• 20 اپریل, 2024

تلاوتِ قرآن کریم کی اہمیت و آداب

قُرآن کتابِ رَحماں سِکھلائے راہِ عِرفاں
جو اِس کے پڑھنے والے اُن پر خدا کے فیضاں

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’قرآن جواہرات کی تھیلی ہے ۔اور لوگ اس سے بے خبر ہیں۔‘‘

وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ وہ اسے بار بار پڑھتے ہیں۔اس کی تعلیمات پر غورو فکر کرتے ہیں۔اس سے رہنمائی اور نور حاصل کرتے ہیں۔اس سے ملنے والے جواہرات سے اپنی جھولیاں بھرتے ہیں۔

یا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اِک عالم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اِس میں مہیا نکلا

اللہ تعالیٰ لوگوں کو قرآن کریم کی عظمت اور فضیلت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے:

يٰأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِى الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ

اے لوگو!تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی کتاب آگئی ہے جو سراپا نصیحت ہے۔اور وہ سینوں میں پائی جانے والی بیماریوں کو شفاء دینے والی ہے ۔اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔اے رسول!لوگوں کو آگاہ کرو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے عطا ہوئی ہے ۔پس اس نعمت کے حصول پر انہیں خوش ہونا چاہئے۔کیونکہ یہ کتاب اُس مال سے جو وہ جمع کر رہے ہیں کہیں بہتر ہے۔

(یونس 59، 58)

توجہ اور شرائط کے ساتھ

اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ پوری توجہ اور شرائط کو مدِّنظر رکھ کر قرآن مجید پڑھتے ہیں اور تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں۔ فرماتا ہے

اَلَّذِينَ اٰتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهٗ حَقَّ تِلاَوَتِهٖ أُوْلٰٓئِكَ يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ

وہ لوگ جن کو ہم نے یہ کتاب (قرآن کریم) دی ہے وہ اِس کی اِس طرح تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو اِس پر حقیقی ایمان رکھتے ہیں۔

(البقرہ:122)

غور اور تدبّر

یہ یاد رکھنا چاہئے کہ محض قرآن پڑھنے سے تلاوت کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔اس کے لئے ضروری ہے کہ اِنسان اِس کو غور اور تَدبّر سے پڑھے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کےحقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندرمحسوس کرے۔ یہ یاد رکھو کہ قرآن شریف میں ایک عجیب غریب اور سچا فلسفہ ہے۔ اس میں ایک نظام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی۔جب تک نظام اور ترتیبِ قرآنی کو مدِّنظر نہ رکھا جاوے اور اس پر پورا غور نہ کیا جاوے۔ قرآن شریف کی تلاوت کے اغراض پورے نہ ہوں گے‘‘

(ملفوظات جلد اوّل ص 429)

تلاوت قرآن کریم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آنحضرتﷺ فرماتے ہیں۔

مَنْ قَرَأَ حَرْفاً مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ فَلَہٗ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا

یعنی رسول کریم ﷺنے فرمایا جو شخص اللہ کی کتاب قرآنکریم سے ایک حرف بھی پڑھتا ہے تو اِسے اِس کے بدلہ میں ایک نیکی کا ثواب ملتا ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر قرار پاتی ہے۔

قرآن کریم کی گھروں میں باقاعدگی سے تلاوت کرنے کی تلقین کرتے ہوئے آنحضرتﷺ نے فرمایا:

’’اپنے گھروں میں کثرت سے تلاوتِ قرآن کریم کیا کرو۔یقیناًوہ گھر جس میں قرآن نہ پڑھا جاتا ہو وہاں خیر کم ہوجاتی ہے اور وہاں شَرْ زیادہ ہوجاتا ہے اور وہ گھر اپنے رہنے والوں کے لئے تنگ پڑ جاتا ہے۔‘‘

تلاوت کے افضل اوقات

قرآن کریم کی تلاوت دن کے اوقات اور رات کے لمحات میں کسی وقت بھی کی جاسکتی ہے۔

تاہم تلاوت کی زیادہ برکات حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ اوقات کو افضل قرار دیا ہے۔ فرمایا

اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْہُوْدًا

یعنی سورج کے ڈھلنے سے لے کر رات کے چھا جانے تک نماز قائم کرو اور فجر کے وقت کی تلاوت کو اہمیت دو۔یقیناً فجر کے وقت قرآن پڑھنا (اللہ کے حضور میں) ایک مقبول عمل ہے۔

(بنی اسرائیل:79)

دوسرا اہم وقت تلاوت قرآن کے لئے اللہ تعالیٰ نے رات کو قرار دیا ہے۔کیونکہ اس وقت سکون اور خاموشی ہوتی ہے۔ اس وقت کی تلاوت خاص طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَھَجَّدْبِہٖ کہ رات کے ایک حصہ میں بھی اِس (قرآن کریم) کے ذریعہ تہجد پڑھا کرو۔

اس آیت کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
فَتَھَجَّدْبِہٖ میں ہٖ کی ضمیر قرآن کی طرف پھرتی ہے اور مراد یہ ہے کہ اس نماز میں تلاوت قرآن پر خاص زور ہونا چاہئے۔

آنحضرتؐ نے فرمایا: ’’اے اہلِ قرآن! قرآن پڑھے بغیر نہ سویا کرو۔اِس کی تلاوت رات کے وقت اور دن کو اس طرح کیا کرو جیسے تلاوت کرنے کا حق ہے۔اس کو پھیلاؤ اور اسے خوش الحانی سے پڑھا کرو۔اس پر غور کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

تلاوتِ قرآن کریم کے آداب

1۔خوش الحانی

جہاں تک ممکن ہو خوش الحانی سے قرآن کریم پڑھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً

ترجمہ: اور قرآن کریم کو خوش الحانی سے پڑھا کرو۔

حضرت براء بن عاذبؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:

زَیِّنُواالْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ

ترجمہ: تم اپنی آوازوں سے قرآن کریم کو زینت دو۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:
اُس شخص کا ہم سے کوئی تعلق نہیں جو قرآن کریم کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا۔

ایک اور حدیث میں آنحضرتؐ فرماتے ہیں۔
اپنی عُمدہ آوازوں کے ساتھ قرآن مجید کو پڑھا کرو کیونکہ اچھی اور عمدہ آواز قرآن کریم کو حُسن میں بڑھا دیتی ہے۔

حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں:
’’خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا بھی عبادت ہے‘‘

(ملفوظات جلد سوم ص162)

2۔ٹھہر ٹھہر کر اور صحیح تلفظ سے تلاوت

حضرت اُمّ سلمہؓ سے جب آنحضرتؐ کی تلاوت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
آنحضورؐکی تلاوت بالکل واضح ہوتی تھی۔ہر حرف جُدا ہوتا تھا۔ یعنی الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ پڑھ کر ٹھہر جاتے تھے پھر الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ پڑھ کر ٹھہر جاتے۔

3۔باقاعدگی سے تلاوت

حضرت مصلح موعودؓ اس کا طریق اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
’’انسان روزانہ پڑھنے کے لئے قرآن کریم کا ایک حصہ مقرر کر لے کہ اتنا حصہ روز پڑھا کروں گا۔اس کو روزانہ پڑھا جائے اور اس کو پورا کرنے میں کوتاہی نہ کی جاوے۔‘‘

رسول کریمؐ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ وہ عبادت پسند ہے جس پر انسان دوام اختیار کرے اور ناغہ نہ ہونے دے۔

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے، جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے۔ تمام قسم کی بھلائیاں اس میں جمع کر دی گئی ہیں۔گویا یہ انسانی فلاح اور نجات کا سرچشمہ ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خدا کا کلام سمجھ کر پڑھو۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں۔
’’میں نے دنیا میں بہت سی کتابیں پڑھی ہیں۔مگر ایسی دِلربا، راحت بخش اور لذّت دینے والی جس کا نتیجہ دُکھ نہ ہو۔ نہیں دیکھی۔

میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے سِوا ایسی کوئی کتاب نہیں ہے کہ اس کو جتنی بار پڑھو اسی قدر لطف اور راحت بڑھتی جاوے۔طبیعت اُکتانے کی بجائے ،چاہے گی کہ اور وقت اِس پر صَرف کرو۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد اوّل ص34)

تلاوت قرآن کریم کے حوالے سے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے۔ جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے۔اور خود بھی خدا سے وہی چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے اور جہاں عذاب کا مقام آوے تو اُس سے پناہ مانگے۔اور اُن بداعمالیوں سے بچے جن کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی۔دل کی اگر سختی ہو تو اس کےنرم کرنے کے لئے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے۔جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمتِ الٰہی میرے شاملِ حال ہو۔ قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چُنتا ہے۔پھر آگے چل کر اور قسم کا پھول چُنتا ہے۔ پس چاہئے کہ ہرایک مقام کے مناسب حال فائدہ اٹھاوے۔‘‘

سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں
مئے عرفان کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا
کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہہ
وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا
پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فُرقاں
پھر جو سوچا تو ہر اِک لفظ مسیحا نکلا

(درثمین)

(ابوسدید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 فروری 2020