• 10 دسمبر, 2024

خطبہ جمعہ فرمودہ 06 ستمبر 2019ء

اللہ تعالیٰ کی حدود جو ہیں ان سے تجاوز نہیں کرنا ان کے اندر رہنا ہے۔

بس یہی ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور پھر اطاعت کے دائرے کے اندر رہنا چاہیے

’’اللہ تعالیٰ سے ڈر اور جان لے کہ تُو ہرگز اللہ کا تقویٰ اختیار نہیں کر سکتا جب تک کہ تُو اللہ پر ایمان نہ لائے اور ہر قسم کے خیر و شر کی تقدیر پر بھی ایمان نہ لائے۔ پس اگر تُو اس کے علاوہ کسی اعتقاد پر مرا تو تُو آگ میں داخل ہو گا‘‘(حضرت عُبادہ بن صَامِت رضی اللہ عنہ کی آخری وصیت)

اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت عُبادہ بن صَامِت رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا دل نشیں تذکرہ

اللہ تعالیٰ ان صحابہؓ کے درجات بلند فرمائے جنہوں نے ہمیں بعض ایسی باتیں پہنچائیں جو ہمارے لیے روحانی علم کے علاوہ عملی زندگی گزارنے کے لیے بھی ضروری تھیں

مکرم سعید سوقیہ صاحب (شام)، مکرم الطیب العبیدی صاحب (تیونس) اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی بڑی صاحبزادی محترمہ امۃ الشکور بیگم صاحبہ کی وفات پر

مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جمعہ و عصر کے بعد نمازِ جنازہ غائب

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

گذشتہ خطبے میں حضرت عُبادہ بن صامتؓ کا میں ذکر کر رہا تھا جو مکمل نہیں ہوا تھا۔ ان کے بارے میں مزید واقعات و روایات اب بیان کرتا ہوں۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ جب عبداللہ بن أبی کے کہنے پر اس کے حلیف قبیلہ بنو قَیْنُقَاع نے مسلمانوں سے جنگ کی تو حضرت عُبادہؓ بھی عبداللہ بن أبی کی طرح ان کے حلیف تھے لیکن اس جنگ کی حالت کی وجہ سے یہ اس سے الگ ہو گئے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ان کے حلیف ہونے سے بَری ہو گئے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَآءَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ (المائدہ: 52)

کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ پکڑو۔ وہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان سے دوستی کرے گا وہ انہی کا ہو رہے گا۔ یقیناً اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد3 صفحہ506، عُبادہ بن صامت، دار الکتب العلمیہ بیروت،2005ء)

یہاں یہ واضح کر دوں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کبھی بھی کسی عیسائی یا یہودی کو فائدہ پہنچانے والی بات نہیں کرنی۔ اُن سے تعلقات نہیں رکھنے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ یہودی یا عیسائی جو تمہارے ساتھ جنگ کی حالت میں ہیں ان سے دوستیاں نہ کرو ورنہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اُن سے نیکی اور عدل سے نہیں روکتا جو تم سے جنگ نہیں کرتے یا جنہوں نے تمہیں گھروں سے نہیں نکالا چاہے وہ کافر ہیں یا یہود و نصاریٰ میں سے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ﴿﴾

(الممتحنہ: 9)

اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا کہ تم ان سے نیکی کرو اور ان سے انصاف کے ساتھ پیش آؤ۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

پس یہاں جو واضح کیا گیا ہے، پہلی آیت میں یہ بتایا گیا ہےکہ کمزوری اور خوف اور بزدلی کی وجہ سے غیرمسلموں سے تعلقات نہیں رکھنے۔ مقصد یہ ہے کہ تمہارا اللہ تعالیٰ پر توکّل ہونا چاہیے اور اپنی ایمانی حالت کو بہتر کرو گے تو خدا تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ ہو گا لیکن ہم آج کل دیکھتے ہیں کہ بدقسمتی سے مسلمان حکومتیں مدد کے لیے انہی غیر لوگوں کی گودوں میں گر رہی ہیں اور ان سے خوف زدہ بھی ہیں اور غیروں سے مدد لینے کی وجہ سے پھر نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہر ایک مسلمان ملک دوسرے مسلمان کے خلاف ہے۔ یہی لوگ پھر اسلام کی جڑیں کاٹنے والے بھی ہیں۔ بہرحال ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان مسلمان حکومتوں کو بھی عقل دے۔ بہرحال اس واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے کہ بنو قینقاع نے جب جنگ کی تو اس کے بعد ان کا گھیراؤ کیا گیا۔ جنگ ہوئی اور انہوں نے شکست کھائی۔ سیرت خاتم النبیینؐ میں اس واقعہ کا مختلف تاریخوں سے لے کر جو ذکر کیا گیا ہے وہ اس طرح ہے کہ اس جنگ کے بعد جب بنو قینقاع کی شکست ہوئی تو ان کو جلاوطنی کا حکم دیا گیا۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ

جب جنگ بدر ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو باوجود ان کی قلت اور بے سروسامانی کے قریش کے ایک بڑے جرّار لشکر پر نمایاں فتح دی اور مکے کے بڑے بڑے عمائد خاک میں مل گئے تومدینے کے یہودیوں کی مخفی آتش حسد جو تھی وہ بھڑک اٹھی ۔ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلا نوک جھونک شروع کردی۔ مجلسوں میں برملا طورپریہ کہنا شروع کر دیا کہ قریش کے لشکر کوشکست دینا کون سی بڑی بات تھی۔ ہمارے ساتھ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کامقابلہ ہو تو ہم بتادیں کس طرح لڑا کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک مجلس میں انہوں نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر اسی قسم کے الفاظ کہے۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ جنگ بدر کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ایک دن یہودیوں کوجمع کرکے ان کو نصیحت فرمائی اوراپنا دعویٰ پیش کرکے اسلام کی طرف دعوت دی۔ آپ کی اس پُرامن اور ہمدردانہ تقریر کا رؤسائے یہود نے ان الفاظ میں جواب دیا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم شاید چند قریش کوقتل کرکے مغرور ہوگئے ہو اور وہ لوگ لڑائی کے فن سے ناواقف تھے۔ اگر ہمارے ساتھ تمہارا مقابلہ ہو تو تمہیں پتالگ جائے گا کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں۔ اور یہود نے صرف اس عام دھمکی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ لکھا ہے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے بھی منصوبے شروع کر دیے تھے ۔کیونکہ روایت آتی ہے کہ جب ان دنوں میں طلحہ بن بَرَاء جوایک مخلص صحابی تھے فوت ہونے لگے توانہوں نے وصیت کی کہ اگر میں رات کو مروں تونماز جنازہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع نہ دی جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہود کی طرف سے کوئی حادثہ گزر جائے۔ یعنی آپؐ رات کے وقت جنازے کے لیے تشریف لائیں اور یہود کو آپؐ پر حملہ کرنے کا موقع ملے۔ بہرحال جنگِ بدر کے بعد یہود نے کھلم کھلا شرارت شروع کردی اورچونکہ مدینے کے یہود میں بنوقینقاع سب سے زیادہ طاقتور اوربہادر تھے اس لیے سب سے پہلے ان ہی کی طرف سے عہد شکنی ہوئی۔ چنانچہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ مدینے کے یہودیوں میں سب سے پہلے بنو قینقاع نے اس معاہدے کو توڑا جوان کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا تھا اوربدر کے بعد انہوں نے بہت سرکشی شروع کر دی اور برملا طور پر بغض اور حسد کا اظہار کیا اور عہدوپیمان کوتوڑ دیا۔

مگر باوجود اس قسم کی باتوں کے مسلمانوں نے اپنے آقا آنحضرت ﷺکی ہدایت کے ماتحت ہر طرح سے صبر سے کام لیا اور اپنی طرف سے کوئی پیش دستی نہیں ہونے دی بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ اس معاہدے کے بعد جویہود کے ساتھ ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاص طورپر یہود کی دل داری کاخیال رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک مسلمان اورایک یہودی میں کچھ اختلاف ہو گیا۔ یہودی نے حضرت موسیٰ ؑکی تمام انبیاء پر فضیلت بیان کی۔ صحابی کواس پر غصہ آیااور اس نے یہودی کے ساتھ کچھ سختی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل الرسل بیان کیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو آپؐ ناراض ہوئے اور اس صحابی کو ملامت فرمائی ، تنبیہ کی کہ تمہارا کیا کام ہے کہ تم خدا کے رسولوں کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کرتے پھرو اور پھر آپ نے موسیٰ کی ایک جزوی فضیلت بیان کر کے یہودی کی دل داری فرمائی۔ مگرباوجود اس دل دارانہ سلوک کے، نرمی کے سلوک کے، شفقت کے سلوک کے یہودی اپنی شرارت پر ترقی کرتے گئے اوربالآخر یہود کی طرف سے ہی جنگ کاباعث پیدا ہوا اوران کی جو قلبی ،دلی عداوت تھی ان کے سینوں میں سما نہ سکی۔ وہیں نہ رہ سکی بلکہ باہر نکل آئی اور یہ اس طرح پرہوا کہ ایک مسلمان خاتون بازار میں ایک یہودی کی دکان پرکچھ سوداخریدنے کے لیے گئی۔ بعض شریریہودیوں نے جو اس وقت اس دکان پر بیٹھے ہوئے تھے اسے نہایت اوباشانہ طریقے پر چھیڑا اورخود دکان دار نے یہ شرارت کی کہ عورت کے تہ بندکے کونے کو اس کی بے خبری میں کسی کانٹے وغیرہ سے اس کی پیٹھ کے کپڑے سے ٹانک دیا۔ کوئی چیز، کوئی hook لگا ہوا ہوگا یا کانٹا ہو گا۔ کوئی چیز پڑی ہو گی اس سے اس کے کپڑے کو وہاں ٹانک دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ عورت ان کے اوباشانہ طریق کو دیکھ کر وہاں سے اٹھ کر لوٹنے لگی تو وہ ننگی ہوگئی، کپڑا اتر گیا۔ اس پر اس یہودی دکاندار اوراس کے ساتھیوں نے زور سے ایک قہقہہ لگایا اورہنسنے لگ گئے۔ مسلمان خاتون نے شرم کے مارے ایک چیخ ماری اورمدد چاہی۔ اتفاق سے ایک مسلمان اس وقت قریب موجود تھا۔ وہ لپک کر موقعے پر پہنچا اورپھر وہاں آپس میں لڑائی شروع ہو گئی۔ یہودی دکاندار مارا گیا۔ جس پر چاروں طرف سے اس مسلمان پر تلواریں برس پڑیں۔ انہوں نے حملہ کر دیا اوروہ غیّور مسلمان وہیں ڈھیر ہو گیا۔ وہیں قتل ہو گیا، شہید ہو گیا۔ مسلمانوں کو اس واقعے کا علم ہوا تو پھر ان کی بھی غیرتِ قومی بھڑکی۔ ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا اوردوسری طرف یہودی جو اس واقعہ کو لڑائی کا بہانہ بنانا چاہتے تھے ہجوم کرکے اکٹھے ہوگئے اورایک بلوے کی صورت پیدا ہوگئی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع ہوئی تو آپؐ نے رؤسائے بنوقینقاع کو جمع کر کے کہا کہ یہ طریق اچھا نہیں۔ تم ان شرارتوں سے باز آ جاؤ اورخدا سے ڈرو۔ انہوں نے بجائے اس کے کہ اظہارِ افسوس کرتے، ندامت کرتے، شرمندگی کا احساس کرتے اورمعافی طلب کرتے، مانگنے والے بنتے انہوں نے سامنے سے نہایت ہی تکبر سے متمردانہ جواب دیے اور پھر وہی دھمکی دہرائی کہ بدر کی فتح پرغرور نہ کرو۔ جب ہم سے مقابلہ ہوگا تو پتا لگ جائے گا کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں۔ بہرحال ناچار آپؐ صحابہ کی ایک جمعیت کو ساتھ لے کر بنو قینقاع کے قلعوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ اب یہ آخری موقع تھا کہ وہ اپنے افعال پرپریشان ہوتے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر گئے تو یہودیوں کو چاہیے تھا کہ جو کچھ انہوں نے زیادتی کی تھی، اس پر پریشان ہوتے اور صلح کی طرف قدم بڑھاتے مگر وہ سامنے سے جنگ پر آمادہ ہو گئے۔ بہرحال جنگ کا اعلان ہوگیا اور اسلام اوریہودیت کی طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل پرنکل آئیں۔ اس زمانہ کے دستور کے مطابق جنگ کا ایک طریق یہ بھی ہوتا تھا کہ اپنے قلعوں میں محفوظ ہوکر بیٹھ جاتے تھے اور فریق مخالف قلعوں کامحاصرہ کرلیتا تھا۔ جو حملہ آور ہوتا تھا قلعے کا محاصرہ کر لیتا تھا ۔ اُسے گھیر لیتا تھا۔ موقعے موقعے پر گاہے گاہے ایک دوسرے کے خلاف حملے ہوتے رہتے تھے۔ حتٰی کہ یاتو محاصرہ کرنے والی فوج قلعے پر قبضہ کرنے سے مایوس ہو کر محاصرہ اٹھا لیتی تھی، جو گھیراؤ کیا ہوتا تھا وہ ختم کر دیتی تھی اور چلی جاتی تھی اوریہ پھر قلعے کے اندر کے جو لوگ ہوتے تھے، محصورین جو تھے ان کی فتح سمجھی جاتی تھی کہ ان کو فتح ہو گئی اوریا پھر یہ ہوتا تھا کہ محصورین، جو قلعے کے اندر تھے، جو محصور ہوئے ہوئے تھے وہ مقابلے کی تاب نہ لا کر قلعے کادروازہ کھول کر اپنے آپ کو فاتحین کے سپرد کردیتے تھے۔ اس موقعے پر بھی بنوقینقاع نے یہی طریق اختیار کیا اور اپنے قلعوں میں بند ہو کر بیٹھ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا، قلعے کو ارد گرد سے گھیر لیا اور پندرہ دن تک برابر محاصرہ جاری رہا۔ آخر جب بنوقینقاع کاسارا زور اور غرور ٹوٹ گیا توانہوں نے اس شرط پر اپنے قلعوں کے دروازے کھول دیے کہ ان کے اموال مسلمانوں کے ہوجائیں گے مگر ان کی جانوں اوران کے اہل وعیال پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کو منظور فرما لیا کیونکہ گو موسوی شریعت کی رو سے یہ سب لوگ واجب القتل تھے۔ ایسی صورت میں تو تورات جو موسوی شریعت ہے یہی کہتی ہے کہ یہ لوگ قتل کر دیے جائیں اورمعاہدے کی رو سے ان لوگوں پر موسوی شریعت کا فیصلہ ہی جاری ہونا چاہیے تھا مگر اس قوم کایہ پہلا جرم تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحیم وکریم طبیعت انتہائی سزا کی طرف جو ایک آخری علاج ہوتا ہے ابتدائی قدم پر مائل نہیں ہوسکتی تھی۔ ابتدا تھی لیکن دوسری طرف ایسے بدعہد اور معاند قبیلہ کامدینہ میں رہنا بھی ایک مارِ آستین کے پالنے سے کم نہیں تھا یعنی بغل میں سانپ پالا ہوا ہے۔ آستین میں سانپ پالنے کے برابر تھا خصوصاً جب اوس اورخزرج کا ایک منافق گروہ پہلے سے مدینہ میں موجود تھا اور بیرونی جانب سے بھی تمام عرب کی مخالفت نے مسلمانوں کے ناک میں دم کررکھا تھا۔ ایسے حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فیصلہ ہو سکتا تھاکہ بنو قینقاع مدینے سے چلے جائیں۔ یہ سزاان کے جرم کے مقابلے میں اور اس کے علاوہ اس زمانہ کے حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک بہت نرم سزا تھی اور دراصل اس میں صرف خود حفاظتی کاپہلو مدّنظر تھا۔ مقصدیہ تھا کہ مدینے کے لوگوں کی، مدینے کے مسلمانوں کی حفاظت ہو جائے ورنہ عرب کی خانہ بدوش اقوام کے نزدیک، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ یہ لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک تو نقل مکانی کوئی بڑی بات نہیں تھی، پھرتے رہتے تھے، ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے رہتے تھے۔ خصوصاً جب کسی قبیلہ کی جائیدادیں زمینوں اورباغات کی صورت میں نہ ہوں جیسا کہ بنو قینقاع کی نہیں تھیں، ان کی جائیدادیں تو نہیں تھیں اور پھر سارے کے سارے کو بڑے امن وامان کے ساتھ ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ جاکر آباد ہونے کا موقع مل جائے۔ چنانچہ بنو قینقاع بڑے اطمینان کے ساتھ مدینہ چھوڑ کرشام کی طرف چلے گئے۔ ان کی روانگی کے متعلق ضروری اہتمام اورنگرانی وغیرہ کاکام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی عُبادہ بن صامتؓ کے سپرد فرمایا، جوان کے حلیفوں میں سے تھے جن کا ابھی ذکر ہو رہا ہے۔ چنانچہ عُبادہ بن صامتؓ چند منزل تک بنوقینقاع کے ساتھ گئے اور پھر انہیں حفاظت کے ساتھ آگے روانہ کرکے واپس لوٹ آئے۔ مالِ غنیمت جومسلمانوں کے ہاتھ آیا وہ صرف جنگی آلات تھے یا جوان کا پیشہ تھا اس پہ مشتمل آلات تھے اور اس کے علاوہ کوئی ایسی چیزنہیں تھی جو مسلمانوں نے غنیمت میں لی ہو۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ﷺ صفحہ 458 تا 460)

اس کے بارے میں سیرت الحلبیہ میں بھی کچھ تفصیل ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان یہود کو مدینے سے ہمیشہ کے لیے نکال کر جلا وطن کر دیا جائے۔ ان کو جلا وطن کرنے کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُبادہ بن صامتؓ کے سپرد فرمائی اور یہودیوں کو مدینے سے نکل جانے کے لیے تین دن کی مہلت دی۔ چنانچہ یہودی تین دن بعد مدینے کو خیر باد کہہ کر چلے گئے۔ اس سے پہلے یہودیوں نے حضرت عُبادہ بن صامتؓ سے درخواست کی تھی کہ ان کو تین دن کی جو مہلت دی گئی ہے اس میں کچھ اضافہ کر دیا جائے مگر حضرت عُبادہؓ نے کہا کہ نہیں ۔ ایک منٹ بھی تمہیں مہلت نہیں دی جا سکتی، بڑھائی نہیں جا سکتی۔ پھر حضرت عُبادہؓ نے اپنی نگرانی میں ان کو جلا وطن کیا اور یہ لوگ ملک شام کی ایک بستی کے میدانوں میں جا بسے۔

(السیرة الحلبیۃ الجزء الثانی باب ذكر مغازيہ صلى الله عليہ وسلم، غزوۃ بنی قینقاع، صفحہ287، دارالکتب العلمیہ بیروت2002ء)

حضرت عُبادہ بن صامتؓ سے حدیثوں کی بہت ساری دوسری روایات بھی مروی ہیں۔ ایک روایت ان سے یہ ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں اس لیے مہاجرین میں سے کوئی آدمی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قرآن سکھانے کے لیے ہم میں سے کسی کے حوالے کر دیتے تھے کہ ان کو لے جاؤ اور قرآن سکھاؤ۔ دینی تعلیم بھی سکھاؤ۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو میرے سپرد کیا۔ وہ میرے ساتھ گھر میں رہتا تھا اور میں اسے اپنے گھر والوں کے کھانے میں شریک کرتا تھا، اسے قرآن پڑھاتا تھا۔ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانے لگا تو اس نے خیال کیا کہ اس پر میرا حق بنتا ہے یعنی اس کے رہنے کی وجہ سے اور اتنی خدمت کی وجہ سے اور قرآن سکھانے کی وجہ سےاس کے اوپر میرا کچھ حق بن جاتا ہے۔ چنانچہ اس وجہ سے اس نے مجھے ایک کمان ہدیةً پیش کی۔ تیر کمان کی کمان تحفةً پیش کی اور کہتے ہیں کہ وہ ایسی اعلیٰ قسم کی کمان تھی کہ اس سے عمدہ لکڑی اور نرمی میں اس سے بہترین کمان میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ کہتے ہیں کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے متعلق پوچھا کہ یا رسول اللہ! اس کے بارے میں آپؐ کی کیا رائے ہے؟ اس طرح وہ مجھے کمان تحفہ دے کر گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ تمہارے کندھوں کے درمیان ایک انگارہ ہے جو تم نے لٹکایا ہے۔ یعنی یہ تحفہ جو تم لے رہے ہو وہ یہ اس لیے دے کے گیا ہے کہ تم نے اسے قرآن پڑھایا ہے اور اس طرح یہ تم نے آگ لی ہے جو اپنے کندھوں میں لٹکا رہے ہو۔

(مسند احمد بن حنبل جلد7 صفحہ563، مسند عُبادہ بن صامت حدیث 23146، عالم الکتب بیروت1998ء)

ایک اَور روایت بھی ہے کہ حضرت عُبادہ بن صامتؓ نے بیان کیا کہ میں نے اہلِ صفہ میں سے کچھ لوگوں کو قرآن پڑھایا اور لکھنا سکھایا تو ان میں سے ایک شخص نے میرے پاس ہدیہ میں کمان بھیجی۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ کوئی مال تو ہے نہیں، کوئی ایسی نقد چیز تو ہے نہیں، سونا چاندی تو ہے نہیں، نہ کوئی کرنسی ہے اور میں اس سے اللہ کی راہ میں تیر اندازی کروں گا۔ ایک کمان ہی ہے ناں، میرے کام آئے گی۔ اگر کبھی جہاد کا موقع ملا تو تیر اندازی کے کام آئے گی۔ اللہ کے رستے میں استعمال ہونی ہے۔ بہرحال کہتے ہیں مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں د ریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم آگ کا طوق پہننا پسند کرتے ہو تو اسے قبول کر لو۔

(سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب الاجر علی تعلیم القرآن حدیث 2157)

یعنی اگر تم چاہتے ہو کہ آگ کا ایک طوق تمہارے گلے میں پہنایا جائے تو ٹھیک ہے لے لو۔ یہ دونوں روایتیں جو ہیں ایک ہی طرح کی ہیں، مختلف جگہوں سے آئی ہوئی ہیں۔ شارحین نے اس روایت سے یہ استدلال کیا ہے کہ گویا کمان قرآن پڑھانے کی اجرت کے طور پر تھی جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا۔ پس وہ لوگ جو انفرادی طور پر قرآن کریم پڑھانے کو ذریعہ آمد بنا لیتے ہیں ان کے لیے بھی اس میں رَہ نمائی ہے۔

حضرت راشد بن حُبَیْش سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عُبادہ بن صامتؓ کی عیادت کے لیے ان کے ہاں تشریف لائے جب کہ وہ بیمار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ میری امت کے شہید کون لوگ ہیں؟ تو لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عُبادہ بن صامتؓ کی عیادت کے لیے تشریف لائے تھے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ میری امت کے شہید کون لوگ ہیں؟ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ حضرت عُبادہؓ نے ان سے کہا کہ مجھے سہارا دے کر بٹھا دو۔ چنانچہ لوگوں نے آپؓ کو بٹھایا تو حضرت عُبادہؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ نے سوال کیا ہے کہ شہید کون لوگ ہیں؟ تو جو بہادری اور ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے والا اور ثواب کی نیت رکھنے والا ہو وہ شہید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر صرف اتنا ہی ہے تو اس طرح تو پھر میری امت کے شہداء بہت تھوڑے رہ جائیں گے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اللہ عزّ و جلّ کے راستے میں قتل ہو جانا شہادت ہے۔ طاعون کی وجہ سے مر جانا بھی شہادت ہے۔ ایک وبا جو پھیلی ہے اس میں اگر مومن بھی کسی وجہ سے لپیٹ میں آ جاتے ہیں اور وہ اچھے مومن ہیں تو وہ ایسی صورت میں شہادت ہے۔ پھر پانی میں غرق ہو جانا بھی شہادت ہے اور پیٹ کی بیماری کی وجہ سے مرنا بھی شہادت ہے اور آپؐ نے فرمایا کہ نفاس کی حالت میں مرنے والی عورت کو اس کا بچہ اپنے ہاتھ سے کھینچ کر جنت میں لے جائے گا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ492، مسند راشد بن حبیش، عالم الکتب بیروت1998ء)

یعنی ایسی عورت جو بچے کی پیدائش کے وقت خون بہنے کی وجہ سے مر جاتی ہے یا نفاس کی حالت میں جو چالیس دن تک رہتی ہے اس عرصے میں بھی بچے کی پیدائش کی وجہ سے اور اسی حالت میں کمزوری کی وجہ سےفوت ہو جاتی ہےتو فرمایا کہ اسے بھی اس کا بچہ کھینچ کر جنت میں لے جائے گا۔ یعنی بچہ اس کو جنت میں لے جانے کا باعث بن جائے گا۔

جو روایت میں نے بیان کی ہے۔ اس سے ملتی جلتی صحیح بخاری میں درج ایک روایت ملتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شہید پانچ ہیں: طاعون سے مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، ڈوب کر مرنے والا، دب کر مرنے والا اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔

(صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب الشہادۃ سبع سوی القتل حدیث 2829)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو طاعون ایک نشان کی صورت میں بتایا گیا تھا۔ اس کے لیے اب یہ نشانی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو ماننے والے لوگ ہیں، صحیح ایمان لانے والے ہیں ان کے اوپر اس کا حملہ نہیں ہو گا۔ اس لیے یہاں ایک بالکل اور صورت بن جاتی ہے لیکن عمومی طور پر اگر وبا پھیلی ہوئی ہے اور ایک مومن ہے اور کامل مومن ہے وہ اگر اس وجہ سے مرتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شہید ہے۔

اسماعیل بن عُبید انصاری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عُبادہؓ نے حضرت ابوہریرہؓ سے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! آپ اس وقت ہمارے ساتھ نہ تھے جب ہم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ ہم نے آپؐ سے چستی اور سستی ہر حال میں بات سننے اور ماننے اور خوش حالی اور تنگی میں خرچ کرنے پر، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر پر، اللہ تبارک و تعالیٰ کے متعلق صحیح بات کہنے اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرنے پر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ تشریف آوری پر ان کی مدد کرنے اور اپنی جانوں اور اپنے بیوی بچوں کی طرح آپؐ کی حفاظت کرنے کی شرط پر بیعت کی تھی۔ یہ تمام ، ساری باتیں ایسی تھیں جن پر ہم نے بیعت کی تھی جس کے عوض ہمارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔

پس یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت جس پر ہم نے بیعت کی۔ جو اسے توڑتا ہے وہ اپنا نقصان کرتا ہے۔ جو ان شرائط کو جس پر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی پورا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس بیعت کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گا۔

حضرت معاویہؓ نے ایک دفعہ حضرت عثمان غنیؓ کو خط لکھا کہ حضرت عُبادہ بن صامتؓ کی وجہ سے شام اور اہلِ شام میرے خلاف شورش برپا کر رہے ہیں۔ اب یا تو آپ عُبادہؓ کو پاس بلا لیں یا پھر ان کے اور شام کے درمیان سے میں ہٹ جاتا ہوں یعنی میں یہاں سے چلا جاتا ہوں۔ حضرت عثمانؓ نے لکھا کہ آپ حضرت عُبادہؓ کو سوار کروا کے مدینہ منورہ میں ان کے گھر کی طرف روانہ کر دیں۔ چنانچہ حضرت معاویہؓ نے انہیں روانہ کر دیا اور وہ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ حضرت عُبادہؓ حضرت عثمانؓ کے پاس ان کے گھر چلے گئے جہاں سوائے ایک آدمی کے اگلے پچھلوں میں سے کوئی نہ تھا یعنی کہ جس نے صحابہ کو پایا تھا۔ انہوں نے حضرت عثمانؓ کو مکان کے کونے میں بیٹھے ہوئے پایا۔ پھر آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ اے عُبادہ بن صامتؓ ! آپ کا اور ہمارا کیا معاملہ ہے۔ تو حضرت عُبادہؓ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعد ایسے لوگ تمہارے حکمران ہوں گے جو تمہیں ایسے کاموں کی پہچان کرائیں گے جنہیں تم ناپسند کرتے ہو گے اور ایسے کاموں کو ناپسند کروائیں گے جنہیں تم اچھا سمجھتے ہو گے۔ سو جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اس کی اطاعت نہیں۔ پس تم اپنے رب کی حدود سے تجاوز نہ کرنا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد7 صفحہ564-565، مسند عُبادہ بن صامت حدیث 23149-23150، عالم الکتب بیروت1998ء)

بعض مسائل ہیں جن میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ حضرت امیر معاویہؓ اور عُبادہ بن صامتؓ میں بھی اس طرح کے بعض ایسے مسائل پہ اختلاف رہتا تھا۔ گذشتہ خطبے میں بھی یہ ذکر ہوا تھا کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی ایک دفعہ یہ واقعہ ہوا اور کیونکہ حضرت عُبادہ بن صامتؓ اولین صحابہ میں سے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست انہوں نے یہ مسائل سنے ہوئے تھے اس لیے بڑے تحدی سے یہ ان کے اوپر عمل کرنے اور کروانے والے ہوتے تھے اور یہی کہا کرتے تھے کہ یہی صحیح ہیں۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب امیر معاویہ سے یہ اختلاف ہوا تو حضرت عمرؓ نے امیر معاویہ کو کہہ دیا کہ ان سے تم نے کوئی پوچھ گچھ نہیں کرنی۔ جو مسائل یہ بیان کرتے ہیں ان کو کرنے دیا کرو اور جب یہ مدینہ آئے تھےتو ان کو واپس بھیج دیا۔

(سنن ابن ماجہ کتاب السنۃ باب تعظیم حدیث رسول اللہؐ …… الخ حدیث 18)

لیکن حضرت عثمانؓ کے زمانے میں دوبارہ یہ بات ہوئی تو حضرت عثمانؓ نے ان کوان حالات کی وجہ سے واپس بلا لیا۔ بہرحال حضرت عُبادہؓ کا ایک مقام تھا ۔وہ بعض باتوں کی تشریح کر سکتے تھے۔ انہوں نے سمجھی ہوئی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ ِراست سنی تھیں اور اس وجہ سے وہ اختلاف کرتے تھے اوربعض معاملات میں بتا بھی دیا کرتے تھے۔ مثلاً لین دین کا معاملہ ہے، بارٹر (barter) کا معاملہ ہے، تجارت کا معاملہ ہے۔ یہ وسیع مضمون ہے یہاں اس وقت بیان نہیں ہو سکتا، اس میں بھی ان کا اختلاف امیر معاویہؓ سے ہوا تھا۔ تو بہرحال ان کے پاس دلائل تھے اور انہوں نے اس کے مطابق اپنی تشریح کی۔ امیر معاویہؓ نے اپنی تشریح کی لیکن ہر ایک کا یہ کام نہیں ہے کہ اس طرح اختلاف کرتا پھرے جب تک قرآن اور حدیث کی واضح نص موجود نہ ہو۔ اور اس زمانے میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جو بیان کیا ہے۔ اس میں بنیادی چیز جو ضروری ہے، یاد رکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حدود جو ہیں ان سے تجاوز نہیں کرنا، ان کے اندر رہنا ہے۔ بس یہی ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور پھر اطاعت کے دائرے کے اندر رہنا چاہیے۔

عطاء بیان کرتے ہیں کہ میں ولید سے ملا جو حضرت عُبادہ بن صامتؓ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے والد یعنی حضرت عُبادہؓ کی موت کے وقت وصیت کیا تھی؟ تو انہوں نے بیان کیا کہ انہوں نے یعنی حضرت عُبادہؓ نے مجھے بلایا اور کہا کہ اے میرے بیٹے! اللہ تعالیٰ سے ڈر اور جان لے کہ تُو ہرگز اللہ کا تقویٰ اختیار نہیں کر سکتا جب تک کہ تُو اللہ پر ایمان نہ لائے۔ ایمان کامل ہونا چاہیے۔ اور ہر قسم کے خیر و شر کی تقدیر پر بھی ایمان نہ لائے۔ پس اگر تُو اس کے علاوہ کسی اعتقاد پر مرا تو تُو آگ میں داخل ہو گا۔

(سنن الترمذی ابواب القدر باب اعظام امر الایمان بالقدر حدیث 2155)

حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام حَرَام بنتِ مِلْحَانؓ کے گھر تشریف لایا کرتے تھے جو حضرت عُبادہ بن صامتؓ کی بیوی تھیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتیں۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام حرامؓ کے گھر تشریف لائے تو انہوں نے آپؐ کو کھانا کھلایا اور آپؐ کا سر دیکھنے لگیں، جھسنے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ اس کے بعد اسی حالت میں کہ سوئے ہوئے تھے آپؐ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے۔ حضرت ام حرامؓ کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ میری امّت میں سے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔ وہ اس سمندر میں سوار ہیں گویا تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ ہیں یا فرمایا کہ ان بادشاہوں کی طرح ہیں جو تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں۔ بیان کرنے والے نے شک کیا کہ کون سا لفظ فرمایا تھا ۔بہرحال کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپؐ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام حرامؓ کے لیے دعا کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر رکھا اور سو گئے۔ پھر اس کے بعد آپؐ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے۔ کہتی ہیں میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپؐ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا میری امت میں سے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلے ہوئے تھے۔ پھر آپؐ نے پہلی دفعہ والی جو بات تھی، جو پہلے بیان ہو چکی ہے وہ دہرائی۔ کہتی تھیں میں نے کہا یا رسول اللہ! آپؐ اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تُو تو پہلے ہی ان لوگوں میں شریک ہو چکی ہے۔ چنانچہ حضرت ام حرامؓ معاویہ بن ابو سفیان کے زمانے میں سمندری سفر میں شامل ہوئیں اور جب سمندر سے باہر آئیں تو اپنی سواری سے گر کر فوت ہوگئیں۔

(صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب الدعاء بالجھاد الشھادة للرجال والنساء حدیث 2788-2789)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ام حرامؓ کے گھر اس لیے جاتے تھے کہ آپؐ کا ایک محرم رشتہ تھا۔ یہ نہیں کہ ان کی بیوی تھیں ان کے گھر چلے گئے۔ اس بارے میں لکھا ہے کہ ام حرامؓ ملحان ابن خالد کی بیٹی ہیں۔ قبیلہ بنی نجار سے تعلق رکھتی تھیں۔ انسؓ کی خالہ تھیں اور ان کی والدہ ام سُلَیم کی بہن ہیں یہ دونوں یعنی ام حرام اور ام سلیم دودھ کے رشتے سے یا کسی نسبتی قرابت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ تھیں۔

(الاستیعاب جلد4 صفحہ1931 مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)

امام نووی نے لکھا ہے کہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ام حرامؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محرم تھیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے تکلفی کے ساتھ دوپہر کو بعض دفعہ ان کے ہاں جا کر آرام فرمایا کرتے تھے۔ لیکن کیفیت محرمیت جو ہے اس میں اختلاف ہے، محرم تو تھیں یہ تو سب مانتے ہیں لیکن کس قسم ،کس رشتے داری کی وجہ سے محرم تھیں اس میں بعض نے اختلاف کیا ہے۔

(المنھاج بشرح صحیح مسلم از امام نووی کتاب الامارۃ باب فضل الغزو فی البحر حدیث 1912 مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2002ء)

بہرحال کسی نے کسی تعلق سے محرم کہا ہے اور کسی نے کسی تعلق سے۔ حضرت ام حرامؓ جب اسلام لائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور حضرت عثمانؓ ذوالنورین کے زمانے میں انہوں نے اپنے خاوند عُبادہ بن صامتؓ کے ساتھ جو انصار میں سے تھے اور بڑے جلیل القدر صحابی تھے جن کا ذکر ہو رہا ہے ان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلیں اور سر زمین روم میں پہنچ کر مرتبہ شہادت سے سرفراز ہوئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک خواب رؤیا دیکھی تھی اس کے مطابق پھر ان کی شہادت بھی ہوئی۔

بخاری کی شرح عمدة القاری اور بخاری کی ایک اور شرح ارشاد الساری میں لکھا ہے کہ حضرت ام حرامؓ کی وفات 27تا 28ہجری میں ہوئی۔ بعض کے نزدیک ان کی وفات امیر معاویہؓ کے دورِ حکومت میں ہوئی تھی۔ پہلا قول زیادہ مشہور ہے اور سیرت نگاروں نے اسی کو بیان کیا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں یہ بحری جنگ ہوئی تھی جس میں حضرت ام حرامؓ کی وفات ہوئی تھی۔ معاویہؓ کے زمانے سے مراد حضرت معاویہؓ کا زمانہ حکومت نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ وقت ہے جب حضرت معاویہؓ نے روم کے خلاف ایک بحری جنگ لڑی تھی اور اس جنگ میں حضرت ام حرامؓ بھی اپنے شوہر حضرت عُبادہ بن صامتؓ کے ساتھ شریک ہوئی تھیں اور اسی بحری جنگ سے واپسی پر حضرت ام حرامؓ کی وفات ہوئی تھی اور یہ واقعہ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت کا ہے۔

(عمدة القاری شرح صحیح البخاری جلد14 صفحہ128، دار احیاء التراث العربی2003ء) (ارشاد الساری شرح صحیح البخاری لشہاب الدین القسطلانی جلد5 صفحہ230 ،دارالفکر بیروت2010ء)

جُنَادہ بن ابو امیہ سے مروی ہے کہ جب ہم حضرت عُبادہؓ کے پاس گئے تو وہ بیمار تھے۔ ہم لوگوں نے کہا کہ اللہ آپ کو صحت دے۔ آپ کوئی حدیث بیان کریں جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو تا کہ اللہ آپ کو نفع پہنچائے۔ آپؐ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا اور ہم نے آپؐ کی بیعت کی۔ آپؐ نے جن باتوں کی بیعت ہم سے لی وہ باتیں یہ تھیں کہ ہم بیعت کرتے ہیں اس بات پر کہ ہم اپنی خوشی اور اپنے غم اور اپنی تنگ دستی اور خوش حالی اور اپنے اوپر ترجیح دیے جانے کی صورت میں سنیں گے اور اطاعت کریں گے اور حکومت کے لیے حاکموں سے جھگڑا نہیں کریں گے۔ حکومت کے لیے حاکموں سے جھگڑا نہیں کریں گے لیکن اعلانیہ کفر پر جس پر اللہ کی طرف سے دلیل ہو۔

(صحیح البخاری کتاب الفتن باب قول النبیﷺ سَتَرَوْنَ بَعْدِی اُمُوْرًا تُنْکِرُوْنَھَا حدیث 7055-7056)

سوائے اس کے کہ اعلانیہ کفر پر مجبور کیا جائے۔ واضح باتیں ہوں تو وہاں اَور بات ہے۔ اور وہ بھی اگر اختیارات ملتے ہیں تب۔ صُنَابِحِیّ روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عُبادہ بن صامتؓ کے پاس گیا جبکہ وہ موت کے قریب تھے۔ میں رو پڑا تو انہوں نے کہا ٹھہرو کیوں رو رہے ہو؟ خدا کی قسم! اگر مجھ سے گواہی طلب کی جائے تو میں تمہارے حق میں گواہی دوں گا اور اگر مجھے شفاعت کا حق دیا گیا تو میں تمہاری شفاعت کروں گا اور اگر مجھے طاقت ہوئی تو میں تجھے فائدہ پہنچاؤں گا۔ پھر انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہر حدیث جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی جس میں تمہارے لیے بھلائی تھی وہ مَیں نے تمہارے سامنے بیان کر دی ہے سوائے ایک حدیث کے جو میں آج تمہیں بتاؤں گا جبکہ میں موت کی گرفت میں ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپؐ فرماتے تھے کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے اس پر آگ حرام کر دی یعنی وہ مسلمان ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب من لقی اللہ بالایمان وھو غیر شاک فیہ …حدیث 29)

اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند فرمائے جنہوں نے ہمیں بعض ایسی باتیں پہنچائیں جو ہمارے لیے روحانی علم کے علاوہ عملی زندگی گزارنے کے لیے بھی ضروری تھیں۔

اب میں کچھ مرحومین کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور ان کی نماز ِجنازہ بھی پڑھاؤں گا۔ جن میں سے پہلے سعید سوقیہ صاحب سیریا کے ہیں۔ 18؍اپریل کو ان کی وفات ہوئی تھی اور بہرحال اطلاع دیر سے آئی تھی تو ان کا جنازہ لیٹ پڑھا جا رہا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم شام کی جماعت کے نہایت مخلص اور قدیم ممبران میں سے تھے۔ انہوں نے پانچ سال کی عمر میں قرآن کریم ختم کر لیا تھا۔ بچپن سے ہی قواعد تجوید اور قراءت القرآن کے ماہر تھے۔ اکثر احمدی احباب کو تجوید القرآن پڑھاتے تھے۔ محترم منیر الحصنی صاحب آپ پر بڑا اعتماد کیا کرتے تھے۔ انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی لیکن وکالت کا پیشہ اچھا نہیں لگا اور پھر انہوں نے ٹیچنگ (teaching) کی لائن اختیار کر لی اور پھر پورے ملک میں نمایاں اساتذہ میں ان کا شمار ہوا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں پڑھایا اور ہیڈ ماسٹر کے عہدے تک ترقی کی۔ مرحوم کو تبلیغ کا بڑا شوق تھا۔ ہر کسی کو تبلیغ کیا کرتے تھے۔ چند سال قبل جب عربک ڈیسک نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب دوبارہ نشر کیں، ترجمہ کر کے پھیلائیں تو جو جو ہوئی تھیں آپ نے سب کا مطالعہ کیا اور کہا کرتے تھے کہ اتنا لمبا عرصہ احمدی رہنے کے بعد اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اصل میں کیا فرمایا ہے۔ اب پہلی دفعہ مجھے جماعت کی حقیقت معلوم ہو رہی ہے۔ اب میں حقیقی اسلام احمدیت کے بارے میں نئے سرے سے معلومات حاصل کر رہا ہوں اور آپ کے اخلاق اور حسنِ معاشرت اور سخاوت اور خودداری اور عزتِ نفس اور بغیر کسی معاوضے کی خواہش کے دوسروں کی مدد جیسے خصائل آپ کا ہر جاننے والا بیان کرتا ہے اور ان سے بہت متاثر تھا اور ہر جاننے والا آپ سے انہی خصائل کی وجہ سے محبت کرتا تھا۔ اپنے کام میں مگن رہنے والے تھے۔ ہنس مکھ تھے۔ مہربان باپ تھے۔ مخلص خاوند تھے۔ آپ کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ نمازوں اور عبادات کے پابند تھے۔ جب بھی کوئی رقم ملتی چندہ ادا کرتے۔ بسا اوقات ساری رقم ہی چندے میں دے دیتے۔ پس ماندگان میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ آپ کے بڑے بیٹے محمد صاحب اور چھوٹے بیٹے جلال الدین صاحب احمدی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے اور ان کی اولاد کے حق میں ان کی دعائیں بھی قبول فرمائے اور باقی اولاد کو بھی حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔

دوسرا جنازہ مکرم الطیب العبیدی صاحب تیونس کا ہے۔ 26؍جون کو 70سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ اپنے علاقے میں اکیلے احمدی تھے نہایت مخلص اور جماعت اور امامِ وقت سے بہت محبت کرنے والے، خلافت سے محبت کرنے والے۔ اپنی ساری عمر تقریباً مساجد میں گزاری۔ قرآن کے عاشق تھے۔ بہت زیادہ ذکرِ الٰہی کرنے و الے انسان تھے۔ جماعت کا تعارف ہونے پر بغیر دیر کیے مرکز پہنچے اور فوراً بیعت کر لی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کے عاشق تھے۔ جمعہ کی ادائیگی کے لیے تقریباً پانچ گھنٹے ریل گاڑی کا سفر کر کے مرکز میں پہنچتے تھے۔ بہت بہادر انسان تھے۔ جس سے بھی ملتے احمدیت کا تعارف کرواتے۔ اپنے خاندان اور معاشرے کی طرف سے ان پر بڑا دباؤ تھا لیکن یہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ بیعت کے پہلے دن ہی دل کھول کر چندہ دینا شروع کر دیا۔ جب انہیں نظامِ وصیت کا علم ہوا تو انہوں نے فوراً وصیت کر لی۔ نوجوانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کی بہت تلقین کرتے تھے اور کہتے تھے کہ انفاق فی سبیل اللہ کی برکت سے میرے مال میں بہت برکت پڑی ہے۔ مرحوم کو حج بیت اللہ کی بھی توفیق ملی۔ جماعت اور خلافت کے آپ عاشق تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان کی دعائیں اور نیک تمنائیں ان کی اولاد کے حق میں اور قریبیوں کے حق میں قبول فرمائے۔

تیسرا جنازہ مکرمہ محترمہ امة الشکور صاحبہ کا ہے جو حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ 3؍ستمبر کو ان کی وفات 79سال کی عمر میں ہوئی ہے۔اِنَا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔آپ جیسا کہ میں نے بتایا حضرت خلیفة المسیح الثالث کی بیٹی تھیں۔ اس لحاظ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتی تھیں اور ننھیال کی طرف سے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اور حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی نواسی تھیں۔ اپریل 40ء میں قادیان میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی۔ پھر بی۔ایڈ لاہور سے کیا۔ ان کی دو شادیاں تھیں۔ ان کی پہلی شادی جو نواب عبداللہ خان صاحب کے بیٹے شاہد خان صاحب سے ہوئی تھی ان سے ان کی اولاد ہے جن میں دو لڑکے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ان کے ایک بیٹے عامر احمد خان واقفِ زندگی ہیں اور تحریک جدید میں اس وقت کام کر رہے ہیں۔ ان کے دو نواسے بھی اس وقت جامعہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دوسری شادی ان کی ڈاکٹر مرزا لئیق صاحب سے ہوئی تھی۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہے۔ ان کو بڑی جماعتی خدمات تو نہیں لیکن عمومی طور پر مختلف رنگ میں ان کو مختلف جماعتی اداروں میں یا لجنہ کے شعبوں میں کام کرنے کی توفیق ملی اور ہر ایک لکھنے والے نے یہی لکھا ہے کہ بڑے تعاون سے اور بڑی عاجزی سے یہ ہمارے ساتھ کام کرتی تھیں۔ لکھنے پڑھنے کا بھی ان کو شوق تھا تو انہوں نے حضرت اماں جان کی سیرت بھی لکھی ہے۔ پھر ایک دوسری کتاب حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی لکھی ہے کہ ‘مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی’۔ پھر یہ تیسری کتاب بھی جو حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیگم حضرت بوزینب صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیرت اور سوانح پر مشتمل ہے انہوں نے لکھی جس کا مسودہ مکمل ہو گیا ہے لیکن حالات کی وجہ سے اشاعت نہیں ہو سکی ۔تو یہ ان کی تین کتابیں بھی ہیں لجنہ کے لیے ایک اچھا لٹریچر ہے۔

ان کی نواسی ملاحت کہتی ہیں کہ میری نانی ہمیشہ یہ کہا کرتی تھیں کہ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے فرمایا تھا کہ مسکراتے رہا کرو کیونکہ یہ صدقہ ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کہتی ہیں کہ میں نے ان کو آخری بیماری میں بھی دیکھا کہ مسکرا کر دیکھتی تھیں اور تکلیف میں بھی مسکراتی رہتی تھیں۔ ان کی بیماری کافی تکلیف دہ تھی۔ آخرمیں پتا لگا کہ کینسر ہے لیکن بڑے حوصلے اور صبر سے انہوں نے برداشت کیا۔ یہ حضرت خلیفہ ثالثؓ بھی ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے ہر تکلیف بڑی صبر سے برداشت کی ہے۔

اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں اور ان کی اگلی نسل کو بھی خلافت اور جماعت سے ہمیشہ وفا کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ہاں ایک اَور (بات) ہے کہ آج کیونکہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع شروع ہو رہا ہے اس لیے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع ہوں گی۔

(الفضل انٹر نیشنل 27 ستمبر 2019ء)

اگلا پڑھیں

الفضل اسلام کی سچی خدمت کرنے والا اخبار ہے غیر از جماعت افراد کا اظہار حقیقت