• 26 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کا مقصد

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو ہر احمدی کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ یہ ہماری اصلاح کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہی ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوتا ہے۔ یہی چیز ہے جو ہمیں دوسرے مسلمانوں سے بھی اور غیروں سے بھی ممتاز کرتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد کیا تھاجیسا کہ آپؑ نے کئی جگہ ذکر فرمایا ہے کہ وہ مقصد بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنا ہے۔ وہ راستے دکھانا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے راستے ہیں۔ بندے کے تقویٰ کے معیار کو ان بلندیوں پر لے جانا ہے جس سے وہ خداتعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو اور یہی باتیں ہیں جو ہمیں اس تاریک کنویں میں گرنے سے بچائے رکھیں گی جس سے ہم یا ہمارے باپ دادا نکلے تھے۔ جو باتیں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتائیں وہ کوئی نئی باتیں نہیں ہیں۔ دراصل تو یہ باتیں اس تعلیم کی وضاحت ہیں جو خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دی ہیں۔ یہ وہی باتیں ہیں جنہیں آنحضرت ﷺ نے اپنے اُسوہ سے ہمارے سامنے پیش فرمایا اور اس کے وہ اعلیٰ معیار قائم فرمائے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان ہے کہ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم:5) اور یقیناً تُو بہت اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر قائم ہے۔ اور مومنوں کو یہ حکم ہے کہ جو اُسوہ اس رسول ﷺ نے قائم فرمایا اور جو قائم کر دیا اس پر چلنا تمہارا فرض ہے۔ اور پھر آخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (الجمعۃ:4) کہہ کر یہ بھی اعلان فرما دیاکہ آخری زمانہ میں ایک تاریکی کے دور کے بعد جب مسیح و مہدی مبعوث ہو گا تو وہ حقیقی اور کامل نمونہ ہو گا اپنے آقا و مطاع کے اُسؤہ حسنہ کا۔ پس یہ دَور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دور ہے۔ یہ دور جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی حقیقی تعلیم کی تصویر ہمارے سامنے رکھی، یہ اصل میں اسی دور کی ایک کڑی ہے جو آنحضرت ﷺ کا دور ہے۔ کیونکہ اصل زمانہ تو تاقیامت آنحضرت ﷺ کا ہی زمانہ ہے اور یہ بیعت بھی جو ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کرتا ہے آنحضرت ؐ کے حکم سے ہی کرتا ہے۔ پس ایک مومن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر یہ تجدید عہد کہ وقت کی دُوری نے جس عظیم تعلیم اور جس عظیم اُسوہ کو ہمارے ذہنوں سے بھلا دیا تھا اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر یہ تجدید عہد کرتے ہیں کہ ہم ان نیکیوں پر کار بند ہونے کی پوری کوشش کریں گے اور اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کریں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی ایک کتاب میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حِلم اور خُلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں۔‘‘

(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد15صفحہ143)

پس یہ ہے وہ کام جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ اللہ تعالیٰ کی پاک ہدایتوں پر قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان ہدایتوں کی طرف کھینچوں۔ یعنی جس گند میں ایک انسان ڈوبا ہوا ہے اس سے کوشش سے نکالوں۔ جس کنویں میں گرا ہوا ہے اس میں سے کھینچ کر نکالوں۔ کھینچنا ایک کوشش چاہتا ہے۔ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر دوسرے کو انسان کھینچ کر اس تکلیف سے باہر نکالتا ہے جس میں دوسرا پڑا ہوتا ہے یا جس مشکل میں کوئی گرفتار ہوتا ہے۔ پس یہ ہدایتوں کی طرف کھینچنا مدد کرنے والے سے ایک تکلیف کا مطالبہ کرتا ہے اس لئے اس تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے آپؑ نے ایک جگہ یوں بھی فرمایا کہ میں کس دَف سے مُنادی کروں تا لوگ ہدایت کے چشمہ کی طرف آئیں۔ اور پھر دیکھیں کہ اس اظہار ہمدردی کا کیا معیار ہے جو انسانیت کے لئے آپؑ کے دل میں تھی کہ صرف یہی نہیں کہ کھینچنا ہے اور گند سے یا تکلیف سے باہر نکال دینا ہے بلکہ اس روشن راستے پر چلانا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیا۔ اور راستے پر چلانے کے لئے مستقل راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ روشنی صرف چند قدم کی نہیں ہے بلکہ اس راستے کی طرف لے جانے کے لئے روشنی مہیا کرنی ہے جو خداتعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے۔ جس کی ایک منزل کے بعد دوسری منزل آتی ہے۔ جس کی ایک منزل پر پہنچ کر اگلی منزل پر پہنچنے کی بھڑک اور تڑپ اور زیادہ ہو جاتی ہے۔ پس یہ ر وشنی بھی ایک مستقل روشنی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایتوں کے تمام دِیوں کو روشن کرنے سے ملتی ہے۔ ہدایت کی ایک منزل پر پہنچ کر ہدایت کی اگلی منزل کے راستے نظر آنے لگتے ہیں۔ اخلاق کی ایک منزل پر پہنچ کر اخلاق کے دوسرے اعلیٰ معیار نظر آنے لگتے ہیں۔ پس یہ ایک مسلسل کوشش ہے ہدایت دینے والے کے لئے بھی اور ہدایت پانے والے کے لئے بھی۔ جس کے اس زمانے میں اعلیٰ ترین نمونے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے قائم فرمائے۔ اس لئے کہ ہم اس روشن راستے پر ہمیشہ سفر کرتے چلے جائیں اور نہ صرف خود ان روشن راستوں پر چلنے والے ہوں بلکہ رحمۃ للعالمین ﷺکے ماننے والے ہونے کی وجہ سے دوسروں کو بھی اس راستے پر چلانے کی کوشش کریں۔ پس ایک احمدی کی یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ ایک تو عہد بیعت کو پورا کرتے ہوئے اس راستے پر ہمیشہ چلتے رہنے کی کوشش کرے۔ دوسرے اپنے ہم قوموں کو، اپنے قریبیوں کو ان روشن راستوں کی نشاندہی کرتے ہوئے چلانے کی کوشش کرے۔ لیکن کیا طریق اختیار کرنا ہے، کیا حکمتِ عملی اپنانی ہے؟ اس کے بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتا دیا کہ میرے آنے کا مقصد سختی اور تلوار سے دنیا کی اصلاح نہیں ہے۔ ڈنڈے کے زور پر ان راستوں پر نہیں چلانا بلکہ حِلم اور خُلق اور نرمی سے ان راستوں پر ڈالنا ہے۔

پس آپؑ نے حلم اور خلق کے جو اعلیٰ نمونے دکھائے وہ اس عظیم اُسوہ حسنہ کے نمونے تھے جو آنحضرت ﷺ نے قائم فرمائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گھر کے اندر بھی، دوستوں میں بھی، اپنے فوری ماحول میں بھی اور غیروں اور دشمنوں میں بھی وہ نمونے قائم کئے جو حِلم وخُلق اور رفق کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ کیونکہ دلوں کو فتح کرنے کا یہی ایک طریق ہے‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ4۔اپریل2008ء)

پچھلا پڑھیں

ضروری اعلان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اپریل 2020