• 27 اپریل, 2024

نافِ زمین

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سورۃ الانعام آیت 93 میں ’’اُم القریٰ‘‘ کی تفسیر میں foot note میں تحریر فرماتے ہیں:
’’لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی۔ یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے۔ جب آنحضرت ﷺ مشرکین عرب اور یہود سے مایوس ہوئے تو اللہ نے بشارت دی کہ تجھ پر ایسے لوگ ایمان لائیں گے جو کبھی انکار ہی نہ کریں گے۔ عرب ، روم، ایران، افغانستان، بلوچستان، ہندوستان، چین، تبت، ترکستان، روس وغیرہ ملکوں میں ہزاروں قومیں مسلمان ہوں گی۔ امّ القری یعنی بستیوں کی ماں کیونکہ روحانی شِیر تمام بستیوں نے اسی کے بافیض چھاتیوں سے پیا ہے اور تورات میں اس کا نام ’’نافِ زمین‘‘ بھی ہے کیونکہ شکمی بچہ ناف ہی کے ذریعہ سے پرورش پاتا ہے۔ حزقیل کے 38 باب میں ’’ناف زمین‘‘ کا تفصیلی ذکر ہے۔‘‘

(قرآن کریم مترجمہ حضرت مولوی میر محمد سعید ازدرس قرآن حضرت مولوی نورالدین صفحہ 290)

ناف کے لغوی معانی درمیان (centre) یا middle کے ہیں۔ فیروز سنز کی اردو انگلش ڈکشنری میں ’’ناف زمین‘‘ کے تحت لکھا ہے:

The centre of the earth, the Ka’abah

جب ہم انسانی جسم میں ’’ناف‘‘ کے لفظ اور اس کے معانی کو دیکھتے ہیں تو اسے umbilicus کہتے ہیں اور عورت جب حاملہ ہوتی ہے تو پیٹ میں پلنے والا بچہ umbilical cord یعنی ناف سے جُڑا ہوتا ہے اور ایسی cord کے ذریعے وہ زندہ رہنے اور اپنی بقا کے لئے وہ غذا حاصل کرتا ہے اور آکسیجن بھی اسی کے ذریعہ لیتا ہے اور لکھا ہے کہ ماں کے خون مین جو بھی زندگی کے لئے ضروریات ہیں وہ بچہ اسی cord کے ذریعہ پوری کرتا ہے ۔

پیدائش کے بعد جب بچہ کو cord سے کاٹ کر الگ کرتے ہیں تو اس کے پھیپھڑے وغیرہ کام کرنا شروع کرتے ہیں۔ گو بچہ ماں سے جسمانی طور پر الگ ہوجاتا ہے لیکن ماں کی طلب اسے تب بھی رہتی ہے اور تادم آخر اس سے فیض پاتا ہے۔ بچپن میں غذا لینے کا محتاج بھی وہ ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مکہ معظمہ کو ’’اُمّ القرٰی‘‘ یعنی بستیوں کی ماں قرار دیا ہے۔ یہاں بولی جانے والی زبان کو ’’اُمّ الالسنہ‘‘ یعنی زبانوں کی ماں اور یہاں بھیجے جانے والے نبی مکرم سیدنا محمد مصطفٰی کو رحمۃ للعالمین اور خاتم الانبیاء قرار دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی معرکہ آراء تصنیف ’’منن الرحمٰن‘‘ میں اس مبارک بستی میں اُترنے والی مقدس الہٰی کتاب کو ’’اُمّ الکتاب‘‘ اور اس بابرکت زمین کو ’’اُمّ الارضین‘‘ کے لفظ سے یاد فرمایا ہے۔

(منن الرحمٰن ، روحانی خزائن جلد9 صفحہ 183)

جہاں تک مکہ مکرمہ کے لئے ’’اُمّ القرٰی‘‘ کے الفاظ کا تعلق ہے۔ جس کی تشریح حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے تورات کا حوالہ دے کر ’’نافِ زمین‘‘ کی اصطلاح کا ذکر فرمایا ہے تو اس کے معانی یہ ہیں کہ مکہ کی بستی ، دنیا کی تمام بستیوں کے لئے Middle کا کام کرتی ہے اور بچہ کی طرح اس سے جُڑی ہوئی ہیں اور اسی سے مادی اور روحانی فیوض حاصل کررہی ہیں جس طرح بچہ ماں سے cord (ناف) کے ذریعہ Liquid کی صورت میں غذا حاصل کرتا ہے اسی طرح مادی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے پیٹرولیم اور زمزم کے پانی کو اس بستی کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔ جس سے ساری دنیا میں بسنے والے لوگ فیض اُٹھاتے ہیں اور روحانی معنوں میں جس طرح بچہ ماں سے روحانی تعلیم بھی حاصل کرتا ہے اسی طرح دنیا، مکہ مکرمہ سے روحانی فیض حاصل کرتی ہے اور ان شاء اللہ تا قیامت حاصل کرتی رہے گی۔

’’اُمّ القرٰی‘‘ کی اصطلاح میں اُمّ یعنی ماں کا لفظ قابل غور ہے خاکسار نے اپنی تصنیف ’’مشترکہ خاندانی نظام‘‘ میں لکھا ہے کہ
ماں کے لئے عربی میں ’’اُمّ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ہمزہ تو الف کی ادائیگی کے لئے لایا گیا ہے ورنہ صرف الف ہے جو ساکن ہے باقی صرف ’’م‘‘ رہ جاتا ہے جو دنیا کی ہر زبان میں موجود ہے جیسے اُمّ، ماں، اُمّی، ممّی، اماں، ماما، ممتا، ممّا، مدر (Mother) مادر، ماتا، مادرے، ماتے، مورے (اور) مُو وغیرہ وغیرہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس لفظ کے حوالے سے فرمایا ہے :
’’اگر اشتراک الالسنہ کی مثال پوچھنا چاہتے ہو تو لفظ اُمّ اور اُمّۃ کافی ہے۔ یہ لفظ ہندی، عربی، فارسی، انگریزی بلکہ سب زبانوں میں مشترک ہے اور تجربہ اس پر گواہ ہے اور وجہ تسمیہ بتاتی ہے کہ یہ لفظ عربی زبان سے عجمی بولیوں میں گیا کیونکہ حقیقی وجہ تسمیہ اُسی زبان میں ہے اور اوروں میں بناوٹ اور تکلّف ہے۔‘‘

(بحوالہ تفسیر سورۃانعام آیت93 ازحضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ 119)

قرآن واحادیث میں ماں کا مقام اور درجہ واضح ہے اور اس کے ساتھ حسن سلوک اور پیار و شفقت سے پیش آنے کو والد پر بھی فوقیت دی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں والدہ کو مقدم رکھا ہے کیونکہ والدہ بچہ کے واسطہ بہت دکھ اٹھاتی ہے۔ کیسی ہی متعدی بیماری بچہ کو ہو ……… ماں اس کو چھوڑ نہیں سکتی۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ289)

مکہ مکرمہ کا مقام بھی دنیا کی تمام دیگر بستیوں اور علاقوں سے جُدا اور بُلند ہے۔ جو مسلّم ہے اور ہر مسلمان پر اس کا ادب اور اسے مقدس جاننا ضروری ہے۔ یہی وہ مبارک مقام ہے ۔ جہاں اللہ کا پہلا گھر خانہ کعبہ ہے جو تمام دنیا کے لئے بابرکت ہے۔ جہاں مسجد حرام ہے ، جہاں مقام ابراہیم ہے۔ جہاں زمزم ہے۔ جہاں مقام پیدائش سیدنا حضرت محمدؐ ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی سب سے پیاری کتاب کا نزول ہوا۔ جہاں وہ تمام مقامات مقدسہ ہیں جن کی مٹی نے دنیا کے سب سے بڑے روحانی بادشاہ اور نبی کے مبارک قدموں کو چُھوا۔

ہر راہ کو دیکھا ہے محبت کی نظر سے
شاید کہ وہ گزرے ہوں اِسی راہ گزر سے

ہاں ہاں یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اہلیہ اور اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے سہارے اکیلے چھوڑ گئے تھے اور حضرت حاجرہ ؑ نے مروہ اور صفا کے اردگرد سات چکر لگائے تھے اور حضرت اسماعیلؑ کی ایڑیاں رگڑنے سے چشمہ پھوٹا جو زمزم کہلاتا ہے۔ اس کی یاد میں لاکھوں لوگ سارا سال ہی خانہ کعبہ کا طواف کرنے مکہ میں ورود فرماتے ہیں اور سال میں ذوالحجہ کے ماہ میں لاکھوں لوگ اکٹھے ہوکر اس ’’بلد امین‘‘ میں حاضر ہوکر حج کرتے ہیں اور اگر اس حج میں کسی قسم کا دکھاوا نہیں۔ محض اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کے حصول کے لئے کیا تو وہ ایسا پاک صاف ہے جسے ماں نے آج ہی اُسے جنا ہو۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اگر حج کے دوران کوئی شخص بےہودہ باتیں یا گناہ کے اعمال نہ کرے تو وہ حج کے بعد نومولود کی طرح مطہر و پاک ہے۔

(بخاری 1521)

اور یہی وہ ایک یہی مبارک جگہ ہے ۔ جس کی اللہ تعالیٰ نے لَا اُقْسِمُ بِھٰذَا الْبَلَدْ (البلد:2) کہہ کر قسم کھائی۔ اسی کو بلد امین قرار دیا یعنی امن کا گہوارہ۔ جہاں جو داخل ہوگیا وہ محترم اور محفوظ ہے کیونکہ اس میں خون خرابا نہیں ہوسکتا۔ یہاں سے درخت نہیں کاٹا جاسکتا۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا۔ کسی صاحب ایمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ وہاں کسی کا خون بہائے۔ کسی درخت کو کاٹے۔

(بخاری)

پھر آنحضورﷺ نے اس کے ساتھ اپنی محبت اور پیار و عشق اور فریفتگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ اللہ کی قسم! تو سب سے بہتر اور اللہ کی سب سے پسندیدہ زمین ہے۔ اگر میں وہاں سے نہ نکالا جاتا تو میں اپنے تئیں ہرگز وہاں سے نہ نکلتا۔

(جامع ترمذی 3925)

دنیا کے باقی شہر، گاؤں، قصبے اور بستیاں سب مکہ کے تابع ہیں۔ اور اگر وہ اس مبارک بستی میں نازل ہونے والے کلام (قرآن کریم) کی تعلیمات کو حرز جان بنالیں اور اپنالیں تو وہ دنیا کی عظیم طاقتیں بن سکتی ہیں۔ چین کے سابق صدر آنجہانی چواین لائی نے خود اس امر کا اظہار کیا تھا کہ میں نے قرآن کو پڑھا اور اس کی تعلیمات کو قابل عمل بنایا اور اسی کے بل بوتے پر آج چین ایک سُپر پاور بن کر دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ آج بھی دنیا بھر کے صدور اور وزرائےاعظم بالخصوص مسلمان مملکتیں جن کو دنیا نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ دہشت گرد قرار دے رہی ہے۔ آئے روز خاکے بنا کر نہ صرف بانی اسلام حضرت محمد مصطفٰی ﷺ سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ان ممالک کو تباہ و برباد کرنے کے لئے منصوبے بناتے اور ان پر نہ صرف خود عمل کرتے بلکہ دوسروں سے بھی عمل کرواتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کو تسبیح کی طرح اتحاد کی لڑی میں آنحضورﷺ نے پرویا کیونکہ ’’مکہ میں آپؐ کے وفادار اور جان نثار خدام موجود تھے۔‘‘

(ملفوظات4 صفحہ389)

آنحضورﷺ نے اس مبارک بستی میں دعائیں کیں جو قبولیت کا درجہ پاچکی ہیں۔ اس معصوم اور پیارے نبیؐ نے ساری دنیا، ساری امت اور ساری مخلوق (آئندہ آنے والے بھی) کے لئے دعائیں کیں۔ ان دعاؤں سے آج بھی ’’بکہ‘‘ کی بستی معطر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔ اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے۔ اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے۔ اور دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا ۔اور نہ کسی کان نے سُنا۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا۔ اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَ سَلِّم وَ بَارِکْ عَلَیْہِ وَآلِہٖ بِعَدَ دِھَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَحُزْنِہٖ لِھٰذِہ الْاُ مَّۃِ وَ اَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلَی الْاَبَدِ۔‘‘

(برکات الدعا ، روحانی خزائن جلد6 صفحہ 10-11)

پس آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مکہ (ام القرٰی) کو اس کا وہ اعلیٰ مقام دیں جو خدا نے اُسے دیا اور فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ کے اصول کو اپناتے ہوئے اُس بنی عظیمؐ کی پیروی اور اطاعت کا حق ادا کریں تا اللہ ہم سے محبت کرے۔ جس طرح ماں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ویسا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر مقام اور عزت کعبہ اور مکہ کو دینے کی ضرورت ہے۔ آنحضورﷺ نے تو قضائے حاجت کرتے کعبہ کی جانب مُنہ کرکے یا اس کی طرف ٹانگیں پچھاڑ کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام مکہ کا ارفع و اعلیٰ مقام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَھَا جس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے قرآن کو عربی زبان میں بھیجا تا تُو اس شہر کو ڈراوے جو تمام آبادیوں کی ماں ہے اور ان آبادیوں کو جو اس کے گرد ہیں یعنی تمام دنیا کو اور اس میں قرآن کی مدح اور عربی کی مدح ہے پس عقلمندوں کی طرح تدبر کر اور غافلوں کی طرح ان پر سے مت گزر اور جان کہ یہ آیت قرآن اور عربی اور مکہ کی عظمت ظاہر کرتی ہے اور اس میں ایک نور ہے جس نے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور لاجواب کر دیا پس تمام آیت کو پڑھ اور اس کےنظام کی طرف دیکھ اور دانشمندوں کی طرح تحقیق کر اور میں نے ان آیتوں میں تدّبر کیا پس کئی بھید ان میں پائے پھر ایک گہری غور کی تو کئی نور اُن میں پائے پھر ایک بہت ہی عمیق نظر سے دیکھا تو اُتارنے والے قہار کا مجھے مشاہدہ ہوا جو رب العالمین ہے اور میرے پر کھولا گیا کہ آیت موصوفہ اور اشارات ملفوفہ عربی کے فضائل کی طرف ہدایت کرتی ہیں اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ اُمّ الالسنہ ہے اور قرآن پہلی کتابوں کا اُمّ یعنی اصل ہے اور مکہ تمام زمین کا اُمّ ہے سو مجھے اس آیت کی روشنی نے طرح طرح کے فہم اور درایت کی طرف کھینچا اور مجھے یہ بھید سمجھ آگیا کہ قران کیوں عربی زبان میں نازل ہوا اور یہ کہ آنحضرت ﷺ پر جو نبوت ختم ہوئی اس میں بھید کیا ہے پھر میرے پر اور آیتیں ظاہر ہوئیں اور بعض نے بعض کی متواتر مدد کی۔ یہاں تک کہ میرے خدا نے حق الیقین تک مجھے کھینچ لیا اور یقین کرنے والوں میں مجھے داخل کیا اور میرے پر ظاہر ہوگیا کہ قرآن ہی پہلی تمام کتابوں کی ماں ہے اور ایسا ہی عربی تمام زبانوں کی ماں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور باقی زبانیں اس کے بیٹے بیٹیوں کی طرح ہیں اور کچھ شک نہیں کہ وہ تمام زبانیں اس کے فرزندوں یا خانہ زاد کنیز کوں کی طرح ہیں اور ہریک اسی کی دیگوں اور اسی کے خوان میں سے کھا رہا ہے اور ہریک اسی کے پھل چکھ رہا ہے اور اسی خوان سے اپنے پیٹ بھر رہے ہیں اور اسی دریا سے پانی پی رہے ہیں اور اسی حُلّہ سے انہوں نے اپنا لباس بنایا ہے اور وہ ان کی مربی ہے جس نے بعاریت ان کو لباس دیا اور اپنی ذات کے لئے مسند اختیار کیا اور یہ بات کہ اگر عربی اُمّ الالسنہ ہی ہے تو زبانوں کی ترکیبوں میں کیوں اختلاف ہے تو یہ کچھ عجیب بات نہیں۔‘‘

(منن الرحمٰن، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 183-184)

نیز فرمایا:
’’خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کے کئی مقامات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ زبانوں کی ماں اور خدا کی وحی صرف عربی ہے۔ اور اسی واسطے اس نے مکہ کا نام مکہ اور اُمّ القُرٰی رکھا کیونکہ لوگوں نے اس سے ہدایت اور زبان کا دودھ پیا پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ صرف عربی زبان ہی نطق اور عقل کا منبع ہے پس خدا تعالیٰ کے اس قول میں فکر کر کہ یہ قرآن عربی ہے تا تو مکہ کو کہ جو تمام آبادیوں کی ماں ہے ڈراوے اور اس میں اس شخص کے لئے نشان ہے جو خدا سے ڈرے اور حق کو ڈھونڈے اور انکار نہ کرے اور کنارہ کش لوگوں کا پیرو نہ ہو پھر تو جانتا ہے کہ ہمارا رسول خاتم الانبیاء ﷺ تمام دنیا کے لئے نذیر ہے اور یہی خدا تعالیٰ نے اس کا نام رکھا ہے اور وہ اصدق الصادقین خدا ہے پس اس سے ثابت ہوا کہ مکہ تمام دنیا کی ماں ہے اور تمام قلیل و کثیر کا مولد ہے اور اسی کے ساتھ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ عربی تمام زبانوں کی ماں ہے کیونکہ مکہ تمام مکانوں کی ماں ہے اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ قرآن تمام الٰہی کتابوں کی ماں ہے اور اسی لئے کامل زبان میں اترا ہے جو محیط کل ہے اور الٰہی ارادوں کے حکمتوں نے تقاضا کیا کہ اس کی کامل کتاب جو خاتم الکتب ہے اس زبان میں نازل ہو جو جڑ زبانوں کی ہے اور تمام مخلوقات کی زبانوں کی ماں ہے اور وہ عربی ہے۔‘‘

(منن الرحمٰن، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 207-208)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

اگر خدا کو نہیں پہچانو گے …

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 دسمبر 2020