ممکن نہیں الفاظ میں خوبی سے بیاں ہو
وہ فیض جو دربارِ خلافت سے ملا ہے
شامل ہے مرے خون میں اس در کی محبت
سرمایہ یہ ماں باپ سے ورثے میں ملا ہے
خوش قسمت ہوں دیکھے ہیں چار عہد خلافت
احقر پہ خدا تعالیٰ کا احسان بڑا ہے
جب آنکھ کھلی راج تھا فرزند مسیحؑ کا
دیکھا کہ ہر اک فرد خلیفہ پہ فدا ہے
ملتی تھی ہمیں اُن سے سگے باپ کی شفقت
درویش کے بچوں کو یہ اعزاز ملا ہے
صد شکر کہ خود مصلح موعودؓ سے میں نے
درسِ قرآن قصرِ خلافت میں سنا ہے
ہے یاد وہ عرفان سے بھرپور خطابت
لگتا تھا کہ بندے میں خدا بول رہا ہے
ملتی ہیں مجھے حضرتِ ناصرؒ کی دعائیں
مجھ پر جو عنایات ہیں سب اُن کی عطا ہے
یاد آتے ہیں جیسے کہ کوئی ماں کو کرے یاد
اک میٹھا تبسم مری آنکھوں میں بسا ہے
اک خاص تعلق تھا عقیدت کا وفا کا
جو دل کے نہاں خانے کا اک حصہ رہا ہے
خود سب سے محبت پہ عمل کر کے دکھایا
نفرت کو مٹانے کا ہمیں درس دیا ہے
میں حضرت طاہرؒ کا کروں ذکر تو کیسے
الفاظ نے ہیجان کا کب ساتھ دیا ہے
میرے تو مہ و سال کچھ اس حال میں گزرے
لگتا تھا کہ اُس شخص نے جادو سا کیا ہے
وہ حوصلہ افزائی سے کرواتے تھے سب کام
یہ سچ ہے کہ میں کچھ نہیں،سب اُن کی دعا ہے
بخشا مجھے تحریر کے شہزادے نے اک پین
اک جہد مسلسل کا جو ہتھیار بنا ہے
کچھ خط ہیں جو خود دستِ مبارک سے لکھے تھے
قیمت مرے مخزن کی جواہر سے سوا ہے
راضی ہو خدا اُن سے ملے قربِ الٰہی
قدموں میں جگہ پاؤں ، وہاں میری دعا ہے
مولا نے ہمیں بخشا ہے اب پانچواں مظہر
دل کو مرے خود ان کی محبت سے بھرا ہے
وہ نور ہے چہرے پہ نگاہیں نہیں ٹکتیں
یہ کیوں نہ ہو اللہ تو خود ساتھ کھڑا ہے
سونپا ہے قلم وارثِ سلطانِ قلم نے
اور ساتھ اشاعت کا بھی کچھ کام دیا ہے
مجھ جیسی گنہگار پہ اکرام کی بارش
یہ سارا خلافت سے محبت کا مزا ہے
پانا ہے اگر کچھ تو اطاعت سے ملے گا
پہلوں سے سبق سیکھا ہے نسلوں کو دیا ہے
جاری ہیں مری آنکھوں سے شکرانے کے آنسو
ہر ذرۂ تن حمدِ الہٰی میں جھکا ہے
(امۃ الباری ناصر)