حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
مَیں نے پہلے بھی کہا کہ ہمیں خاص طور پر نوجوانوں کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا سے متأثر ہو کر اس کے پیچھے چلنے کی بجائے دنیا کو اپنے پیچھے چلانے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ پردہ اور لباس کے حوالے سے مَیں نے بات شروع کی تھی اس حوالے سے یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں اور افسوس سے کہنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کیا اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے صرف پردہ ہی ضروری چیز ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ تعلیم اب فرسودہ ہو چکی ہے اور اگر ہم نے دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو ان باتوں کو چھوڑنا ہو گا (نعوذباللّٰہ)۔ لیکن ایسے لوگوں پر واضح ہو کہ اگر دنیا داروں کے پیچھے چلتے رہے اور ان کی طرح زندگی گزارتے رہے تو پھر دنیا کے مقابلے کی بجائے خود دنیا میں ڈوب جائیں گے۔ نمازیں بھی آہستہ آہستہ ظاہری حالت میں ہی رہ جائیں گی یا اور کوئی نیکیاں ہیں یا دین پر عمل ہیں تو وہ بھی ظاہری شکل میں رہ جائے گا اور پھر آہستہ آہستہ وہ بھی ختم ہو جائے گی۔
پس اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ اسلام کی ترقی کے لئے ہر وہ چیز ضروری ہے جس کا خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ پردہ کی سختیاں صرف عورتوں کے لئے نہیں ہیں۔ اسلام کی پابندیاں صرف عورتوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ مَردوں اور عورتوں دونوں کو حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے مَردوں کو حیا اور پردے کا طریق بتایا تھا۔ چنانچہ فرمایا کہ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَیَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ ﴿۳۱﴾ (النور:31)مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقینا اللہ جو وہ کرتے ہیں اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو پہلے کہا کہ غضّ بصر سے کام لو۔ کیوں؟ اس لئے کہ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ کیونکہ یہ بات پاکیزگی کے لئے ضروری ہے۔ اگر پاکیزگی نہیں تو خدا نہیں ملتا۔ پس عورتوں کے پردہ سے پہلے مَردوں کو کہہ دیا کہ ہر ایسی چیز سے بچو جس سے تمہارے جذبات بھڑک سکتے ہوں۔ عورتوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا، ان میں مِکس اَپ (mix up) ہونا، گندی فلمیں دیکھنا، نامحرموں سے فیس بُک (facebook) پر یا کسی اور ذریعہ سے چَیٹ (chat) وغیرہ کرنا، یہ چیزیں پاکیزہ نہیں رہتیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بارے میں کئی جگہ بڑی کھل کر نصیحت فرمائی ہے۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ خدا ہی کا کلام ہے جس نے اپنے کھلے ہوئے اور نہایت واضح بیان سے ہم کو ہمارے ہر یک قول اور فعل اور حرکت اور سکون میں حدود معیّنہ مشخّصہ پر قائم کیا اور ادبِ انسانیت اور پاک رَوِشی کا طریقہ سکھلایا۔ وہی ہے جس نے آنکھ اور کان اور زبان وغیرہ اعضاء کی محافظت کے لئے بکمال تاکید فرمایا قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَیَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ…یعنی مومنوں کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھوں اور کانوں اور سترگاہوں کو نامحرموں سے بچاویں اور ہر یک نادیدنی اور ناشنیدنی اور ناکردنی سے پرہیز کریں کہ یہ طریقہ ان کی اندرونی پاکی کا موجب ہو گا۔ یعنی ان کے دل طرح طرح کے جذبات نفسانیہ سے محفوظ رہیں گے کیونکہ اکثر نفسانی جذبات کو حرکت دینے والے اور قوائے بہیمیہ کو فتنہ میں ڈالنے والے یہی اعضاء ہیں۔ اب دیکھئے کہ قرآن شریف نے نامحرموں سے بچنے کے لئے کیسی تاکید فرمائی اور کیسے کھول کر بیان کیا کہ ایماندار لوگ اپنی آنکھوں اور کانوں اور سترگاہوں کو ضبط میں رکھیں اور ناپاکی کے مواضع سے روکتے رہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 209 حاشیہ)
(خطبہ جمعہ 13؍ جنوری 2017ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ )