• 30 جون, 2025

ہمارے پیارےآقا حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی عائلی زندگی

پیغمبر اعظم ﷺ کی زندگی قیامت تک کی نسلوں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ آپﷺ کی ذاتِ با برکات میں اللہ تعالیٰ نے وہ تمام اوصاف بدرجۂ اتم شامل کردئیے تھے جو ایک کامل انسان کے وجود میں تصور کئے جا سکتے ہیں اور جو تخلیقِ آدم کے وقت ذاتِ باری تعالیٰ کی منشأ کا مصداق تھے۔ جس کی بناء پر خالقِ کائنات نے فرشتوں کو سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا تھا اور جن کی بدولت آپ حبیبِ خدا ٹھہرے۔

مصروف دنیوی زندگی گزارنے والوں کو بے شمار چیلنجز درپیش ہوتے ہیں اور ان سے نبرد آزما ہوتے ہوئے وہ گھریلو امور سے لاتعلق ہونے پر مجبور ہوتے ہیں اور عائلی زندگی کے معاملات ان کے لئےثانوی سے بھی نیچے کی سطح پر چلے جاتے ہیں۔خانگی فرائض کی بجاآوری ان کے شایان شان نہیں رہتی۔ دوسری جانب جب ہم تاریخِ عالم کے مصروف ترین شخص کو دیکھتے ہیں تو حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ وہ انسانِ کامل جس کے کندھوں پر دنیا کے سب سے بڑے انقلاب کی ذمہ داری ہے اور جس کی ذمہ داری خود خالق کائنات نے مقرر کی اور جس کی خاطر دنیا کا نظام ترتیب دیا گیا، اپنی عائلی زندگی کی چھوٹی چھوٹی جزیات میں بھی کمال نمونہ پیش کرتا ہےجو قیامت تک کی آنے والی نسلوں کے لئے کامیاب خانگی زندگی کا معیار اور پیمانہ ہے۔ کسی بھی انسان کی زندگی کے دو نمایاں پہلو ہوتے ہیں۔ ایک ظاہری معاشرتی زندگی اور دوسری مخفی عائلی زندگی۔ عموماً معاشرے میں کلیدی حیثیت کے حامل افراد کی عائلی زندگی کا بڑا حصہ عوام الناس سے مخفی رہتا ہے مگر ختم الرسلؐ کی زندگی کا کوئی پہلو بھی دنیا سے مخفی و پوشیدہ نہیں ہے۔ آپﷺ کی ساری زندگی ایک کھلی کتاب ہے تاکہ نوع انسان کے لئے ہر قسم کے معاملات میں عملی رہنمائی کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔

یہاں میں ایک اور تصور کی اصلاح بھی ضروری خیال کرتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام مافوق الفطرت قویٰ کے ساتھ مبعوث ہوتے ہیں اور ان کی ازواج معاشرے کی چنیدہ اور آئیڈیل خواتین ہوتی ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ انبیاء بھی انہی انسانی قویٰ کے حامل ہوتے ہیں جو تمام انسانوں کے لئے خاص ہیں۔ اور ان کی ازواج بھی عمومی نسوانی مزاج اور جذبات رکھنے والی اور عام عورتوں کی طرح خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہوتی ہیں۔ لہٰذا وہ اپنی ازدواجی زندگی میں ہر طرح کے رویّوں کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اپنے حقوق کے لئے آواز بھی بلند کرتی ہیں، زیادتیوں کا شکوہ و شکایت بھی کرتی ہیں، زیادہ توجہ کا تقاضا بھی کرتی ہیں، اپنی بات منوانے کے لئے بحث و مباحثہ بھی کرتی ہیں، ناز و انداز بھی دکھاتی ہیں اور غصّہ و تُند مزاجی کا مظاہرہ بھی کرتی ہیں۔ ایسے ہی تاجدارِ انبیاءکی ازدواجی زندگی بھی تلخ و شیریں حقائق سے عبارت تھی۔ آپؐ ہر طرح کے گھریلو معاملات سے گزرے اور نہ صرف خوش اسلوبی کامظاہرہ کیا بلکہ ہر معاملے میں خود کوافضل النّاس ثابت کیا اور رہتی دنیا تک قابل تقلید نمونہ قائم کیا۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’رسول اللہ ﷺ ساری باتوں کا کامل نمونہ ہیں۔ آپؐ کی زندگی کو دیکھو کہ آپؐ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے۔ میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ کی پاک زندگی کو مطالعہ کرو تا تمہیں معلوم ہو کہ آپ ایسے خلیق تھے باوجودیکہ آپ بڑے با رعب تھے لیکن ایک ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کرتی تو آپ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک وہ اجازت نہ دے۔‘‘

(الحکم جلد 5 نمبر 13)

نبی کریم ﷺ کی عائلی زندگی ایسی بے شمار مثالوں سے مزیّن ہے جو آپؐ کو بہترین خاوند اور بہترین باپ کے درجہ پر فائز کرتی ہیں۔ آپؐ کا فرمان ہے:

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلہٖ وَاَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِی

تم سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے بہتر ہے اور میں تم میں سے اپنے اہل کے لئے بہترین ہوں۔
آپؐ کی زندگی میں کل 11 ازواج مطہرات رضوان اللہ عنہما رہیں اور ایک وقت میں 9 ازواج کا ساتھ رہا۔ نبوت سے قبل آنحضورؐ کا پہلا نکاح حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے ساتھ اس وقت ہوا جب آپﷺ کی عمر 25 برس تھی جبکہ حضرت خدیجہؓ 40 برس کی بیوہ تھیں۔ مکّہ کی اس صاحبہ ثروت اور دانا خاتون کے پیغام نکاح کا باعث آپؐ کا اعلیٰ کردار ایمانداری اور آپ کا سعید فطرت ہونا تھا۔ عین عنفوان شباب میں خود سے 15 برس بڑی بیوہ خاتون سے شادی اور پھر اپنی جوانی کے 25 برس صرف اس پاکیزہ خاتون سے نباہ ان لوگوں کے الزامات کا مدلّل جواب ہے جو الزام لگاتے ہیں آنحضورؐ کی کثرت ازواج نعوذباللہ ا ٓپ کے جذبات کے غلبہ کی عکاس ہے۔ ان کے لئے یہ حقیقت کافی ہے کہ جوانی کا دور جس میں انسان کے جذبات عروج پر ہوتے ہیں، آپؐ نے وہ بہترین 25 سال ایک بیوہ کی رفاقت میں گزار دئیے اور یہ بھی نہیں کہ آپ نے ایسا کسی مجبوری کے تحت کیا ہو بلکہ اپنی ازواج میں سے سب سے زیادہ محبت آپؐ حضرت خدیجہ ہی سے کرتے تھے اور ان کی زندگی میں آپؐ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا۔

حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے آپ کی والہانہ محبت کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اپنی زوجہ اوّل کی وفات کے بعد جب بھی آنحضورؐ کسی جانور کی قربانی کرتے تو سب سے پہلے گوشت کا حصہ حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کو بھجواتے اور آپؓ کے اقربا میں سے جب کوئی ملنے آتا تو حضور اکرمﷺ بڑی تکریم سے پیش آتے اور بے حد خاطر مدارت کرتے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حسب معمول حضورﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی تعریف کرنا شروع کر دی۔ اس پر مجھے رشک آیا میں نے کہا: ’’یا رسول اللہﷺ ! وہ ایک بڑھیا بیوہ عورت تھیں ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو آپ سے بہتر بیوی عطا کی۔‘‘ یہ سن کر حضورﷺ کا چہرہ مبارک غصے سے سرخ ہو گیا اور فرمایا:
’’اللہ کی قسم مجھے خدیجہ سے اچھی بیوی نہیں ملی، وہ ایمان لائیں جب سب کافر تھے، اس نے میری تصدیق کی جب سب نے مجھے جھٹلایا، اس نے اپنا زرومال مجھ پر قربان کردیا، جب دوسروں نے مجھے محروم رکھا، اور اللہ نے مجھے اس کے بطن سے اولاد دی۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ڈر گئی اور اس روز سے عہد کر لیا کہ آئندہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے بارے میں کبھی ایسا ویسا نہیں کہوں گی۔ حضوراکرمﷺ کی تمام ازواج میں صرف حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی باکرہ تھیں باقی تمام حضورﷺ سے شادی کے وقت بیوگان تھیں۔ آپؓ آنحضرتؐ کے رفیق خاص حضرت ابوبکر ؓ کی بیٹی تھیں۔ آنحضورؐ نے اپنے اس دوست کی دلپزیری اور ان سے رشتہ اخوت مضبوط بنانے کی خاطر یہ شادی کی۔ ازدواجی زندگی کے حوالہ سے معاندین ایک اعتراض نکاح کے وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی کم عمری کے بارے میں کرتے ہیں۔ اس بارے میں بعض ضعیف احادیث کے تحت یہ تصور قائم ہو گیا کہ شادی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر 6 برس تھی اور شادی کے تین سال بعد جب رخصتی ہوئی تو آپ کی عمر 9 سال تھی۔ جب کہ بعض دیگر صحیح احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شادی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر کم ازکم 17 سال بنتی ہے۔ اس حوالہ سے ایک روایت کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو بیویاں تھیں اور ان کے بطن سے 4 بیٹیاں ہوئیں جو کہ سب کی سب دور جاہلیت یعنی نبوت سے قبل ہوئیں۔ حضورﷺ کی بعثت 610 عیسوی میں ہوئی اور آپﷺ نے 624 سن عیسوی میں ہجرت فرمائی۔ اس حساب سے اگر حضرت عائشہ کی پیدائش نبوت سے ایک سال قبل بھی ہوئی ہو تو بھی ہجرت کے وقت سیّدہ عائشہؓ کی عمر 14 سال بنتی ہے اور آپ کی شادی ہجرت کے ایک یا دو سال بعد ہوئی یعنی شادی کے وقت آپؓ کی عمر کم از کم 15سال بنتی ہے جو کہ غلط العام تصور کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ حضرت عائشہؓ بتاتی ہیں کہ وہ اپنی بڑی بہن حضرت اسماؓء سے 10 سال چھوٹی ہیں اور ایک روایت کے مطابق حضرت اسماءؓ ایک سو برس کی عمر میں سن 73 ہجری میں وفات پاگئیں۔ اس کے مطابق ہجرت کے موقع پر حضرت اسماءؓ 27 سال کی تھیں لہٰذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہجرت کے وقت حضرت عائشہؓ 17 برس کی تھیں اور شادی کے وقت ان کی عمر 18 یا 19 سال بنتی ہے۔ اس ضمن میں اور بھی شواہد ہیں جو کہ اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں مگر طوالت کے ڈر سے انہی پر اکتفا کرتاہوں۔

اسلام میں کثرت ازواج کی اجازت ہے جس کی حدّ ایک وقت میں 4 شادیوں کی ہے مگر اس کے لئے کڑی شرط ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل اور مساوات کا سختی سے خیال رکھا جائے اور اگر انسان عدل کے تقاضے پورے کرنے کا اہل نہ ہو تو وہ ایک سے زائد شادی کے بارے میں نہ سوچے۔ کم لوگ ہیں جو اس پیرائے میں اپنے آپ کو اہل پاتے ہیں۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ دو بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنا مشکل ہوتا ہے اور کسی ایک بیوی کی جانب انسان کا فطری جھکاؤ گھر میں ناچاکی اور بے سکونی کا باعث بن جاتا ہے۔ خاوند کی بیرونی سرگرمیاں بُری طرح متاثر ہوتی ہیں، کاروباری معاملات چوپٹ ہو جاتے ہیں، اور سماجی روابط اور میل جول میں انحطاط آ جاتا ہے۔ ایسے میں 3 یا 4 ازواج کے ساتھ بیک وقت نباہ ایک عام انسان کے لئے کل وقتی چیلنج سے کم نہیں۔ ان حقائق کے تناظر میں جب ہم نبی کریمﷺ کی عائلی زندگی پر نظر دوڑاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ ذات اقدسؐ جس نے دنیا کا سب سے بڑا انقلاب برپا کیا یقیناً اس کی گھر سے باہر کی مصروفیات بھی سب سے بڑھ کر تھیں اور عموماً ایسے انسان کے بارے میں تاثر یہی ہو سکتا ہے کہ اس کے لئے گھریلو اور خانگی امور خاطر خواہ اہمیت کے حامل نہیں ہوں گے کیونکہ اس دور اور آنے والے تمام ادوار کے انسانوں کی پیشوائی اور مسیحائی کی ذمہ داری کے سامنے ایک چھوٹے سے گھریلو یونٹ کی ذمہ داری چہ معنے، مگر آفرین ہے اس ذات اقدس کے جس نے اپنی عائلی زندگی کے ہر گوشے میں بنی نوع انسان کے لئے مثالی طرز عمل اور رہنمائی کے انمٹ نقوش چھوڑے جو رہتی دنیا تک ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ آپ نے اپنی 11 ازواج مطہرات میں سے ہر ایک کے حقوق برابری اور انصاف کے تمام تر تقاضے پورے کرتے ہوئے اس طرح ادا کئے حالانکہ آپؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے مکلّف نہ تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورہ احزاب میں آپؐ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ’’ان (اپنی ازواج) میں سے جسے چاہیں دور رکھیں اور جسے چاہیں قریب رکھیں‘‘ مگر آنحضرتؐ نے باوجود اللہ کی طرف سے اس رخصت کے، عدل کو اختیار کیا اور تمام ازواج اس بات کی معترف رہیں۔

آپؐ نے اپنے قیام کے لئے ہر بیوی کے لئے باری مقرر کر رکھی تھی اور ہر ایک کو معلوم ہوتا تھا کہ کس دن آنحضورؐ کی باری کس خاتون کے ہاں ہے۔ اپنی بیویوں کے لئے آپؐ نے ساتھ ساتھ ایک جیسے چھوٹے چھوٹے گھر بنا رکھے تھے جنہیں حجرات کہا جاتا تھا۔ ہر حجرہ ایک کمرے اور ایک چھوٹے سے صحن پر مشتمل ہوتا تھا۔ روایت ہے کہ آنحضورؐ عصر کی نماز کے بعد باری باری ہر حجرے میں تشریف لے جاتے اور سلام کے بعد احوال دریافت کرتے اور جس زوجہ مطہر کے ہاں باری ہوتی وہاں قیام کر لیتے۔ ہاں بعض اوقات ازواجؓ اپنی رضامندی سے ایّام باہم بدل لیتی تھیں۔حضوراکرمﷺ جب سفر پر روانہ ہوتے تو اپنے ہمراہ ایک زوجۂ مطہرہ کو لے جاتے اور اس کے لئے خود انتخاب نہ کرتے بلکہ انصاف کی خاطر قرعہ ڈالا جاتا اور جس کے نام کا قرعہ نکلتا اسے ہم سفر بننے کا شرف حاصل ہوتا اور کسی کو اعتراض کا موقع نہ ملتا۔

آنحضورﷺ کی کثیر الجہت بیرونی سرگرمیاں یقیناً تھکا دینے والی ہوا کرتی تھیں اور اس کے بعد گھریلو مسائل اور معاملات میں خندہپیشانی اور خوش مزاجی کی توقع کم ہی ہو سکتی ہے لیکن حبیبخداﷺ گھر میں بچوں اور ازواج کے ساتھ مثالی حسن سلوک اور کمال شفقت سے پیش آتے تھے۔ ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے اور گھر کے کاموں میں حصہ لیتے تھے۔ ایک موقع پر حضرت عائشہؓ سے کسی نے نبیؐ کریم کے گھر میں معمولات سے متعلق دریافت کیا آپؓ نے جواب دیا: آپؐ گھر کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور نماز کے وقت مسجد میں چلے جاتے ہیں۔ ازواج مطہرات کے حوالے سے دیگر مختلف احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ اپنے کپڑوں کو پیوند لگا لیتے، جوتے گانٹھ لیتے، بکریاں دوہ لیتے، گھر کا سودا سلف لے آتے اور چارپائیاں کَس لیتے تھے۔ آپؐ جب گھر میں داخل ہوتے تو بلند آواز میں سلام کہتے اور اگر گھر والے سوئے ہوتے تو خفیف آواز میں سلام کرتے۔

آنحضرتؐ کا اپنی ازواج کے ساتھ شفقت اور رواداری کا احوال دیکھئے کہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ جب میری رخصتی ہوئی تو مجھ میں سنجیدگی نہیں تھی کبھی آٹا گوندھتی تو ڈھانپنا بھول جاتی اور میرا آٹا بکریاں کھا جاتیں لیکن آپﷺنے کبھی غصہ نہیں کیا۔ ازواج کے ساتھ محبت کے اظہار کا انداز دیکھیں کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ کئی مرتبہ جس برتن سے میں پانی پیتی ، اسی برتن سے آپؐ بھی پانی پیتے۔ اب ذرا سوچئے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنی شریک حیات کی اس حد تک دلجوئی کرتے ہوں گے۔

آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ مزاح سے بھی پیش آتے تھے اور ہلکے پھلکے انداز میں انہیں محظوظ کرتے تھے۔ آپ کی ازواج میں سے ام ّالمومنین حضرت سودہ ؓ بھاری جسم کی مالک تھیں، آپؐ ان کی نقل اتارتے ہوئے فرماتے: ’’سودہ تم یوں چلتی ہو۔‘‘

گھر کے اندر آپﷺ کی یہ دل لبھانے والی باتیں اور شیریں لہجہ آپ کی عائلی زندگی کو جنت نظیر بناتی ہیں اور ہمارے لئے ایک عملی نمونہ پیش کرتی ہیں ۔ آپ ﷺ اپنے مشفقانہ قول و عمل سے ازواجِ مطہرات کو ہمیشہ خوش رکھتے اور ان کے مزاج شناس بھی تھے۔ آپ حضرت عائشہؓ سے فرماتے تھے کہ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو بھی مجھے پتہ چل جاتا ہے اور جب ناراض ہوتی ہو تب بھی مجھے پتہ چل جاتا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے پوچھا یا رسولؐ اللہ وہ کیسے؟ آپؐ نے فرمایا : جب تم خوش ہوتی ہو تو قسم کھاتے ہوئے محمد ؐ کے رب کی قسم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو ابراہیم ؑکے رب کی قسم کھاتی ہو۔ اس پر حضرت عائشہؓ کہتی ہیں: یا رسولؐ اللہ صرف زبان سے ہی آپ کا نام چھوڑتی ہوں۔

(صحیح بخاری کتاب النکاح)

بہت سے ایسے واقعات ہیں جو احادیث کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپﷺ اپنی ازواج کا حد درجہ خیال رکھتے تھے، ان کے آرام و سکون کا خیال رکھتے، ان کا ہاتھ بٹاتے اور ان کی دلجوئی کا دھیان رکھتے۔ ایک مرتبہ عید کے موقع پرحبشی نیزوں کو لہرا لہرا کر کرتب دکھا رہے تھے، حضرت عائشہؓ نے یہ کھیل دیکھنا چاہا تو آپؐ ان کے آگے کھڑے ہو گئے اور ام المومنین آپ کے کندھوں کے اوپر سے دیکھتی رہیں جب تک وہ تھک کر پیچھے نہیں ہٹ گئیں آپؐ برابر اوٹ کئے سامنے کھڑے رہے۔
حضرت عائشہؓ کیونکہ نوجوان تھیں اس لئے کھیل کود کا شوق تھا۔ چنانچہ نبیؐ کریم وقتاً فوقتاً ان کا ساتھ دیتے۔ ایک موقع پر حضرت عائشہؓ کے ساتھ آپ ایک قافلے کے ہمراہ جا رہے تھے آپ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ آپ لوگ آگے چلیں۔ پھر حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ آؤ دوڑ لگائیں۔ حضرت عائشہؓ کیونکہ ہلکی پھلکی تھیں اس لئے دوڑ میں جیت گئیں۔ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک عرصہ بعد جب وہ کچھ فربہ ہو گئیں تو حضورؐ نے دوبارہ دوڑ کا مقابلہ کیا اور آگے نکل گئے اور فرمایا کہ یہ اس دن کا بدلہ ہے۔

(سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد)

گھر میں کبھی کبھار کوئی نا خوشگوار بات بھی ہو جاتی مگر آپ ہمیشہ کمال صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرتے۔ ازواج ؓ میں سے کبھی کسی کو نہ ڈانٹا نہ برا بھلا کہا۔ لیکن اگر کوئی نا پسندیدہ بات سر زد ہو جاتی تو آپؐ کی طرف سے تادیب کا انداز بھی مصلحانہ ہوتا تھا۔ آپؐ کا معمول تھا کہ جس زوجۂ مطہرہ کے ہاں آپ کے رہنے کی باری ہوتی کھانا بھی آپ وہیں تناول فرماتے۔

حضرت صفیہؓ چونکہ ایک قبیلے کے سردار کی بیٹی تھیں اور آپ ؓکا سابقہ خاوند بھی امیر آدمی تھا اس لئےآپ کو اچھا کھانا بنانے کا ہنر آتا تھا۔ خاص طور پر آپؓ گوشت بہت اچھا بناتی تھیں جو کہ آنحضورؓ کو بہت پسند تھا۔ ایک روز حضور اکرمﷺ کے قیام کی باری حضرت عائشہ ؓکے ہاں تھی۔ حضرت صفیہؓ نے گوشت کا سالن بنایا تو ایک رکابی میں آپؐ کے لئے بھی بھیج دیا۔ جیسے ہی غلام نے آکر بتایا کہ حضرت صفیہؓ نے سالن بھیجا ہے، حضرت عائشہ نے ہاتھ مار کر رکابی گرا دی جو کہ ٹوٹ گئی اور بوٹیاں بکھر گئیں۔ اس پر آنحضرتﷺ زمین سے بوٹیاں اٹھاتے ہوئے غلام سے کہتے رہے: ’’ غَارَتْ اُمُّکَ ‘‘ یعنی تمہاری ماں نے غیرت کی ہے، تمہاری ماں کو غیرت آگئی۔ اس کے بعد وہ بوٹیاں دھو کر کھائی گئیں اور ٹوٹی ہوئی رکابی آپؐ نے حضرت عائشہؓ کو دے دی اور ان سے نئی رکابی لے کر حضرت صفیہؓ کو بھیج دی اور غلام کو کہا کہ وہ یہ بات حضرت صفیہؓ کو نہ بتائے۔

(بخاری کتاب انکاح باب الغیرہ)

سفر کے دوران حضرت صفیہؓ کا اونٹ بیمار ہو گیا تو آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ تمہارے پاس دواونٹ ہیں۔ ایک صفیہ کو دے دو۔ حضرت عائشہؓ نے پلٹ کر کہا : ’’بھلا میں یہودی کی بچی کو اپنا اونٹ دیتی ہوں‘‘ رسول اللہ ﷺ نے اس بات کو بُرا محسوس کیا اور حضرت عائشہؓ سے ناراض ہو گئے۔ اور تادیب کے لئے ان سے کلام کرنا چھوڑ دیا۔ یہ بات حضرت عائشہ ؓ کو بہت گراں گزری۔ آپؓ نے سب سے پہلے تو حضرت صفیہ ؓسے معافی مانگ کر انہیں راضی کیا اور پھر ان سے کہا کہ اگر وہ نبی کریمﷺ سے ان کا راضی نامہ کروا دیں تو وہ اپنی اگلی باری حضرت صفیہؓ کو دے دیں گی۔ حضرت صفیہؓ نے آنحضرتؐ سے بات چلائی کہ عائشہؓ نے مجھ سے معافی مانگ لی ہے اور آپ بھی اس سے راضی ہو جائیں۔ آپ نے پوچھا اس سفارش کی کوئی شرط طے ہوئی ہے؟ حضرت صفیہؓ نے عرض کیا جی انہوں نے اگلی باری مجھے دے دی ہے۔ آپ مسکرا دیئے اور یوں صلح ہو گئی۔

آنحضرت ؐ کی روزمرہ کی زندگی ہر لحاظ سے متوازن اور جامع تھی۔ آپؐ مخلوق اور خالق دونوں کے حقوق کا برابر خیال رکھتے تھے۔ گھر میں بھی آپؐ جہاں اہل خانہ کی دنیوی ضروریات کا بھر پور خیال رکھتے تھے، وہیں گھر کے اندر عبادات کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ عام طور پر آپؐ فرض نمازیں مسجد میں ادا کرتے اور سنتیں و نوافل گھر میں پڑھتے تھے۔ تاکہ گھر اللہ کے ذکر سے آباد رہیں اور اہل خانہ کی توجہ بھی عبادات کی طرف مبذول رہے۔ آپ کے انہی معمو لات کی بدولت امہات المومنین میں بھی اللہ کے قرب کا شوق موجزن رہتا اور بعض اوقات اپنے آپ کو مشقت میں ڈال کر بھی عبادات بجا لاتی تھیں۔

ایک جگہ حضرت مسیح موعودؑ نے لکھا ہے:
’’اگرچہ آنحضرتؐ کی بیویوں سے بڑھ کر کوئی نہیں ہو سکتا تاہم آپ کی بیویاں سب کام کر لیا کرتی تھیں اور ساتھ ا س کے عبادت بھی کرتی تھیں چنانچہ ایک بیوی نے اپنی حفاظت کے واسطے ایک رسّہ ٹکا رکھا تھا کہ عبادت میں اونگھ نہ آئے عورتوں کے لئے ایک ٹکڑا عبادت کا خاوندوں کا حق ادا کرنا ہے اور ایک ٹکڑا عبادت کا خدا کا شکر بجا لانا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم ص369)

رسول اللہؐ کی رات کی عبادت تو معروف ہے جو آپؐ کی ازواج مطہرات سے مروی ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رات کا ایک حصہ حضورؐ کی عبادت کا ہوا کرتا تھا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ عشاء کے بعد جلد سو جاتے تھے اور نصف لیل تک آرام کرتے تھے، پھر جاگ کر ثلث لیل عبادت کیا کرتے تھے اور اس کے بعد پھر سدس لیل آرام کیا کرتے تھے۔ یعنی رات اگر 6 گھنٹوں کی ہو تو 3 گھنٹے آپؐ آرام فرماتے تھے پھر 2 گھنٹے عبادت فرماتے تھے اور اس کے بعد ایک گھنٹہ پھر آرام فرماتے تھے۔ یہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے رسول اللہؐ کی رات کا معمول بتایا۔ جناب نبی کریمؐ کی رات کی عبادت کیا ہوتی تھی اس کے متعلق حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ نماز کے قیام میں قرآن کریم کی تلاوت فرمایا کرتے تھے، یہی تہجد کی نماز کہلاتی ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہؓ اور ام المومنین حضرت سلمہؓ دونو ں آنحضرتؐ کی عبادات کے بارے میں بتاتی ہیں کہ نماز میں قیام کے دوران بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ کھڑے کھڑے آپؓ کی ٹانگیں سوج جاتی تھیں اور پاؤں پر ورم آ جاتا تھا۔ کبھی کبھار تو آپؐ کی ایڑھیاں پھٹ جاتی تھیں اور ان میں سے خون رسنے لگتا تھا۔ فرماتی ہیں کہ ہمیں جناب رسول اللہؐ پر ترس آتا تھا کہ حضورؐ اس مشقت کی کیفیت میں عبادت فرما رہے ہیں، یہ بات حضرت ام سلمہؓ اور حضرت عائشہؓ دونوں نے اپنے اپنے انداز سے حضورؐ سے پوچھی کہ آپؐ یہ مشقت کیوں فرماتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ ! کیا آپؐ اللہ کے پیغمبر نہیں ہیں؟ فرمایا ہاں پیغمبر ہوں۔ پھر پوچھا کیا آپؐ اللہ کے حبیب نہیں ہیں۔ فرمایا ہاں میں اللہ کا حبیب ہوں۔ پھر پوچھا کیا جنت آپ کے لئے واجب نہیں ہے؟ فرمایا ہاں جنت میرے لئے واجب ہے۔ پھر پوچھا اس سب کے باوجود آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں کرتے ہیں کہ آپؐ کی ٹانگیں سوج جاتی ہیں، پاؤں میں ورم آجاتے ہیں، ایڑیاں پھٹ جاتی ہیں ان میں سے خون رسنے لگتا ہے اور ہم دیکھنے والوں کو آپؐ پر ترس آتا ہے کہ حضورؐ کس مشقت میں پڑے ہوئے ہیں۔ جناب نبی کریمؐ نے اس کے جواب میں ایک جملہ کہہ کر ایک مسئلہ سمجھا دیا اَفَلَا اَکُوْن عَبْدًا شُکُورَا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟

ایک کامل اور مکمل انسانی زندگی کی بنیادی شناخت یہ ہے کہ دنیا میں چھوٹے بڑے، حاکم و محکوم، دوست و دشمن، اپنے اور پرائے، امیر وغریب، ہرسطح اور ہرطبقہ کے لوگوں سے جہاں اس کے تعلقات روشنی میں ہوں اور لوگوں کے لیے مشعل راہ کا درجہ رکھتے ہوں، وہیں اپنی ازواج، خدام، اولاد، متعلقین اور اقرباء و رشتہ داروں میں بھی وہ محبوب و مقبول ہوں اور ان کے ساتھ تعلق و سلوک کے باب میں بھی اس کی زندگی اسوہ اور مثال ہو۔ اس طور پر دیکھا جائے تو پیغمبر اسلامؐ کی زندگی اپنی مثال آپ ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے عائلی زندگی کا جو نقشہ بنایا اور خود اس پر عمل کرکے دکھایا، حقیقت یہ ہے کہ وہ عائلی اور ازدواجی زندگی کے لئے بہترین نمونہ اور ہرطرح کی بے سکونی کا علاج اور اکسیر ہے اور آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے آئینہ میں ہم اپنی گھریلو زندگی کی صحیح صورت گری کرسکتے ہیں۔

(نعیم انجم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 فروری 2020