حضرت مسیح موعودؑ کے عشق قرآن کا ایک پہلو
قرآں کے گرد گھوموں
مرزا صاحب تمام اوقات عبادت میں گزارتے ہیں یا تلاوت میں (حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف)
رمضان کے حوالہ سے ایک تحریر
حفاظ کی بستی
حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ قرآن کریم کے انوار اور برکات اور معارف و علوم کا احیاء مقدر تھا اس لئے وہ مقام قادیان جسے مرکز توحید بنانا تھا خدا کی خاص تقدیر نے اسے قرآن کریم سے خاص نسبت عطا فرمائی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے بزرگوں کے دلوں میں قرآن کی غیرمعمولی محبت ڈال دی تھی۔
حضور کے جدامجد حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب 280 افراد پر مشتمل قافلہ لے کر عہد بابری کے دوران 1530ء میں وسط ایشیا کے علاقہ سمرقند سے ہجرت کرکے برصغیر میں داخل ہوئے اور ایک جنگل کو آباد کرکے اس کا نام اسلام پور رکھا جو اسلام پور قاضی ماجھی سے ہوتا ہوا قادیان بن گیا۔ وہ گویا ایک باغ تھا جس میں حامیان اسلام اور جوانمرد آدمیوں کے صدہا پودے پائے جاتے تھے۔ حضور کے پردادا مرزا گل محمد صاحب خوارق اور کرامات تھے۔ قادیان کی خود مختار ریاست قریباً پونے دو سو سال قائم رہی اور اس میں قرآن مجید کا غیرمعمولی چرچا رہا جہاں کسی زمانہ میں سو سو حفاظ قرآن اور علماء و صلحاء ہر وقت موجود رہتے تھے مگر افسوس کہ جب سکھ اس عدیم النظیر خطہ پر قابض ہو گئے۔ عالی شان مسجدیں یا تو مسمار کر دی گئیں یا دھرم سالہ میں بدل دی گئیں۔ قادیان کا مرکزی اسلامی کتب خانہ جس میں قرآن شریف کے 500 قلمی نسخے تھے نہایت بے ادبی سے جلا دیا گیا اور اسلامی یادگاروں کے بہت سے آثار تک معدوم کر دیئے گئے۔
(منقول از کتاب البریہ روحانی خزائن جلد13 ص162 175-)
مگر یہی وہ دبی ہوئی چنگاری تھی جس سے قرآن کے شعلہ جوالہ نے جنم لینا تھا۔ جو خدا اور رسول کریمﷺ کی محبت سے سرشار تھا اور اسی کے طفیل قرآن سے وہ بے پناہ عشق کیا جس کی کوئی نظیر گزشتہ صدیوں میں نہیں پائی جاتی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کا مشہور شعر ہے۔
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
اس شعر کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں۔
یعنی قرآن کی خوبیاں تو ظاہر و عیاں ہیں مگر اس کے ساتھ میری محبت کی اصل بنیاد اس بات پر ہے کہ اے میرے آسمانی آقا! وہ تیری طرف سے آیا ہوا مقدس صحیفہ ہے جسے بار بار چومنے اور اس کے اردگرد طواف کرنے کے لئے میرا دل بے چین رہتا ہے۔
(سیرت طیبہ صفحہ16)
میں بھی ایک عاشق ہوں
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
خداتعالیٰ نے جو کچھ اپنی خوبیوں کا قرآن شریف میں ذکر کیا ہے وہ تمام حسن اور محبوبانہ اخلاق کے بیان میں ہے اور اس کے پڑھنے سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ وہ پڑھنے والے کو خدا کا عاشق بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس نے ہزارہا عاشق بنائے اور میں بھی ان میں سے ایک ناچیز بندہ ہوں
(ضمیمہ چشمہ معرفت صفحہ64 اشاعت 15؍مئی 1908ء)
میری دستاویز
حضرت مسیح موعودؑ 2؍اکتوبر 1891ء کو دہلی کے بازار بلیماراں کوٹھی نواب لوہارو میں قیام فرما تھے اس روز آپ نے ایک اشتہار عام دیا جس میں تحریر فرمایا:
وہی رسول کریم میرا مقتدا ہے جو تمہارا مقتدا ہے اور وہی قرآن شریف میرا ہادی ہے اور میرا پیارا اور میری دستاویز ہے۔
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ231-232)
حضرت مسیح موعودؑ کا یہ عشق محض محبوبانہ نہیں تھا کہ صرف قرآن شریف کو دیکھ کر اس کے حسن کے گھائل ہو گئے بلکہ عارفانہ تھا کہ ایک وسیع و عریض مطالعہ کے بعد آپ کے دل نے اس کی عظمتوں کی گواہی دی۔
وسیع مطالعہ کے بعد گواہی
امام الزمان امام عالی مقام حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی مبارک زندگی کے آخری لمحہ تک ڈنکے کی چوٹ پر اس صداقت کی دنیا بھر میں منادی فرمائی کہ
’’میرا بڑا حصہ عمر کا مختلف قوموں کی کتابوں کے دیکھنے میں گزارا ہے مگر میں سچ مچ کہتا ہوں کہ میں نے کسی دوسرے مذہب کی تعلیم کو خواہ اس کا عقائد کا حصہ اور خواہ اخلاقی حصہ اور خواہ تدبیر منزلی اور سیاست مدنی کا حصہ اور خواہ اعمال صالحہ کی تقسیم کا حصہ ہو۔ قرآن شریف کے بیان کے ہم پہلو نہیں پایا۔‘‘
(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد23 صفحہ62 طبع اول)
اس مضمون میں حضرت مسیح موعودؑ کے عشق قرآن کے بیشمار پہلوؤں میں صرف ایک یعنی تلاوت قرآن اور تدبر قرآن سے متعلق چند سچی گواہیاں پیش کرنی مقصود ہیں۔
آپ کا خمیر محبت قرآن سے اٹھایا گیا تھا اس لئے آپ بچپن ہی سے دن رات قرآن شریف پڑھتے اس پر تدبر کرتے اور اس کے حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے۔ آپ کے خادم مرزا سماعیل بیگ صاحب کی روایت ہے کہ کبھی حضور کے والد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مجھے بلاتے اور دریافت کرتے کہ سنا تیرا مرزا کیا کرتا ہے میں کہتا تھا کہ قرآن دیکھتے ہیں۔ اس پر وہ کہتے کہ کبھی سانس بھی لیتا ہے۔ پھر یہ پوچھتے کہ رات کو سوتا بھی ہے؟ میں جواب دیتا کہ ہاں سوتے بھی ہیں اور اٹھ کر نماز بھی پڑھتے ہیں۔ اس پر مرزا صاحب کہتے کہ اس نے سارے تعلقات چھوڑ دیئے ہیں۔ میں اوروں سے کام لیتا ہوں۔ دوسرا بھائی کیسا لائق ہے مگر وہ معذور ہے۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد1 صفحہ65)
صبح کی تلاوت
حضرت مرزا دین محمد صاحب لنگروال فرماتے ہیں: میں اپنے بچپن سے حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھتا آیا ہوں اور سب سے پہلے میں نے آپ کو مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی زندگی میں دیکھا تھا۔ جبکہ میں بالکل بچہ تھا آپ کی عادت تھی کہ رات کو عشاء کے بعد جلد سو جاتے تھے اور پھر ایک بجے کے قریب تہجد کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور تہجد پڑھ کر قرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہتے تھے۔ پھر جب صبح کی اذان ہوتی تو سنتیں گھر میں پڑھ کر نماز کے لئے مسجد میں جاتے۔
(سیرت المہدی جلد3 صفحہ20)
پھر فرماتے ہیں:
آپ مسجد میں فرض نماز ادا کرتے۔ سنتیں اور نوافل مکان پر ہی ادا کرتے تھے عشاء کی نماز کے بعد آپ سو جاتے تھے اور نصف رات کے بعد آپ جاگ پڑتے اور نفل ادا کرتے۔ اس کے بعد قرآن مجید پڑھنا۔ مٹی کا دیا آپ جلاتے تھے۔ تلاوت فجر کی اذان تک کرتے۔
(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ121)
آپ کے بچپن کے ساتھی لالہ ملاوامل کی گواہی ہے۔آپ کو قرآن سے بھی خاص عشق تھا۔ آپ ہمیشہ رات کو دو تین بجے کے قریب اٹھتے اور نماز شروع کر دیتے بہت اطمینان سے نما زپڑھ کر پھر قرآن شریف پڑھتے۔ پھر صبح کی نما زپڑھتے۔ اس کے بعد تھوڑی دیر سو جاتے۔ اس سونے کو آپ نوری ٹھونکا کہتے۔ اس کے بعد سیر کو جاتے اور سیر میں بھی دینی باتوں میں مصروف رہتے۔
(الفضل 24؍دسمبر 1935ء صفحہ5)
حضرت حکیم محمد زاہد صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ شور کوٹ بیان کرتے ہیں: حضرت مسیح موعودؑ کا آخری تین چار سالوں کے علاوہ پہلے یہ معمول تھا کہ صبح کی نمازمسجد مبارک قادیان میں ادا فرما کر حضور گھر میں آتے ہی تلاوت قرآن کریم فرمانا شروع کر دیتے۔ گو تلاوت جلدی جلدی فرماتے لیکن ہر لفظ نہایت صفائی سے سمجھ آتا تھا اور حضور عموماً ٹہل کر تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ عموماً ایک سپارہ روزانہ تلاوت فرماتے تھے کبھی کبھی ایک منزل قرآن کی بھی تلاوت فرما لیا کرتے تھے (قرآن کریم کو سات حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصہ کو منزل کہتے ہیں) خاکسار کا معمول تھا کہ جونہی حضور تلاوت کے لئے قرآن لیتے تو خاکسار بھی قرآن لے کر بیٹھ جاتا اور حضور کی تلاوت کے ساتھ ساتھ تلاوت کرتا جاتا اور اس طرح جو میری تلاوت میں غلطیاں پائی جاتیں ان کو اس وقت درست کرلیتا۔ تلاوت کے بعد حضور سیر کے لئے باہر تشریف لے آتے۔
(ماہنامہ انصاراللہ اکتوبر 1974ء صفحہ30)
حضرت ام المؤمنین بیان کرتی ہیں: ’’حضرت مسیح موعودؑ جب کبھی مغرب کی نماز گھر میں پڑھاتے تھے تو اکثر سورہ یوسف کی وہ آیات پڑھتے تھے جس میں یہ الفاظ آتے ہیں۔ انما اشکوبثی وحزنی الی اللّٰہ۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی آواز میں بہت سوز اور درد تھا اور آپ کی قراءت لہر دار ہوتی تھی۔
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ68)
حضرت مولوی رحیم بخش صاحب صحابی حضرت مسیح موعودؑ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ میں قادیان میں آیا۔ حضور جس کمرے میں تشریف رکھتے تھے۔ خاکسار اس کمرے کے باہر سویا ہوا تھا۔ رات کو عاجز کی آنکھ کھلی تو کیا سنتا ہوں کہ حضور چلا چلا کر قرآن شریف کی تلاوت فرمارہے ہیں۔ جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب سے عشق کا اظہار کرتا ہے۔ حضور کے عشق کی کیفیت عاجز کے بیان سے باہر ہے۔
(الحکم 21؍جولائی 1934ء صفحہ4)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ تحریر فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعودؑ کی تلاوت قرآنی کے واقعات عجیب و غریب ہیں اور ان کی متواتر شہادت ان لوگوں سے ملی ہے جنہوں نے بلاواسطہ آپ کو تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔ آپ کے کلام میں ایک درد، رقت اور محبت کی لہر ہوتی تھی، باوجودیکہ اس میں موسیقی کا رنگ نہ ہوتا تھا۔ مگر اس میں بے انتہا جذب اور کیف آور لہر ہوتی تھی۔ آپ کے قرآن مجید پڑھنے کے کئی طریق تھے۔ بعض اوقات آپ قرآن مجید کو اس نیت سے پڑھتے تھے جبکہ آپ کو کوئی مضمون لکھنا ہوتا تھا۔ اس کا رنگ بالکل الگ تھا۔ بعض اوقات قرآن مجید کی تلاوت اللہ تعالیٰ سے محبت و عشق کی کیفیت میں ایک ہنگامہ خیز کیف پیدا کرنے کے لئے کرتے تھے اور یہ علی العموم آپ رات کو فرماتے تھے جبکہ دنیا سوئی ہوتی تھی۔ اس وقت آپ گنگنا کر قرآن مجید پڑھتے اور آپ پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوتی تھی اور اس کیفیت کا ذکر آپ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے۔
دل میں ہے میرے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
(الحکم 21؍جولائی 1934ء صفحہ4)
نماز میں تلاوت
حضرت مصلح موعودؓ کی روایت ہے کہ: ’’حضرت مسیح موعودؑ جب بوجہ بیماری مسجد میں تشریف نہ لے جاسکتے تھے تو اکثر مغرب اور عشاء کی نماز گھر میں باجماعت ادا فرماتے اور عشاء کی نماز میں قریباً بلاناغہ سورہ یوسف کی یہ آیات تلاوت فرماتے مجھے خوب یاد ہے کہ بل سولت لکم سے لے کر ارحم الراحمین تک کی آیات آپ اس قدر دردناک لہجہ میں تلاوت فرماتے کہ دل بیتاب ہو جاتا ہے وہ آواز آج تک میرے کانوں میں گونجتی ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ356)
حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ فرمایا کرتے تھے کہ حضور نماز میں اھدناالصراط المستقیم کا بہت تکرار کرتے تھے اور سجدہ میں یاحی یا قیوم کا بہت تکرار کرتے۔ بار بار یہی الفاظ بولتے جیسے کوئی بڑے الحاح اور زاری سے کسی بڑے سے کوئی شے مانگے اور بار بار وتے ہوئے اپنی مطلوبہ چیز کو دہرائے۔ ایسا ہی حضرت صاحب کرتے۔ عموماً پہلی رکعت میں آیت الکرسی پڑھا کرتے تھے۔ سجدہ کو بہت لمبا کرتے اور بعض دفعہ ایسا معلوم ہوتا کہ اس گریہ و زاری میں آپ پگھل کر بہہ جائیں گے۔
(الفضل 3؍جنوری 1931ء)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیں: کہ 1895ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفاق ہو ا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اول شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کر کے آخر شب میں ادا فرماتے تھے جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے اور دوسری رکعت میں سورة اخلاص کی قراء ت فرماتے تھے اور رکوع اور سجود میں یا حی یا قیوم برحمتک استغیث اکثر پڑھتے تھے اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سن سکتا تھا۔ نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے۔
(سیر ت المہدی جلد2 صفحہ12)
عاشقانہ تلاوت
حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ بیان کرتے ہیں:
ایک مرتبہ میں قادیان میں آیا۔ حضور جس کمرے میں تشریف رکھتے تھے۔ خاکسار اس کمرے کے باہر سویا ہوا تھا۔ رات کو عاجز کی آنکھ کھلی تو کیا سنتا ہوں کہ حضور چلا چلا کر قرآن شریف کی تلاوت فرمارہے ہیں۔ جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب سے عشق کا اظہار کرتا ہے۔ حضور کے عشق کی کیفیت عاجز کے بیان سے باہر ہے۔
(الحکم 21؍جولائی 1934ء صفحہ4)
اخبار ’’الحکم‘‘ کے بانی حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی (بیعت 7؍فروری 1892ء وفات 5؍دسمبر 1957ء) کا بیان ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ (جب تنہائی میں قرآن کریم پڑھتے تو میں نے اسے سنا ہے) تو اس میں رقت و گداز کی لہریں پیدا ہوتی تھیں۔ حضرت اقدس کے رنگ میں میں نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو ترنم کرتے پایا ہے۔ غرض قرآن کریم کے پڑھتے یا سنتے وقت حضرت اقدس پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی تھی۔
(حیات امین صفحہ 12,11 مرتبہ قریشی عطاء الرحمن صاحب اعوان قادیان اشاعت 1953ء ہمدرد پریس کوچہ چیلان دہلی)
کثرت تلاوت
آپ کے بڑے فرزند حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی روایت ہے کہ: ’’آپ کے پاس ایک قرآن مجید تھا۔ اس کو پڑھتے اور اس پر نشان کرتے رہتے تھے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں بلامبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید دس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہو۔‘‘
(حیات طیبہ صفحہ13)
تلاوت کا طریق
حضرت مرزا شریف احمد صاحب فرماتے ہیں: مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ ایک بڑی تقطیع کے قرآن شریف پر تلاوت فرما رہے تھے۔ اونچی آواز سے پڑھ رہے تھے اور ہر لفظ پر انگلی رکھتے تھے۔ گویا قرآن شریف کی تلاوت سے جہاں زبان اس کو پڑھنے کی برکت حاصل کررہی ہے اور آنکھوں کو یہ ثواب ہے کہ وہ اسے دیکھ رہی ہیں اور کان اسے سننے کا اجرپارہے ہیں۔ وہاں انگلی اور ہاتھ بھی اس سعادت سے محروم نہ رہیں۔‘‘
(ذکر حبیب تقریر جلسہ سالانہ 1956ء صفحہ16-17)
قرآن پر تدبر
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں: ایک صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ پالکی میں بیٹھ کر قادیان سے بٹالہ تشریف لے جارہے تھے (اور یہ سفر پالکی کے ذریعہ قریباً پانچ گھنٹے کا تھا) حضرت مسیح موعودؑ نے قادیان سے نکلتے ہی اپنی حمائل شریف کھول لی اور سورہ فاتحہ کو پڑھنا شروع کیا اور برابر پانچ گھنٹے تک اسی سورة کو اس استغراق کے ساتھ پڑھتے رہے کہ گویا وہ ایک وسیع سمندر ہے جس کی گہرائیوں میں آپ اپنے ازلی محبوب کی محبت و رحمت کے موتیوں کی تلاش میں غوطے لگا رہیں۔
(سیرت طیبہ)
شمس العلماء جناب مولانا سید میر حسن صاحب (استاد علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال) حضرت مسیح موعودؑ کے قیام سیالکوٹ کے ذکر میں فرماتے ہیں:
حضرت مرزا صاحب پہلے محکمہ کشمیریاں میں جو اس عاصی پُرمعاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب ہے عمرانامی کشمیری کے مکان پر کرایہ پر رہا کرتے تھے۔ کچہری سے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے۔ بیٹھ کر، کھڑے ہو کر، ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار زار رویا کرتے تھے۔ ایسی خشوع اور خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔
(سیرة المہدی حصہ اول صفحہ270)
سیالکوٹ کے زمانہ قیام میں آپ کی رہائش کچھ عرصہ کشمیری محلہ میں میاں فضل دین صاحب کے چھوٹے بھائی عمرانامی کشمیری کے مکان پر رہی۔ میاں فضل دین صاحب کے عزیزوں میں سے کسی نے شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگرمل مصنف حیات طیبہ کو بتایا کہ حضرت صاحب کے متعلق مشہور ہے کہ آپ جب کچہری سے تشریف لاتے تھے تو دروازہ میں داخل ہونے کے بعد دروازہ کو پیچھے مڑ کر بند نہیں کرتے تھے تاکہ گلی میں اچانک کسی نامحرم عورت پر نظر نہ پڑے بلکہ دروازہ میں داخل ہوتے ہی دونوں ہاتھ پیچھے کرکے پہلے دروازہ بند کرلیتے تھے اور پھر پیچھے مڑ کر زنجیر لگایا کرتے تھے۔ گھر میں سوائے قرآن مجید پڑھنے اور نمازوں میں لمبے لمبے سجدے کرنے کے اور آپ کا کوئی کام نہ تھا۔ بعض آیات لکھ کر دیواروں پر لٹکا دیا کرتے تھے اور پھر ان پر غور کرتے رہتے تھے۔
(حیات طیبہ صفحہ20)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب آپ کے دعویٰ مسیح موعودؑ سے قبل کی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اور یہ ان کی تحقیق کا نچوڑ ہے۔
اس وقت آپ کے مشاغل بجز عبادت و ذکر الٰہی اور تلاوت قرآن مجید اور کچھ نہ تھے۔ آپ کو یہ عادت تھی کہ عموماً ٹہلتے رہتے اور پڑھتے رہتے۔ دوسرے لوگ جو حقائق سے ناواقف تھے وہ اکثر آپ کے اس شغل پر ہنسی کرتے۔ قرآن مجید کی تلاوت اس پر تدبر اور تفکر کی بہت عادت تھی۔ اس قدر تلاوت قرآن مجید کا شوق اور جوش ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو خداتعالیٰ کی اس مجید کتاب سے کس قدر محبت اور تعلق تھا اور آپ کو کلام الٰہی سے کیسی مناسبت اور دلچسپی تھی اور اس تلاوت اور پُرغور مطالعہ نے آپ کے اندر قرآن مجید کی صداقت اور عظمت کے اظہار کے لئے ایک جوش پیدا کردیا تھا اور خداتعالیٰ نے علوم قرآنی کا ایک بحر ناپیداکنار آپ کو بنا دیا تھا۔ جو علم کلام آپ کو دیا گیا۔ اس کی نظیر پہلوں میں نہیں ملتی۔ غرض ایک تو قرآن مجید کے ساتھ غایت درجہ کی محبت تھی اور اس کی عظمت اور صداقت کے اظہار کے لئے ایک رو بجلی کی طرح آپ کے اندر دوڑ رہی تھی۔
(حیات احمد صفحہ135-136)
مائی حیات بی بی صاحبہ بنت فضل دین صاحب کی روایت ہے کہ ’’آپ کی عادت تھی کہ جب کچہری سے واپس آتے تو پہلے میرے باپ کو بلاتے اور ان کو ساتھ لے کر مکان میں جاتے۔ مرزا صاحب کا زیادہ تر ہمارے والد صاحب کے ساتھ ہی اٹھنا بیٹھنا تھا۔ ان کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی پکتا تھا۔ میرے والد ہی مرزا صاحب کو کھانا پہنچایا کرتے تھے۔ مرزا صاحب اندر جاتے اور دروازہ بند کر لیتے اور اندر صحن میں جا کر قرآن پڑھتے رہتے۔ میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیںاور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں اور یہاں تک روتے ہیں کہ زمین تر ہو جاتی ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد3 صفحہ93)
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں:
اور لوگ تو کوئی مضمون لکھیں تو مختلف کتابیں دیکھتے اور ادھر ادھر سے اپنے مطلب کی باتیں اخذ کرکے مضمون لکھتے ہیں اور کبھی قرآن شریف کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ لیکن حضرت صاحب کو میں نے دیکھا ہے۔ مضمون لکھنا ہو یا کوئی کتاب تو اس سے قبل آپ بالضرور مقدم طور پر قرآن شریف کو پڑھتے اور اکثر دفعہ میں نے دیکھا کہ سارے کا سارا قرآن شریف پڑھتے اور خوب غور و خوض فرماتے پھر کچھ لکھتے گویا آپ کی ہر تحریر قرآن شریف پر مبنی ہوتی۔ جس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ لکھا۔ وہ قرآن ہی کے مطالب بیان کئے۔
اگرچہ سارے قرآن شریف کے ساتھ آپ کو تعلق تھا لیکن بالخصوص سورہ فاتحہ کے ساتھ آپ کو بہت تعلق تھا۔ کوئی مضمون ایسا نہیں جس میں آپ نے سورہ فاتحہ سے کچھ نہ کچھ استنباط اور استدلال کرکے پیش نہ کیا ہو۔ اعجاز المسیح نام ایک کتاب سورہ فاتحہ کی تفسیر میں عربی زبان میں لکھی۔ ایسا ہی براہین احمدیہ میں بھی ایک حصہ سورہ فاتحہ کی تفسیر پر صرف فرمایا اور اور جگہوں پر بھی بالخصوص اس کی تفسیر و مطالب کو بیان فرمایا۔
(الفضل 15؍جنوری 1926ء)
تفہیم قرآن کے لئے دعا
سیالکوٹ میں ملازمت کے دوران کا اکثر معمول تھا کہ آپ گھر سے باہر اپنے اوپر چادر لپٹیےرکھتے اور صرف اتنا حصہ چہرہ کا کھلا رکھتے جس سے راستہ نظر آئے۔ جب کچہری سے فارغ ہو کر واپس اپنی قیام گاہ پر تشریف لاتے تو دروازہ بند کر لیتے اور قرآن شریف کی تلاوت اور ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے۔ آپ کے اس طریق مبارک سے بعض متجسس طبیعتوں کو خیال پیدا ہوا کہ یہ ٹوہ لگانا چاہئے کہ آپ کواڑ بند کر کے کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک دن ’’سراغ رسان‘‘ گروہ نے آپ کی ’’خفیہ سازش‘‘ کو بھانپ لیا یعنی ’’انہوں نے بچشم خود دیکھا کہ آپ مصلٰی پر رونق افروز ہیں قرآن مجید ہاتھ میں ہے اور نہایت عاجزی اور رقت اور الحاح وزاری اور کرب وبلا سے دست بدعا ہیں کہ ’’یا اللہ تیرا کلام ہے مجھے تو تو ہی سمجھائے گا تو میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد1 صفحہ85)
تدریس قرآن
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ مجھے حضرت مولانا نورالدین صاحب سے قرآن پڑھنے اور ان کے درس میں بیٹھنے کی بہت تاکید فرماتے تھے۔ بلکہ خود بھی مجھے پڑھایا کرتے تھے اور قرآن شریف کے مطالب سمجھایا کرتے تھے۔ (تذکرة المہدی صفحہ174) دعویٰ سے پہلے قیام سیالکوٹ کے دوران آپ مرزا نظام الدین صاحب اور ایک ہندو وکیل بھیم سین کو قرآن پڑھاتے تھے اس نے تقریبا 14 پارے حضور سے پڑھے تھے(تذکرہ صفحہ 694) حضرت حکیم فضل دینؓ کی خواہش پر ان کو اور حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحبؓ کو بھی قرآن کا کچھ حصہ پڑھایا تھا۔
(سیرۃ المہدی روایت نمبر 653)
مستورات میں درس قرآن
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب (ولادت 1889ء بیعت 1903ء وفات 16؍ مئی 1967ء) سلسلہ احمدیہ کے ایک صاحب کشف و الہام اور عالی پایہ بزرگ تھے۔ قرآن کے عاشق اور حدیث رسول کے شیدائی۔ آپ حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
آپ کو اپنے مہمانوں کے احساسات کا اس قدر گہرا خیال تھا ہمارے والدین سے آپ کو بہت ہی محبت تھی۔ خصوصاً والدہ صاحبہ کے ساتھ اور آپ نے والدہ صاحبہ کو کبھی پاؤں دبانے کی اجازت نہیں دی اور اس قدر احترام تھا کہ والدہ صاحبہ کی خاطر قرآن مجید کا درس عورتوں میں جاری کیا اورپہلا درس آپ نے دیا۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ ؑ نے حضرت خلیفہ اول ؓ اور مولوی عبدالکریم صاحبؓ کو بلا کر کہا کہ والدہ عبدالرزاق رعیہ سے تشریف لائی ہیں اور مجھے ان کے متعلق بہت ہی خیال رہتا ہے میں چاہتا ہوں کہ ان کی خاطر عورتوں میں قرآن مجید کا درس جاری کیا جائے۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے درس دیتے ہوئے یوں تمہید باندھی اور کہا کہ میں سید عبدالستار صاحب کی اہلیہ کو مبارک دیتا ہوں کہ آپ کی خاطر اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کے دل میں تحریک ڈالی ہے اور عورتوں میں درس جاری کرنے کا انہیں سبب بنایا ہے۔ کاش کہ قادیان کی عورتیں اپنے اندر وہ خوبی رکھتیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کو ان کے متعلق یہ احساس پیدا ہوتا اور انہیں یہ عزت حاصل ہوتی جو ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ کو عزت حاصل ہوئی ہے۔
(الفضل 28؍جولائی 1938ء صفحہ4)
سماع قرآن
حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا چشم دید بیان ہے کہ: میں نے حضرت مسیح موعودؑ کو صرف ایک دفعہ روتے دیکھا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک دفعہ آپ اپنے خدام کے ساتھ سیر کے لئے جارہے تھے اور ان دنوں میں حاجی حبیب الرحمان صاحب حاجی پورہ والوں کے داماد قادیان آئے ہوئے تھے کہ کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں۔ حضرت صاحب وہیں راستے کے ایک طرف بیٹھ گئے۔ چنانچہ انہوں نے قرآن شریف پڑھ کر سنایا۔تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔
(ذکر حبیب صفحہ323-324 از حضرت مفتی محمد صادق صاحب ناشر مینیجر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان دارالامان طبع اول دسمبر 1936ء)
مکرم شیخ عبدالرحمن صاحب نے اس واقعہ کی مزید وضاحت فرمائی ہے کہ حضور کو قراء ت بہت پسند آئی اور وہیں حضور نے فرمایا کہ روزانہ بعد نماز عشاء ہمیں قرآن مجید سنایا کریں۔ قریباً ایک ماہ وہ حضور کو قرآن مجید سناتے رہے۔
(اصحاب جلد دہم حاشیہ صفحہ206-207)
جب حضرت حافظ معین الدین صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کی عزت ملی اس وقت ان کی عمر چودہ پندرہ برس کی تھی۔ حافظ صاحب نہایت سقیم حالت میں تھے۔حضرت مسیح موعودؑ نے ان کو اس حالت میں دیکھا اور اپنے ساتھ بلا کر لے گئے اور کھانا کھلایا اور پھر کہا کہ حافظ تو میرے پاس رہا کر۔ حافظ صاحب کے لئے یہ دعوت غیر متوقع تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کا خاندان چونکہ نہایت ممتاز اور پُرشوکت خاندان تھا اور کسی کو ان کے سامنے کلام کرنے کی جرأت بھی نہ ہوتی تھی حافظ صاحب حضرت مسیح موعودؑ کی اس مہربانی اور شفقت کو دیکھ کر حیران ہو گئے اور بڑی شکر گزاری سے آپ کی خدمت میں رہنے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ حافظ صاحب نے سمجھا کہ شایدمجھے کوئی کام کرنا پڑے۔ اس نے کہاکہ مرزا جی! (اس وقت ایسا ہی طریق خطاب تھا) مجھ سے کوئی کام تو ہو نہیں سکے گا۔ کیونکہ میں معذور ہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ حافظ! کام تم نے کیا کرنا ہے۔ اکٹھے نماز پڑھ لیا کریں گے اور تو قرآن شریف یاد کیا کر۔
(اصحاب جلد13 صفحہ287)
ایک منفرد تفسیر کی خواہش
حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں:
ایک دفعہ مجھے بعض محقق اور حاذق طبیبوں کی بعض کتابیں کشفی رنگ میں دکھلائی گئیں جو طب جسمانی کے قواعد کلیہ اور اصول علمیہ اور ستہ ضروریہ وغیرہ کی بحث پر مشتمل اور متضمن تھیں جن میں طبیب حاذق قرشی کی کتاب بھی تھی اور اشارہ کیا گیا کہ یہی تفسیر قرآن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم الابدان اور علم الادیان میں نہایت گہرے اور عمیق تعلقات ہیں اور ایک دوسرے کے مصدق ہیں اور جب میں نے ان کتابوں کو پیش نظر رکھ کر جو طب جسمانی کی کتابیں تھیں قرآن شریف پر نظر ڈالی تو وہ عمیق درعمیق طب جسمانی کے قواعد کلیہ کی باتیں نہایت بلیغ پیرایہ میں قرآن شریف میں موجود پائیں اور اگر خدا نے چاہا اور زندگی نے وفا کی تو میرا ارادہ ہے کہ قرآن شریف کی ایک تفسیر لکھ کر اس جسمانی اور روحانی تطابق کو دکھلاؤں۔
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ103)
عاشقان قرآن کا اعتراف
حضور کی تمام کتب ہی نور قرآن سے بھرپور ہیں مگر ان میں براہین احمدیہ کا ایک خاص مقام ہے۔1880ء میں آپ نے قرآن مجید کی حقانیت کے ثبوت میں براہین احمدیہ جیسی معرکة الآراء کتاب شائع فرمائی جس نے کتاب اللہ کے دشمنوں کو ساکت و لاجواب کرکے انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ مولانا محمد شریف صاحب ایڈیٹر منشور محمدی (بنگلور) نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
کتاب براہین احمدیہ ثبوت قرآن و نبوت میں ایک ایسی بے نظیر کتاب ہے جس کا کوئی ثانی نہیں مصنف نے صداقت اسلام کو ایسی کوششوں اور دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ ہر منصف مزاج یہی سمجھے گا کہ قرآن کتاب اللہ اور نبوت آخرالزماں حق ہے۔
(منشور محمدی 25؍رجب 1300ھ صفحہ214-217)
حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف کی گواہی
حضرت مرزا صاحب تمام اوقات خدائے عزوجل کی عبادت میں گزارتے ہیں یا نماز پڑھتے ہیں یا قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں یا دوسرے ایسے ہی دینی کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور دین اسلام کی حمایت پر اس طرح کمرہمت باندھی ہے کہ ملکہ زماں لندن کو بھی دین محمدی … قبول کرنے کی دعوت دی ہے اور روس اور فرانس اور دیگر ملکوں کے بادشاہوں کو بھی اسلام کا پیغام بھیجا ہے اور ان کی تمام تر سعی و کوشش اس بات میں ہے کہ وہ لوگ عقیدہ تثلیث و صلیب کو جو کہ سراسر کفر ہے چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید اختیار کرلیں۔
(اشارات فریدی جلد3 صفحہ69)
(عبدالسمیع خان۔ استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)