• 27 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍اکتوبر 2019ء

”جو شخص اللہ تعالىٰ کى خاطر مسجد تعمىر کرتا ہےاللہ تعالىٰ بھى اس کے لىے جنت مىں وىسا ہى گھر تعمىر کرتا ہے“(الحدىث)

”ہمارى جماعت ىہ غم کل دنىوى غموں سے بڑھ کر اپنى جان پر لگائے کہ ان مىں تقوىٰ ہے ىا نہىں“(حضرت مسىح موعودؑ)

اللہ تعالىٰ اپنے آگے جھکنے والوں کو بھى اىمان اور ىقىن مىں بڑھاتا ہے۔

آخرت پر ىقىن ہى اللہ تعالىٰ کى عبادت کى طرف مائل کرتا ہے۔ اىسى عبادت جو خالص اللہ تعالىٰ کى رضا کے حصول کے لىے کى جائے۔

حقىقى عابد اور مسجدوں کو آباد کرنے والا وہى ہے جس کے دل مىں آخرت کے بارے مىں کبھى وسوسہ نہ آئے اور انجام بخىر کے لىے اللہ تعالىٰ کے حضور جھکا رہے

اىک کوشش سے مسجد کو آباد کرنے کى ضرورت ہےاحادىثِ نبوىہﷺاور ارشادات حضرت اقدس مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام سے پنج وقتہ نمازوں کى ادائىگى اور دعا کى لطىف حکمتوں کا تذکرہ، احمدىوں کو حقىقى تقوىٰ پر قائم ہوتے ہوئے مساجد آباد کرنے کى تلقىن ۔

مسجد مہدى، سٹراس برگ کا افتتاح، اس کى تعمىر اور کوائف کا مختصر بىان

مسجد کا حق ادا کرنا اور اسے جنت لے جانے کا ذرىعہ بنانا اور اس کى تعمىر سے جنت مىں اىک گھر بنانا اىک بہت بڑى ذمہ دارى ہے۔اگر کسى ہستى کا ہمىں خوف ہے تو وہ خدا تعالىٰ کا ہے۔

”اصل حقىقت دعا کى وہ ہے جس کے ذرىعہ سے خدا اور انسان کے درمىان رابطہ تعلق بڑھے“

”نماز ہزاروں خطاؤں کو دور کر دىتى ہے اور ذرىعہ حصول قرب الٰہى ہے“

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِىۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِىۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِىۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ ىَوۡمِ الدِّىۡنِ ؕ﴿۴﴾إِىَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِىَّاکَ نَسۡتَعِىۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِىۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِىۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَىۡہِمۡ ۬ۙ غَىۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَىۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّىۡنَ﴿۷﴾
اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰٓئِكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ۔ (التوبۃ: 18)

اىک لمبے عرصے کے بعد اللہ تعالىٰ نے جماعت احمدىہ فرانس کو ىہاں اىک اَور مسجد بنانے کى توفىق عطا فرمائى ہے۔ ىہاں اس شہر سٹراس برگ (Strasbourg) مىں اللہ تعالىٰ کے فضل سے نومبائعىن اور غىر پاکستانى احمدىوں کى بھى بڑى تعداد ہے بلکہ تقرىباً 75 فى صد غىر پاکستانى ہىں اور اللہ تعالىٰ کے فضل سے اخلاص اور وفا مىں بڑھے ہوئے ہىں۔ بہرحال اللہ تعالىٰ نے ىہاں انہىں اىک مسجد عطا فرمائى ہے اور اب ىہاں کے رہنے والے احمدى پہلے سے بڑھ کر جماعتى نظام سے منسلک ہو سکتے ہىں۔ اللہ تعالىٰ انہىں توفىق بھى عطا فرمائے۔

ىہ آىت جو مىں نے تلاوت کى ہے جىسا کہ آپ نے سنا اس کا ترجمہ پڑھتا ہوں کہ اللہ کى مسجدوں کو تو وہى آباد کرتا ہے جو اللہ اور ىوم ِآخرت پر اىمان لاتا ہے اور نمازوں کو قائم کرتا ہے اور زکوٰة دىتا ہے اور اللہ کے سوا کسى سے نہىں ڈرتا ۔سو قرىب ہے کہ اىسے لوگ کامىابى کى طرف لے جائے جائىں۔

اللہ تعالىٰ نے مساجد تعمىر کرنے والوں اور آباد کرنے والوں کى ىہ خصوصىات بىان فرمائى ہىں کہ اللہ پر اىمان لانے والے ہىں ىعنى اس بات پر کامل ىقىن کہ سب طاقتوں کا سرچشمہ اور مالک خدا تعالىٰ کى ذات ہے، باقى سب ہىچ ہے۔ پس اس اىمان کے حصول کے لىے اللہ تعالىٰ کے آگے جھکنا اور اس کى عبادت انتہائى ضرورى ہے۔ اللہ تعالىٰ اپنے آگے جھکنے والوں کو بھى اىمان اور ىقىن مىں بڑھاتا ہے۔ پھر ىومِ آخرت پر ىقىن بھى اللہ تعالىٰ نے مسجد مىں آنے والوں کى خصوصىت ،شرط بىان کى ہے کىونکہ آخرت پر ىقىن ہى اللہ تعالىٰ کى عبادت کى طرف مائل کرتا ہے اىسى عبادت جو خالص اللہ تعالىٰ کى رضا کے حصول کے لىے کى جائے۔ اس بات کو بىان فرماتے ہوئے اىک موقعے پر حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام نے فرماىا کہ
اىمان بالآخرت کا فائدہ ىہ ہے کہ اس سے اللہ تعالىٰ کى معرفت حاصل ہوتى ہے اور سچى معرفت بغىر حقىقى خشىت اور خدا ترسى کے حاصل نہىں ہو سکتى۔ آپؑ فرماتے ہىں کہ پس ىاد رکھو کہ آخرت کے متعلق وساوس کا پىدا ہونا اىمان کو خطرے مىں ڈال دىتا ہے اور خاتمہ بالخىر مىں فتور پڑ جاتا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد1 صفحہ53-54)

ىعنى خاتمہ بالخىر پھر ىقىنى نہىں رہتا، پھر ىہ بات نہىں رہتى کہ انسان اىمان پر قائم رہے گا۔ پس حقىقى عابد اور مسجدوں کو آباد کرنے والا وہى ہے جس کے دل مىں آخرت کے بارے مىں کبھى وسوسہ نہ آئے اور انجام بخىر کے لىے اللہ تعالىٰ کے حضور جھکا رہے۔ پھر فرماىا کہ مسجدىں آباد وہى کر سکتے ہىں ىا انھى کو مسجدوں کى تعمىر کرنے کا فائدہ ہے جو نمازىں قائم کرنے والے ہىں، اس بات کا عہد کرتے ہىں کہ ہم نے ىہ مسجد صرف اس لىے نہىں بنائى کہ دنىا کو دکھا دىں کہ ہمارى بھى اىک مسجد ہے بلکہ اس کو پانچ وقت آباد کرنا اب ہمارا کام ہے۔ اللہ تعالىٰ نے ىہاں نماز قائم کرنے والے فرماىا ہے اور قائم کرنے کا مطلب ہى ىہ ہے کہ جو باجماعت نماز ادا کرنے والے ہىں۔ پھر زکوٰة کى طرف توجہ ہے، مالى قربانى کى طرف توجہ ہے تو مسجد آباد کرنے والوں کى ىہ خصوصىت ہونى چاہىے کہ خدا تعالىٰ کے دىن کى اشاعت کے لىے قربانىاں کرىں اور اللہ تعالىٰ کے بندوں کے حقوق بھى ادا کرىں اور ىہ سب اس لىے ہے کہ اللہ تعالىٰ کى خشىت ہمارے دلوں مىں بڑھے، اس کى رضا کے حصول کے لىے ہم بھرپور کوشش کرىں۔ اللہ تعالىٰ فرماتا ہے ىہ سب کچھ کرنے والے ہى ہىں جو اللہ تعالىٰ کے نزدىک ہداىت ىافتہ ہىں ىا ہداىت ىافتہ لوگوں مىں شمار کىے جائىں گے۔

پس ہمىں ہمىشہ ىہ دعا کرتے رہنا چاہىے اور اس کے مطابق کوشش کرنى چاہىے اور اللہ تعالىٰ کے آگے جھکتے ہوئے ىہ عرض کرنى چاہىے، نئے آنے والوں کو بھى اور پرانے احمدىوں کو بھى، بلکہ پرانے احمدىوں کى زىادہ ذمہ دارى ہے اور خاص طور پر پاکستان سے آئے ہوؤں کى کہ وہ اس بات کا زىادہ خىال رکھىں کہ نئے آنے والوں کے لىے انہوں نے اپنے نمونے بھى قائم کرنے ہىں کہ ہمىں ہمارى مسجد کى تعمىر کے بعد اس سوچ کے ساتھ اور اپنى عملى حالتوں کو اس فرمان کے مطابق کرتے ہوئے مسجد آباد کرنے کى توفىق عطا فرما اور ہمىں ہداىت ىافتہ لوگوں مىں شامل فرما۔ مسجد آباد کرنے والوں کے بارے مىں جو اللہ تعالىٰ کا ىہ حکم ہے اس ارشاد پر اپنى کمزورىوں اور کوتاہىوں کى وجہ سے عمل نہ کر کے کہىں ہم اپنى دنىا و آخرت برباد کرنے والے نہ بن جائىں۔ ہم پر رحم کرتے ہوئے ہمىں بھٹکنے سے بچائے رکھنا اور ہمىں سىدھے راستے پر چلائے رکھنا۔ ہمارى نىتوں کو ہمىشہ صاف اور نىک رکھنا۔ ہم تىرا حق ادا کرنے والے بھى ہوںا ور اس علاقے مىں تىرے دىن کا پىغام پہنچانے والے بھى ہوں۔ ہم اس مسجد کى تعمىر کے ساتھ تىرے بھىجے ہوئے مسىح موعودؑ کے ارشاد کے مطابق اس مسجد کو اسلام کى تبلىغ کا ذرىعہ بنانے والے ہوں اور اپنا فضل فرماتے ہوئے ہمىں اپنے پىارے نبى صلى اللہ علىہ وسلم کے اس ارشاد کا مورد بھى بنا جس مىں آپؐ نے فرماىا کہ جو شخص اللہ تعالىٰ کى خاطر مسجد تعمىر کرتا ہے اللہ تعالىٰ بھى اس کے لىے جنت مىں وىسا ہى گھر تعمىر کرتا ہے۔ (صحیح البخاری الصلوٰۃ باب من بنی مسجداً حدیث 450) پس ہمىں حقىقى مومن بناتے ہوئے اپنے فضلوں سے نوازتا چلا جا۔

پس ان باتوں کے حصول کے لىے سب سے پہلے تو ہر احمدى کو اپنے نمازوں کے جائزے لىنے چاہئىں کہ کىا ان کى پانچ وقت باقاعدگى سے نماز پڑھنے کى طرف توجہ ہے اور پھر باجماعت نماز پڑھنے کى طرف توجہ ہے؟ صرف اتنا تو کافى نہىں کہ ہمارى مسجد بن گئى۔ جنت مىں گھر بنانے کے لىے تو اتنا ہى کافى نہىں ہے کہ مسجد بنا لى، اس کے لىے اىمان کے ساتھ عمل کى بھى ضرورت ہے، اللہ تعالىٰ کے حکموں پر چلنے کى بھى ضرورت ہے، حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام کى جماعت مىں ہونے کا حق ادا کرنے کى بھى ضرورت ہے۔ ہر سال ہزاروں مسجدىں مسلمان بناتے ہىں لىکن اگر ان مىں فرقہ وارىت کے درس دىے جاتے ہىں، ان مىں اللہ تعالىٰ کے خوف اور خشىت اور اللہ تعالىٰ کے بندوں کے حقوق کى ادائىگى کے بجائے ذاتى مفادات ىا صرف اسى فرقے کے مفادات کى باتىں کى جاتى ہىں ىا نئى نئى بدعات نام نہاد علماء پىدا کر رہے ہىں جن کا آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کى سنت سے کوئى تعلق نہىں تو وہ مسجدىں اللہ تعالىٰ کے نزدىک اور اس کے رسولؐ کے نزدىک جنت مىں لے جانے والى مسجدىں نہىں ۔ پس مسجد کا حق ادا کرنا اور اسے جنت لے جانے کا ذرىعہ بنانا اور اس کى تعمىر سے جنت مىں اىک گھر بنانا اىک بہت بڑى ذمہ دارى ہے اور اس ذمہ دارى کو ہر احمدى کو سمجھ کر پھر اس پر عمل کرنے اور اس کا حق ادا کرنے کى کوشش کرنى چاہىے۔ اور اس زمانے مىں ہمىں آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے غلام ِصادقؑ نے اىک حقىقى مسلمان بننے اور عبادتوں اور اپنى مسجدوں کے حق ادا کرنے اور اللہ تعالىٰ کى مخلوق کے حق ادا کرنے کے بارے مىں جس طرح بتاىا ہے اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کى ضرورت ہے۔ تب ہى ہم کہہ سکتے ہىں کہ ہم اللہ تعالىٰ پر پختہ اور کامل اىمان لانے والے ہىں، ىومِ آخرت پر کامل اىمان اور ىقىن رکھتے ہىں۔ اللہ تعالىٰ کى رضا کے حصول کے لىے اپنى نمازوں کو قائم رکھنے والے ہىں اور اپنے مال قربان کر کے اللہ تعالىٰ کے بندوں کے حقوق بھى قائم کرنے والے ہىں اور اگر کسى ہستى کا ہمىں خوف ہے تو وہ خدا تعالىٰ کا ہے۔ اللہ تعالىٰ کى خشىت ہى ہمارے دلوں مىں ہے کىونکہ ہم اس سے پىار کرنے والے ہىں۔ کسى دنىاوى چىز سے ہمىں خوف نہىں ہے، کسى دنىاوى چىز سے ہمىں وہ محبت نہىں جو ہمىں خدا تعالىٰ سے ہے۔ ہم اپنے دنىاوى مفادات کو اپنے اىمان اور اپنے دىن کے لىے قربان کرنے والے ہىں۔ حضرت اقدس مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام نے اىک حقىقى احمدى بننے اور خدا تعالىٰ کا حقىقى عبد بننے کے لىے جو نصائح ہمىں فرمائى ہىں ان مىں سے بعض مَىں پىش کرتا ہوں۔ حضرت اقدس مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہىں:
اللہ تعالىٰ نے جس قدر قوىٰ عطا فرمائے ہىں ہاتھ پاؤں اور باقى چىزىں، آنکھىں زبان ہر چىز جو ہمىں عطا فرمائى ہے وہ ضائع کرنے کے لىے نہىں ہىں، وہ ضائع کرنے کے لىے نہىں دىے گئے، ان کى تعدىل اور جائز استعمال کرنا ہى ان کى نشوونما ہے، اس لىے کہ ان کى نشوونما ہو اور نشوونما کس طرح ہو گى کہ ان کا جائز استعمال ہو، ان کا غلط استعمال نہ ہو۔ اسى لىے اسلام نے قوائے رجولىت ىا آنکھ کے نکالنے کى تعلىم نہىں دى بلکہ ان کا جائز استعمال اور تزکىہ نفس کراىا ہے۔ ىہ نہىں کہ آنکھوں سے بدنظرى کرنى ہے تو اس لىے آنکھىں نکال دو بلکہ ان کا جائز استعمال چاہىے ىا رجولىت کے قوىٰ ہىں ان کو ختم کر دو ىہ تو کوئى چىز نہىں بلکہ ان کو پاک کرنا، ان کا پاک استعمال کرنا اصل چىز ہے۔ فرماىاکہ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ اور اىسے ہى ىہاں بھى بىان فرماىا کہ متّقى کى زندگى کا نقشہ کھىنچ کر آخر مىں بطور نتىجہ ىہ کہا ہے وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ متّقى کا نقشہ کھىنچا پہلے فرماىا قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ پھر فرماىا وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ ىعنى وہ لوگ جو تقوىٰ پر قدم مارتے ہىں، اىمان بالغىب لاتے ہىں، نماز ڈگمگاتى ہے پھر اسے کھڑا کرتے ہىں ىعنى مختلف خىالات نماز مىں آتے ہىں پھر اللہ کى طرف توجہ کرتے ہىں۔ خدا کے دىے ہوئے سے دىتے ہىں، جو اللہ تعالىٰ نے نعمتىں دى ہىں اس مىں سے اس کى راہ مىں خرچ کرتے ہىں۔ فرماىا کہ باوجود خطراتِ نفس بلا سوچے گذشتہ اور موجودہ کتاب اللہ پر اىمان لاتے ہىں۔ اللہ نے کہا ہے کہ سب کتابوں پر اىمان لاؤ تو اىمان لاتے ہىں اور آخر کار وہ ىقىن تک پہنچ جاتے ہىں۔ ىہى وہ لوگ ہىں جوہداىت کے سر پر ہىں۔ وہ اىک اىسى سڑک پر ہے جو برابر آگے کو جا رہى ہے اور جس سے آدمى فلاح تک پہنچتا ہے۔ ىہى لوگ فلاح ىاب ہىں جو منزلِ مقصود تک پہنچ گئے اور راہ کے خطرات سے نجات پا چکے ہىں۔ پھر فرماىا اس لىے شروع مىں ہى اللہ تعالىٰ نے ہم کو تقوىٰ کى تعلىم دے کر اىک اىسى کتاب ہم کو عطا کى ہے جس مىں تقوىٰ کے وصاىا ہىں۔ فرماتے ہىں سو ہمارى جماعت ىہ غم کل دنىوى غموں سے بڑھ کر اپنى جان پر لگائے کہ ان مىں تقوىٰ ہے ىا نہىں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد1 صفحہ35)

انسان کس طرح دىکھے کہ اس مىں تقوىٰ ہے ىا نہىں اور متقى کون لوگ ہوتے ہىں اس کى وضاحت فرماتے ہوئے آپؑ نے فرماىا کہ
’’خدا کے کلام سے پاىا جاتا ہے کہ متقى وہ ہوتے ہىں جو حلىمى اور مسکىنى سے چلتے ہىں۔‘‘ بہت نرمى ہے بہت عاجزى ہوتى ہے ان مىں ’’وہ مغرورانہ گفتگو نہىں کرتے۔‘‘ تکبر بالکل نہىں ہوتا ان مىں۔ ’’ان کى گفتگو اىسى ہوتى ہے جىسے چھوٹا بڑے سے گفتگو کرے۔‘‘ حضورؑ نے فرماىا کہ ’’ہم کو ہر حال مىں وہ کرنا چاہىے جس سے ہمارى فلاح ہو۔ اللہ تعالىٰ کسى کا اجارہ دار نہىں۔ وہ خاص تقوىٰ کو چاہتا ہے۔ جو تقوىٰ کرے گا وہ مقام اعلىٰ کو پہنچے گا۔‘‘ فرماىا کہ ’’آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم ىا حضرت ابراہىم علىہ السلام مىں سے کسى نے وراثت سے تو عزت نہىں پائى۔‘‘ فرماتے ہىں ’’گو ہمارا اىمان ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے والد ماجد عبداللہ مشرک نہ تھے لىکن اس نے نبوت تو نہىں دى ۔ىہ تو فضلِ الٰہى تھا ان صِدقوں کے باعث جو ان کى فطرت مىں تھے۔‘‘ ىعنى آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کى۔ ’’ىہى فضل کے محرک تھے۔ حضرت ابراہىم علىہ السلام جو ابوالانبىاء تھے انہوں نے اپنے صدق و تقوىٰ سے ہى بىٹے کو قربان کرنے مىں درىغ نہ کىا۔ خود آگ مىں ڈالے گئے۔ ہمارے سىد و مولىٰ حضرت محمد رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کا ہى صدق و وفا دىکھىے آپؐ نے ہر اىک قسم کى بدتحرىک کا مقابلہ کىا۔ طرح طرح کے مصائب و تکالىف اٹھائے لىکن پروا نہ کى۔ ىہى صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالىٰ نے فضل کىا ۔ اسى لىے تو اللہ تعالىٰ نے فرماىا

اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓئِکَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۔ (الاحزاب: 57) اللہ تعالىٰ اور اس کے تمام فرشتے رسولؐ پر درود بھىجتے ہىں۔ اے اىمان والو! تم درود و سلام بھىجو نبىؐ پر۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ37)

پس ہمىں ىہى حکم ہے کہ اگر دعا کى قبولىت چاہتے ہو تو آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم پر درود بھىجو اور بغىر درود کے کى گئى دعائىں آسمان تک نہىں پہنچتىں، انسان کامىابىاں حاصل نہىں کر سکتا۔ پس عبادتوں کے معىار بہتر کرنے کے لىے اور اللہ تعالىٰ کا قرب پانے کے لىے درود بھى ضرورى ہے اور درود بھىجنے والا ىقىناً پھر آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے اُسوے کو سامنے رکھے گا۔ آپؐ نے کىا عبادت کے معىار قائم کىے، اپنى امّت کو اس کى تلقىن فرمائى۔ آپؐ نے فرماىا کہ مىرى آنکھوں کى ٹھنڈک نماز مىں ہے۔

(سنن النسائی کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء حدیث 3391)

پھر مخلوق کے حق ادا کرنے کے لىے بھى آپؐ نے اپنے نمونے قائم فرمائے جس کى مثالىں ملنى مشکل ہىں۔ اپنى فکر بھى کبھى نہىں کى۔ جو کچھ تھا، وادى کے برابر بھى دولت تھى تو وہ بھى بانٹ دى۔ کوئى سوالى آىا اس کو خالى ہاتھ نہىں بھىجا۔

(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی سخائہ حدیث (2312)

اس کے علاوہ پھر اور بھى آپؐ کا ہاتھ ہر وقت مخلوق کى خدمت کے لىے تىار رہتا تھا۔ پس درود بھىجنے والا آپ صلى اللہ علىہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھ کر جب درود بھىجتا ہے تو پھر ہى اس کى توجہ بھى اس نمونے پر چلنے کى طرف ہوتى ہے جو آپ صلى اللہ علىہ وسلم نے قائم فرمائے۔ جب ىہ حالت ہو تو پھر اللہ تعالىٰ اپنے پىارے نبى، اپنے پىارے بندے سے ہمارى محبت کے اظہار اور اس پر درود بھىجنے کى وجہ سے ہمارى دعاؤں کو بھى قبولىت کا درجہ دىتا ہے اور تب ہى ہم اللہ تعالىٰ کا قرب پا کر حلىمى اور مسکىنى دکھانے والے بن کر ان لوگوں مىں شامل ہونے والے بن سکتے ہىں جو تقوىٰ پر چلنے والے ہىں اور ىہى وہ لوگ ہىں جو کامىابى حاصل کرنے والے ہىں، فلاح پانے والے ہىں۔ حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام اىک موقعے پر فرماتے ہىں کہ

اگر ہم مىں نرى باتىں ہى باتىں ہىں تو ىاد رکھو کہ کچھ فائدہ نہىں ہے۔ فرماىا کہ فتح کے لىے تقوىٰ ضرورى ہے۔ فتح چاہتے ہو تو متقى بن جاؤ اور ىہى حقىقى تقوىٰ ہے جو اللہ تعالىٰ کى حقىقى پہچان کرواتا ہے اور اس کے حکموں پر چلنے والا بناتا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد1 صفحہ232)

پھر نماز کى حقىقت بىان فرماتے ہوئے کہ نماز کىا چىز ہے اور حقىقى نماز کىسى ہونى چاہىے آپؑ فرماتے ہىں کہ
’’بہت ہىں کہ زبان سے تو خدا تعالىٰ کا اقرار کرتے ہىں لىکن اگر ٹٹول کر دىکھو تو معلوم ہو گا کہ ان کے اندر دہرىت ہے کىونکہ دنىا کے کاموں مىں جب مصروف ہوتے ہىں تو خدا تعالىٰ کے قہر اور اس کى عظمت کو بالکل بھول جاتے ہىں۔ اس لىے ىہ بات بہت ضرورى ہے کہ تم لوگ دعا کے ذرىعہ اللہ تعالىٰ سے معرفت طلب کرو۔ بغىر اس کے ىقىن کامل ہرگز حاصل نہىں ہو سکتا ۔وہ اس وقت حاصل ہو گا جبکہ ىہ علم ہو کہ اللہ تعالىٰ سے قطع تعلق کرنے مىں اىک موت ہے ۔گناہ سے بچنے کے لىے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہى تدابىر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو۔‘‘ دعا بھى ضرورى ہے ،تدبىر بھى ضرورى ہے۔ ’’اور تمام محفلىں اور مجلسىں جن مىں شامل ہونے سے گناہ کى تحرىک ہوتى ہے ان کو ترک کرو۔‘‘  خود ہم جائزے لے سکتے ہىں ہر کوئى، کون کون سى اىسى مجلسىں ہىں، کون کون سى اىسى محفلىں ہىں، کون سے اىسے پروگرام ہىں ٹى وى کے اور دوسرى چىزوں کے جن سے گناہ کى تحرىک ہوتى ہے ان کو چھوڑنا پڑے گا، ترک کرو ’’اور ساتھ ہى ساتھ دعا بھى کرتے رہو۔‘‘ اللہ تعالىٰ کے فضل کے ساتھ چھوڑنے کى توفىق ملتى ہے اس لىے اس کى دعا بھى کرو۔ ’’اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضا و قدر کى طرف سے انسان کے ساتھ پىدا ہوتى ہىں جب تک خدا تعالىٰ کى مدد ساتھ نہ ہو ہرگز رہائى نہىں ہوتى۔ نماز جو کہ پانچ وقت ادا کى جاتى ہے اس مىں بھى ىہى اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانى جذبات اور خىالات سے اسے محفوظ نہ رکھے گا۔تب تک وہ سچى نماز ہرگز نہ ہو گى۔ نماز کے معنےٹکرىں مار لىنے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہرگز نہىں۔ نماز وہ شَے ہے جسے دل بھى محسوس کرے کہ روح پگھل کر خوفناک حالت مىں آستانۂ الوہىت پر گر پڑے۔ جہاں تک طاقت ہے وہاں تک رقت کے پىدا کرنے کى کوشش کرے اور تضرّع سے دعا مانگے کہ شوخى اور گناہ جو اندر نفس مىں ہىں وہ دور ہوں۔ اسى قسم کى نماز بابرکت ہوتى ہے اور اگر وہ اس پر استقامت اختىار کرے گا تو دىکھے گا کہ رات کو ىا دن کو اىک نور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفس امارہ کى شوخى کم ہو گئى ہے۔‘‘ جو برائىوں کى طرف ابھارنے والا نفس ہے وہ آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ ’’جىسے اژدھا مىں اىک سمّ ِقاتل ہے اسى طرح نفس امارہ مىں بھى سمّ ِقاتل ہوتا ہے اور جس نے اسے پىدا کىا اسى کے پاس اس کا علاج ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ123)

ىعنى جو پىدا کرنے والا ہے اسى کے پاس اس کا علاج بھى ہے ىعنى اللہ تعالىٰ ہى اس کا علاج کر سکتا ہے اس لىے نفس کى برائىوں اور گناہوں سے بچنے کے لىے اللہ تعالىٰ سے ہى اس کا فضل مانگنا چاہىے۔ پھر نماز کى اہمىت بىان کرتے ہوئے آپؑ نے فرماىا کہ نماز ہى عبادت کا مغز ہے۔ اس لىے ہمىشہ ىاد رکھنا چاہىے کہ نماز کے بغىر ىا اللہ تعالىٰ کے بتائے ہوئے طرىق کے بغىر عبادت کا حق ادا ہى نہىں ہو سکتا اور نماز کے کچھ لوازمات بھى ہىں، کچھ شرائط بھى ہىں، ان کو پورا کرنا بھى ضرورى ہے۔ نماز مىں اس بات کا خىال رکھنا بھى ضرورى ہے کہ مؤدب ہو کر اللہ تعالىٰ کے سامنے کھڑا ہو۔ عاجزى ہو، پورى محوىت ہو، اس کے فضلوں کو مانگ رہا ہو ۔ اس حالت کى وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسىح موعود علىہ السلام فرماتے ہىں کہ

’’اىک مرتبہ مىں نے خىال کىا کہ صلوٰة مىں اور دعا مىں کىا فرق ہے۔ حدىث شرىف مىں آىا ہے کہ اَلصَّلٰوةُ ھِىَ الدُّعَاءُ۔ اَلصَّلٰوةُ مُخُّ الْعِبَادَة۔ ىعنى نماز ہى دعا ہے ۔ نماز عبادت کا مغز ہے۔ جب انسان کى دعا محض دنىوى امور کے لىے ہو تو اس کا نام صلوٰة نہىں۔‘‘ انسان دعا کرتا ہے، مسجدوں مىں نماز کے لىے آتا ہے، پانچ وقت نمازىں پڑھنى شروع کر دىتا ہے، بڑى دعائىں کرتا ہے، بڑا روتا ہے صرف اس لىے کہ بعض دنىوى مسائل ہوتے ہىں۔ آپؑ نے فرماىا کہ صرف دنىاوى باتوں کے لىے اگر نماز پڑھ رہے ہو تم تو اس کو صلوٰة نہىں کہتے ’’لىکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کى رضا کو مدِّنظر رکھتا ہے اور ادب،  انکسار، تواضع اور نہاىت محوىت کے ساتھ اللہ تعالىٰ کے حضور مىں کھڑا ہو کر اس کى رضا کا طالب ہوتا ہے۔‘‘ اپنى باتىں نہىں مانگتا رہتا بلکہ اللہ تعالىٰ کى رضا کا طالب ہوتا ہے۔ ’’تب وہ صلوٰة مىں ہوتا ہے۔ اصل حقىقت دعا کى وہ ہے جس کے ذرىعہ سے خدا اور انسان کے درمىان رابطہ تعلق بڑھے۔ ىہى دعا ہے کہ اللہ تعالىٰ کاقرب حاصل کرنے کا ذرىعہ ہوتى ہے۔‘‘ ىہى دعا ہے جو کہ اللہ تعالىٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذرىعہ ہوتى ہے ’’اور انسان کو نامعقول باتوں سے ہٹاتى ہے۔ اصل بات ىہى ہے کہ انسان رضائے الٰہى کو حاصل کرے اس کے بعد روا ہے کہ انسان اپنى دنىوى ضرورىات کے واسطے بھى دعا کرے۔‘‘ پہلے اللہ تعالىٰ کى رضا کو حاصل کرنے کى دعا کرو پھر دنىاوى ضرورىات جو ہىں ان کے لىے بھى دعا کرو کہ وہ بھى اللہ تعالىٰ کے فضلوں سے ہى ملتى ہىں ’’ىہ اس واسطے روا رکھا گىا ہے کہ دنىوى مشکلات بعض دفعہ دىنى معاملات مىں حارج ہو جاتے ہىں خاص کر خامى اور کج پنے کے زمانہ مىں ىہ امور ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہىں۔‘‘ جو کمزورىاں ہوتى ہىں، دنىاوى معاملات ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہىں اس لىے اللہ تعالىٰ سے پہلے تعلق قائم کرو پھر دنىاوى معاملات کے لىے بھى دعا کرو۔ فرماىا کہ ’’صلوٰة کا لفظ پُرسوز معنے پر دلالت کرتا ہے جىسے آگ سے سوزش پىدا ہوتى ہے وىسى ہى گدازش دعا مىں پىدا ہونى چاہىے۔ جب اىسى حالت کو پہنچ جائے جىسے موت کى حالت ہوتى ہے تب اس کا نام صلوٰة ہوتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ367-368)

پس ىہ ہے نماز کى حقىقى حالت جسے حاصل کرنے کى ہمىں کوشش کرنى چاہىے۔ اللہ تعالىٰ ہمىں اس کى توفىق بھى عطا فرمائے۔

پھر اىک جگہ آ پ علىہ السلام نے اس بات کى وضاحت فرمائى کہ ىاد رکھو اگر اىمان کا دعوىٰ ہے تو پھر نمازوں کى ادائىگى بھى ضرورى ہے۔ تىن نمازىں پڑھ کر ىا چار نمازىں پڑھ کر جس طرح بعض لوگ کرتے ہىں پھر اىمان کا دعوىٰ غلط بات ہے کىونکہ اىمان کى جڑ نماز ہے اور جس کى جڑ ہى نہىں ہے وہ اىک کھوکھلے درخت کى طرح ہے جس کو ذرا سى ہوا جو ہے زمىن پر گرا دے گى۔ آپؑ فرماتے ہىں:۔

’’جس طرح بہت دھوپ کے ساتھ آسمان پر بادل جمع ہو جاتے ہىں اور بارش کا وقت آ جاتا ہے اىسا ہى انسان کى دعائىں اىک حرارتِ اىمانى پىدا کرتى ہىں اور پھر کام بن جاتا ہے۔ نماز وہ ہے جس مىں سوزش اور گدازش کے ساتھ اور آداب کے ساتھ انسان خدا تعالىٰ کے حضور مىں کھڑا ہوتا ہے۔ جب انسان بندہ ہو کر لاپرواہى کرتا ہے تو خدا کى ذات بھى غنى ہے۔‘‘ اس کو بھى کوئى پروا نہىں ہوتى پھر۔ ’’ہر اىک امت اس وقت تک قائم رہتى ہے جب تک اس مىں توجہ الىٰ اللہ قائم رہتى ہے۔ اىمان کى جڑ بھى نماز ہے۔ بعض بے وقوف کہتے ہىں کہ خدا کو ہمارى نمازوں کى کىا حاجت ہے۔‘‘ فرماىا کہ ’’اے نادانو! خدا کو حاجت نہىں۔‘‘ اس کو ضرورت نہىں ہے ’’مگر تم کو تو حاجت ہے۔‘‘ تمہىں ضرورت ہے نمازوں کى ’’کہ خدا تعالىٰ تمہارى طرف توجہ کرے۔ خدا کى توجہ سے بگڑے ہوئے کام سب درست ہو جاتے ہىں۔ نماز ہزاروں خطاؤں کو دور کر دىتى ہے اور ذرىعہ حصول قربِ الٰہى ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ378)

اور پھر صرف نماز پڑھنے تک ہى نہىں کہ اس سے قربِ الٰہى ملتا ہے، خطائىں معاف ہو جاتى ہىں اور بگڑے کام درست ہو جاتے ہىں بلکہ نىک نىتى سے مسجد مىں آنے والے اور بىٹھ کر نماز کا انتظار کرنے والے کے بارے مىں آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نےفرماىا کہ جب تک نماز کى خاطر ىعنى اس کے انتظار مىں، نماز پڑھنے کے انتظار مىں کوئى شخص مسجد مىں بىٹھا رہتا ہے نماز مىں مصروف ہى سمجھا جاتا ہے۔ مسجد مىں بىٹھنا بھى اور وہاں ذکرِ الٰہى کر رہا ہے تو وہ نماز مىں مصروف سمجھا جائے گا اور فرشتے اس پر درود بھىجتے رہتے ہىں اور کہتے ہىں کہ اے اللہ! اس پر رحم کر اور اس کو بخش دے۔ اس کى توبہ قبول کر۔

(صحیح مسلم کتاب المساجد باب فضل الصلاۃ المکتوبۃ فی جماعۃ …… الخ حدیث (649))

پس کتنا بڑا اجر ہے مسجد مىں آ کر نماز پڑھنے والے کا کہ صرف نماز پڑھنے کا ہى نہىں بلکہ انتظار کا بھى ثواب مل رہا ہے اللہ تعالىٰ کى طرف سے اور فرشتے اس کے لىے دعائىں کر رہے ہىں۔

پس اىسے مہربان خدا کى عبادت کا حق ادا کرنے کى ہمىں کس فکر کے ساتھ کوشش کرنى چاہىے اور پانچوں وقت آ کر مسجد کو آباد رکھنے کى کوشش کرنى چاہىے۔ اس بات کو بىان فرماتے ہوئے کہ مذہب کا منشا اىک وحدت پىدا کرنا ہے، اىک قوم اور اىک امت بنانا ہے آپؑ فرماتے ہىں کہ اللہ تعالىٰ کا ىہ منشاہے کہ تمام انسانوں کو اىک نفسِ واحدہ کى طرح بنا دے جس کا نام وحدتِ جمہورى ہے جس سے بہت سے انسان بحالتِ مجموعى اىک انسان کے حکم مىں سمجھا جاتا ہے، بہت سارے جمع ہو جاتے ہىں تو اىک انسان بن جاتا ہے۔ مذہب سے بھى ىہى منشا ہوتا ہے کہ تسبىح کے دانوں کى طرح وحدتِ جمہورى کے اىک دھاگے مىں سب پروئے جائىں۔ ىہ نمازىں باجماعت جو کہ ادا کى جاتى ہىں وہ بھى اسى وحدت کے لىے ہىں تا کہ کُل نمازىوں کا اىک وجود شمار کىا جاوے اور آپس مىں مل کر کھڑے ہونے کا حکم اس لىے ہے کہ جس کے پاس زىادہ نور ہے وہ دوسرے کم زور مىں سراىت کر کے اسے قوت دے۔ حتٰى کہ حج بھى اس لىے ہے۔ اس وحدتِ جمہورى کو پىدا کرنے اور قائم رکھنے کى ابتدا اس طرح سے اللہ تعالىٰ نے کى ہے کہ اوّل ىہ حکم دىا کہ ہر اىک محلے والے پانچ وقت نمازوں کو باجماعت محلے کى مسجدمىں ادا کرىں تا کہ اخلاق کا تبادلہ آپس مىں ہو اور انوار مل کر کمزورى کو دور کر دىں اور آپس مىں تعارف ہو کر انس پىدا ہو۔ تعارف بہت عمدہ شَے ہے کىونکہ اس سے انس بڑھتا ہے جو کہ وحدت کى بنىاد ہے حتٰى کہ تعارف والا دشمن اىک ناآشنا دوست سے بہت اچھا ہوتا ہے کىونکہ جب غىر ملک مىں ملاقات ہو تو تعارف کى وجہ سے دلوں مىں انس پىدا ہو جاتا ہے۔ وجہ اس کى ىہ ہوتى ہے کہ کینے والى زمىن سے الگ ہونے کے باعث بغض جو کہ عارضى شَے ہوتا ہے وہ تو دور ہو جاتا ہے اور صرف تعارف باقى رہ جاتا ہے۔ پھر دوسرا حکم ىہ ہے کہ جمعے کے دن جامع مسجد مىں جمع ہوں کىونکہ اىک شہر کے لوگوں کا ہر روز جمع ہونا مشکل ہوتا ہے اس لىے ىہ تجوىز ہے کہ شہر کے سب لوگ ہفتے مىں اىک دفعہ مل کر تعارف اور وحدت پىدا کرىں۔

اب ىہاں فاصلے اگر زىادہ بھى ہوں تو سوارىوں کى سہولت ہے جن کے پاس ان کا تو مسجد مىں روزانہ آنا بھى کوئى اىسا مشکل نہىں ہے ،وہ آ سکتے ہىں۔ پھر اگر نىت ہو آنے کى تو آىا جا سکتا ہے مسجد کو آباد کرنے کے لىے لىکن فرماىا اگر بہت دور بھى رہ رہے ہىں لوگ اور مجبورى بھى ہے تب بھى جمعے کو تو ضرور آنا چاہىے ۔ آخر کبھى نہ کبھى تو سب اىک ہو جاوىں گے۔ پھر سال کے بعد عىدَىن مىں بھى تجوىز کى کہ دىہات اور شہر کے لوگ مل کر نماز ادا کرىں تا کہ تعارف اور اُنس بڑھ کر وحدتِ جمہورى پىدا ہو۔ پھر اسى طرح تمام دنىا کے اجتماع کے لىے اىک دن عمر بھر مىں مقرر کر دىا کہ مکہ کے مىدان مىں سب جمع ہوں ىعنى جن کو توفىق ہے حج کرنے کى وہ حج کو جائىں۔ غرضىکہ اس طرح سے اللہ تعالىٰ نے چاہا کہ آپس مىں الفت اور انس ترقى پکڑے اور پھر آپؑ اپنے مخالفوں کے بارے مىں بتا رہے ہىں، افسوس کہ ان کو اس بات کا علم نہىں کہ اسلام کا فلسفہ کىسا پکا ہے، جو اسلام کے مخالف ہىں ان کو پتا ہى نہىں جو عبادتوں پر اعتراض کرتے رہتے ہىں، پانچ وقت کى عبادتىں ان کا مقصد کىا ہے، ہر ہفتے کى عبادت کا کىا مقصد ہے، عىدوں کى، باقى باتوں کى تو آپؑ فرما رہے ہىں ىہ فلسفہ ہے اور اس کو ىاد رکھنا چاہىے۔ فرماىا کہ خدا تعالىٰ کے احکام مىں ڈھىلا پن اور اس سے بکلى روگردانى کبھى ممکن ہى نہىں۔ فرماتے ہىں کہ افسوس علم نہىں کہ اسلام کا فلسفہ کىسا پکا ہے۔ دنىوى حکام کى طرف سے جو احکام پىش ہوتے ہىں ان مىں تو انسان ہمىشہ کے لىے ڈھىلا ہو سکتا ہے لىکن خدا تعالىٰ کے احکام مىں ڈھىلا پن اور اس سے بکلى روگردانى کبھى ممکن ہى نہىں۔ کون سا اىسا مسلمان ہے جو کم از کم عىدَىن کى بھى نماز نہ ادا کرتا ہو۔ پس ان تمام اجتماعوں کا ىہ فائدہ ہے کہ اىک کے انوار دوسرے مىں اثر کر کے اسے قوت بخشىں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد7 صفحہ129-130)

آپس مىں ملتے جلتے ہىں تو بہرحال اثر ہوتا ہے لىکن ىہ تو ان لوگوں کے لىے جو بالکل ہى اىمان مىں کمزور ہىں لىکن حقىقى اىمان ىہى ہے کہ پانچ وقت نمازوں کے لىے مسجد مىں آؤ ۔جبکہ اللہ تعالىٰ نے آپ کو ىہ مسجد عطا کر دى ہے تو آپ لوگوں کو جمع ہو کر اس وحدت کا نظارہ بھى ىہاں پىش کرنا چاہىے، جن کو سفر کى بھى سہولتىں ہىں۔ اللہ تعالىٰ کے فضل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے آباد رکھىں پھر اللہ تعالىٰ بھى کس طرح مہربانى فرماتا ہے جىسا کہ ابھى بتاىا کہ اللہ تعالىٰ نے فرشتوں کو اس کے لىے دعاؤں پر لگا دىا جو پانچ وقت نمازوں کے لىے آتے ہىں اور پھر جو نماز باجماعت ہے اس کا ثواب بھى اللہ تعالىٰ نے ستائىس گنا زىادہ رکھا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث 645)

پس اللہ تعالىٰ کے فضلوں کے اس اظہار کے باوجود اگر ہم باوجود توفىق ہوتے ہوئے اس کى قدر نہىں کرتے تو ىہ بدقسمتى ہے۔ ہر احمدى کے لىے ىہ بہت سوچنے کا مقام ہے اور اىک کوشش سے مسجد کو آباد کرنے کى ضرورت ہے۔ حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہىں کہ
’’اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئىں مىرى جماعت شمار کرتے ہو ،آسمان پر تم اس وقت مىرى جماعت شمار کىے جاؤ گے جب سچ مچ تقوىٰ کى راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنى پنج وقتہ نمازوں کو اىسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گوىا تم خدا تعالىٰ کو دىکھتے ہو۔‘‘ پنج وقتہ نمازوں کو اىسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گوىا تم خدا تعالىٰ کو دىکھتے ہو ’’اور اپنے روزوں کو خدا کے لىے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ہر اىک جو زکوٰة کے لائق ہے وہ زکوٰة دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئى مانع نہىں وہ حج کرے۔ نىکى کو سنوار کر ادا کرو اور بدى کو بىزار ہو کر ترک کرو۔ ىقىناً ىاد رکھو کہ کوئى عمل خدا تک نہىں پہنچ سکتا جو تقوىٰ سے خالى ہے ۔ہر اىک نىکى کى جڑ تقوىٰ ہے ۔جس عمل مىں ىہ جڑ ضائع نہىں ہو گى وہ عمل بھى ضائع نہىں ہوگا۔‘‘فرماىا ’’……جب کبھى تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے، نہ دشمن کے ہاتھوں سے۔ اگر تمہارى زمىنى عزت سارى جاتى رہے تو خدا تمہىں اىک لازوال عزت آسمان پر دے گا سو تم اس کو مت چھوڑو ۔‘‘فرماىا ’’……تم خدا کى آخرى جماعت ہو سو وہ عمل نىک دکھلاؤ جو اپنے کمال مىں انتہائى درجہ پر ہو۔ ہر اىک جو تم مىں سست ہوجائے گا وہ اىک گندى چىز کى طرح جماعت سے باہر پھىنک دىا جائے گا اور حسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا ۔دىکھو مىں بہت خوشى سے خبر دىتا ہوں کہ تمہارا خدا درحقىقت موجود ہے ۔اگرچہ سب اسى کى مخلوق ہے لىکن وہ اس شخص کو چن لىتا ہے جو اس کو چنتا ہے ۔وہ اس کے پاس آ جاتا ہے جو اس کے پاس جاتا ہے۔ جو اس کو عزت دىتا ہے وہ بھى اس کو عزت دىتا ہے۔‘‘ ىعنى انسان کو۔

(کشتى نوح، روحانى خزائن جلد19 صفحہ15)

اللہ تعالىٰ ہمىں حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام کے ان درد بھرے الفاظ کو سمجھتے ہوئے اىمان مىں بڑھنے کى توفىق عطا فرمائے، عبادتوں کا حق ادا کرنے کى توفىق عطا فرمائے، خدا تعالىٰ سے زندہ تعلق پىدا کرنے کى توفىق عطا فرمائے اور ہم اس مسجد کو بھى ہمىشہ آباد رکھنے والے ہوں۔

اب مَىں مسجد کے بارے مىں بعض کوائف بھى پىش کر دىتا ہوں ۔اللہ تعالىٰ کے فضل سے چند سال پہلے اس مسجد کے لىے کوشش کى گئى۔ اللہ تعالىٰ نے پھر جگہ عطا بھى فرما دى جو کہ ىہ سارا رقبہ 2640مربع مىٹر پر مشتمل ہے اور اس مىں پہلے بھى پندرہ کمروں پر مشتمل اىک تىن منزلہ عمارت موجود تھى۔ اىک بڑا ہال تھا اور خرىدارى کے لىے کچھ حصہ مرکز سے قرضِ حسنہ کے طور پر اس وقت لىا گىا تھا اور امىر صاحب کہتے ہىں کہ  اس مىں سے سوائے پچاس ہزار ىورو کے تقرىباً سارا ادا ہو چکا ہے۔ پھر کونسل کے بعض اعتراضات تھے ان کو مختلف مىٹنگ مىں دور کىے۔ مىئر کے ساتھ مختلف مىٹنگز کر کے نقشہ جات جمع کرائے اور اللہ کے فضل سے ىہ نقشے بھى پاس ہوئے۔ جو ان کا نقشہ تھا، پلان (plan) تھا اس کى تعمىرکے سلسلے مىں ان کى رپورٹ کے مطابق آرکىٹکٹ نے اىک ملىن ىورو کا اندازہ دىا تھا اور اس کو بھى مجلس خدام الاحمدىہ فرانس نے پورا کرنے کا وعدہ کىا اور اپنى ذمہ دارى قبول کى لىکن اللہ تعالىٰ کے فضل سے ىہ مسجد پانچ لاکھ تىس ہزار ىورو مىں مکمل ہو گئى۔ اب تک خدام الاحمدىہ کى طرف سے ساڑھے تىن لاکھ ىورو ملے ہىں، باقى جماعت نے ادا کىے ہىں اور خدام الاحمدىہ کہتى ہے کہ ہم باقى بھى ادا کر دىں گے لىکن خدام الاحمدىہ نے تو ادا کر دىے اور پورا کر بھى دىں گے شاىد، ان شاء اللہ تعالىٰ، شاىد کىا ان شاء اللہ تعالىٰ کر دىں گے لىکن باقى جماعت کىوں اس سے محروم رہ رہى ہے۔ اگر ىہ مسجد اب بن گئى ہے تو لجنہ اور انصار کو چاہىے کہ اىک مسجد کى تعمىر کى ذمہ دارى وہ لىں دونوں مل کے لىں اور اگلے تىن سالوں کے اندر اىک اَور مسجد ىہاں بنانى چاہىے جو انصار اور لجنہ کو مل کر بنانى چاہىے۔ اس مسجد کى تعمىر کے لىے اىک کمىٹى بنائى گئى تھى جس مىں مکرم اسلم دوبورى (Doobory) صاحب، شہباز صاحب، اور محمد عاصم صاحب، منصور صاحب نے ان کى رپورٹ کے مطابق بڑى محنت کى ہے۔ اللہ تعالىٰ ان کو جزا دے۔

اور اس مسجد مىں قانونى طور پر 250افراد کے نماز پڑھنے کى جگہ ہے جو کونسل نے اپنى کىلکولىشن (calculation) کى اس کے مطابق اور پچاس گاڑىوں کى پارکنگ کے لىے بھى جگہ ہے۔ اىک جماعتى دفتر ہے، لجنہ کا دفتر بھى ہے، مرد اور خواتىن کے لىے لائبرىرى بھى ہے اور اس طرح غسل خانے وغىرہ بھى کافى ہىں۔ بڑا کورڈ (covered) پارکنگ ہال ہے اور اگر کبھى اىمرجنسى ضرورت ہو تو اس مىں بھى 125 افراد آ سکتے ہىں۔ اس سے پہلے والى عمارت جو تھى اس مىں پندرہ کمرے ہىں۔ اس کو دوبارہ مرمت کر کے تىار کىا گىا ہے اور ىہ بھى اب قابلِ استعمال ہے۔

ىہ مسجد اب سٹراس برگ شہر سے تقرىباً پندرہ کلومىٹر کے فاصلے پر ہے اور ىہ کوئى اىسا فاصلہ نہىں ہے کہ جو دور ہو، نمازى نہ آ سکىں۔ بڑے آرام سے آ سکتے ہىں۔ مسجد اور ہالوں کا کورڈ اىرىا (covered area) تىن سو تىن مربع مىٹر ہے اور اس مىں مربى ہاؤس بھى ہے، چار کمروں کا گىسٹ ہاؤس بھى ہے۔ باقاعدہ مىنار کى اجازت تو نہىں ملى لىکن مسجد کے دائىں حصے مىں آٹھ مىٹر کى بلندى پر اىک ڈوم (Dome) رکھنے کى اجازت مل گئى ہے اور وہ اچھاخوبصورت لگتا ہے وہ مسجد کا ہى حصہ ہے۔ اندر محراب بھى ہے سب کچھ ہے۔ اندر کى طرف بھى ىہ گولائى مىں لکھا گىا ہے۔ اللہ تعالىٰ ہر لحاظ سے مبارک فرمائے اور ان خدام کے اموال و نفوس مىں برکت ڈالے جنہوں نے اس مسجد کى تعمىر مىں قربانى دى ہے اور پھر صرف مسجد کى مالى قربانى ہى نہىں اس مسجد کى آبادى کى روح کو سمجھنے کى بھى توفىق عطا فرمائے اور خدام کے عبادت کے معىار بھى بلند ہوں اور جماعت کے افراد کے معىار بھى بلند ہوتے چلے جائىں۔

(الفضل انٹرنىشنل 01؍نومبر 2019ء صفحہ 5 تا 8)

اگلا پڑھیں

الفضل اسلام کی سچی خدمت کرنے والا اخبار ہے غیر از جماعت افراد کا اظہار حقیقت