• 29 اپریل, 2024

معراج اور اسراء کی حقیقت (قسط دوم)

معراج اور اسراء کی حقیقت
(قسط دوم)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آیت دَنَا فَتَدَلّٰی کے تفسیری ترجمہ میں مزید فرمایا:
’’اور اس وقت اس نے یہ کلام نازل کیا جبکہ وہ (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) اَلۡاُفُقِ الۡاَعۡلٰی پر تھے (یعنی سب سے اعلیٰ مقام پر) محمد رسول اللہ خدا کے اور قریب ہوئے اور قریب ہو کر پھر نیچے کی طرف آئے یعنی بنی نوع انسان کے قریب ہوئے۔ حتی ٰکہ آپ دو قوسوں کے درمیان کی وتروں کی طرح ہو گئے بلکہ اس سے بھی قریب۔ یعنی دو مشترک وتروں کی جگہ ایک ہی وترہو گیا۔ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ پر وحی نازل کی جو اس قرآن میں موجود ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ۔ تفسیر سورۃ اسراء)

پس جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنے محبوب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونا ہے۔

قَابَ قَوۡسَیۡنِ میں نظریہ وحدت الوجود کا رد

حضرت محی الدین ابن عربی نے اپنے نظریہ وحدت الوجود میں خالق اور مخلوق کے درمیان فرق پیدا نہیں کیا اور دونوں کو ایک وجود قرار دیا۔ شب معراج میں اس نظریے کا کلی طور پر رد کیا گیا ہے۔ معراج میں وہ مقام بھی آیا جسے قَابَ قَوۡسَیۡنِ اَوۡ اَدۡنٰی کہا گیا۔ یعنی خالق اور مخلوق کی انتہائی قربت کا مقام۔ مگر یہاں بھی کچھ فاصلہ برقرار رکھا گیا۔ یہ نہیں کہا کہ خدا تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر قریب ہوئے کہ ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے۔ یعنی مخلوق خالق سے جس قدر بھی قریب ہو جائے تب بھی دونوں کے درمیان خالق اور مخلوق کا فرق ضرور برقرار رہے گا۔

معراج کے ضمن میں تیسرا اہم سوال یہ کیا جاتا ہے کہ کیا اس رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنی جسمانی آنکھوں سے دیکھا؟ اس کا اصولی جواب تو یہ ہے جو معراج کو جسمانی مانتے ہیں وہ یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جسمانی یا سر کی آنکھوں سےدیکھا مگر معراج کو روحانی ماننے والے اسے روحانی مشاہدہ مانتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ہے مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سورۃ نجم کی آیت مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَمَا طَغٰی سے یہ استنباط کرتے ہیں کہ یہ دیکھنا جسمانی آنکھوں سے تھا جبکہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جس نے یہ کہا کہ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کو جسمانی آنکھوں سے دیکھا اس نے بہتان لگایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے قرآن کریم کی آیت لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ کے حوالےسے فرمایا کوئی آنکھ اسے نہیں دیکھ سکتی اور وہ سب نگاہوں کو پا لیتا ہے۔ ابن ابی حاتم میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضورؐنے اپنے دل سے دیدار کیا آنکھوں سے نہیں۔ اسی طرح حضرت انس اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نے اللہ تعالیٰ کودل سے تو دیکھا ہے لیکن اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔

(تفسیر ابن کثیر سورۃ نجم)

چوتھا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا معراج صرف ایک دفعہ ہوا یا ایک سے زیادہ دفعہ؟

قرآن کریم اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ معراج دو مرتبہ ہوا۔ پہلا معراج ابتدائے نبوت میں ہوا جس میں نمازیں فرض ہوئیں اوردوسرا معراج نبوت کے پانچویں سال یا اس سے کچھ عرصہ پہلے ہوا۔ سورۃ نجم میں جس معراج کا ذکر ہے وہ دوسرا معراج ہے۔

(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ)

میں سمجھتا ہوں کہ معراج کے حوالے سے اہم امور کو بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد میں اسراء کا واقعہ بیان کروں گا۔

واقعہ اسراء

سورۃ بنی اسرائیل جسے سورۃ اسراء بھی کہا جاتا ہے اس کا آغاز اس ارشاد باری تعالیٰ سے ہوتا ہے:

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۲﴾

(بنی اسرائیل: 2)

ترجمہ: پاک ہے وہ جو رات کے وقت اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے۔ تا کہ ہم اسے اپنے نشانات میں سے کچھ دکھائیں۔ یقیناً وہ بہت سننے والا (اور) گہری نظر رکھنے والا ہے۔

واقعہ اسراء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم الشان کشف ہے جس میں آپ کو رات کے ایک حصے میں مسجد الحرام سےبیت المقدس کی سیر کروائی گئی۔

اسراء کا واقعہ کب پیش آیا؟

یہ واقعہ ہجرت سے چھ ماہ یا ایک سال قبل پیش آیا۔ اگرچہ مؤرخین نے اس میں اختلاف کیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتےہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسراء کا واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے 17 ربیع الاول کو پیش آیا۔ ابن سعد نے بھی حضرت اُم سلمی رضی اللہ عنہا سے یہی روایت کی ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے سترہ ربیع الاول کو پیش آیا۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے خصائص الکبری میں بعض اور روایات پیش کی ہیں اور ان سب سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اسراء کا واقعہ ہجرت سے چھ ماہ یا ایک سال پہلے کا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کشفی نظارہ شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعد دکھایا گیا۔آپ اس رات حضرت اُم ہانیؓ (ہند) کے گھر پر تھے اور وہ واحد راوی ہیں جو موقعہ کی گواہ ہیں۔ سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم ہانی ہی کو اس واقعہ کے بارہ میں بتایا۔ اُم ہانی کی روایت کے مطابق حضور اس رات بیت المقدس کے سفر سےواپس مکہ تشریف لے آئے۔ آپ نے اس سفر میں آسمان پر جانے کا قطعی کوئی ذکر نہیں کیا۔ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ راویوں نے معراج اور اسراء کے واقعات کو ملا کر ایک واقعہ بنا دیا اور بیت المقدس کے امور سے فراغت کے بعد آسمان پرجانے کا ذکر شروع کر دیا جبکہ اُم ہانی نے اپنی روایت میں اسراء کو مکہ اور بیت المقدس تک ہی محدود رکھا ہے۔

اصل روایت

اسراء بیت المقدس کا واقعہ مختلف روایتوں کے ساتھ مختلف احادیث میں بیان ہوا ہے۔ مگر جو روایت سب سے درست تسلیم کی جاتی ہے وہ حضرت انس سے مروی ہے جو ابن جریر نے اپنی تفسیر میں نقل کی ہے۔ یہی روایت ابن کثیر بھی اپنی تفسیر میں لے کرآئے ہیں۔ طوالت کے خوف سے میں یہاں اس کے ترجمے پر اکتفا کروں گا۔

’’ابن جریر انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب جبرائیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس براق لائے تو اس نے اپنی دُم ہلائی یعنی کچھ انکار کیا تو اسے جبرائیل نے کہا کہ آرام سے کھڑا رہ۔ اے بُراق! خدا کی قسم تجھ پر ایسا سوارکبھی نہیں بیٹھا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر چڑھ کر روانہ ہوئے تو راستے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بڑھیا راستے کےایک جانب کھڑی ہے تو آپ نے پوچھا اے جبرائیل یہ کون ہے تو جبریل نے کہا چلئے چلئے اے محمد! (یعنی موسیٰ کی طرح سوال کرنے سے منع کیا)۔ پھر آپ چلے جتنا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ کہ کوئی شخص راستہ کی ایک جانب سے آپ کو بلارہا ہے اور کہتا ہے کہ ادھر آئیے اے محمد! اس پر جبرائیل نے پھر آپ کو بولنے سے منع کیا اور کہا اے محمد! چلئے چلئے اور کچھ جواب نہ دیجئے۔ پھر آپ آگے چلے جتنا کہ خدا کی مرضی تھی کہ پھر آپ کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کچھ لوگ ملے تو انہوں نے کہا ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَآ اَوَّلُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَآ اٰخِرُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاحَاشِرُ۔‘‘ اس پر جبرائیل نے کہا اے محمد! ان کو سلام کا جواب دیجئے توآپ نے ان کو سلام کا جواب دیا۔ پھر آپ کو ایسی ہی ایک اور جماعت ملی اسنے بھی پہلی جماعت کے الفاظ میں آپ کو سلام کہا (پھر آپ آگے چلے) یہاں تک کہ آپ بیت المقدس تک پہنچے تو آپ کے سامنے حضرت جبرائیل نے تین پیالے پیش کئے ایک پانی کااور ایک دودھ کا اور ایک شراب کا۔ آپ نے دودھ لے کر پی لیا۔تو آپ کو جبرائیل نے کہا آپ نے فطرت صحیحہ کو پا لیا۔ اگر آپ پانی پی لیتے تو آپ بھی غرق ہوتے اور آپ کی اُمت بھی غرق ہوتی۔ اور اگر آپ شراب پی لیتے تو آپ بھی گمراہ ہوتے اور آپ کی اُمت بھی گمراہ ہو جاتی۔ پھر آپ کے سامنے آدم اور دیگر انبیاء لائے گئے اور اس رات ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ پھر آپ کو جبرائیل نے کہا کہ جو بڑھیا آپ نے راستہ کے ایک جانب دیکھی تھی وہ دنیا تھی اور اسکی عمر سے اسی قدر باقی ہے جو کہ اس بڑھیا کی عمر سے باقی ہے۔ اور جو شخص رستہ سے ہٹ کر آپ کو بلاتا تھا تا آپ اس کی طرف مائل ہوں وہ خدا کا دشمن ابلیس تھا۔ اور وہ لوگ جنہوں نے آپ کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ کہا وہ ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ وغیرھم تھے۔‘‘

یہاں پر ابن جریر کی روایت ختم ہو جاتی ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ وہ حدیث ہے جو ہمارے لئےمعیار کے طور پر ہے کیونکہ میرے نزدیک یہ سب سے زیادہ صحیح اور سچی ہے۔ اس میں صرف ایک غلطی ہے کہ حضرت جبرائیل نے پینے کے لئے جو پیالے پیش کئے ان میں پہلے پانی پھر دودھ اور پھر شراب کا ذکر ہے جبکہ ابن کثیر نے جو روایت نقل کی ہےاس میں پہلے پانی پھر شراب اور پھر دودھ کا ذکر ہے اور یہی ترتیب درست ہے۔

(تفسیر کبیر تفسیر سورۃ الاسراء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں
’’میرے نزدیک اسراء بیت المقدس ایک لطیف کشف تھا اور اس کے ثبوت مندرجہ ذیل ہیں:۔
اول۔ وہی حدیث انس رض اللہ عنہ کی جسے میں نے سب روایتوں سے تفصیل کے لحاظ سے بہتر قرار دیا ہے۔ اس میں لکھا ہےکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ایک بڑھیا کو دیکھا اور پھر ایک اور شخص کو دیکھا اور پانی شراب اور دودھ کے پیالے دیکھےاور ان میں سے دودھ کا پیالہ پیا۔ ان تمام امور کی حضرت جبرائیل تعبیر کرتے ہیں۔ اگر یہ کشف نہ تھا تو تعبیر کا کیا مطلب ؟‘‘

’’دوسرا ثبوت اس کا یہ ہے کہ قرآن کریم نے بھی اس کا نام رؤیاء ہی رکھا ہے جیسے اسی سورۃ کے چھٹے رکوع میں فرمایا

وَمَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ

(بنی اسرائیل: 61)

کہ یہ رؤیا لوگوں کے فتنہ کے لئے تھی۔ چنانچہ اس آیت کی وجہ سے کئی صحابہ اور سابق علماء نے بھی اسے رؤیاء ہی قرار دیا۔‘‘

’’اس جگہ یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ گو قرآن کریم میں اس کے متعلق رؤیاء کا لفظ آیا ہے مگر اس لفظ سے دھوکا کھا کر اسےعام خوابوں کی طرح نہیں سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ عربی میں رؤیاء کا مفہوم اور ہے اور اردو میں اور۔ اردو میں تو رؤیاء اس نظارہ کوکہتے ہیں جو انسان سوتے ہوئے دیکھتا ہے لیکن عربی میں کشف اور عام خواب دونوں کے لئے کشف کا لفظ بولا جاتا ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر)

اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو انسانوں کے لئے ایک فتنہ قرار دیا جس کے ایک معنی ہیں کہ اسے آزمائش بنا دیا۔ چونکہ یہ ناممکن تھا کہ مکہ مکرمہ سے شام (بیت المقدس) تک کا سفر کوئی ایک ہی رات میں طے کر لے جس کے لئے کم از کم دو ماہ کا عرصہ (جانے کا اور واپسی کا کل سفر) درکار ہوتا تھا۔ اس بات کو بعض مفسرین نے اسراء کے جسمانی ہونے کی دلیل کے طور پر بھی پیش کیا ہے کہ اگر یہ محض خواب کا واقعہ تھا تو اس میں کسی کے لئے کوئی آزمائش نہ تھی کیونکہ ایسی خوابیں آ جایا کرتی ہیں۔ کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المقدس کے بارہ میں سوالات کئے۔ اللہ تعالیٰ نے کشفی طور پر بیت المقدس کو آپ کے سامنے کر دیاجسے دیکھ دیکھ کر آپ کفار کے سوالوں کے درست جوابات دیتے رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ جسمانی طور پر بیت المقدس تشریف لے گئے تھے تو آپ کفار کے سوالوں کے جوابات بغیر کسی پریشانی کے فورا ً دے دیتے مگر احادیث سے پتہ چلتا ہےکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سوالات پر کچھ پریشان ہوئے جس پر خدا تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر بیت المقدس کو کشفی طور پرآپ کے سامنے کر دیا اور آپ نے کفار کو ان کے تمام سوالوں کے درست جوابات دے کر مطمئن کر دیا۔

مسجد اقصیٰ سے کیا مراد ہے؟

نہایت اہم بات یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس کی سیر کروائی گئی تو اس رات آپ نے مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی نماز میں امامت کروائی۔ قرآن کریم نے مسجد اقصیٰ کا ذکر فرمایا ہے جبکہ تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ وہاں اس وقت کوئی مسجد موجود نہیں تھی۔ حتی کہ ہیکل سلیمانی بھی موجود نہیں تھا البتہ عیسائیوں کے گرجے موجود تھے۔

بیت المقدس (ہیکل سلیمانی) کی تاریخ

تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ بیت المقدس کی تعمیر حضرت داؤد علیہ السلام کے دور میں شروع ہوئی مگر اس کی تکمیل ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد حکومت میں 957 قبل مسیح ہوئی۔ اسی لئے اسے ہیکل سلیمانی کا نام دیا گیا۔اس کی وجہ بنیادی طور پر اُس متبرک صندوق کی حفاظت کرنا تھی جو بنی اسرائیل کے نزدیک بہت مقدس، بابرکت اور قابل عزت واحترام تھا۔ روایات کے مطابق یہ صندوق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک نہایت متبرک لکڑی سے تیار کروایا تھا اور اس صندوق میں انبیاء کے مقدسات اور متبرکات محفوظ کئے گئے تھے جن میں عصائے موسیٰ، من و سلوی، کچھ تختیاں جن پر وحی الہی کا اندراج تھا اور بعض اور انبیاء کے تبرکات بھی شامل تھے۔ اس صندوق کو تابوت سکینہ (ARK OF COVENANT ) کہا جاتا ہے اور اس کا ذکرقرآن کریم کی سورۃ بقرہ آیت 249 میں ہے:

وَقَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اٰیَۃَ مُلۡکِہٖۤ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ التَّابُوۡتُ فِیۡہِ سَکِیۡنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ

ترجمہ: اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ یقیناً اس (طالوت) کی بادشاہت کی نشانی یہ ہے کہ وہ صندوق تمہارے پاس آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت ہو گی۔

ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے بعد اس تابوت سکینہ کو اُس میں رکھ دیا گیا۔ 586 قبل مسیح بابل کے بادشاہ نبو کد نظر (NEBUCHADNEZZAR) جسے بخت نصر بھی کہا جاتا ہے نے یہودیوں کی بغاوت کے خاتمہ کے لئے یروشلم پر حملہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہیکل سلیمانی کو مکمل تباہ کر دیا گیا اور بے شمار یہودیوں کو غلام بنا کر یروشلم سے بے دخل کر دیا۔ بخت نصر کی افواج تابوت سکینہ کو بھی اٹھا لے گئیں۔ اس کے بعد سے اس کا کچھ پتہ نہیں کہ کدھر ہے اور یہودی آج تک اس کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

ایک ایرانی بادشاہ CYRUS نے 519 قبل مسیح میں ہیکل کی دوبارہ تعمیر کی۔ ہیکل کی از سر نو تعمیر اور تزئین حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل بادشاہ HEROD کے دور میں ہوئی۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب دئے جانے کے 70 سال بعد ایک رومی بادشاہ TITUS نے ایک مرتبہ پھر ہیکل سلیمانی کو تباہ کردیا۔ لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا اور انہیں ہمیشہ کے لئے یروشلم سے نکال دیا۔ (یہ بات یاد رہے کہ ابتدا میں ہیکل سلیمانی کو بیت المقدس کہا جاتا تھا مگر بعد میں پورے شہر یروشلم کو بیت المقدس کہا جانے لگا)۔ اس تباہی کے بعد ہیکل دوبارہ تعمیر نہیں ہو سکا۔ البتہ عیسائیوں نے اپنے دور اقتدار میں وہاں اپنے گرجے تعمیر کر لئے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت وہاں ہیکل سلیمانی (بیت المقدس) موجود نہیں تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں یروشلم فتح ہوا تو وہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔ عیسائیوں نے یہودیوں سے شدید نفرت کی وجہ سے بیت المقدس کی جگہ کو کوڑا کرکٹ اور گند پھینکنے کی جگہ بنایا ہوا تھا۔ جب حضرت عمریروشلم تشریف لے گئے تو آپ نے اپنے ہاتھوں سے یہ گند صاف کیا اور اس چٹان پر نماز ادا کی۔ بعد میں بنو امیہ کے دور میں اس چٹان پر ایک مسجد تعمیر کی گئی جسے قبۃ الصخرۃ کہا جاتا ہے۔

اس کے قریب ہی مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی۔ یہودیوں کا یہ دعویٰ ہےکہ قبۃ الصخرۃ اور مسجد اقصیٰ کو ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات پر تعمیر کیا گیا ہے۔ یہودی ان مقدس مقامات کو گرا کر یہاں دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہے اصل تنازعہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان۔

اب آتے ہیں دوبارہ اس اہم سوال کی طرف کہ جب یروشلم میں ہیکل سلیمانی اور مسجد اقصیٰ موجود ہی نہیں تھی تو قرآن کریم نے مِنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا کہہ کر کس طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے ایک بات تو قطعیت کے ساتھ ثابت ہو گئی یہ سفر جسمانی نہیں بلکہ کشفی اور روحانی تھا وگرنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو کہاں نماز پڑھائی تھی۔ مسجد اقصیٰ کا مطلب ہے دور کی مسجد۔ یہ دوری مکانی بھی ہو سکتی ہے اور زمانی بھی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مسجد اقصیٰ سے مراد مسجد نبوی لی ہے اور یروشلم کے سفر کو دراصل ہجرت مدینہ کی طرف اشارہ قرار دیا ہے۔

اس عظیم الشان کشف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آئندہ آنے والے غلبہء اسلام اور مسلمانوں کی فتوحات کی خبر دی گئی اور انبیاء کی امامت سےآپ کے بلند و بالا مقام اور رتبے کا اظہار کیا گیا۔ اس کشف کی ایک اور تعبیر ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے کہ دور کی مسجد (مسجد اقصیٰ) سے مراد مسیح موعود کی مسجد اقصیٰ ہے۔

خاکسار کے نزدیک اس کی مندرجہ ذیل توجیہ ہو سکتی ہے۔

پہلی یہ کہ مسجد اقصیٰ میں حضورؐ نے انبیاء کی امامت فرمائی۔ آپ امام الانبیاء قرار دئے گئے۔ آپ کی اتباع میں آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہاما فرمایا ’’جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآءِ‘‘ (خدا کا پہلوان نبیوں کے لباس میں)۔ پھر قرآن کریم میں مسیح موعود کے دور کے نشانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وَاِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ (مرسلٰت: 12) اور جب رسول مقررہ وقت پر لائے جائیں گے۔ چنانچہ صرف دو مرتبہ رسولوں کو اکٹھا کرنے کا ذکر ہے۔ پہلی مرتبہ اسراء میں رسولوں کو مسجد اقصیٰ میں اکٹھا کرنے کا اور دوسری مرتبہ جب مسیح موعود کے دور میں اکٹھا کیا جائے گا۔ اس طرح روحانی لحاظ سے مسیح موعود کی مسجد اقصیٰ اُس مسجد اقصیٰ میں شامل ہے جسے اسراء میں دکھایا گیا جس میں انبیاء اکٹھے کئے گئے اور جس کا ذکر قرآن کریم نے فرمایا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’قرآن شریف کی یہ آیت کہ سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے۔ پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکت اسلام کے زمانہ سے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا برکات اسلامی کے زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا۔ پس اس پہلو کی رو سے جواسلام کے انتہا زمانہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سیر کشفی ہے مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے۔‘‘

(ڈاکٹر فضل الرحمٰن بشیر۔موروگورو، تنزانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ