• 20 اپریل, 2024

نبی اور ماننے والوں کو صبر کرنے اور بغیر جھگڑے کے ان کی بیہودہ گوئیوں کو سن کر علیحدہ ہو جانے کا ارشاد

نبی اور ماننے والوں کو صبر کرنے اور بغیر جھگڑے کے
ان کی بیہودہ گوئیوں کو سن کر علیحدہ ہو جانے کا ارشاد

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
بہر حال اللہ تعالیٰ نے آپﷺ اور قرآنِ کریم پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں قرآنِ کریم میں جو فرمایا ہے وہ یہی ہے کہ خود ہی اللہ تعالیٰ بدلے لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایک جگہ دشمنوں کو جو جواب دیا وہ یہ ہے کہ سورۃ الحاقۃ میں فرمایا اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۙ۲۰﴾ وَّمَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَاعِرٍ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾ وَلَا بِقَوۡلِ کَاہِنٍ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿ؕ۴۳﴾ تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۴﴾ (الحاقہ: 41-44) یقیناً یہ عزت والے رسول کا قول ہے اور یہ کسی شاعر کی بات نہیں ہے۔ بہت کم ہیں جو تم ایمان لاتے ہو اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے۔ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔ ایک تنزیل ہے تمام جہانوں کے ربّ کی طرف سے۔

تو اللہ تعالیٰ نے ان سب استہزاء کرنے والوں اور آپؐ کے مختلف نام رکھنے والوں اور نعوذ باللہ جھوٹا اور کذّاب کہنے والوں کو یہ جواب دیا۔ پس یہ ہے جواب آپؐ پر الزام لگانے والوں اور استہزاء کرنے والوں کے لئے لیکن اس بات کے باوجود کہ خدا تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو صبر اور دعا کی تلقین فرمائی ہے، خدا تعالیٰ نے خود دشمن کو چھوڑا نہیں ہے۔ صرف یہ جواب نہیں دے دیا کہ نہ وہ کاہن ہے، نہ وہ جھوٹا ہے اور نہ جو تم الزامات لگا رہے ہو وہ تمہارے صحیح الزامات ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ اِنَّا کَفَیۡنٰکَ الۡمُسۡتَہۡزِءِیۡنَ ﴿ۙ۹۶﴾ (الحجر: 96) تو اس نے پھر دشمنانِ اسلام سے اس دنیا میں یا مرنے کے بعد بدلے بھی لئے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَمَّا الَّذِیۡنَ فَسَقُوۡا فَمَاۡوٰٮہُمُ النَّارُ ؕ کُلَّمَاۤ اَرَادُوۡۤا اَنۡ یَّخۡرُجُوۡا مِنۡہَاۤ اُعِیۡدُوۡا فِیۡہَا وَقِیۡلَ لَہُمۡ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیۡ کُنۡتُمۡ بِہٖ تُکَذِّبُوۡنَ ﴿۲۱﴾ وَلَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰی دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَکۡبَرِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۲۲﴾ وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعۡرَضَ عَنۡہَا ؕ اِنَّا مِنَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ مُنۡتَقِمُوۡنَ ﴿۲۳﴾ (السجدہ: 21-23) اور جہاں تک اُن لوگوں کا تعلق ہے جنہوں نے نافرمانی کی تو ان کا ٹھکانہ آگ ہے۔ جب کبھی وہ ارادہ کریں گے کہ وہ اس سے نکل جائیں تو اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اس آگ کا عذاب چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے اور ہم یقینا انہیں بڑے عذاب سے ورے چھوٹے عذاب میں سے کچھ چکھائیں گے۔ (بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب میں سے کچھ چکھائیں گے) تا کہ ہو سکے تو وہ ہدایت کی طرف لوٹ آئیں اور کون اس سے زیادہ ظالم ہو سکتا ہے جو اپنے ربّ کی آیات کے ذریعے اچھی طرح نصیحت کیا جائے، پھر بھی ان سے منہ موڑ لے۔ یقینا ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ جو اپنے پیارے پر ہر وقت نظر رکھنے والا ہے، اگر دشمن دشمنی سے باز نہ آئے تواسے بغیر انتقام کے نہیں چھوڑتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی تنبیہوں سے نہ ڈریں، اگر اس دنیا میں اللہ تعالیٰ لوگوں کی اصلاح کے لئے جو اپنے بعض جلوے دکھاتا ہے اُن سے نصیحت حاصل نہ کریں تو پھر اللہ تعالیٰ بغیر انتقام کے نہیں چھوڑتا۔ پھر ضرور سزا دیتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ اختیار میرے پاس ہی ہے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَاہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۱۱﴾ وَذَرۡنِیۡ وَالۡمُکَذِّبِیۡنَ اُولِی النَّعۡمَۃِ وَمَہِّلۡہُمۡ قَلِیۡلًا ﴿۱۲﴾ اِنَّ لَدَیۡنَاۤ اَنۡکَالًا وَّجَحِیۡمًا ﴿ۙ۱۳﴾ وَّطَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّعَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿٭۱۴﴾ (المزمل: 11-14) اور صبر کر اس پر جو وہ کہتے ہیں اور ان سے اچھے رنگ میں جدا ہو جا، اور مجھے اور نازونعم میں پلنے والے مکذبین کو الگ چھوڑ دے اور انہیں تھوڑی سی مہلت دے۔ یقینا ہمارے پاس عبرت کے کئی سامان ہیں اور جہنم بھی ہے اور گلے میں پھنس جانے والا ایک کھانا ہے اور دردناک عذاب بھی۔

پس جہاں آپ کو صبر کی تلقین فرمائی وہاں دنیاداروں کے متعلق فرمایا کہ دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں نے ان لوگوں کو کافر بنا دیا ہے، اس کفر کی انہیں سزا ملے گی کیونکہ یہ حد میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور سزا بھی ایسی ہو گی جو دوسروں کے لئے عبرت کا نشان ہو گی۔ پس یہ عبرت کا نشان بنانے کا معاملہ بھی خدا تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے اور نبی اور ماننے والوں کو صبر کرنے اور بغیر جھگڑے کے ان کی بیہودہ گوئیوں کو سن کر علیحدہ ہو جانے کا ارشاد فرمایا۔

پھر خدا تعالیٰ خود آپ سزا دینے کا ذکر سورۃ العلق میں اس طرح فرماتا ہے کہ اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یَنۡہٰی ۙ﴿۱۰﴾ عَبۡدًا اِذَا صَلّٰی ﴿ؕ۱۱﴾ اَرَءَیۡتَ اِنۡ کَانَ عَلَی الۡہُدٰۤی ﴿ۙ۱۲﴾ اَوۡ اَمَرَ بِالتَّقۡوٰی ﴿ؕ۱۳﴾ اَرَءَیۡتَ اِنۡ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی ﴿ؕ۱۴﴾ اَلَمۡ یَعۡلَمۡ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی ﴿ؕ۱۵﴾ کَلَّا لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ ۬ۙ لَنَسۡفَعًۢا بِالنَّاصِیَۃِ ﴿ۙ۱۶﴾ نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ ﴿ۚ۱۷﴾ فَلۡیَدۡعُ نَادِیَہٗ ﴿ۙ۱۸﴾ سَنَدۡعُ الزَّبَانِیَۃَ ﴿ۙ۱۹﴾ (العلق: 10 تا 19) کیا تو نے اس شخص پر غور کیا جو روکتا ہے ایک عظیم بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔ کیا تُو نے غور کیا کہ اگر وہ ہدایت پر ہوتا یا تقویٰ کی تلقین کرتا۔ کیا تُو نے غور کیا کہ اگر اس نے پھر جھٹلا دیا اور پیٹھ پھیر لی۔ پھر کیا وہ نہیں جانتا کہ یقینا اللہ دیکھ رہا ہے۔ خبردار! اگر وہ باز نہ آیا تو ہم یقینا اسے پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر کھینچیں گے، جھوٹی خطا کار پیشانی کے بالوں سے۔ پس چاہئے کہ وہ اپنی مجلس والوں کو بُلا دیکھے۔ ہم ضرور دوزخ کے فرشتے بلائیں گے۔

(خطبہ جمعہ 28؍جنوری 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اخلاق کامل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 مارچ 2023