حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کا حقیقی مقصد
’’شریعت اسلامیہ کا عملاً احیاء‘‘
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۳﴾ۙ
(الانعام: 163)
ترجمہ: اُن کو کہہ دے میری نماز اور میری پرستش میں جِدّ و جُہد اور میری قربانیاں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خد اکے لئے اوراُس کی راہ میں ہے۔ وہی ہے جوتمام عالموں کاربّ ہے۔
(ترجمہ از آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ162)
اس آیت کریمہ میں ہمارے محبوب آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کاوہ بلند ترین مقام فنافی اللّٰہ بیان کیاگیا ہے جو عدیم المثال ہے۔ آنحضورﷺ کی مقدّس زندگی کا ایسا دلربا نقشہ بیان کیاگیا ہے جوہرجہت سے لاثانی اوربے نظیرہے۔
اس دورآخرین میں اللہ تعالیٰ نے رسول پاکﷺ کے روحانی فرزندِجلیل اورآپؐ کے عاشق صادق کویہ سعادت اورتوفیق عطافرمائی کہ وہ کلیۃً اَپنے آقا ﷺ کے رنگ میں رنگین ہوگیااور کچھ ایسا فنا ہوا کہ اُس ماہتاب ہدایت نے اپنے وجود میں آفتاب ہدایت کا ایک کامل اورحسین عکس پیدا کرلیا۔ غلام صادق کاوجودآقائے نامدارﷺکا ظل کامل بن گیا۔ اس کی زندگی آقائے دوجہانﷺ کی غلامی میں قدم بقدم چلتی ہوئی اس آیت کریمہ کی ایک جیتی جاگتی تصویربن گئی۔ اُسی تصویر کی جھلکوں میں سے صرف مختصراً ایک جھلک تحریر کرنا میرا مقصود ہے۔یعنی اگر میں اپنے عنوان کو بیان کرنا چاہوں تویہ بنتاہے۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی بعثت کا مقصد حقیقی شریعت اسلامیہ کا احیاء‘‘
ایک درد مند دل کی کیفیت
19ویں صدی کے آخرمیں سارا ملک ہندوستان عیسائیت کی یلغار کی زد میں تھا۔ ہر طرف عیسائیت کی تبلیغی سرگرمیوں کا زورتھا۔مسلمان بالکل بے دست وپاتھے اورعیسائیوں کی یلغار، حکومت کی پشت پناہی اورمال و دولت کےبل بوتے پراُن کوخس وخاشاک کی طرح بہائے لئے جارہی تھی۔اس کیفیت کودیکھ کرحضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے دل میں جودرد اٹھا اور جس طرح خدمت اسلام کابے پناہ جذبہ ابھرا اس کی کیفیت کا اندازہ آپؑ کی اس درد بھری تحریرسے کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یکم دسمبر 1888ء کو درج ذیل اشتہار شائع کیا:
’’میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں۔ پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان طیار ہوں گے یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے۔ اذا عزمت فتوکل علی اللّٰہ واصنع الفلک باعیننا ووحینا۔ الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ یداللّٰہ فوق ایدھم۔ والسلام علٰی من اتبع الھدی۔
(مجموعہ اشتہارات بحوالہ سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد2 صفحہ470 کمپیوٹر رائزڈ ایڈیشن 2008ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
‘‘مضمون تبلیغ جو اس عاجز نے اشتہار یکم دسمبر 1888ءمیں شائع کیا ہے جس میں بیعت کے لئے حق کے طالبوں کو بلایا ہے- اس کی مجمل شرائط کی تشریح یہ ہے:
اوّل: بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا-
دوم: یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بد نظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا- اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہو گا- اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔
سوم: یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا- اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلے اللہ و علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مدادمت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا-
چہارم: یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا- نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے –
پنجم: یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عسر اور یُسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا داری کرے گا- اور بہر حالت راضی بقضا ہو گا اور ہر ایک ذلّت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا- اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا-
ششم: یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہواوہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کرلے گا- اور قال للہ اور قال الرسول کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا-
ہفتم: یہ کہ تکبر اور نخوت کوبکلّی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا-
ہشتم: یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہریک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا-
نہم: یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔
دہم: یہ کہ اس عاجز سے عقداخوت محض للہ باقرارطاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقتِ مرگ قائم رہے گا- اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو-
یہ وہ شرائط ہیں جو بیعت کرنے والوں کے لئے ضروری ہیں- جن کی تفصیل یکم دسمبر 1888ء کے اشتہار میں نہیں لکھی گئی۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ189-190 ایڈیشن اوّل)
اسلام کی اس حالت زارپرحضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے سینہ میں جوتلاطم برپا تھااس کاکچھ اندازہ آپؑ کے اشعار سے بھی ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں:
؎میرے آنسو اس غمِ د ل سوز سے تھمتے نہیں
دیں کاگھرویران ہے دُنیا کے ہیں عالی منار
دن چڑھا ہے دشمنانِ دیں کاہم پررات ہے
اَے میرے سورج نکل باہرکہ میں ہوں بیقرار
دل نکل جاتا ہے قابو سے یہ مشکل دیکھ کر
اَے میری جاں کی پناہ فوج ملائک کو اُتار
بعثت کی دو اغراض یعنی اندرونی و بیرونی فتنوں سے اسلام کی حفاظت:
’’یاد رکھو !میرے آنے کی دو غرضیں ہیں۔ ایک یہ کہ جو غلبہ اس وقت اسلام پر دوسرے مذاہب کا ہوا ہے گویا وہ اسلام کو کھاتے جاتے ہیں اور اسلام نہایت کمزور اور یتیم بچے کی طرح ہوگیا ہے۔ پس اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تا میں ادیان باطلہ کے حملوں سے اسلام کو بچاؤں اور اسلام کے پُر زور دلائل اور صداقتوں کے ثبوت پیش کروں اور وہ ثبوت علاوہ علمی دلائل کے انوار اور برکات سماوی ہیں جو ہمیشہ سے اسلام کی تائید میں ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت اگر تم پادریوں کی رپورٹیں پڑھو تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ اسلام کی مخالفت کیلئے کیا سامان کررہے ہیں اور ان کا ایک ایک پرچہ کتنی تعداد میں شائع ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں ضروری تھا کہ اسلام کا بول بالا کیا جاتا۔ پس اس غرض کیلئے مجھے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے اور مَیں یقینا کہتا ہوں کہ اسلام کا غلبہ ہو کر رہے گا اور اس کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں۔ ہاں یہ سچی بات ہے کہ اس غلبہ کیلئے کسی تلوار اور بندوق کی حاجت نہیں اور نہ خدا تعالیٰ نے مجھے ہتھیاروں کے ساتھ بھیجا ہے۔ جو شخص اس وقت یہ خیال کرے وہ اسلام کا نادان دوست ہوگا۔ مذہب کی غرض دلوں کو فتح کرنا ہوتی ہے اور یہ غرض تلوار سے حاصل نہیں ہوتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تلوار اُٹھائی مَیں بہت مرتبہ ظاہر کر چکا ہوں کہ وہ تلوار محض حفاظت خود اختیاری اور دفاع کے طور پر تھی اور وہ بھی اس وقت جبکہ مخالفین اور منکرین کے مظالم حد سے گزر گئے اور بیکس مسلمانوں کے خون سے زمین سُرخ ہو چکی۔
غرض میرے آنے کی غرض تو یہ ہے کہ اسلام کا غلبہ دوسرے ادیان پر ہو۔
دوسرا کام یہ ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور یہ کرتے ہیں اور وہ کرتے ہیں یہ صرف زبانوں پر حساب ہے۔ اس کیلئے ضرورت ہے کہ وہ کیفیت انسان کے اندر پیدا ہو جاوے جو اسلام کا مغز اور اصل ہے۔ مَیں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سارنگ پیدا نہ ہو وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں۔ اب جو کچھ ہے وہ دنیا ہی کیلئے ہے اور اس قدر استغراق دنیا میں ہورہا ہے کہ خداتعالیٰ کیلئے کوئی خانہ خالی نہیں رہنے دیا۔ تجارت ہے تو دنیا کیلئے۔ عمارت ہے تو دنیا کیلئے۔ بلکہ نماز روزہ اگر ہے تو وہ بھی دنیا کیلئے۔ دنیاداروں کے قرب کیلئے تو سب کچھ کیا جاتا ہے مگر دین کا پاس ذرہ بھی نہیں۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ کیا اسلام کے اعتراف اور قبولیت کا اتنا ہی منشاء تھا جو سمجھ لیا گیا ہے یا وہ بلند غرض ہے؟ مَیں تویہ جانتا ہوں کہ مومن پاک کیا جاتا ہے اور اس میں فرشتوں کا رنگ ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کا قرب بڑھتا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا کلام سنتا اور اُس سے تسلّی پاتا ہے۔
اب تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے دل میں سوچ لے کہ کیا یہ مقام اُسے حاصل ہے؟ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم صرف پوست اور چھلکے پر قانع ہوگئے ہو حالانکہ یہ کچھ چیز نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ مغز چاہتا ہے۔ پس جیسے میرا یہ کام ہے کہ اُن حملوں کو رو کا جاوے جو بیرونی طور پر اسلام پر ہوتے ہیں ویسے ہی مسلمانوں میں اسلام کی حقیقت اور رُوح پیدا کی جاوے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں میں جو خدا تعالیٰ کی بجائے دنیا کے بُت کو عظمت دی گئی ہے اُس کی امانی اور امیدوں کو رکھا گیا ہے۔ مقدمات صلح جو کچھ ہے وہ دنیا کیلئے ہے۔ اس بُت کو پاش پاش کیا جاوے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت ان کے دلوں میں قائم ہو اور ایمان کا شجر تازہ بتازہ پھل دے۔
(لیکچر لدھیانہ بحوالہ روحانی خزائن جلد20 صفحہ نمبر 293-295)
حضرت مسیحِ موعود علیہ السّلام کے دل میں جس قدرخدمت اسلام کی تڑپ تھی اور جس طرح یہ لگن آپ کولگی ہوئی تھی اُس کی حدّ وبست کااندازہ کرنا انسانی عقل وفہم کےبس میں نہیں۔خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام بباعث اپنی طبیعت میں فطرتی عاجزی اورانکساری کے بے پناہ جذبات واحساسات کے اظہارمیں حددرجہ اخفاء اوراِحتیاط سے کام لیتے تھے۔لیکن یہ جذبہ خدمت اسلام توآپؑ کے رگ وریشہ میں اس گہرائی تک سرایت کرچکا تھاکہ وہ آپ کے حرف حرف اورزندگی کی ہرادا سے چھلک چھلک پڑتاتھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ
’’میں اُس مولیٰ کریم کااس وجہ سے بھی شکرکرتا ہوں کہ اس نے ایمانی جوش اسلام کی اِشاعت میں مجھ کواس قدر بخشا ہے کہ اگراِس راہ میں مجھے اپنی جان بھی فدا کرنی پڑے تومیرے پریہ کام بفضلہ تعالیٰ کچھ بھاری نہیں۔۔۔۔اُسی کے فضل سے مجھ کویہ عاشقانہ رُوح ملی ہے کہ دُکھ اُٹھا کربھی اُس کے دین کے لئے خدمت بجا لاؤں اور اسلامی مہمات کوبشوق وصدق تمام تر انجام دوں۔اس کام پراس نے مجھے آپ مامورکیا ہے اب کسی کے کہنے سے میں رک نہیں سکتا۔۔۔ اورچاہتا ہوں کہ میری ساری زندگی اسی خدمت میں صرف ہو اوردرحقیقت خوش اورمبارک زندگی وہی زندگی ہے جو الہٰی دین کی خدمت اور اشاعت میں بسرہو۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ35-36)
مسیح اور مہدی کی حیثیت
’’عیسیٰ مسیح ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو وحشیانہ حملوں اور خونریزیوں سے روک دوں جیسا کہ حدیثوں میں صریح طور سے وارد ہو چکا ہے کہ جب مسیح دوبارہ دنیا میں آئے گا تو تمام دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا۔ سو ایسا ہی ہوتا جاتا ہے۔۔۔ اور محمد مہدی ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کےساتھ خدائی توحید کو دنیا میں دوبارہ قائم کروں کیونکہ ہمارے سیّدو مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے محض آسمانی نشان دکھلا کر خدائی عظمت اور طاقت اور قدرت عرب کے بُت پرستوں کے دلوں میں قائم کی تھی۔ سو ایسا ہی مجھے رُوح القدس سے مدد دی گئی ہے۔
(ضمیمہ رسالہ جہاد ملحقہ گورنمنٹ انگریزی اورجہاد بحوالہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ نمبر 28۔29)
’’مسیح موعود کے وجود کی علّتِ غائی احادیث نبویہ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عیسائی قوم کے دجل کو دُور کرے گا اور ان کے صلیبی خیالات کو پاش پاش کر کے دکھلا دے گا۔ چنانچہ یہ امر میرے ہاتھ پر خداتعالیٰ نے ایسا انجام دیا کہ عیسائی مذہب کے اصول کا خاتمہ کر دیا۔‘‘
(کتاب البریہ حاشیہ بحوالہ روحانی خزائن جلد13 صفحہ نمبر262)
’’اب اتمام حجت کے لئے میں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ اسی کے موافق جو ابھی میں نے ذکر کیا ہے خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راست بازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے کہ تا وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور اباحت اور شرک اور دہریّت کے لباس میں اس الٰہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔سو اے حق کے طالبو! سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ وقت وہی وقت نہیں ہے جس میں اسلام کے لئے آسمانی مدد کی ضرورت تھی کیا ابھی تک تم پر یہ ثابت نہیں ہوا کہ گذشتہ صدی میں جو تیرھویں صدی تھی کیا کیا صدمات اسلام پر پہنچ گئے اور ضلالت کے پھیلنے سے کیا کیا ناقابل برداشت زخم ہمیں اٹھانے پڑے۔ کیا ابھی تک تم نے معلوم نہیں کیا کہ کن کن آفات نے اسلام کو گھیرا ہوا ہے۔ کیا اس وقت تم کو یہ خبر نہیں ملی کہ کس قدر لوگ اسلام سے نکل گئے کس قدر عیسائیوں میں جا ملے کس قدر دہریہ اور طبعیہ ہوگئے اور کس قدر شرک اور بدعت نے توحید اور سنت کی جگہ لے لی اور کس قدر اسلام کے رد ّکے لئے کتابیں لکھی گئیں اور دنیا میں شائع کی گئیں سو تم اب سوچ کر کہو کہ کیا اب ضرور نہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس صدی پر کوئی ایسا شخص بھیجا جاتا جو بیرونی حملوں کا مقابلہ کرتا اگر ضرور تھا تو تم دانستہ الٰہی نعمت کو ردّ مت کرو اور اس شخص سے منحرف مت ہو جاؤ جس کاآنا اس صدی پر اس صدی کے مناسب حال ضروری تھا اور جس کی ابتدا سے نبی کریم نے خبر دی تھی اور اہل اللہ نے اپنے الہامات اور مکاشفات سے اس کی نسبت لکھا تھا ذرہ نظر اٹھا کر دیکھو کہ اسلام کو کس درجہ پر بلائوں نے مجبور کر لیا ہے اور کیسے چاروں طرف سے اسلام پر مخالفوں کے تیرچھوٹ رہے ہیں اور کیسے کروڑہا نفسوں پر اس زہر نے اثر کردیا ہے یہ علمی طوفان یہ عقلی طوفان یہ فلسفی طوفان یہ مکر اور منصوبوں کا طوفان یہ فسق اور فجور کا طوفان یہ لالچ اور طمع دینے کا طوفان یہ اباحت اور دہریت کا طوفان یہ شرک اور بدعت کا طوفان جو ہے ان سب طوفانوں کو ذرہ آنکھیں کھول کر دیکھو اور اگر طاقت ہے تو ان مجموعہ طوفانات کی کوئی پہلے زمانہ میں نظیر بیان کرو اور ایمانًا کہو کہ حضرت آدم سے لے کر تا ایندم اس کی کوئی نظیر بھی ہے اور اگر نظیرنہیں تو خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور حدیثوں کے وہ معنے کرو جو ہوسکتے ہیں واقعات موجودہ کو نظر انداز مت کرو تاتم پر کھل جائے کہ یہ تمام ضلالت وہی سخت دجّالیت ہے جس سے ہریک نبی ڈراتا آیا ہے جس کی بنیاد اس دنیا میں عیسائی مذہب اور عیسائی قوم نے ڈالی جس کے لئے ضرور تھا کہ مجدّد وقت مسیح کے نام پر آوے کیونکہ بنیاد فساد مسیح کی ہی امت ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام بحوالہ روحانی خزائن جلد5 صفحہ251-254)
’’یہ عاجز تو محض اِس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا وے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ ہے۔‘‘
(حجۃ الاسلام بحوالہ روحانی خزائن جلد6 صفحہ نمبر 52۔53)
’’مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اُس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اس کو خدا تعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں۔ زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ حضرت مسیح نے اِسی حالت میں یہود کو پایا تھا اور جیسا کہ ضعف ایمان کا خاصہ ہے یہود کی اخلاقی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور خدا کی محبت ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اب میرے زمانہ میں بھی یہی حالت ہے۔ سو میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کازمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔ سو یہی افعال میرے وجود کی علّت غائی ہیں۔ مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین کے نزدیک ہو گا بعد اس کے کہ بہت دور ہو گیا تھا۔ سو میں ان ہی باتوں کا مجدّد ہوں اور یہی کام ہیں جن کے لئے مَیں بھیجا گیا ہوں اور منجملہ ان امور کے جو میرے مامور ہونے کی علّت غائی ہیں مسلمانوں کے ایمان کو قوی کرنا ہے اور ان کو خدا اور اس کی کتاب اور اس کے رسول کی نسبت ایک تازہ یقین بخشنا اور یہ طریق ایمان کی تقویت کا دو طور سے میرے ہاتھ سے ظہور میں آیا ہے۔ اوّل قرآن شریف کی تعلیم کی خوبیاں بیان کرنی اور اس کے اعجازی حقائق اور معارف اور انوار اور برکات کو ظاہر کرنے سے جن سے قرآن شریف کا منجانب اللہ ہونا ثابت ہوتا ہے چنانچہ میری کتابوں کو دیکھنے والے اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ وہ کتابیں قرآن شریف کے عجائب اسرار اور نکات سے پُر ہیں اور ہمیشہ یہ سلسلہ جاری ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جس قدر مسلمانوں کاعلم قرآن شریف کی نسبت ترقی کرے گا اسی قدر ان کا ایمان بھی ترقی پذیر ہو گا اور دوسرا طریق جو مسلمانوں کا ایمان قوی کرنے کے لئے مجھے عطا کیا گیا ہے تائیدات سماوی اور دعاؤں کا قبول ہونا اور نشانوں کا ظاہر ہونا ہے۔ چنانچہ اب تک جو نشان ظاہر ہوچکے ہیں وہ اس کثرت سے ہیں جن کے قبول کرنے سے کسی منصف کو گریز کی جگہ نہیں۔ ایک وہ زمانہ تھا جو نادان عیسائی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور پیشگوئیوں سے انکار کرتے تھے اور آج وہ زمانہ ہے جو تمام پادری ہمارے سامنے کھڑے نہیںہو سکتے۔ آسمان سے نشان ظاہر ہو رہے ہیں پیشگوئیاں ظہور میں آرہی ہیں اور خوارق لوگوں کوحیرت میں ڈال رہے ہیں۔ پس کیا ہی وہ انسان نیک قسمت ہے کہ اب ان انوار اور برکات سے فائدہ اٹھائے اور ٹھوکر نہ کھائے۔‘‘
(کتاب البریہ حاشیہ بحوالہ روحانی خزائن جلد13 صفحہ نمبر291 – 298)
’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کیلئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو۔ مگر نرمی اور اخلاق اور دُعاؤں پر زور دینے سے۔‘‘
(رسالہ الوصیت، بحوالہ روحانی خزائن جلد20 صفحہ306-307)
خدمت اسلام کے لئے زندگی وقف کرنا
اس بابت جس قدر جوش آپؑ میں پایاجاتا تھا۔ ذرا اس کااندازہ لگائیے۔فرمایا:
’’اس وقف کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہے کہ اگرمجھے کہہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں ہے بلکہ تکلیف اور دُکھ ہوگا تب بھی میں اسلا م کی خدمت سے رک نہیں سکتا۔‘‘
(ملفوظات جلد2 صفحہ100)
پھر اِسی تسلسل میں اپنے جذبات کااظہار اس طرح فرماتے ہیں۔
’’میں خود اس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اورلذّت سے حظّ اٹھایا ہے۔ یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کرنے کے لئے اگرمرکرپھرزندہ ہوں اور پھرمروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذّت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے۔‘‘
(ملفوظات جلد2 صفحہ99-100)
جذبۂ خدمت اسلام کے بارہ میں گواہیاں
حضرت مسیحِ پاک علیہ السّلام کے ایک بزرگ صحابی حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی روایت کرتے ہیں کہ ایک موقعہ پر آپؑ نے فرمایا کہ:
’’میرا تو خیال ہے کہ پاخانہ پیشاب پر بھی مجھے افسوس آتا ہے کہ اتنا وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جائے۔۔۔۔کوئی مشغولی اور تصرّف جو دینی کاموں میں حارج ہو اور وقت کا کوئی حصہ لے، مجھے سخت ناگوارگزرتا ہے۔۔۔۔جب کوئی دینی ضروری کام آپڑے تو میں اپنے اوپر کھانا پینا اور سونا حرام کرلیتا ہوں، جب تک کہ وہ کام نہ ہوجائے۔۔۔۔ہم دین کے لئے ہیں اور دین کی خاطر زندگی بسر کرتے ہیں۔ بس دین کی راہ میں ہمیں کوئی روک نہ ہونی چاہیئے۔‘‘
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السّلام از مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی صفحہ28)
حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے ایک اور بزرگ صحابی حضرت یعقوب علی صاحبؓ عرفانی اپنا لمبا اور قریبی مشاہدہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ فرمایا
’’حضرت مسیحِ موعود علیہ السّلام کی فطرت میں تبلیغ اسلام کاجوش اس قدرتھاکہ بعض اوقات مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ اس جوش سے میرادماغ پھٹ جائے۔‘‘
(حیاتِ احمداز یعقوب علی عرفانیؓ :جلداوّل حصہ دوم صفحہ 150)
حضرت منشی ظفر احمدؓ صاحب کپورتھلوی روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیحِ پاک علیہ السّلام نے ایک موقعہ پر فرمایا:
’’میرے دماغ میں اسلام کی حالت اور عیسائیوں کے حملوں کودیکھ دیکھ کر اس قدر جوش اُٹھتا ہے کہ بعض وقت مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ دماغ پھٹ نہ جائے۔‘‘
(الحکم7-14؍فروری 1923ءصفحہ8)
حضرت مسیح موعود ؑکی ایک بہت بڑی دلی تمنّا
حضور علیہ السلام کی ایک بہت بڑی دلی تمنا یہ تھی کہ ساری دنیامیں اسلام کا بول بالا اورغلبہ ہو۔یہ سوچ اور فکر آپؑ کو ہمیشہ دامن گیررہتی۔آپ کے اس بے تاب جذبے کااندازہ ایک دلچسپ روایت سے ہوتا ہے جوحضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ کی بیان کردہ ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ:
’’ایک دفعہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے پاس کمرہ میں بیٹھے تھے۔حضورؑ ایک کتاب کی تصنیف میں مصروف تھے۔ دروازے پرکسی شخص نے خوب زوردار دستک دی۔ آپؑ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ جاکرمعلوم کروں کہ کون ہےاورکس غرض سے آیا ہے؟میں نے دروازہ کھولا تودستک دینے والے نے بتایا کہ مولوی سیّد محمد احسن صاحب امروہوی نے بھجوایا ہے کہ حضورؑ کی خدمت میں یہ خوشخبری عرض کی جائے کہ آج فلاں شہرمیں اُن کاایک غیراحمدی مولوی سے مناظرہ ہوا اور انہوں نے اُس کوشکستِ فاش دی۔اس کوبہت رگیدااوروہ مولوی بالکل لاجواب ہوگیا۔حضرت مفتی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے یہ سارا پیغام مِن وعَن حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا توحضور سُن کرمسکرائے اورفرمایاکہ ان کے اس طرح زوردار دروازہ کھٹکھٹانے اورفتح کااعلان کرنے سے میں یہ سمجھا تھا کہ شائد وہ یہ خبرلائے ہیں کہ یورپ مسلمان ہو گیا!‘‘
(سیرت المہدی جلد1 صفحہ289-290)
اپنی گزارشات کا اختتام حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی دلی تمنا پر کرتا ہوں، آپ کس درد سے فرماتے ہیں۔
’’ہمارے اختیار میں ہوتوہم فقیروں کی طرح گھربہ گھرپھرکرخداتعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اوراس ہلاک کرنے والے شرک اورکُفرسے جودنیامیں پھیلا ہوا ہے،لوگوں کوبچالیں۔اگرخداتعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھادے توہم خود پھرکر اوردورہ کرکے تبلیغ کریں اوراسی تبلیغ میں اپنی زندگی ختم کردیں خواہ مارے ہی جائیں۔
(ملفوظات جلد3 صفحہ292-292)
یہی وہ درد وکرب تھاجوراتوں کوبھی آپؑ کوبے قرار رکھتا تھا اورآپؑ اسلام کی فتح اورغلبے کے لئے ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپتے تھے اورخدائے قادروقیوم کے آستانے پراپنی بے تاب دعاوٴں کے ساتھ جھک جاتے اورعرض کرتے۔
؎ دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعف دینِ مصطفی
مجھ کوکراے میرے سلطاں کامیاب و کامگار
اے میرے پیارے مجھے اس سیلِ غم سے کر رہا
ورنہ ہوجائے گی جاں اس درد سے تجھ پرنثار
نیز عرض کرتے ہیں:
اس دیں کی شان وشوکت یاربّ مجھے دکھا دے
سب جھوٹے دیں مٹا دے میری دُعا یہی ہے
(رحمت اللہ بندیشہ۔مربی سلسلہ واستاذ جامعہ احمدیہ جرمنی)