• 11 مئی, 2024

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک فرمودہ مؤرخہ 31؍دسمبر 2021ء

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک

امیر المؤمنین سیدنا حضرت خلیفتہ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 31؍دسمبر 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

اگر تم (اِس رسول) کی مدد نہ بھی کرو تو الله(پہلے بھی) اُس کی مدد کر چکا ہے جب اُسے اُن لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا (وطن سے) نکال دیا تھا اِس حال میں کہ وہ دو میں سے ایک تھا۔ جب وہ دونوں غار میں تھے۔ اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر یقینًا الله ہمارے ساتھ ہے۔پس الله نے اُس پر اپنی سکینت نازل کی اور اُس کی ایسے لشکروں سے مدد کی جن کو تم نے کبھی نہیں دیکھا ۔ ۔۔اور بات الله ہی کی غالب ہوتی ہے اور الله کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔

حضرت ابوبکرؓ نے گھبرا کر مگر آہستہ سے آنحضرتؐ سے عرض کیا!یارسول اللهؐ! قریش اتنے قریب ہیں کہ اُن کے پاؤں نظر آ رہے ہیں اور اگر وہ ذرا آگے ہو کر جھانکیں تو ہم کو دیکھ سکتے ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا! لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا؛ یقینًا ہرگز کوئی فکر نہ کر۔ الله ہمارے ساتھ ہے۔ پھر فرمایا! وَ مَا ظَنُّکَ یَا اَبَا بَکْرٍ بِاِثْنَیْنِ اَللهُ ثَالِثُھُمَا؛ یعنی اَے ابوبکر! تم اُن دو شخصوں کے متعلق کیا گمان کرتے ہو جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے۔

یہ خدا تعالیٰ کا عرفان ہی تھا جس کی وجہ سے آپؐ نے یہ کہا، آپؐ خدا تعالیٰ کو اپنے اندر دیکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ میری ہلاکت سے خدا تعالیٰ کے عرفان کی ہلاکت ہو جائے گی۔ اِس لیئے کوئی مجھے ہلاک نہیں کر سکتا۔

اِس لفظ پر غور کرو کہ آنحضرتؐ ، حضرت ابوبکر صدّیقؓ کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں چنانچہ فرمایا! اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا، مَعَنَا میں آپ دونوں شریک ہیں یعنی الله تعالیٰ تیرے اور میرے ساتھ ہے۔ الله تعالیٰ نے ایک پَلّےپر آنحضرتؐ اور دوسرے پر حضرت صدّیقؓ کو رکھا ہے، اِس وقت دونوں ابتلاء میں ہیں کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے یاتو اِسلام کی بنیاد پڑنے والی ہے یا خاتمہ ہو جانے والا ہے۔

آپؐ نے مکّہ کی طرف آخری نظر ڈالی اورحسرت کے الفاظ میں فرمایا! اَے مکّہ کی بستی تُو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے ۔۔۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ نے بھی نہایت افسوس کے ساتھ کہا! اِن لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہےاب یہ ضرور ہلاک ہوں گے۔

کَل اِن شاء الله! نیا سال بھی شروع ہو رہا ہے۔ الله تعالیٰ آنے والے سال کو افرادِ جماعت کے لیئے، جماعت کے لیئے من حیث الجماعت ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ہر قسم کے شرّ سے جماعت کو محفوظ رکھے اور دشمن کے جو جماعت کے خلاف منصوبے ہیں، ہر منصوبہ کو خاک میں ملا دے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام سے جو الله تعالیٰ نے وعدے کیئے ہیں اُن وعدوں کو ہم بھی اپنی زندگیوں میں کثرت سے پورا ہوتا ہؤادیکھیں، ہمیں الله تعالیٰ یہ نظارے بھی دکھائے۔

پس بہت دعائیں کرتے رہیں، نئے سال میں دعاؤں کے ساتھ داخل ہوں ۔ تہجّد کا بھی خاص اہتمام کریں۔۔۔ الله تعالیٰ اِس کی توفیق دے ہر اَحمدی کو!

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد سُورۃ التّوبہ کی چالیسویں آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی۔

اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ھُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَهٗ عَلَیۡهِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡھَا وَ جَعَلَ کَلِمَةَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفۡلٰی ؕ وَ کَلِمَةُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ

قرآنِ کریم میں غارِ ثور کے حوالہ سے ذکر

بعدازاں ارشاد فرمایا! گزشتہ خطبہ میں حضرت ابوبکرؓ کے غارِ ثور کے واقعہ کا ذکر چل رہا تھا ۔ اِس واقعہ کے حوالہ سے جو غارِ ثور میں دشمن کے پہنچ جانے کا ہے، یہ آیت جو ہے قرآنِ کریم میں، اِس میں الله تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر تم (اِس رسول) کی مدد نہ بھی کرو تو الله (پہلے بھی) اُس کی مدد کر چکا ہے جب اُسے اُن لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا (وطن سے) نکال دیا تھا اِس حال میں کہ وہ دو میں سے ایک تھا۔ جب وہ دونوں غار میں تھے۔ اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر یقینًا الله ہمارے ساتھ ہے۔ پس الله نے اُس پر اپنی سکینت نازل کی اور اُس کی ایسے لشکروں سے مدد کی جن کو تم نے کبھی نہیں دیکھا ۔ اور اُس نے اُن لوگوں کی بات نیچی کر دکھائی جنہوں نے کفر کیا تھا۔ اور بات الله ہی کی غالب ہوتی ہے اور الله کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔

غم نہ کرو ابوبکرؓ! یقینًا ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے

 کفّارِ مکّہ غار کے دہانے پر کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ اُنہیں سُن کر گھبرا گئے کہ اگر نبیٔ اکرمؐ کو یہاں پکڑ لیا گیا تو کیا بنے گا سارا اِسلام تو گویا اِسی ذاتِ بابرکات سے وجودِباجود تھا۔ نبیٔ اکرمؐ کے متعلق جب اِس گھبراہٹ کو آپؐ نے دیکھا۔۔۔ تو آنحضرتؐ نے فرمایا!

لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا

غم نہ کرو ابوبکرؓ! یقینًا ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے۔

آنحضورؐ کا پیچھا کرتے ہوئے جب وہ لوگ غارِ ثور کے پہاڑ کے پاس پہنچے تو سُراغ رساں نے کہا مجھے پتا نہیں چل رہا کہ اِس کے بعد اِن دونوں نے کہاں اپنے قدم رکھے ہیں اور جب وہ غار کے قریب ہو گئے تو سُراغ رساں نے کہا کہ الله کی قسم! جس کی تلاش میں تم لوگ آئے ہو وہ یہاں سے آگے نہیں گیا۔ غار کے دہانے پر اُس سُراغ رساں نے جب یہ ساری بات کی اور کسی نے چاہا بھی کہ غار کے اندر جھانک کر دیکھا جائے تو اُمیّہ بن خلف نے تلخ اور بے پرواہی کے سے انداز میں کہا کہ یہ جالا اور درخت تو مَیں محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی پیدائش سے پہلے یہاں دیکھ رہا ہوں۔ تم لوگوں کا دماغ چل گیا ہے وہ یہاں کہاں ہو سکتا ہے اور یہاں سے چلو کسی اور جگہ اِس کی تلاش کریں اور یہ کہتے ہوئے وہ سب لوگ وہاں سے واپس چلے آئے۔

اگر ایسا ہؤا ہو تو ہرگز تعجب کی بات نہیں، بالکل قرینِ قیاس ہے

پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحِبؓ کے سیرت خاتم النّبیّین میں قریشِ مکّہ کے اعلانِ عام کہ جو بھی کوئی محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو زندہ یا مُردہ پکڑ کر لائے گا اُس کو ایک سَو اونٹ انعام دیئے جاویں گے نیز نبیٔ کریمؐ کا پیچھا کرنے کے بارہ میں جو ذکر فرمایا ہےاُس کا تذکرہ ہؤا۔

 مزید اِس حوالہ سے غار کے مُنہ پر درخت، اُس پر آپؐ کے اندر تشریف لے جانے کے بعد مکڑی کے جالا تننے اور عین مُنہ کے سامنے کی شاخ پر ایک کبوتری کے گھونسلہ بنا کر انڈے دینے والی روایت کے متعلق حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بیان فرمایا ! مرزا بشیر احمد صاحِبؓ کے نزدیک تویہ روایت تو کمزور ہے لیکن اگر ایسا ہؤا ہو تو ہرگز تعجب کی بات نہیں (بےشک کمزور روایت ہے لیکن تعجب والی بات کوئی نہیں)۔ (کیونکہ) مکڑی بعض اوقات چند منٹ میں ایک وسیع جگہ پر جالا تن دیتی ہے اور کبوتری کو بھی گھونسلہ تیار کرنے اور انڈے دینے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ اِس لیئے اگر خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کی حفاظت کے لیئے ایسا تصرف فرمایا تو ہرگز بعید

نہیں ہے بلکہ اِس وقت کے لحاظ سے ایسا ہونا بالکل قرینِ قیاس ہے۔ بہرحال قریش میں سے کوئی شخص آگے نہیں بڑھا اور یہیں سے سب لوگ واپس چلے گئے۔

تم اُن دو شخصوں کے متعلق کیا گمان کرتے ہو جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے

آگے لکھتے ہیں کہ قریش اِس قدر قریب پہنچ گئے تھے کہ اُن کے پاؤں غار کے اندر سے نظر آتے تھے اور اُن کی آواز سُنائی دیتی تھی۔ اِس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے گھبرا کر مگر آہستہ سے آنحضرتؐ سے عرض کیا! یارسول اللهؐ! قریش اتنے قریب ہیں کہ اُن کے پاؤں نظر آ رہے ہیں اور اگر وہ ذرا آگے ہو کر جھانکیں تو ہم کو دیکھ سکتے ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا! لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا یقینًا ہرگز کوئی فکر نہ کر۔ الله ہمارے ساتھ ہے۔ پھر فرمایا!

وَ مَا ظَنُّکَ یَا اَبَا بَکْرٍ بِاِثْنَیْنِ اَللهُ ثَالِثُھُمَا

یعنی اَے ابوبکر! تم اُن دو شخصوں کے متعلق کیا گمان کرتے ہو جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے۔

اگر خدانخواستہ آپؐ پر کوئی آنچ آئے تو پھر گویا ساری اُمّت مِٹ گئی

ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جب قریش غار کے مُنہ کے پاس پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ سخت گھبرا گئے، آنحضرتؐ نے اُن کی گھبراہٹ کو دیکھا تو تسلّی دی کہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ اِس پر حضرت ابوبکرؓ نے رقّت بھری آواز میں کہا!

اِنْ قُتِلْتُ فَاَنَا رَجُلٌ وَاحِدٌ وَ اِنْ قُتِلْتَ اَنْتَ ھَلَکَتِ الْاُمَّةُ

یعنی یارسول الله! اگر مَیں مارا جاؤں تو مَیں تو بس ایک اکیلی جان ہوں لیکن اگر خدانخواستہ آپؐ پر کوئی آنچ آئے تو پھر گویا ساری اُمّت کی اُمّت مِٹ گئی۔

آپؐ نے خدا سے الہام پا کر یہ الفاظ فرمائے

اِس پر آپؐ نے خدا سے الہام پا کر یہ الفاظ فرمائے کہ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا یعنی اَے ابوبکر! ہرگز کوئی فکر نہ کرو کیونکہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہم دونوں اُس کی حفاظت میں ہیں یعنی تم تو میری وجہ سے فکر مند ہو اور تمہیں اپنے جوش ِاخلاص میں اپنی جان کا کوئی غم نہیں مگر خدا تعالیٰ اِس وقت نہ صرف میرا محافظ ہے بلکہ تمہارا بھی اور وہ ہم دونوں کو دشمن کے شرّ سے محفوظ رکھے گا۔

ایسی حالت میں بھی محمدرسول اللهؐ کو کوئی خوف طاری نہیں ہوتا

پھر حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت المصلح الموعودؓ کے حوالہ سے آنحضرت ؐ کو ہجرت کی اجازت ملنے، جبلِ ثور میں کی چوٹی میں ایک غار پر چھپنے ،کفّار کی تلاش اور بھاری دسترس رکھنے والے کھوجیوں کی مدد سے جبلِ ثور تک پہنچنےکی تفصیلات کے تناظر میں بیان کیا۔ اُنہوں نے کہاکہ بس محمد رسول اللهؐ اگر ہیں تو یہیں ہیں اِس سے آگے کہیں نشان نہیں ملتا۔ اُس وقت یہ کیفیّت تھی کہ دشمن غار کےعین سَر پر کھڑا تھا اور غار کا مُنہ تنگ نہیں تھا جس کے اندر جھانکنا مشکل ہو مگر وہ ایک فراخ مُنہ کی کھلی غار ہے جس کے اندر جھانک کر آسانی سے معلوم کیا جا سکتا تھا کہ کوئی شخص اندر بیٹھا ہے یا نہیں۔ مگر ایسی حالت میں بھی محمدرسول اللهؐ کو کوئی خوف طاری نہیں ہوتا بلکہ آپؐ کی قوتِ قدسیہ کی برکت سےحضرت ابوبکرؓ کا دل بھی مضبوط رہتا ہے اور وہ موسیٰؑ کے ساتھیوں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ہم پکڑے گئے بلکہ اُنہوں نے اگر کچھ کہا تو یہ یارسول اللهؐ!دشمن اتنا قریب پہنچ چکا ہے کہ اگر وہ ذرا سابھی نظر نیچی کرے تو ہمیں دیکھ سکتا ہے مگر رسولِ کریمؐ نے فرمایا!

اُسْکُتْ یَا اَبَا بَکْرٍ اِثْنَانِ اللهُ ثَالِثُھُمَا

ابوبکر خاموش رہو ہم اِس وقت دو نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ایک تیسرا خدا بھی ہے۔ پھر وہ کیونکر ہمیں دیکھ سکتے ہیں۔

موسیٰؑ کے ساتھیوں نے گھبرا کر یہ کہا کہ اَے موسیٰؑ! ہم پکڑے گئے

چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔۔۔غرض اِس واقعہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ موسیٰؑ کے ساتھیوں نے گھبرا کر یہ کہا کہ اَے موسیؑ! ہم پکڑے گئے گویا اُنہوں نے اپنے ساتھ موسیٰؑ کو بھی لپیٹ لیا اور خیال کیا کہ اب ہم سب فرعون کی گرفت میں آنے والے ہیں مگر محمد رسول اللهؐ کے توکّل نے آپؐ کے ساتھی پر بھی ایسا اثر ڈالا کہ اِس کی زبان سے بھی یہ الفاظ نہ نکلے کہ ہم پکڑے گئے، اُس نے کہا تو صرف یہ کہ دشمن اتنا قریب آ چکا ہے کہ اگر وہ ہمیں دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے مگر محمد رسول اللهؐ نے اِس واہمہ کو بھی برداشت نہ کیا اور فرمایا کہ ایسا خیال بھی مت کرو ہم اِس وقت دو نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ایک اور بھی ہستی ہے اور وہ ہمارا خدا ہے۔

یہ خدا تعالیٰ کا عرفان ہی تھا جس کی وجہ سے آپؐ نے یہ کہا! لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا

ہجرت اور دشمن کے تعاقب نیز عین اُس مقام پر پہنچنے کی بابت جہاں رسولِ کریمؐ اور حضرت ابوبکرؓ بیٹھے تھے، حضرت المصلح الموعودؓ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ۔خیال کرو اُس وقت کیسا نازک موقع تھا اُس وقت حضرت ابوبکرؓ گھبرائے مگر اپنی ذات کے لیئے نہیں بلکہ رسولِ کریمؐ کے لیئے، اُس وقت رسولِ کریمؐ نے فرمایا!

لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا

گھبراتے کیوں ہو خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔

اگر رسولِ کریمؐ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں نہ دیکھتے تو کس طرح ممکن تھا کہ ایسے نازک وقت میں گھبرا نہ جاتے ۔ قوی سے قوی دل گُردے کا انسان بھی دشمن سے عین سَر پر آجانے سے گھبرا جاتا ہے مگر رسولِ کریمؐ کے بالکل قریب بلکہ سَر پر آپؐ کے دشمن کھڑے تھے اور دشمن بھی وہ جو تیرہ سال سے آپؐ کی جان لینے کے درپے تھے اور جنہیں کھوجی یہ کہہ رہے تھے یا تو وہ آسمان پر چڑھ گئے ہیں یا یہاں بیٹھے ہیں اِس جگہ سے آگے نہیں گئے، اُس وقت رسولِ کریمؐ فرماتے ہیں۔

لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا

خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے تمہیں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔

 یہ خدا تعالیٰ کا عرفان ہی تھا جس کی وجہ سے آپؐ نے یہ کہا، آپؐ خدا تعالیٰ کو اپنے اندر دیکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ میری ہلاکت سے خدا تعالیٰ کے عرفان کی ہلاکت ہو جائے گی۔ اِس لیئے کوئی مجھے ہلاک نہیں کر سکتا۔

حضرت عیسیٰ ؑنے اپنی رفاقت کے لیئے صرف ایک ہی شخص اختیار کیا تھا

 حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام فرماتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑنے اپنی رفاقت کے لیئے صرف ایک ہی شخص اختیار کیا تھا یعنی دھوما کو جیسا کہ ہمارے نبیؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے وقت صرف حضرت ابوبکرؓ کو اختیار کیا تھا کیونکہ سلطنتِ رومی حضرت عیسیٰؑ کو باغی قرار دے چکی تھی اور اِسی جرم سے پیلاطوس بھی قیصر کے حکم سےقتل کیا گیا تھا کیونکہ وہ درپردہ حضرت عیسیٰؑ کا حامی تھا اور اُس کی عورت بھی حضرت عیسیٰؑ کی مُرید تھی۔ پس ضرور تھا اِس ملک سے پوشیدہ طور پر نکلتے کوئی قافلہ ساتھ نہ لیتے اِس لیئے اُنہوں نے اِس سفر میں صرف دھوما حواری کو ساتھ لیا جیسا کہ ہمارے نبی ؐ نے مدینہ کے سفر میں صرف ابوبکرؓ کو ساتھ لیا تھا اور جیسا کہ ہمارے نبیؐ باقی اصحابؓ مختلف راہوں سے مدینہ میں آنحضرتؐ کی خدمت میں جا پہنچے تھے۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰؑ کے حواری مختلف راہوں سے، مختلف وقتوں میں حضرت عیسیٰؑ کی خدمت میں جا پہنچے تھے۔

ابوبکر صدّیقؓ کی صداقت اور اعلیٰ وفاداری کی ایک زبردست دلیل

پھر ایک جگہ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام فرماتے ہیں۔حضرت ابوبکر صدّیق کا صدق اُس مصیبت کے وقت ظاہر ہؤا جب آنحضرتؐ کا محاصرہ کیا گیا گو بعض کفّار کی رائے اخراج کی بھی تھی مگر اصل مقصد اور کثرتِ رائے آپؐ کے قتل پر تھی ایسی حالت میں حضرت ابوبکرؓ نے اپنے صدق و وفا کا وہ نمونہ دکھایا جو ابدالآباد تک کے لیئے نمونہ رہے گا۔ اِس مصیبت کی گھڑی میں آنحضرتؐ کا یہ انتخاب ہی حضرت ابوبکر صدّیقؓ کی صداقت اور اعلیٰ وفاداری کی ایک زبردست دلیل ہے، یہی حال آنحضرتؐ کے انتخاب کا تھا اُس وقت آپؐ کے پاس ستّر، اسّی صحابہؓ موجود تھے جن میں حضرت علیؓ بھی تھے مگر اُن سب میں سے آپؐ نے اپنی رفاقت کے لیئےحضرت ابوبکرؓ کو کو ہی انتخاب کیا۔ اِس میں سِرّ کیا ہے ، بات یہ ہے کہ نبی خدا تعالیٰ کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اُس کا فہم الله تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے۔ اِس لیئے الله تعالیٰ نے ہی آنحضرتؐ کو کشف کے ذریعہ اور الہام سے بتا دیا کہ اِس کام کے لیئے سب سے بہتر اور موزوں حضرت ابوبکرؓ ہی ہیں۔ ابوبکرؓ ساعتِ عُسر میں آپؐ کے ساتھ ہوئے، یہ وقت خطر ناک آزمائش کا تھا۔ حضرت مسیحؑ پر جب اِس قسم کا وقت آیا تو اُن کے شاگرد اُن کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور ایک نے لعنت بھی کی مگر صحابۂ کرامؓ میں سے ہر ایک نے پوری وفاداری کا نمونہ دکھایا۔ غرض حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کا پورا ساتھ دیا اور ایک غار میں جس کو غارِ ثور کہتے ہیں آپ جا چُھپے، شریر کفّار جو آپؐ کی ایذاء رسانی کے لیئے منصوبے کر چکے تھے تلاش کرتے ہوئے وہ اِس غار تک پہنچ گئے۔

اِس لفظ پر غور کرو کہ آنحضرتؐ ، حضرت ابوبکر صدّیقؓ کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں

حضرت ابوبکر صدّیقؓ نے عرض کی کہ اب تو یہ بالکل سَر پر ہی آ پہنچے ہیں اور کسی نے ذرا پیچھے نگاہ کی تو دیکھ لے گا اور ہم پکڑیں جائیں گے۔ اُس وقت آپؐ نے فرمایا! لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا کہ کچھ غم نہ کھاؤ، الله تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اِس لفظ پر غور کرو کہ آنحضرتؐ ، حضرت ابوبکر صدّیقؓ کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں چنانچہ فرمایا! اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا، مَعَنَا میں آپ دونوں شریک ہیں یعنی الله تعالیٰ تیرے اور میرے ساتھ ہے۔ الله تعالیٰ نے ایک پَلّے پر آنحضرتؐ اور دوسرے پر حضرت صدّیقؓ کو رکھا ہے، اِس وقت دونوں ابتلاء میں ہیں کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے یاتو اِسلام کی بنیاد پڑنے والی ہے یا خاتمہ ہو جانے والا ہے۔

آنحضرتؐ کی شجاعت کے لیئے تو یہ نمونہ کافی ہے

 دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہو رہی ہیں، بعض کہتے ہیں کہ اِس غار کی تلاشی کرو کیونکہ نشانِ پاء یہاں تک ہی آ کر ختم ہو جاتا ہے لیکن اُن میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گزر اور دخل کیسے ہو گا مکڑی نے جالا تنا ہؤا ہے، کبوتر نے انڈے دیئے ہوئے ہیں۔ اِس قسم کی باتوں کی آوازیں اندر پہنچ رہی ہیں اور آپ بڑی صفائی سے اُن کو سُن رہے ہیں۔ ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اور دیوانہ کی طرح بڑھتے آئے ہیں لیکن آپ کی کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سَر پر ہے اور آپؐ اپنے رفیقِ صادق صدّیق کو فرماتے ہیں ۔ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا، یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ آپؐ نے زبان ہی سے فرمایا کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں ، اِشارہ سے کام نہیں چلتا۔ باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم اور مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں، اِس امر کی پرواہ نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سُن لیں گے۔ یہ الله تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے، خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے۔ آنحضرتؐ کی شجاعت کے لیئے تو یہ نمونہ کافی ہے۔

الله جلّ شانہٗ نے اپنے نبیٔ معصوم کے محفوظ رکھنے کے لیئے ایک خارق عادت دکھلایا

پھر حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام فرماتے ہیں ایک اور مقام پرکہ الله جلّ شانہٗ نے اپنےنبیٔ معصوم کے محفوظ رکھنے کے لیئے ایک خارق عادت دکھلایا کہ باوجودیکہ مخالفین اِس غار تک پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرتؐ مع اپنے رفیق کے مخفی تھے مگر وہ آنحضرتؐ کو دیکھ نہ سکے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے ایک کبوتر کا جوڑا بھیج دیا جس نے اُسی رات غار کے دروازہ پر آشیانہ بنا دیا اور انڈے بھی دے دیئے اور اِسی طرح اِذنِ اِلٰہی سے عنکبوت نے اُس غار پر اپنا گھر بنا دیا جس سے مخالف لوگ دھوکہ میں پڑ کر ناکام واپس چلے گئے۔

بمطابق پہلےسےطے شُدہ پروگرام

پھر روایت میں آتا ہے کہ پہلےسےطے شُدہ پروگرام کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کے ہونہار صاحبزادے حضرت عبداللهؓ بن ابوبکرؓ رات کو غارِ ثور آتے اور دِن بھر کی مکّہ کی ساری خبریں دیتے، ہدایات لیتے اور علی الصبح اُسی طور سے مکّہ واپس چلے جاتے جیسے رات مکّہ میں ہی بسر کی ہو اور ساتھ ہی عامر بن فُہیرہ کی ذہانت ہے کہ رات کو دودھ والی بکریوں کا دودھ دینے کے بعد بکریوں کے ریوڑ کو اِس طرح واپس لاتے کہ حضرت عبداللهؓ بن ابوبکرؓ کے قدموں کے نشانوں کو بھی ساتھ ساتھ مِٹا دیا جاتا۔

بعض سیرت نگاروں نے تو یہ بھی بیان کیا ہے

بعض سیرت نگاروں نے تو یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت اسماء ؓ روزانہ کھانا لے کر آیا کرتی تھیں لیکن یہ جو ہے بعید از قیاس بات ہے صحیح رائے ہے بعضوں کی کہ اِس خطرہ کے عالَم میں ایک خاتون کا روزانہ اِدھر آنا رَاز فاش کرنے کے مترادف ہے اور جبکہ عبداللهؓ بن ابوبکرؓ روزانہ آ رہے تھے تو پھر حضرت اسماءؓ کے کھانا لانے کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی، بہرحال الله بہتر جانتا ہے۔

تین دن اِسی طرح گزر گئے

 لیکن تین دن اِسی طرح گزر گئے، مکّہ والے جب قریبی جگہوں کی تلاش سے فارغ ہو کر ناکام ہوئے تو اُنہوں نے باہم مشاورت سے ایک بہت بڑے انعام کا اعلان کرتے ہوئے ارد گرد کی بستیوں میں ڈھنڈورچی بھیج دیئے جو اعلان کر رہے تھے کہ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کو زندہ یا مُردہ لانے کی صورت میں ایک سَو اونٹ انعام دیا جائے گا۔ اتنے بڑے انعام کے لالچ نے کئی لوگوں کو آنحضرتؐ کی تلاش کے لیئے پھر سے تازہ دَم کر دیا۔

اِس روایت سے یہ تأثر ملتا ہے کہ مدینہ کی طرف روانگی صبح کے وقت شروع ہوئی تھی

دوسری طرف تین دن مکمل ہونے پر حسبِ وعدہ عبدالله بن اُریقِط اونٹ لے کر آ گیا، صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ ذکر ہے کہ عبدالله بن اُریقِط سے یہ وعدہ ٹھہرایا گیا تھا کہ وہ تین دن کے بعد صبح کے وقت اونٹ لے پہنچے گا۔

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشادفرمایا! اِس روایت سے یہ تأثر ملتا ہے کہ مدینہ کی طرف روانگی صبح کے وقت شروع ہوئی تھی، بخاری ہی دوسری روایت میں یہ وضاحت موجود ہے کہ سفر رات کے وقت شروع ہؤا تھا۔ اِس کی تائید میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحِبؓ کے بیان کا بھی تذکرہ ہؤا، آپؓ نے لکھا ہے اورقرینِ قیاس بھی یہی ہے کہ آپؐ رات کو روانہ ہوئے ہوں۔

تطبیق بر روایاتِ روانگی

بمطابق روایت تاریخ الخمیس رسولِ کریمؐ پیر کی رات یکم ربیع الاوّل کوغار سے نکل کر روانہ ہوئے، ابنِ سعد ؒکے مطابق آپؐ ربیع الاوّل کی چار تاریخ کو پیر کی رات غار سے روانہ ہوئے، صحیح بخاری کے شارح علامہ ابنِ حجرعسقلانیؒ لکھتے ہیں کہ امام حاکم ؒنے کہا کہ اِس بارہ میں متواتر آراء ہیں کہ حضورؐ کا مکّہ سے نکلنا پیر کے دن تھا اور مدینہ میں ڈاخل ہونا بھی پیر کے دن تھا سوائے محمد بن موسیٰ الخوارزمی کےجس نے کہا کہ آنحضرتؐ مکّہ سے جمعرات کے روز نکلے۔علامہ ابنِ حجرؒ اِن روایات میں تطبیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رسولِ کریمؐ مکّہ سے تو جمعرات کو نکلے تھے اور غار میں جمعہ ، ہفتہ اور اِتوار تین راتیں قیام کرنے کے بعد پیر کی رات کو مدینہ کے لیئے روانہ ہوئے ۔

یہ دعا کرتے ہوئے سفر شروع کیا

آنحضرتؐ ایک اونٹنی جس کا نام قَصْوا ءملتا ہے اُس پر سوار ہوئے ، حضرت ابوبکرؓ نے اپنی اونٹنی پر اپنے ساتھ عامر بن فُہیرہ کو سوار کیا اور اُریقِط اپنے اونٹ پر سوار ہؤا، حضرت ابوبکرؓ کے پاس گھر میں کُل سرمایہ پانچ یا چھ ہزار دِرہم تھا وہ بھی ساتھ لیا۔بعض روایات کے مطابق عامر بن فُہیرہ اور حضرت اسماءؓ کھانا لے کر آ گئیں اور جس میں بکری کا بُھنا ہؤا گوشت تھا لیکن یہاں پہنچ کر خیال آیا کہ کھانا اور مشکیزہ باندھنے کے لیئے کوئی کپڑا وغیرہ نہیں ہےتو حضرت اسماءؓ نے اپنا نِطاق کھول کر دو حصّے کیئے۔ ایک سے کھانا اور ایک سے مشکیزہ کا مُنہ باندھا، نبیٔ کریمؐ نے حضرت اسماءؓ کوجنّت میں دو نِطاقوں کی بشارت دی اور اِن سب کو رخصت کیا اور یہ دعا کرتے ہوئے سفر شروع کیا۔

اَللّٰھُمَّ الصْحَبْنِیْ فِیْ سَفَرِیْ وَ اخْلُفْنِیْ فِیْ اَھْلِیْ

کہ اَے الله! میرے سفر میں تُو میرا ساتھی ہوجا اور میرے اہل میں میرا قائمقام ہو جا۔

نِطاق سے کھانا باندھنے کے واقعہ کی تصریح

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے وضاحت فرمائی ، جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ نِطاق سے کھانا باندھنے کا واقعہ حضرت ابوبکرؓ کے گھر سے چلتے وقت ہؤا تھا لیکن بہرحال یہاں بھی یہ ذکر ملتا ہے، دو مواقع پر یہ ذکر ملتا ہےتاریخ میں۔ بعض کے نزدیک اُس وقت جب نبیٔ کریمؐ ہجرت کے لیئے مکّہ میں حضرت ابوبکرؓ کے گھر سے غارِ ثور کے لیئےروانہ ہو رہے تھے اور بعض کے نزدیک اُس وقت جب نبیٔ کریمؐ غارِ ثور سے مدینہ کے لیئے روانہ ہو رہے تھے۔ تو بہر حال یہ دونوں ذکر ملتے ہیں لیکن بخاری میں حضرت عائشہؓ نےسفرِ ہجرت کی جو تفصیل بیان فرمائی ہے اُس روایت کے تسلسل سے یہی تأثر ملتا ہے یہ حضرت ابوبکرؓ کے گھر سے روانگی کا واقعہ ہے لہٰذا بخاری کی روایت کو ترجیح دینا زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ اوّل تو غارِ ثور کے قیام کو جس طرح خفیہ رکھا گیا تھا وہاں حضرت اسماء ؓ کا کھانا لے کر جانا مَحلِّ نظر ہو سکتا ہے جبکہ حضرت عبدالله ؓ بن ابوبکرؓ اور حضرت عامر بن فُہیرہ یہ دونوں مَرد روزانہ چُھپ کر جا رہے تھے تو پھر ایک خاتون کا جانا حفاظت اور احتیاط کےتقاضوں کے منافی نظر آتا ہے۔ بہرحال گھر میں بھی نِطاق سے کھانا باندھنے کا جو واقعہ ہے اُس میں بھی حضرت اسماءؓ کی فدائیت اور والہانہ محبّت کی جھلک بھی نمایاں ہوتی ہے کہ بجائے اِس کے کہ اِس وقت کھانا باندھنے کے لیئے کوئی اور چیز ڈھونڈھنے میں وقت ضائع کریں، غار میں تو کہا جا سکتا ہے ناں غار میں واقعہ ہو گا کیونکہ وہاں کوئی چیز نہیں تھی لیکن گھر میں بھی یہ واقعہ ہو سکتا ہے کہ فوری طور پر کوئی چیز نہ ملی ہو اَور وقت ضائع ہونے کا خدشہ ہو تو اپنا کمر بند کھول کر کھانا باندھ کر حضرت ابوبکرؓ اور آنحضرتؐ کو رخصت کیا ۔ اِس لیئے بخاری کی روایت کے مطابق یہ زیادہ درست معلوم ہوتا ہے کہ کھانا باندھنے کا واقعہ حضرت ابوبکرؓ کے گھر سے رخصت ہونے کا ہو گا نہ کہ غارِ ثور سے مدینہ کی طرف سفر کے آغاز کا، بہرحال والله اعلم!

الله کی قسم! حضرت ابوبکرؓ ہمارے لیئے کچھ بھی نہ چھوڑ کر گئے تھے

حضرت اسماء ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب آنحضورؐ اور حضرت ابوبکرؓ ہجرت کے لیئے نکلے تو حضرت ابوبکرؓ نے اپنا سارا مال ساتھ لے لیا جو پانچ یا چھ ہزار دِرہم تھا۔اِس سلسلہ میں اُن کے دادا اَبو قحافہ جو اُس وقت بینائی کھو چکے تھے کے خدشہ کہ الله کی قسم! میرا خیال ہے کہ وہ (یعنی حضرت ابوبکرؓ) اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے مال کے ذریعہ بھی تم لوگوں کو مصیبت میں ڈال گیا ہے، پر حضرت اسماءؓ کے کچھ پتھر لینے اور اُن کو گھر کے اُس روشن دان میں رکھنےکی تدبیر کا تذکرہ ہؤا جہاں اُن کے والد مال رکھا کرتے تھے اور اُن پرکپڑاڈال دیا اور دَادا سے کہا! دادا جان اِس مال پر اپنا ہاتھ تو رکھیں ، پس اُنہوں نے اُس پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا! کوئی حرج نہیں اگر وہ تمہارے لیئے اتنا کچھ چھوڑ کر گیا ہے تو پھر اُس نے اچھا کیا ہے۔حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ الله کی قسم! حضرت ابوبکرؓ ہمارے لیئے کچھ بھی نہ چھوڑ کر گئے تھے مگر مَیں چاہتی تھی کہ اِس بزرگ کو اِس طرح اطمنان دلا سکوں۔

مکّہ کی طرف آخری نظر اور حسرت بھرے الفاظ میں فرمان

اِس کے بعد بحوالۂ تحریر حضرت مرزا بشیر احمد صاحِبؓ غارِ ثور سے روانگی کا تذکرہ نیز بیان ہؤا کہ روانہ ہوتے ہوئے آپؐ نے مکّہ کی طرف آخری نظر ڈالی اورحسرت کے الفاظ میں فرمایا!

اَے مکّہ کی بستی تُو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔

 اُس وقت حضرت ابوبکرؓ نے کہا!

اِن لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہےاب یہ ضرور ہلاک ہوں گے۔

اِن لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے

اِسی طرح روانگی کی تفصیلات کے تناظر میں حضرت المصلح الموعودؓ فرماتے ہیں۔
مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے رسولِ کریم ؐ نے اپنا مُنہ مکّہ کی طرف کیا ، اُس مقدس شہر پر جس میں آپؐ پیدا ہوئے، جس میں آپؐ مبعوث ہوئے اور جس میں حضرت اسماعیلؑ کے زمانہ سے آپؐ کے آباء و اجداد رہتے چلے آئے تھے آپؐ نے آخری نظر ڈالی اور حسرت کے ساتھ شہر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا!

ا َے مکّہ کی بستی! تُو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔

اُس وقت حضرت ابوبکرؓ نے بھی نہایت افسوس کے ساتھ کہا!

اِن لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہےاب یہ ضرور ہلاک ہوں گے۔

جحفہ مقام پر آیتِ قرآنی کا نزول

ایک روایت کے مطابق جب جحفہ مقام پر پہنچے(یہ جحفہ جو ہے یہ مکّہ سے تقریبًا بیاسی میل کے فاصلہ پر ہے) تو یہ آیت نازل ہوئی۔

اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ

(القصص: 86)

کہ یقینًا وہ جس نے تجھ پر قرآن کو فرض کیا ہے تجھے ضرور ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے

آئے گا۔

ساری رات یہ سفر جاری رہا

ساری رات یہ سفر جاری رہا یہاں تک کہ جب دوپہر کا وقت ہونے لگا تو ایک چٹان کے سائے میں قافلہ استراحت کے لیئے رُکا، حضرت ابوبکرؓ نےبستر کیا اور نبیٔ اکرمؐ سے آرام فرمانے کی درخواست کی چنانچہ نبیؐ لیٹ گئے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ باہر نکل گئے تا دیکھیں کہ تعاقب کرنے والوں میں سے کوئی آ تو نہیں رہا۔

آپؐ نے اتنا پیا کہ حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ مَیں خوش ہو گیا

اتنے میں دُور سے بکریوں کا ایک چرواہا بھی سائے کی تلاش میں اُدھر آ نکلا، حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے اُس سے پوچھا! لڑکےتم کس کے غلام ہو؟ اُس نے کہا! قریش کے ایک شخص کا ہوں، اُس نے اُس کا نام لیا اور مَیں نے اُس کو پہچان لیا۔ مَیں نے کہا! کیا تمہاری بکریوں میں کچھ دودھ ہے ، اُس نے کہا! ہاں۔ مَیں نے کہا! کیا تم ہمارے لیئے کچھ دودھ دوہوگے؟ اُس نے کہا! ہاں۔ چنانچہ مَیں نے اُسے دودھ دوہنے کے لیئے کہا ۔۔۔پھر مَیں نے اُس کو کہا کہ پہلے تھن کو اچھی طرح صاف کرو ۔ پھر اپنی نگرانی میں دودھ برتن میں ڈلوایا، اُس میں پانی ڈالا تاکہ دودھ کی حدّت کچھ کم ہو جائے اور دودھ آنحضرتؐ کی خدمت میں پیش کیا۔ بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ دودھ لے کر حاضر ہوئے تو نبیٔ اکرمؐ ابھی تک سوئے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے مناسب نہ سمجھا کہ آپؐ کے آرام میں خلل کیا جائے چنانچہ آپؐ کے بیدار ہونے کا انتظار کرنے لگے، بیدار ہونے پر دودھ پیش کیا اور عرض کیا، یارسول اللهؐ! پیئیں اور آپؐ نے اتنا پیا کہ حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ مَیں خوش ہو گیا۔ پھر مَیں نے کہا، یارسول الله!کُوچ کا وقت آ پہنچا ہے، آپؐ نے فرمایا! ہاں۔ یا ایک روایت میں ذکر ہے کہ نبی ٔ اکرمؐ نے فرمایا، اب سفر دوبارہ شروع کیا جائے۔ عرض کیا گیا، جی میرے آقا! چنانچہ سفر پھر شروع ہؤا۔

سفرِ ہجرت کے حوالہ سے سُراقہ بن مالک کےواقعۂ تعاقب کا تفصیلی تذکرہ

اِس کے بعد حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سفرِ ہجرت کے حوالہ سے سُراقہ بن مالک کے واقعۂ تعاقب کا تفصیلی تذکرہ فرمایا نیز بیان کیا۔ رسول اللهؐ کے ارشاد پر حضرت ابوبکرؓ نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اُس نے کہا کہ مَیں سُراقہ ہوں اور آپ لوگوں سے بات کرنا چاہتا ہوں اِس پر وہ رُک گئے۔ سُراقہ بتانے لگا کہ مکّہ والوں نے اُن کے زندہ یا مُردہ پکڑے جانے پر سَو اونٹ انعام مقرر کیا ہے اور مَیں اِسی لالچ میں آپ کا تعاقب کرتے ہوئے آیا ہوں لیکن جو کچھ میرے ساتھ ہؤا ہے اِس سے مَیں اِس یقین پر قائم ہوں کہ میرا تعاقب درست نہیں ہے۔ اِس نے نبیٔ اکرمؐ کی خدمت میں زادِ راہ وغیرہ کی پیشکش بھی کی لیکن آپؐ نے قبول نہ فرمایا۔ بس یہ کہا! ہمارے بارہ میں کسی کو نہ بتانا اُس نے یہ وعدہ کیا اور ساتھ یہ بھی عرض کیا کہ مجھے یقین ہے کہ آپؐ ایک دن بادشاہت حاصل کر لیں گے، مجھے کوئی عہد وپیمان لکھ دیں کہ اُس وقت جب مَیں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوں تو مجھ سے عزت و احترام سے پیش آیا جائے۔ بعض روایات کے مطابق اُس نے اَمان کی تحریر کے لیئے درخواست کی تھی چنانچہ نبیٔ اکرمؐ کے ارشاد پر اُس کو وہ تحریر حضرت ابوبکرؓ نے اور ایک روایت کے مطابق عامر بن فُہیرہ نے لکھ کر دی اور وہ یہ تحریر لے کر واپس آ گیا۔

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عندیہ دیا کہ یہ ابھی ذکر اِن شاء الله! آئندہ بھی چلے گا ۔

کَل اِن شاء الله! نیا سال بھی شروع ہو رہا ہے

مزید برآں ارشاد فرمایا! کَل اِن شاء الله! نیا سال بھی شروع ہو رہا ہے۔ الله تعالیٰ آنے والے سال کو افرادِ جماعت کے لیئے، جماعت کے لیئے من حیث الجماعت ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ہر قسم کے شرّ سے جماعت کو محفوظ رکھے اور دشمن کے جو جماعت کے خلاف منصوبے ہیں، ہر منصوبہ کو خاک میں ملا دے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام سے جو الله تعالیٰ نے وعدے کیئے ہیں اُن وعدوں کو ہم بھی اپنی زندگیوں میں کثرت سے پورا ہوتا ہؤادیکھیں، ہمیں الله تعالیٰ یہ نظارے بھی دکھائے۔

نئے سال میں دعاؤں کے ساتھ داخل ہوں

پس بہت دعائیں کرتے رہیں، نئے سال میں دعاؤں کے ساتھ داخل ہوں ۔ تہجّد کا بھی خاص اہتمام کریں، بعض مساجد میں ہو بھی رہا ہے۔ باقی جہاں نہیں ہے وہاں بھی کرنا چاہیئے انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر نہیں تو انفرادی طور پے بھی اور گھروں میں بھی تہجّد کی نماز ضرور خاص طور پر ادا کرنی چاہیئے، دعا کرنی چاہیئے۔ اوّل تو یہ مستقل عادت ہونی چاہیئے لیکن کل سے جب پڑھیں یا آج رات سے تو اِس کو بھی کوشش کریں مستقل حصّہ زندگیوں کا بن جائے، الله تعالیٰ اِس کی توفیق بھی دے سب کو۔

یہ دعائیں بھی درود شریف اور اِستغفار کے علاوہ کثرت سے پڑھا کریں

یہ دعائیں بھی درود شریف اور اِستغفار کے علاوہ کثرت سے پڑھا کریں کہ

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ھَدَیۡتَنَا وَ ھَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ رَحۡمَةً ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡوَھَّابُ

(اٰل عمرٰن: 9)

اَے ہمارے ربّ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اِس کے تُو ہمیں ہدایت دے چکا ہو۔ اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطاء کر۔ اور یقینًا تُو ہی بہت عطاء کرنے والاہے۔

پھر یہ بھی دعا پڑھیں۔

رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ اِسۡرَافَنَا فِیۡۤ اَمۡرِنَا وَ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ

(اٰل عمرٰن: 148)

کہ اَے ہمارے ربّ! ہمارے گناہ بخش دے اور اپنے معاملہ میں ہماری زیادتی بھی۔ اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور ہمیں کافر قوم کے خلاف نصرت عطاء کر۔ الله تعالیٰ اِس کی توفیق دے ہر اَحمدی کو۔

تین مرحومین کا تذکرۂ خیر

خطبۂ ثانیہ سے قبل حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا! اِس وقت مَیں جمعہ کی نماز کے بعد بعض مرحومین کی جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا ، اُن کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔مکرم ملک فاروق احمد کھوکھر صاحِب آف ملتان؍ سابق امیرضلع ملتان (آپ حضرت میر محمد اسحٰق صاحِب ؓ کے نواسے اور صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کے داماد تھے)؛ مکرم رحمت الله صاحِب آف انڈونیشیاء؛الحاج عبدالحمید ٹاک صاحِب آف یاری پورہ کشمیر؍ سابق صوبائی امیر جموں و کشمیر

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نما ئندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

سال نو کے آغاز پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سےتہجد اور دعاؤں کی تحریک