1946ء بحوالہ الفضل 20نومبر 1946ء)

نظامِ خلافت کو فعال رکھنے اور اس کی ترقی کے لئے خلیفۂ وقت، اُن تمام ملکوں میں جہاں احمدی ہیں، اپنے نمائندگان کا تقرر کرتا ہے۔ یہ نمائندہ، امیر، صدر، مربی، صدرمجلس خدام الاحمدیہ، صدرمجلس انصار اللہ، صدرلجنہ اماء اللہ یا کوئی دوسرا عہدیدار ہوسکتا ہے۔ یہ عہدیدار، نظامِ جماعت کا حصہ ہیں اور اِن کے ذمہ بڑے ہی اہم امور ہوتے ہیں۔ چونکہ نظامِ جماعت دُنیا کے ہر احمدی کے ساتھ براہِ راست خاص تعلق رکھتا ہے لہٰذا خلیفۂ وقت کے مذکورہ نمائندے احمدیوں کی دینی و دُنیاوی بہتری اور فلاح وبہبوداور اپنی مدد کے لئے صوبوں، ضلعوں، شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں۔ ذیلی نمائندے نامزد کردیتے ہیں۔ان تقرریوں کے وقت عموماً مقامی احباب کی رائے اورمشورہ (جو وہ الیکشن کی صورت میں دیتے ہیں) کو بھی مدِنظر رکھاجاتا ہے۔

یہ تمام عہدیدار عمومی طورپر خلیفۂ وقت اور احمدیوں کے درمیان ایک پُل کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔درحقیقت یہ لوگ خلیفۂ وقت کے خادم ہونے کے ساتھ ساتھ عام احمدیوں کے بھی خادم ہوتے ہیں۔ اور اُن کی ضروریات احسن رنگ میں پوری کرتے ہیں۔ ان نمائندگان کی اطاعت کرنا بھی اُسی طرح فرض ہے جس طرح خود خلیفۂ وقت کی۔

اگر کسی وجہ سے ہم کسی بھی عہدیدارکے حکم یا فیصلہ سے متفق نہ ہوں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسی صورت میں بھی اپنے عہدیدار کے حکم پر عمل کریں تاہم ہمیں پورا اختیار ہے کہ مذکورہ عہدیدار سے سنیئر عہدیدار یا حسبِ ضرورت مرکزی عہدیدار کے علم میں وہ بات لائیں۔ اس طرح ہم کسی بڑے سے بڑے عہدیدارکے فیصلہ سے متاثر ہونے کی صورت میں بھی دربارِ خلافت میں اپنا مقدمہ پیش کرسکتے ہیں۔

بطور احمدی ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم سے جب بھی مشورہ مانگا جائے تو پوری ایمانداری سے صحیح مشورہ دیں۔ اگر وہ مشورہ قواعد کے مطابق مسترد کردیا جائے تو اس پر ناراضگی کا اظہار مت کریں اور جو بھی مشترکہ فیصلہ ہوجائے، چاہے وہ ہماری خواہش کے برعکس ہی کیوں نہ ہو، اس پر پوری ایمانداری سے عمل کریں اور اُس کو کامیاب کرنے کے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں۔

اس بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بعض دفعہ کچھ چیزیں ہمارے علم میں نہیں ہوتیں یا اُن کے کچھ پہلو نظرانداز ہوجاتے ہیں لہٰذا ہم بشری غلطی کی بناء پر اپنی رائے بڑی جلدی دے دیتے ہیں۔ ہماری یہ ذمہ داری ہونی چاہئے کہ اس سے پرہیز کریں۔

اطاعت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مطاع کے بارہ میں ہمیشہ اچھی ، پاکیزہ اور نیک بات کرنی چاہیے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

طَاعَۃٌ وَّ قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ ۟ فَاِذَا عَزَمَ الۡاَمۡرُ ۟ فَلَوۡ صَدَقُوا اللّٰہَ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ

(سورۃ محمد، آیت 22)

ترجمہ: اطاعت اورمعروف بات چاہئے۔ پس اب جبکہ یہ امر مستحکم ہوچکا ہے اگر وہ اللہ کے ساتھ مخلص رہتے تو ضرور ان کے لئے بہتر ہوتا۔

اس آیت کے پہلے حصہ سے ایک سبق ہم یہ بھی سیکھ سکتے ہیں کہ اطاعت بھی بشاشت کے ساتھ خوشی سے کرنی چاہیے۔ اور جو بھی حکم ہواس کو درست سمجھ کر، اُس کی تعمیل کرنی چاہئے۔ ایسا قول و فعل نہیں ہونا چاہئے کہ اگرچہ ہدایت درست نہیں ہے لیکن اس پر عمل کرنے پر مجبور ہوں۔

جیسا کہ پہلے ثابت کیا جاچکا ہے کہ بعض باتیں لاعلمی کی بناء پر ہر شخص کی سمجھ میں نہیں آسکتیں لہٰذا اگر کسی بات کی سمجھ نہ آئے تو بجائے اُس پر تنقید کرنے کے خاموش رہنا بہتر ہےکیونکہ ہماری تمام اطاعت اور فرمانبرداری محض خوشنودیٔ باری تعالیٰ کے لئے ہوتی ہے چنانچہ اُسی کے حکم کے تحت ہمیں نظامِ خلافت، نظامِ جماعت، عہدیداران اور کارکنان کے بارہ میں نہایت اعلیٰ درجہ کا حسنِ ظن رکھنا چاہیے اور کبھی بھی حتیٰ کہ مذاق میں بھی ایسی کوئی بات مُنہ سے نہیں نکالی چاہیئے جو مقام ِ ادب کے خلاف ہو۔

اگر ہم معیاری اطاعت کا نمونہ دکھائیں گے تو اللہ تعالیٰ سے اُس کا عظیم اجر بھی پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ

(سورۃ النّسآء، آیت 14)

ترجمہ: یہ اللہ کی (قائم کردہ) حدود ہیں۔ اورجو اللہ کی اطاعت کرے اور اس کے رسول کی تو وہ اُسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں ایک لمبے عرصہ تک رہنے والے ہوں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

یعنی جنتوں میں رہنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اُس کی کُنجی اللہ تعالیٰ نے اطاعت بیان فرمائی ہے۔ یہ ہماری نہایت ہی خوش بختی اور خوشی قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نظامِ خلافت اور نظامِ جماعت عطاء فرما کر یہ کُنجی حاصل کرنے کا موقع مرحمت فرمایا ہے۔ بیشمار لوگ اس موقع کے انتظار میں دُنیا سے گزر گئے اور بے شمار لوگ اپنی بدقسمتی سے اس نظام کو سمجھ ہی نہ سکے۔ احمدیوں کے لئے یہ نظامِ خلافت اور نظامِ جماعت تورضائے باری تعالیٰ حاصل کرنے اور اُس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے پھل حاصل کرنے کا بہترین اور بیش قیمت موقع ہے۔

نظام ِجماعت ہمیں ہمیشہ قرآنِ کریم کے اس ارشاد کے بارہ میں یاددہانی کرواتا رہتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا

(سورۃ النّسآء، آیت 60)

ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔ اور اگر تم کسی معاملہ میں (اُولُوالامر سے) اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اوررسول کی طرف لَوٹا دیا کرواگر (فی الحقیقت) تم اللہ پر اوریومِ آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر (طریق) ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔

اس آیت میں حکام کی اصطلاح میں مُلکی اور شہری حُکام شامل ہیں جو مسلمان بھی ہوسکتے ہیں اور غیر مسلم بھی۔ یعنی اگر ہم کسی ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں اسلامی طرزِ حکومت نہیں ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اپنے مُلکی حکام کی ہر بات پر عمل کریں اور تمام قوانین کی پابندی کریں۔ تاہم ایسے احکامات جو قرآنی تعلیم کی خلاف ورزی پر مجبور کریںاُن پر عمل کرنا فرض نہیں ہے۔ ایسی صورت میں ہجرت کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی حکومت کلمہ ، نماز، روزہ جیسے بنیادی اراکین کی ادائیگی پر پابندی لگادے تو مومن کا فرض ہے کہ ایسے ملک کی طرف ہجرت کرجائےجہاں وہ آزادی سے ان اراکین کی بجاآوری کرسکے۔

جب ہم حکام کی تعریف کو مزید واضح کرتے ہیں تو یہ بات بھی مدِنظر رکھیں کہ حکام دُنیاوی بھی ہوسکتے ہیں اور دِینی بھی۔ مثلاًرسول اللہ ﷺ کے مقررکردہ سرداروں کی اطاعت کرنا بھی اُسی طرح فرض تھا (اور ہے) جس طرح خود رسول کریمﷺ کی اطاعت کرنا۔ اور مزید یہ کہ اُن سرداروں کے مقرر کردہ نمائندوں کی حیثیت بھی دراصل رسول کریم ﷺ کے مقررکردہ براہِ راست نمائندہ جیسی ہی ہوگی اور اُس کی اطاعت بھی اُسی طرح فرض ہوگی۔

غیر ازجماعت مسلمانوں کی حالت

اس کے مقابل اس بات کا جائزہ لیں کہ نظامِ جماعت کی مخالفت کرنے والوں کا کیا حال ہے تو ایک احمدی کی نظامِ جماعت سے محبت میں مزیداضافہ ہوجاتاہے۔ وہ لوگ جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی اطاعت طوعاً و کراھاً کرتے رہے اور خلافت ِ ثانیہ میں نظامِ جماعت سے کٹ گئے وہ آج کہاں ہیں؟ کون سی ترقی ہے جو اُنہوں نے کی ہے؟ اِنہی جیسے لوگوں کے لئے قرآن کریم میں ارشاد ہواہے:

وَ یَقُوۡلُوۡنَ طَاعَۃٌ ۫ فَاِذَا بَرَزُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ بَیَّتَ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ غَیۡرَ الَّذِیۡ تَقُوۡلُ ؕ وَ اللّٰہُ یَکۡتُبُ مَا یُبَیِّتُوۡنَ ۚ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا

(سورۃ النّسآء، آیت 82)

ترجمہ: اور وہ (محض منہ سے) ’’اطاعت‘‘ کہتے ہیں! پھر جب وہ تجھ سے الگ ہوتے ہیں تو اُن میں سے ایک گروہ ایسی باتیں کرتے ہوئے رات گذارتا ہے جو اُس سے مختلف ہیں جوتُو کہتا ہے۔ اور اللہ ان کی رات کی باتوں کو احاطۂ تحریر میں لے آتا ہے۔ پس ان سے اِعراض کر اور اللہ پر توکّل کر اور اللہ کارساز کے طورپر کافی ہے۔

لاہوری گروپ نے خلافت اولیٰ اور ثانیہ میںنظامِ جماعت کے خلاف کونسا اقدام تھا جو نہیں اُٹھایا تھا؟ خلیفۂ وقت کے سامنے اطاعت کا دَم بھرنے والے راتوں کو سازشیں کرتے تھے لیکن آج وہ کہاں ہیں؟ اُن کے نام بھی اگر ڈھونڈنے ہوں تو نظامِ جماعت کے ریکارڈ میں ہی مِلیں گے۔

یہ نشانِ عبرت ہے۔

مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کے جن لوگوں نے احمدیہ نظامِ خلافت کے تحت آنے سے انکار کیا ہےاُن کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ حضرت مسیح موعودؑکی پیروی میںدربارِ خلافت نے فرمادیاکہ جہاد کے نام پر جنگیں نہ کرو ! شکست کھائو گے۔ ان جنگوں کا کیا نتیجہ نکلا؟ شکست پے در پے شکست ۔

نظامِ جماعت سے انکار کرنے والوں کی اخلاقی حالت بھی سب کے سامنے ہے۔ ان کے اکثر رقص و موسیقی کے پروگرام، تلاوت ، حمد اور نعت سے شروع ہوتے ہیں۔ پراگندہ ذہن ہیںاور کوئی راہنمانہیں۔کسی گروپ نے کہہ دیا تو معصوم لوگوں کو بم سے اُڑادیا۔کسی جاہل مُلّا نے کہہ دیا تو مسجد کو مقتل بنادیا۔یہ سب کیوں ہے؟ صرف اور صرف نظامِ جماعت سے باہر ہونے کی وجہ سے۔ اللہ کے فضل سے دُنیا بھر کے احمدی کسی بھی مسئلہ کے بارہ میں صرف اور صرف نظامِ جماعت کے فتویٰ پر عمل کرتے ہیں۔ اور یہ فتویٰ ہمیشہ خلافت احمدیہ کی رہنمائی میں جاری ہوتا ہے جو کہ قرآنی احکامات کے مطابق ہوتا ہےلیکن جو لوگ خود کو اسلامی نظام سے بالا سمجھتے ہیں ان لوگوں کا انجام بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ

(سورۃ النّسآء، آیت 15)

ترجمہ: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدود سے تجاوز کرے تو وہ اسے آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ایک لمبے عرصہ تک رہنے والا ہوگا اور اس کے لئے رُسوا کر دینے والا عذاب (مقدر) ہے۔

ثمرات

اطاعت کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بیشمار انعام واکرام سے نوازتا ہے۔ ان میں سے بعض اسی دُنیا میں مل جاتے ہیں اور بعض دوسری دُنیا میں۔ جبکہ بعض ہردوزندگیوں میں۔ اس کی مثال ہمیں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت میں ملتی ہے۔ آپؓ نے یہ علم پاتے ہی کہ رسول کریم ﷺ کو نبوت عطا ہوئی ہے، بغیر کوئی سوال کئے ، بغیر کوئی بحث کئے، بغیر کسی حیل وحجت کےدربارِ رسالت میں اپنا سرتسلیمِ خم کردیااور تمام زندگی رسول کریم ﷺ کے ہر ارشاد کی تعمیل میں اوّل رہے۔ اس کے نتیجہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو اُسی دربارِ رسالت میں رسول کریم ﷺ کا جانشیں مقرر کردیا اور پوری دنیا آپ کے سامنے سرنگوں ہوگئی۔

اُنہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حضرت حکیم مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دہن مبارک سے نکلے ہوئے ایک فقرہ کے عوض اپنا آبائی گھر ہمیشہ کے لئے بھلا دیا اور اطاعت کی ایک عظیم مثال قائم کردی۔ اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاقیامت اُن کا نام زندہ ہوگیا۔ نظامِ خلافت اور نظامِ جماعت جو ان شاء اللہ قیامت تک قائم رہے گا، کا جب بھی ذکر ہوگا تو اُس ذکر کا آغاز حضرت حکیم مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے اطاعت کرنے والوں کے لئے کیا ہی عظیم اجر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا

(سورۃ النّسآ، آیت نمبر70)

ترجمہ: اورجوبھی اللہ کی اوراِس رسول کی اطاعت کرے تویہی وہ لوگ ہیں جواُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے (یعنی) نبیوں میں سے، صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اورصحالین میں سے۔ اوریہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اطاعت کے وسیع مضمون کو نہایت جامع الفاظ میں یوں بیان فرمایا:
’’…جیسا کہ میں نے کہاکہ بہت زیادہ محبت ہو تو اس وجہ سے ٹھوکر لگتی ہے۔ بعض دفعہ اس طرح ہوتا ہے کہ بچہ کو سزا ملی ہے تو اس سے محبت کی وجہ سے مغلوب ہوجاتے ہیں۔ بچہ کی محبت غالب آجاتی ہے اور نظامِ جماعت کے خلاف ماں باپ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں، بہن بھائی ایک دوسرے کی محبت غالب آنے کی وجہ سے نظام کے فیصلوں پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس طرح بعض دوسرے رشتے بھی ہیں۔ تو بہرحال محبت اورغضب کی وجہ سے یعنی ان دونوں میں شدت کی وجہ سے یہ برائیاں عموماً پیداہوتی ہیں۔

پس ہر احمدی کو یہ بھی ہر وقت ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جب بھی ایسے معاملات ہوں ، اونچ نیچ ہوجاتی ہے، نظامِ جماعت سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں، قضاء سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن ہمیشہ ٹھنڈے دِل سےان فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہئے۔ اگر کوئی اپیل کا حق ہے تو ٹھیک، نہیں تو جو فیصلہ ہواہے اس کو ماننا چاہئے۔ کوئی رشتہ، کوئی تعلق، نظامِ جماعت اورنظامِ خلافت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی محبت پر غالب نہیں آنا چاہئے۔ نہیں تو یہ عہد کہ، ہم دین کودنیاپر مقدم رکھیں گے، یہ دعوے کھوکھلے ہیں۔ پس اگر اس دعوے کو سچا ثابت کرنا ہے تو ہر تعلق کو خالصتاً للہ بنانا ہے۔ اپنی عبادتوں کے بھی حق اداکرنے ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور نظام کا بھی احترام کرنا ہے۔ تو پھر ان دعائوں کے وارث بنیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے کیں اوراُن توقعات پر پورا اتریں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں سے رکھی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2ستمبر 2005ء بمقام بیت الرشید، ہمبرگ، جرمنی)

اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا ہے کہ وہ ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ، اُس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام، خلافتِ احمدیہ اور نظامِ جماعت کی فرمانبرداری کی توفیق دیتا رہے اور ہماری نسلوں کو خلافت احمدیہ کا سَچا، سُچا غلام اور عاشق بنائے۔
آمین!

(مرسلہ: محمد سلطان ظفر مجلس انصار اللہ سپرنگ ویلی برمپٹن)

پچھلا پڑھیں

سال نو کی دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جنوری 2021