• 13 مئی, 2025

نماز کی فرضیت، اہمیت اور برکات

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے حٰفِظُوۡا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الۡوُسۡطٰی ٭ وَ قُوۡمُوۡا لِلّٰہِ قٰنِتِیۡنَ

(البقرہ:239)

ترجمہ: اپنی نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص مرکزی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے حضور فرمانبرداری کرتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ۔
ایمان کے بعد نماز ہی کا درجہ ہے اور قرآن کریم میں سینکڑوں جگہ نماز کی ادائیگی کا حکم آیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ بے شک قیامت کے روز بندے کے اعمال میں سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔پس اگر اس کی نمازٹھیک نکلی تو کامیاب رہا اور بامراد ہوگا اور اگر نماز خراب نکلی تو نقصان میں پڑے گا اور کامیابی سے محروم ہوگا۔

(ترمذی کتاب الصلوٰۃ باب اِن اَوّل ما یحاسبُ بہ العبدُ)

اسی طرح ہمارے پیارےنبی حضرت محمدﷺ فرماتے ہیں۔ پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہیں جس نےان نمازوں کا وضو اچھی طرح کیا اور انہیں بروقت پڑھا اور ان کا رکوع اور سجدہ پوری طرح ادا کیا تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے ذمہ یہ عہد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا اور جس نے ایسا نہ کیا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے ذمہ کوئی عہد نہیں۔چاہے بخش دے چاہے عذاب دے۔

(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب فی المحافظۃ فی وقت الصلوٰۃ)

ایک مرتبہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سردی کے زمانے میں آبادی سے باہر تشریف لے گئے ۔اس وقت درختوں کے پتے جھڑ رہے تھے۔ آپ ﷺ نے ایک درخت کی دو ٹہنیاں پکڑیں تو اور زیادہ پتے جھڑنے لگے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابوذرؓ تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا یقین جانو بندہ اللہ کی رضا کے لئے نماز پڑھتا ہے تو اس کے چھوٹے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جیسے یہ پتے جھڑتے ہیں۔

(مسنداحمدبن حنبل)

ایک مرتبہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بتاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہرہو جس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرتا ہوتو کیا اس کے بدن پرکچھ میل باقی رہے گی ؟صحابہ نے عرض کیا ۔ذرا بھی باقی نہیں رہے گی ۔تو آپ ﷺ نے فرمایا یہی حال پانچ نمازوں کا ہے ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹادیتا ہے۔

(صحیح بخاری،کتاب مواقیت الصلوٰۃ)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ یہ منافق کی نماز ہےجو بیٹھے ہوئے نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ سورج میں زردی آ جاتی ہے اور سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان آ جاتا ہے توکھڑے ہوکر (عصر کی نماز کے) چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور بس اللہ کو ذرا سا یاد کرتا ہے۔

(صحیح مسلم)

حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۔جس کی ایک نماز جاتی رہے اس کا اتنا بڑا نقصان ہوا جیسا کسی گھر سے لوگ اور مال و دولت سب جاتا رہے۔

(الترغیب و الترہیب)

ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ سب لوگوں سے زیادہ برا چور وہ ہے جو اپنی نماز سے چوری کرتا ہے۔ یہ سن کر صحابہ ؓنے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ نماز کی چوری کیسی؟ فرمایا اس کا رکوع اور سجدہ پورا نہ ہو۔

(صحیح الترغیب صفحہ:533)

حضرت رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔اس کا کوئی دین نہیں جس کی نماز نہیں۔ نماز کا مرتبہ دین حق میں وہی ہے جو سر کا مرتبہ (انسان کے) جسم میں ہے۔

(تفسیر در منثور)

آنحضرت ﷺفرماتے ہیں۔ اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب کہ وہ سات برس کے ہو جائیںاور نماز نہ پڑھنے پر ان کو مارو جب کہ وہ دس برس کے ہو جائیںاور دس برس کی عمر میں ان کو بستر میں الگ کر دو۔

(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب یوم الغلام بالصلوٰۃ)

فرض نماز جہاں تک ممکن ہو پوری کوشش کے ساتھ باجماعت ادا کرو۔ رسول کریم ﷺ نے کبھی باجماعت نماز ترک نہیں فرمائی۔حتیٰ کہ سخت بیماری کی حالت میں بھی جبکہ خود چل کر نماز کے لئے نہیں جاسکتے تھے تو دو آدمیوں کے سہارے مسجد تشریف لے گئے اور باجماعت نماز ادا کی ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

وَ ارۡکَعُوۡا مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ

(البقرہ:44)

’’اور جُھکنے والوں کے ساتھ جھک جاؤ۔‘‘

اس آیت سے بھی نماز باجماعت کا حکم معلوم ہوتا ہے۔ پھر ایک حدیث میں بھی ہے کہ باجماعت نماز پڑھنے کا ثواب اکیلے نماز پڑھنے سے 27 گنا افضل ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ،فضل صلوٰۃ الجماعۃ)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتےہیں کہ رسول کریمﷺنے فرمایا۔ میرےدل میں ارادہ ہےکہ کسی کوحکم دوں جولکڑیاں جمع کرے۔ پھرآذان کاحکم دوں اورکسی شخص سےکہوکہ وہ امامت کرائےاورمیں ان لوگوں کےگھروں میں جاؤں جو نمازکے لئےنہیں آتےپھران کے گھروں کو آگ لگا دوں۔

(صحیح بخاری کتاب الجماعۃ والامامۃ ،باب وجوبِ صلوٰۃ الجماعۃ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’انسانی فطرت ہے کہ برائیوں کی طرف بار بار توجہ جاتی ہے اس لئے اس کی حفاظت بھی مستقل عمل چاہتی ہے اور اس کی مستقل حفاظت کے لئےاس عمل کو جاری رکھنے کے لئے خداتعالیٰ نے فرمایا کہ نمازوں کی حفاظت کرو۔‘‘ اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص مرکزی نماز کی….صلاۃ الوسطیٰ کی حفاظت کرو اور ہر ایک کے حالات کے لحاظ سے درمیانی نماز وہ ہے جس میں دنیا داری یا سستی اسے نماز قائم کرنے سے روکتی ہے یا نماز سے غافل کرتی ہے۔ جب شیطان اس کی توجہ نماز کی بجائے اور دوسری چیزوں کی طرف کروا رہا ہوتا ہے۔ پس اس وقت اگر ہم شیطان سے بچ گئے اور اس کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا تو سمجھو کہ ہم نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور جب یہ صورت ہوگی تو پھر نماز ہماری حفاظت کرے گی۔ پس اپنی نمازوں کی حفاظت ہر احمدی پر خاص طور پر فرض ہے۔‘‘

( خطبہ جمعہ 15 فروری 2008ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والا بنائے بالخصوص مرکزی نماز کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

(محمد شاہد تبسم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 فروری 2020