• 12 مئی, 2025

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور ایک آفاقی عالم، متکلم اور ادیب (قسط 2)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ 
اور ایک آفاقی عالم، متکلم اور ادیب
قسط 2

ایک صاحبِ طرز ادیب

حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمدؒ کے قلم کوخداتعالیٰ نے ابتداء ہی سے اپنے خاص فضل سے نثر نگاری کے زیور سے آراستہ فرمایا تھا۔ چنانچہ آپؒ نے1944ء میں اپنی عظیم والدہؓ کی وفات پرجو مضمون‘‘میری ماں’’ کے عنوان سے تحریر فرمایا، آپؒ کی ادبی صلاحیت کا مظہر ہے۔یعنی میٹرک کے زمانہ میں بھی آپ کی تحریر شستہ اور پختہ تھی۔خط لکھنا بھی بچپن سے ہی آپؒ کا ایک مرغوب مشغلہ تھا۔اس مشغلہ میں ہی کبھی ایک قادر الکلام ادیب جھانکتا ہوا اور کبھی بالائے بام زہرہ فن نظر آتاہے۔پھر رفتہ رفتہ جس کی دسترس نثری سمندر کی پنہائیوں پر بھی ہوئی ہے اور شعری ذخائرکی وسعتوں پر بھی۔اسی طرح بالآخر آپؒ کی تحریریں تحریری شہادت مہیّا کرتی ہیں کہ ان مذکورہ بالا خوبیوں کے ساتھ ساتھ محاوروں اور ضرب الامثال کی بروقت اور بر محل آمد، تصویر کشی، منظر نگاری اور الفاظ کا برمحل چناؤبھی آپؒ کے قلم سے جادو اتارتا ہے۔یہ سب آپؒ کی تحریر کے نمایا ں محاسن میں سے ہیں۔

یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ آپؒ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بیماری کے آخری لمحات کا جو منظر پیش کیا ہے، وہ قاری کو بڑی شائستگی کے ساتھ اس ماحول میں ان درد بھری کیفیات میں اتار دیتا ہے۔ چنانچہ آپؒ تحریرفرماتے ہیں:
‘‘ہمارے نہایت ہی پیارے امام، میرے محبوب روحانی اور جسمانی باپ حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیماری کے آخری چند لمحات کی یاد ایک نہ مٹنے والا نقش ہے۔

شام سے طبیعت زیادہ خراب تھی اور مسلسل سانس کو درست رکھنے کے لئے آکسیجن دی جا رہی تھی۔ چھاتی میں رسوب زیادہ بھر رہا تھا جسے بار بار نکالنے کی ضرورت پیش آتی تھی اور مکرم محترم ڈاکٹر قاضی مسعود احمد صاحب اور برادرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب بار بار معائنہ فرماتے اور رسوب کا اخراج خود اپنے ہاتھوں سے کرتے رہے۔ بچوں میں سے دو تو ڈیوٹی پر تھے اور باقی تمام ویسے ہی جمع تھے۔ خاندان کے بڑے چھوٹے سبھی کے دل اندیشوں کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے تاہم زبان پر کوئی کلمہ بے صبری کا نہ تھا اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا تھا۔ اندیشے دھوئیں کی طرح آتے اور جاتے تھے۔ توکل علیٰ اللہ اور نیک امید غیر متزلزل چٹان کی طرح قائم تھے۔ وہ جو صاحب تجربہ نہیں شاید اس بظاہر متضاد کیفیت کو نہ سمجھ سکیں لیکن وہ صاحب تجربہ جو اپنے ربّ کی قضاء کے اشاروں کو سمجھنے کے باوجود اس کی رحمت سے کبھی مایوس ہونا نہیں جانتے میرے اس بیان کو بخوبی سمجھ جائیں گے۔ پس افکار کے دھوئیں میں گھری ہوئی ایک امید کی شمع ہر دل میں روشن تھی اور آخر تک روشن رہی تاہم کبھی کبھی یہ فکر کا دھواں دم گھونٹنے لگتا تھا۔ دعائیں سب ہونٹوں پر جاری تھیں اور ہر دل اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھا۔

حضورؓ پر کبھی غنودگی طاری ہوتی تو کبھی پوری ہوش کے ساتھ آنکھیں کھول لیتے اور اپنی عیادت کرنے والوں پر نظر فرماتے ایک مرتبہ بڑی خفیف آواز میں برادرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو بھی طلب فرمایا۔ لیکن جیسا کہ مقد ّر تھا رفتہ رفتہ یہ غنودگی کی کیفیت ہوش کے وقفوں پر غالب آنے لگی اور جوں جوں رات بھیگتی گئی غنودگی بڑھتی رہی۔ اس وقت بھی گو ہماری تشویش بہت بڑھ گئی تھی لیکن یہ تو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ حضورؓ کی یہ آخری رات ہے جو آپ ہمارے درمیان گزار رہے ہیں۔ تقریباً گیارہ بجے شب میں ذرا سستانے اور ایک لاہور سے تشریف لائے ہوئے مہمان کو گھر چھوڑنے گیا اور عزیزم انس احمد کو تاکید کر گیا کہ اگر ذرا بھی طبیعت میں کمزوری دیکھو تو اسی وقت بذریعہ فون مجھے مطلع کردو۔

نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹے ابھی چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ فون کی دل ہلا دینے والی گھنٹی بجنے لگی۔ مجھے فوری طور پر پہنچنے کی تاکید کی جا رہی تھی۔ اُسی وقت جلدی سے وضو کرکے ایک ناقابلِ بیان کیفیت میں وہاں پہنچا۔ قصرِ خلافت میں داخل ہوتے ہی مکرم ڈاکٹر مسعود احمد صاحب اور مکرم ڈاکٹر ذکی الحسن صاحب کے پژمردہ چہروں پر نظر پڑی جو باہر برآمدے میں کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ حضورؓ کے کمرہ میں پہنچا تو اور ہی منظر پایا۔ کہاں احتیاط کا وہ عالم کہ ایک وقت میں دو افراد سے زائد اس کمرہ میں جمع نہ ہوں اور کہاں یہ حالت کہ افرادخاندان سے کمرہ بھراہوا تھا حضرت سیّدہ ام متین اور حضرت سیّدہ مہر آپا بائیں جانب سرہانے کی طرف اُداسی کے مجسمے بنی ہوئی پٹی کے ساتھ لگی بیٹھی تھیں۔ برادرم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب دائیں طرف سرہانے کے قریب کھڑے تھے اور حضرت بڑی پھوپھی جان اور حضرت چھوٹی پھوپھی جان بھی چارپائی کے پہلو میں ہی کھڑی تھیں۔ میرے باقی بھائی اور بہنیں بھی جو بھی ربوہ میں موجود تھے سب وہیں تھے اور باقی اعزاء و اقرباء بھی سب اردگرد اکٹھے تھے۔ سب کے ہونٹوں پر دعائیں تھیں اور سب کی نظریں اس مقدّس چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ سانس کی رفتار تیز تھی اور پوری بے ہوشی طاری تھی۔ چہرے پر کسی قسم کی تکلیف یا جدّوجہد کے آثار نہ تھے۔ میں نے کسی بیمار کا چہرہ اتنا پیارا اور ایسا معصوم نظر آتا ہوا نہیں دیکھا۔ میں نہیں جانتا کہ اس حالت میں ہم کتنی دیر کھڑے رہے اور سانس کی کیفیت میں وہ کیا تبدیلی تھی جس نے ہمیں غیر معمولی طور پر چونکا دیا۔

اُس وقت مجھے پہلی مرتبہ یہ غالب احساس ہوا کہ گو خدا تعالیٰ قادرِ مطلق اور حی و قیوم ہے اور ہر آن اپنی تقدیر کو بدل سکتا ہے لیکن وہ تقدیر جس سے ہمارے نادان دل گھبراتے تھے وہ تقدیر آ پہنچی ہے۔ پس اُس وقت میں نے قرآن کریم طلب کیا اور اس مقدّس وجود کی روحانی تسکین کی خاطر جس کی ساری زندگی قرآن کریم کے عشق اور خدمت میں صرف ہوئی سورہ یٰسین کی تلاوت شروع کر دی۔ یہ ایک مشکل گھڑی تھی اور سر سے پاؤں تک میرے جسم کا ذرّہ ذرّہ کانپ رہا تھا۔ اُس وقت مجھے صبر کی طنابیں ڈھیلی ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اُس وقت میں نے اپنے چاروں طرف سے گھٹی گھٹی سسکیوں کی آوازیں بلند ہوتی ہوئی سنیں لیکن خدا گواہ ہے کہ ہر سسکی دعاؤں میں لپٹی ہوئی اور ہر دعا آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھی۔

سورہ یٰسین کی تلاوت کے دوران ہی میں سانس کی حالت اور زیادہ تشویشناک ہو چکی تھی اور تلاوت کے اختتام تک زندگی کی کشمکش کے آخری چند لمحے آ پہنچے تھے۔ میں نے قرآن کریم ہاتھ سے رکھ دیا اور دوسرے عزیزوں کی طرح قرآنی اور دیگر مسنون دعاؤں میں مصروف ہو گیا۔ حضورؓ نے ایک گہری اور لمبی سانس لی جیسے معصوم بچے روتے روتے تھک کر لیا کرتے ہیں اور ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے یہ آپ کی آخری سانس ہے۔ اُسی وقت میں نے ایک ہومیوپیتھک دوا کے چند قطرے پانی میں ملا کر اپنی تشہد کی انگلی سے قطرہ قطرہ حضورؓ کے ہونٹوں میں ٹپکانے شروع کئے اور ساتھ ہی بے اختیار ہونٹوں پر یہ دعا جاری ہو گئی کہ یٰآحَیُّ یٰآ قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ نَسْتَغِیْثُ۔ اس وقت سانس بند تھے اور جسم ٹھنڈا ہو رہا تھا اور بظاہر زندگی کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا۔ لیکن اچانک ہم نے حیّ و قیوم خدا کا ایک عظیم معجزہ دیکھا۔مجھے حضرت پھوپھی جان کی بے قرار آواز سنائی دی کہ دیکھو ابھی پاؤں میں حرکت ہوئی تھی اور ان الفاظ کے ساتھ ہی ہونٹوں میں بھی خفیف سی حرکت ہوئی اور سانس لینے کا سا اشتباہ ہوا۔ معاً شدید کرب اور بے چینی سکینت میں بدل گئے اور ہر طرف سے یاحیُّ یا قیوم کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور جوں جوں ہم دعا کرتے رہے حضورؓ کے سانس زیادہ گہرے ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ وہ ڈاکٹر بھی جو جسم کو بظاہر مردہ چھوڑ کر چلے گئے تھے واپس بلائے گئے اور بڑی حیرت سے اس معجزانہ تبدیلی کا مشاہدہ کرنے لگے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ حضورؓ کی زندگی کا بظاہر جسم کو چھوڑ دینے کے بعد معجزانہ طور پر پھر واپس لوٹ آنا محض ہمارے دلوں کو سکینت عطا کرنے کی خاطر تھا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے گویا ایک فضل و احسان کا پھایہ تھا جو ہمارے قلوب پر رکھا گیا۔

چنانچہ اس کے تقریباً بیس منٹ کے بعد حضورؓ کو اپنے آسمانی آقا کا آخری بلاوا آگیا۔ اس وقت کا منظر اور کیفیت ناقابلِ بیان ہیں۔ ہم نے آسمان سے صبر اور سکینت کو اپنے قلوب پر نازل ہوتے ہوئے دیکھا اور یوں محسوس ہوا جیسے ضبط و تحمل کی باگ ڈور رحمت کے فرشتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ آنکھوں سے آنسو ضرور جاری تھے اور دلوں سے دعائیں بھی بدستور اٹھ رہی تھیں مگر سب دل کامل طور پر راضی برضا اور سب سر اپنے معبود، خالق و مالک کے حضور جھکے ہوئے تھے۔ ہم ٹکٹکی لگا کر اسی طرح خدا جانے کب تک اُس پیارے چہرے کی طرف دیکھتے رہے جسے موت نے اور بھی زیادہ معصوم اور حسین بنا دیا تھا۔ اُس تقدّس کے ماحول میں جس کی فضا ذکر الٰہی سے معمور تھی اور جس کی یاد کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی۔ حضورؓ کی نعش مبارک نور میں نہائی ہوئی ایک معصوم فرشتے کی طرح پڑی تھی۔ دل بے اختیار ہم سب کے دل و جان سے زیادہ پیارے آقا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بعد یہ کہتا تھا۔ یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۸﴾ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۹﴾

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خط و کتابت اور دیگر تحریروں میں جگہ جگہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آپؒ کے عام خطوط بھی شاہکار ادب پارے ہیں مگر جو تحریریں آپؒ نے قدرے توجہّ اور شوق سے لکھی ہیں، آپؒ کی فلک رسا قلم کے جلوے دکھاتی ہیں۔خط نویسی میں آپؒ کے کلکِ گوہر بار سے جھڑنے والے چند پھول پیش ہیں جو اپنی خوشبو کے ساتھ ادبی طلسمات بھی بکھیرتے ہیں۔

یہ اقتباسات ان خطوط سے لئے گئے ہیں جو حضورؒ نے لندن سے مکرّم ڈاکٹر سید برکات احمد صاحب مرحوم کو لکھے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم وہ قابل رشک وجود ہیں جنہوں نے شدید بیماری کی حالت میں حضورؒ کی کتاب ‘‘مذہب کے نام پرخون’’ کا ایسا خوبصورت انگریزی ترجمہ (Murder In The Name Of Allah)کیا کہ اس نے حضورؒ کی محبت کو بھی کھینچا اور داد کو بھی۔داد دینے میں آقا نہ صرف فراخ دلی سے کام لیتے ہیں بلکہ داد ہی داد میں اپنی تحریر میں ایسے موتی بھی پرو دیتے ہیں کہ داد کا حسن دوبالا ہو جاتاہے اور اس کا اثر دَہ چند۔ ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’جتنی مجھے آپ کی بیماری کی فکر ہے اور جس طرح روزانہ عاجزانہ دعا کرتاہوں اگر اس باقاعدگی سے عیادت کے خط لکھنے کی توفیق پاتا تو خطوں کاایک انبار آپ کے پاس لگ جاتا۔ آپ کے خطوں سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ کی شخصیت کی خاموش،پروقار سطح کے نیچے علم و ادب، شعریت اور نغمگی اور لطافتوں کا ایک بحرِذخّار موجزن ہے جس میں موتی اور مونگے اور انواع و اقسام کے معدنیاتی خزائن سطحی نظروں سے اوجھل پڑے ہیں۔ ہے تو یہ میٹھے پانی کا سمندر لیکن سیلِ حوادث نے اس میں کچھ تلخی کی آمیزش کردی ہے….

جو شعر میرے ذہن میں آیا وہ یہ ہے
؎چشم حزیں کے پار اُدھر، دردِ نہاں کی جھیل پر
کھلتے ہیں کیوں کسے خبر،حسرتوں کے کنول پڑے

تعریف کا ایک اور پیا را انداز اور ادب کا ایک شہ پارہ ملاحظہ ہو۔ تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک لمبی، تکلیف دہ،پُرعذاب بیماری نے آپ کے دل کے چمن کے بہت سے پھول کملا دیئے۔ لیکن فصاحت و بلاغت اور ادب و لطافت کی شاخ نہال ہری بھری رہی۔آپ کا قلم اب بھی موج خرام ناز کی طرح چلتے ہوئے گل کترتا ہے۔ اللہ آپ کے علم کو اور بھی جلا بخشے اور قلبی صلاحیتوں کو پہلے سے بڑھ کر جلوہ آرائی کی توفیق بخشے۔‘‘


اس قادرالکلام آقا کا ایک اور اندازِ تحریر ملاحظہ ہو۔دیکھیں کس طرح دوسرے کی تعریف بھی مقصود ہے اور ان کے کام کوسراہنا بھی۔مگراندازِتعریف بھی دیکھئے کیسا کھلااوربے تکلف، کیسا خوبصورت، کیساشگفتہ، کیسا ادیبانہ بلکہ شاعرانہ ہے۔ آپؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’آپ کا خط پڑھتے پڑھتے دلِ شوریدہ ٔ غالب طلسم پیچ و تاب کے با رہ میں کچھ اندازہ ہواکہ غالبؔ کے دل پر کیا گزری ہوگی۔اگرکسی اور دل پر وہ گزرتی تو شاید وہ کیفیت پردہ ٔ راز میں ہی رہتی مگر غالبؔ نے پردہ ٔ راز کو پردہ ٔ ساز میں بدل دیا۔

پہلے تو احساس ندامت بہت ہواکہ مَیں نے کیوں نادانستہ آپ کا دل دکھایا۔پھر خط کے بے پناہ حسن نے توجہ کو جذب کر لیا۔ یہ خط کیا ہے طلسمات کا ایک مرقع،ایک فسانہ ٔ عجائب۔ ایک فنکار کا سراپا لئے ہوئے۔ ایک آئینہ بھی ہے۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ کبھی کسی اور خط میں بھی آپ کی شخصیت اس آن بان کے ساتھ کاغذی پیرہن میں ملبوس ہوئی ہو کہ یوں لگےجیسے پیکرِ تصویر خود فریادی بن کرچلا آیا ہے۔


آپ کا ہر خط فصیح و بلیغ اور بہت مہذ ّب ہوتا ہے۔زبان کی شستگی طرز تحریرکی شائستگی ایک ایسے اعلیٰ پائے کے ا دیب کی غماز ہوتی ہیں جس نے اپنی خداداد فکری و قلبی صلاحیتوں کو برسوں مانجھا اور صیقل کیا ہو اور بڑی قدر دانی کے ساتھ سر آنکھوں پر بٹھائے، سینے سے لگائے لگائے پھر ا ہو۔ لیکن آپ کا یہ خط تو گزشتہ خطوں پر بازی لے گیاہے۔ آپ لفظوں ہی کے نہیں معانی کے بھی ‘‘مداری’’ نکلے اور مشہودات پر ہی نہیں،محسوسات پر بھی مَیں نے آپ کے قلم کا جادو چلتے دیکھا۔ پہلے بھی آپ کے سب خط سنبھال کر رکھے تھے۔اسے تو ان کے بیچ میں سجا کر رکھوں گا۔ ‘‘

کتنی قدر دانی!کتنا پیار! کیا خو بصو ر ت تعریف جس میں ادب کی چاشنی بھی،اپنا ئیت بھی اور محبت بھی۔ ایک ہمدرد،شفیق، مہربان، غمگسار اور فرستادہ آقا کی تحریریں جو جان بخش بھی ہیں اور دلنواز بھی۔

اپنی عزیزہ امۃ الجمیل صاحبہ کو ایک سفر کے دوران متفرق حالات میں لپٹی ہوئی اپنی قلبی کیفیات کے بارے میں لکھا:
’’سوچتے سوچتے اچانک میں نے محسوس کیا کہ میرے دل کا وہ خانہ بدوش جو مد ّت سے سویا پڑا تھا بیدار ہو چکا ہے اور مجھے کہتا کہ چلو کہیں اکیلے چلیں۔ اس کے بار بار کے اصرار پر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور میں نے اسے جواب دیا کہ دیکھو کوئی انسان اپنے ماضی کی طرف نہیں لوٹ سکتا۔ میں بالکل بے بس اور بے اختیار ہوں۔ اس نے مجھے کہا۔ بہت اچھا،تم یادوں کا سفر تو کر سکتے ہو ناں۔ اب اٹھ کر دفتر بھاگنے کی کوشش نہ کرنا۔ ایک پُرسکون تاریخی سفر کے لئے صرف15منٹ مجھے دے دواور میری انگلی پکڑ کر میرے ساتھ چلو۔ میں نے یہ بات اس کی مان لی اور ہم ایک عجیب پُر لطف مگر دل گداز سفر پر روانہ ہوئے۔ میرے دل کا خانہ بدوش میرے ساتھ بھی تھا مگر پھر بھی میں تنہا تھا۔‘‘

یہ ادب پارے دنیا کی وسعتوں پر پھیلے ہوئے احمدیوں کے ساتھ آپؒ کی خط و کتابت میں پھیلے ہوئے ہیں جو جگہ جگہ، قریہ قریہ اور ملک ملک نادر نگینوں کی طرح اپنی چوطرفی اور ست رنگی چمک مہیّا کرتے رہیں گے۔ یہاں صرف نمونے کے طور پر مشتے از خروارے پیش کئے گئے ہیں۔

چونکہ آپؒ کا تحریری جہاد بھی اسلام اور احمدیت کی حقانیت کے ثبوت میں تھا اس لئے اس میں ادب کے ساتھ ساتھ علم کلام کا سلطان بنیادی اکائی کے طور پر غالب ہے۔لہٰذا آپؒ متکلّم ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب بھی ہیں اور یہ دونوں صفات جڑواں طور پرآپؒ کی ذات کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔

صاحبِ منطق و دلیل مصنّف

آپؒ کے مضامین جونہی شائع ہوتے،انہیں فوری طور پر ذوق و شوق سے بکثرت پڑھا جاتا تھا۔ ماہنامہ الفرقانؔ ربوہ میں ‘‘طاعون’’ کے بارے میں جو مضمون شائع ہوئے۔تحقیق و حقائق پر مبنی بصیرت افروز مضمون تھے جو اپنی مقبولیت میں بے نظیر تھے۔اسی طرح رِبوٰ(سود) کے بارے میں آپؒ کا تحقیقی مضمون بھی اس موضوع پر حقیقت افروز مضمون تھا۔ جو اس کے منظر اور پس منظر کے ساتھ اس کے فقہی مسائل پر جامع مانع بحث پر مبنی تھا۔اسی طرح آپؒ کے دیگر مضامین اورذاتی و محکمانہ خط وکتابت آپؒ کی قدرتِ کلام کی شاہکار اور دانش و حکمت سے لبریزخزانہ ہے۔

جہانتک خود تحریر کردہ تصنیفات کا تعلق ہے،حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بہت زیادہ کتابیں تصنیف نہیں کیں۔ہاں البتّہ آپؒ نے تصنیفات چھوڑی بہت ہیں اور ان کی تعداد ا بڑھتی بھی رہے گی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپؒ کے خطابات اور لیکچرز وغیرہ ضبط تحریرمیں لائے جاتے رہے ہیں اوریہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔جو کتب آپؒ نے خلافت سے پہلے تصنیف فرمائیں۔وہ حسبِ ذیل ہیں۔

اردو

  1. مذہب کے نام پر خون(Murder in the Name of Allah)
  2. ورزش کے زینے(Steps of Exercize)
  3. احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟
  4. آیتِ خاتم النبیّین صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم اور جماعت احمدیہ کا مسلک
  5. پیشگوئی مصلحِ موعودؓ 
  6. جماعت احمدیہ اور اسرائیلی حکومت
  7. سوانح فضلِ عمرؓ (حصّہ اوّل)
  8. سوانح فضلِ عمرؓ (حصّہ دوم)
  9. ’’ربوہ سے تل ابیب تک‘‘پرتبصرہ
  10. وصال ابِن مریمؑ 
  11. عذاب الٰہی۔ حوادث طبعی یا عذاب الٰہی

•  خلافت کے بعداردو میں آپؒ کی صرف دو تصنیفات ہیں جو آپؒ نے تحریر فرمائیں۔یعنی:

  1. قرآن کریم کا اردوترجمہ
  2. ہومیو پیتھی۔Homoeopathy

• خلافت کے بعد آپؒ کے خطبات و خطابات جو مستندکتابی صورت میں شائع ہوئے۔

  1. عدل، احسان اور ایتآء ذی القربیٰ۔ Absolute Justice, Kindness and Kinship
  2. زھق الباطل۔عربی ترجمہ:زَھَقَ البَاطِل۔

25؍ جنوری 1985ء تا 13؍ مئی 1985ء خطبات بجواب’’قادیانیت، اسلام کے لئے سنگین خطرہ (قرطاسِ ابیض)‘‘۔(اس کتاب میں حسبِ ذیل خطبات شامل ہیں جو الگ الگ انگلش تراجم میں شائع شدہ ہیں)

i کذب و ا فتراء کی دالآزار مہم ّاور اس کا پس منظر
A Deplorable Scheme of Falsification and Accusation

ii خود کاشتہ پودا۔ تاریخی واقعات کے آئینہ میں

Was Ahmadiyya Muslaim Jama’at Planted By The British?

iii ہندوستان میں انگریزوں کے مفادات اور ا ن کے محافظ
The British Interest in India and Their Real Gardian

iv اسلام کا نظریۂ جہاد اور جماعت احمدیہ
The True Islamic Concept of Jehad

v مسلمانانِ ہند کا قومی تحفّظ اور جماعت احمدیہ
The National Securityof Indian Muslims

vi مسلمانانِ ہند کے مفادات کا تحفّظ اور جماعت احمدیہ کی عظیم الشان قربانیاں

vii کشمیر اور فلسطین کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ کی عظیم الشّان خدمات
Ahmadiyya Muslim Jama’at and Independance of Kashmir and Palestine

viii مسلمانان فلسطین کا المیہ اور جمات احمدیہ کی خدمات جلیلہ
Ahmadiyya Muslim Jama’at and the Palestinian Muslims

ix عُلَمَاءُھُمْ۔ امّتِ مسلمہ کے لئے لمحہٴ فکریہ
Their Ulema

x حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ پر چند اعتراضات کے مدلّل اور مسکِت جواب
The Founder of the Ahmadiyya Muslim Jama’at

xi حضرت مسیح موعود مہدی آخر الزمان کے دعاوی اور بزرگان سلفِ صالحین کی قولی شہادت
Claims of the Promised Messiah (as)

xii عرفان ختم نبو ّت
The Insight into the Concept of Khatm-e- Nabuwwat

xii پُرحکمت تاویلات پر ظاہر پرستوں کا مضحکہ خیز ردّ عمل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پُر شوکت کلام،مسلمان مشاہیر کی نظر میں
Majestic Writings Of the Promised Messiah

xiii انتہائی ظالمانہ تکفیر و تکذیب کے مقابلہ میں حضرت بانی ٔسلسلہ کا صبر و تحمّل، ہمّت و حوصلہ اور ابلاغ حق
Exteme Lies and Verdicts of Disbelief Against the Founder of the Ahmadiyya Muslim Jama’at

xiv اسلام کی عالمگیرروحانی ترقی کا عظیم الشّان منصوبہ اسے سازش کا نام دینا اسلام دشمنی کے مترادف ہے
The Supreme Plan for the Universal Regeneration of Islam

xv مسلمانوں کے باہمی اختلافات۔ بگڑے ہوئے عقائد اور حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان خدمات
The Magnificent Services of The Promised Messiah

xvi عددی اکثریت کا غیر شرعی فیصلہ اور احمدیت کی عظیم الشّان فتح
A Great Victory Ahmadiyyat

xvii ایک نشان۔ ایک انتباہ
An Admonitory Sign

3) ذوق عبادت اور آداب دعا
4) خلیج کا بحران اور نظام جہان نو۔انگریزی:
The Gulf Crices and The New World Order

عربی

’’کارثۃ الخلیج والنظام العالمی الجدید‘‘

5) چوہدری ظفر اللہ خانؓ ، کلمۃ اللہ۔(خطبہ جمعہ)
A Sign of Allah, Chaudhry Muhammad Zafrulla Khan

6) اسلام میں مرتد کی سزا(خطاب جلسہ سالانہ)
The Truth about the Alleged Punishment for Apostasy in Islam

7) تدریس نماز۔اردو کلاس میں تدریس نماز
8) حو ّا کی بیٹیاں اور جنّت نظیر معاشرہ
9) مجالس عرفان
10) خطباتِ طاہر
11) خطابات طاہرؒ 
12) مشعلِ راہ۔(خدّام الاحمدیہ سے متعلّق خطبات و تقاریر کا مجموعہ)
13) اَلْاَزْھَارُ لِذَوَاتِ الْخِمَارِ۔ (اوڑھنی والیوں کے لئے پھول)جلد دوم۔(لجنہ اماء اللہ سے متعلق خطبات و خطابات)
14) تحریک وقف نَو
15) ذوق عبادت اور آداب دعا
16) شہدائے احمدیت۔(آغاز تا عہد خلافت رابعہ)

انگلش

خلافت کے زمانہ میں آپؒ کی چارتصنیفات ہیں۔

1) Rationality, Knowledge and Truth Revelation

الہام، عقل،علم اور سچائی

2) Christianity: A Journey From Facts to Fiction

مسیحیّت، ایک سفر حقائق سے فسانہ تک۔

3)  Islam’s Response to Contemporary Issues۔

اسلام اور عصرِ حاضر کے مسائل کا حل

4) With Love to the Muslim Nation

بعض خطابات جو کتابی شکل میں شائع ہوئے

1) Some Distinctive Features of Islam
2) The Seal of Prophets, His Personality and Charactor
3)  The Philosophy of Revival of Religion
4)  Islam, A Discourse on the Elementary and Fundamental teaching
5)  Shariah Relationship Between Religion and Politics in Islam
6)  Universal Moral Values, Politics and World Peace

(ادی علی چوہدری۔ نائب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

گھر سے نکلتے وقت کی دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مارچ 2023