• 26 اپریل, 2024

تربیت اولاد کے لئے جدید ایجادات کے بداثرات سے بچنا ضروری ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

ترجمہ: اے مومنو! اپنے نفوس اور آل اولادکو آگ سے بچا کر رکھو۔

(التحریم:7)

پھر فرماتا ہے:

ترجمہ: اے مومنو! تمہیں تمہارے اموال اور اولادیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں۔

(المنافقون:10)

تربیت کے لغوی معنی

تربیت اولاد جیسے اہم موضوع پر قدم مارنے سے قبل تربیت کے لفظ کے لغوی معنی جاننا ضروری ہیں۔ تربیت کا لفظ ربّ سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہیں پالنے والا، پرورش کرنے والا۔ گویا ماں باپ اپنی آل اولاد کے مجازی طور پر رب ہوتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں والدین کی عزت و حرمت اور حسن سلوک کو اپنی توحید کے ذکر کے ساتھ باندھ دیا ہے۔ تربیت کے لفظ کے اور بھی معنی ملتے ہیں۔ جیسے اولاد کو بلندی پر چڑھانا خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی۔ تربیت کے ایک معنی مالی اور باغبان کی طرح درخت کو کانٹ چھانٹ کر اور گوڈی کر کے خوبصورت بنانے اور کیڑے مکوڑوں سے محفوظ بنانے کےبھی ہیں۔ انگلش میں تربیت کے معانی کے لئے Cultivation کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ تربیت کے ایک معنی تھپکی دینے کے بھی ہیں ۔ بظاہر یہ معنی اولاد کی تربیت پر اس طرح اطلاق نہیں پاتے لیکن اگر گہرائی میں جاکر دیکھاجائے تو والدین کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت میں سختی نہ ہو۔ نرمی، پیار اور تھپکی و شاباش دے کر کام کروایا جائے۔ تربیت کے ایک معنی Breeding کے ہیں۔ جس طرح ماں دودھ پلاتے یا غذا دیتے وقت اپنے بچوں کوپیارکی نظر سے دیکھ رہی ہوتی ہے اور اندر ہی اندر دل کی گہرائی سے دعائیں دے رہی ہوتی ہے۔ اسی طرح والدین اپنے بچوں کے اخلاق، اچھے اوصاف، اچھے طور طریق اور روحانی امور Breed کریں۔

تربیت کے ایک اہم معنی نرسنگ کے ہیں۔ والدین کو نرس بھی کہا جاتا ہے ۔ جس طرح ہسپتالوں میں اور اعلیٰ گھرانوں میں بھی بعض کمزور افراد کے لئے نرس رکھنے کا رواج ہے جو دیکھ بھال کرتی اور اُسے سکھلاتی ہے ۔ اسی طرح ماں باپ ، اپنے بچوں کو جو بظاہر کمزور و ناتواں ہوتے ہیں، کی دیکھ بھال کرتے اور نرس کی طرح روحانی و مادی doze دیتے رہتے ہیں۔ تربیت کے معنوں میں ایجوکیٹ کرنا ڈسپلن میں لانا، تیار کرنا بھی ہیں۔ ان تمام کی وضاحت چھوڑتے ہوئے انگلش کے ایک معنی Training کو لیتا ہوں۔ ڈکشنری میں لکھا ہے کہ یہ لفظ Train سے مشتق ہے۔ جس طرح ریل گاڑی پٹری پر سیدھا چلتی ہے اور انجن اپنی Power سے نہ صرف ڈبوں کو کھینچتا ہے بلکہ ڈبوں کے اندر Power بھی مہیا کرتا ہے۔ اس طرح والدین جو انجن کا کام دیتے ہیں۔ اپنی خداداد Power (طاقت) سے اپنے بچوں کو جو ریل گاڑی کے ڈبے ہیں دینی، اخلاقی اور روحانی طاقت و انرجی سے اس طرح مستفیض کرتے رہیں کہ جس طرح ریل گاڑی پٹری پر چلتی ہے اسی طرح ان کی آل و اولاد دین کی دی ہوئی تعلیمات کی پٹری پر چلتی رہے اور والدین بطور مربی کام کریںاور اپنی اولاد کومُرَبیّٰ کے طور پر دینی ڈکشنری کی زینت بنائیں۔ مُرَبیّٰ کے معانی وہ پھل ہوں گے تربیت کے نتیجہ میں نکلے گا۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے انجن اور ڈبوں کی مثال خلیفۂ وقت اور احباب سے دی ہے اور خلیفہ بھی روحانی باپ کے زمرہ میں آتا ہے۔

اولاد کے لغوی معنی

جہاں تک اولاد کے لغوی معنوں کا تعلق ہے ۔ ہم عمومی طور پر اس سے اپنے بال بچے مراد لیتے ہیں جبکہ لغات میں اس سے نسل ، افراد خاندان اور آل و عیال کی تعلیم و تربیت مراد ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ایک دفعہ انصار کو مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ جماعت کے بچے بھی آپ کی اولاد ہیں۔ جن کی تعلیم وتربیت آپ کی ذمہ داری ہے۔

جدید ایجادات کے نقصانات

جدید ایجادات کے تناظر میں آج کے دَور میں والدین کی ذمہ داریوں میں بے انتہا اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جدید ایجادات کی وجہ سے دنیا جتنی جلدی سمٹ کر ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ عالمی معاشرتی بُرائیاں ساری دنیا کے معاشروں میں سرایت کر گئی ہیں اور جدید ایجادات اور مواصلاتی نظام کے غیر محتاط استعمال سے دنیا کے ہر معاشرے میں اخلاقی، سماجی، روحانی بُرائیوں میں نہ صرف اضافہ دیکھنے میں آیا ہے بلکہ ان کو بین الاقوامی بُرائیوں کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ ان بڑھتی ہوئی معاشرتی بد اخلاقیوں سے اپنی نسلوں کو بچانے کے لئے باقاعدہ مورچے بنا کر اور قلعہ بند ہو کر جہادکرنے کی ضرورت ہے۔

ہم بخوبی جانتے ہیں کہ مادی جنگیں آج کے جدید دَور میں بھی مورچے اور قلعہ بند ہو کر لڑی جاتی ہیں۔ اسی طرح آج اس روحانی جنگ کو ہر گھر بلکہ گھر کے ہر کمرہ اور کونہ میں بچوں کی نگرانی کے مورچے بنا کر لڑنی ہے۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبات جمعہ، خطابات اور بچوں کی کلاسز میں بارہا ان معاشرتی بُرائیوں سے بچنے کی تلقین کر چکے ہیں۔ جو موبائل فون، آئی پیڈ، لیپ ٹاپ، ٹی وی، انٹر نیٹ، فیس بک اور سکائپ وغیرہ جیسے مہلک ذرائع سے پیداہو رہی ہیں۔

مشرکانہ مجالس

حضرت مسیح موعودؑ نے ایک مقام پر جماعت کو بد رفیق اور خراب مجلسوں سے اجتناب کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

’’ہم تو مشرکانہ مجلسوں میں نہیں بیٹھتے لیکن یاد رکھیں کوئی مجلس ہو جیسے انٹر نیٹ ہے یا ٹی وی ہے یا کوئی ایسا کام ہے اور مجلس ہے جو نمازوں اور عبادت سے غافل کر رہی ہے وہ مشرکانہ مجلس ہی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 21۔اپریل 2017ء)

پھرانٹرنیٹ کے استعمال کے تناظر میں فرمایا۔
’’شیطان سے بچنے کی سب سے بڑی پناہ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ پس اس بگڑے ہوئے زمانے میں استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ استغفار ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں انسان آسکتا ہے۔‘‘

ٹیکنالوجی عبادت کی راہ میں حائل

پھر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ٹیکنالوجی کے بےجا استعمال کو عبادت کی راہ میں حائل قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’بُرائیوں میں سے آج کل ٹی وی، انٹر نیٹ وغیرہ کی بعض بُرائیاں بھی ہیں۔ اکثر گھروں کے جائزے لے لیں۔ بڑے سے لے کر چھوٹے تک صبح فجر کی نماز اس لئے وقت پر نہیں پڑھتے کہ رات دیر تک یا تو ٹی وی دیکھتے رہے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہے۔ اپنے پروگرام دیکھتے رہے، نتیجتاً صبح آنکھ نہیں کھلی۔ بلکہ ایسے لوگوں کی توجہ بھی نہیں ہوتی کہ صبح نماز کے لئے اُٹھنا ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں اور اس قسم کی فضولیات ایسی ہیں کہ صرف ایک آدھ دفعہ آپ کی نمازیں ضائع نہیں کرتیں بلکہ جن کو عادت پڑ جائے ان کا روزانہ کا یہ معمول ہے کہ رات دیر تک یہ پروگرام دیکھتے رہیں گے یا انٹر نیٹ پر بیٹھے رہیں گے اور صبح نماز کے لئے اٹھنا ان کے لئے مشکل ہوگا بلکہ اٹھیں گے ہی نہیں ۔ بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو نماز کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔

(خطبہ جمعہ 20مئی 2016ء)

پھر فرمایا:

’’اگر دنیا کی خواہشات بڑھ جائیں، ٹی وی ڈراموں اور انٹرنیٹ پر اتنے مگن ہوں کہ نمازوں میں تاخیر ہوجائے تو پھر خدا کی محبت پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس محبت کے حصول کے لئے اپنی خواہشات کی قربانی کرنی پڑتی ہے۔‘‘

(کلاس وقف نو 8۔اکتوبر2011ء)

پھر ایک اور موقع پر فجر کی نماز کے حوالہ سے فرماتے ہیں:

’’ہر کام میں صبح کے وقت تازہ دم ہو کر جوکام انسان کرتا ہے اس کے نتائج بہترین ہوتے ہیں۔ آجکل کے ان لوگوں کی طرح نہیں جو ساری رات یا رات دیر تک یا تو انٹرنیٹ پر بیٹھے رہتے ہیں یا ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں یا اور دنیاوی کاموں میں ملوث رہتے ہیں۔ اُن کی رات نیند پوری نہیں ہوتی۔ صبح اٹھتے ہیں تو ادھ پچدّی نیند کے ساتھ، اس میں نماز کیا ادا ہو گی؟ اور ان کے دوسرے کاموں میں کیا برکت پڑے گی۔ ہر شخص چاہے دنیا دار بھی ہواپنے بہترین کام کے لئے تازہ دم ہو کر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ پوری توجہ سے کام ہو۔ اس کام کے بہترین نتائج ظاہر ہوں۔‘‘

پس آپ نے فرمایا کہ ’’اس طرح تمہیں یہ بھی تلاش کرنا چاہئے کہ تمہارے دعاؤں کے بہترین اوقات کیا ہیں؟ وہ کیفیت کب پیدا ہوتی ہے جب دعا قبول ہوتی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 15مارچ 2013ء)

بے حیائی پھیلنے کا ذریعہ

جدید ایجادات سے جو بے حیائی پھیل رہی ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

’’آج کل کی دنیاوی ایجادات ٹی وی ہے، انٹرنیٹ وغیرہ ہے اس نے حیا کے معیار کی تاریخ ہی بدل دی ہے۔ کھلی کھلی بےحیائی دکھانے کے بعد بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بے حیائی نہیں ہے۔ پس ایک احمدی کی حیا کا یہ معیار نہیں ہونا چاہئے جو ٹی وی اور انٹرنیٹ پر کوئی دیکھتا ہے۔ یہ حیا نہیں ہے بلکہ ہوا و ہوس میں گرفتاری ہے۔ بے حجابیوں اور بے پردگی نے بعض بظاہر شریف احمدی گھرانوں میں بھی حیا کے جو معیار ہیں، الٹا کر رکھ دئیے ہیں۔ زمانے کی ترقی کے نام پر بعض ایسی باتیں کی جاتی ہیں، بعض ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں جو کوئی شریف آدمی دیکھ نہیں سکتا چاہے میاں بیوی ہوں۔ بعض حرکتیں ایسی ہیں جب دوسروں کے سامنے کی جاتی ہیں تو وہ نہ صرف ناجائز ہوتی ہیں بلکہ گناہ بن جاتی ہیں۔ اگر احمدی گھرانوں نے اپنے گھروں کو ان بیہودگیوں سے پاک نہ رکھا تو پھر اُس عہد کا بھی پاس نہ کیااور اپنا ایمان بھی ضائع کیا جس عہد کی تجدید انہوں نے اس زمانہ میں زمانے کے امام کے ہاتھ پہ کی ہے۔ بُرائیوں کو میڈیا پر دیکھ کر اس کے جال میں نہ پھنس جائیں ورنہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ انہی بیہودگیوں کا اثر ہے کہ پھر بعض لوگ جو اس میں ملوث ہوتے ہیں تمام حدود پھلانگ جاتے ہیںاور اسی وجہ سے پھر بعضوں کو اخراج از جماعت کی تعزیر بھی کرنی پڑتی ہے ۔ ہمیشہ یہ بات ذہن میں ہو کہ میرا ہر کام خداتعالیٰ کی رضا کے لئے ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ15جنوری2010ء)

پھر فرمایا:

’’جیسا کہ میں نے کہا لباس بےحیائی والا لباس ہوتا چلا جارہا ہے۔ پھر بڑے بڑے اشتہاری بورڈ کے ذریعہ سے، ٹی وی پر اشتہارات کے ذریعہ سے، انٹرنیٹ پر اشتہارات کے ذریعہ سے بلکہ اخباروں کے ذریعہ سے بھی اشتہار دیئے جاتے ہیں کہ شریف آدمی کی نظر اس پر پڑ جاتی تو شرم سے نظر جھک جاتی ہے اور جھکنی چاہئے۔ یہ سب کچھ ماڈرن سوسائٹی کے نام پر ، روشن خیالی کے نام پر ہوتا ہے۔ بہر حال جیسا کہ میں نے کہا یہ زینت اب بے حیائی بن چکی ہے یعنی زینت کے نام پر بے حیائی کی اشتہار بازی ہے۔

(خطاب لجنہ جرمنی29جون2013ء)

ننگے و عریاں مناظر دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے

ٹی وی اور انٹر نیٹ پر گندے و عریاں مناظر و فلمیں دیکھنے کو زنا قرار دیتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

’’خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بعض احمدی گھرانوں میں بھی اس بُرائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں پہلے تو روشن خیالی کے نام پر ان فلموں کو دیکھا جاتا ہے۔ پھر بعض بد قسمت گھر عملاً ان بُرائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تویہ جو زنا ہے یہ دماغ کا اور آنکھ کا زنا بھی ہوتا ہے اور پھر یہی زنا بڑھتے بڑھتے حقیقی بُرائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ماں باپ شروع میں احتیاط نہیں کرتے اور جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو پھر افسوس کرتے اور روتے ہیں کہ ہماری نسل بگڑ گئی ،ہماری اولادیں برباد ہو گئیں ہیں۔ اس لئے چاہئے کہ پہلے نظر رکھیں۔ بیہودہ پروگراموں کے دوران بچوں کو ٹی وی کے سامنے نہ بیٹھنے دیں اور انٹر نیٹ پر بھی نظر رکھیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 23۔اپریل2010ء)

پھر حضور انور نے فرمایا:

’’عورتوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا، ان میں مکس اپ ہونا، گندی فلمیں دیکھنا، نامحرموں سے فیس بک پر یا کسی اور ذریعہ سے چیٹ (Chat) وغیرہ کرنا، یہ چیزیں پاکیزہ نہیں رہتیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 13جنوری 2017ء)

بچوں کو موبائل نہ دیں

بچوں کو موبائل فونز دینے کے حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

’’پھر آج کل یہاں بچوں میں ایک بڑی بیماری ہے ماں باپ سے مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمیں موبائل لے کر دو۔ دس سا ل کی عمر کو پہنچتے ہیں تو موبائل ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہئے ۔ آپ کون سا بزنس کر رہے ہیں؟ آپ کوئی ایسا کام کر رہے ہیں جس کی منٹ منٹ کے بعد فون کر کے آپ کو معلومات لینے کی ضرورت ہے؟ پوچھو تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ماں باپ کو فون کرنا ہے ۔ اگر ماں باپ کو آپ کے فون کی فکر نہیں ہے تو آپ کو بھی نہیں ہونی چاہئے ۔ کیونکہ فون سے پھر غلط باتیں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ فون سے لوگ رابطے کرتے ہیں جو پھر بچوں کو ورغلاتے ہیںگندی عادتیں ڈال دیتے ہیںاس لئے فون بھی بہت نقصان دہ چیز ہے۔‘‘

(خطاب سالانہ اجتماع اطفال جرمنی 16ستمبر2011ء)

برے چینلز بلاک کر دیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’ایسے چینل والدین کو بھی بلاک کر کے رکھنے چاہئیں جو بچوں کے ذہنوں پر گندے اثر ڈالتے ہوں۔ ایسے مستقل لاک (lock) ہونے چاہئیں۔ اور جب بچے ایک دو گھنٹے جتنا بھی ٹی وی دیکھنا ہے دیکھ رہے ہیں تو بیشک دیکھیں لیکن پاک صاف ڈرامے یا کارٹون۔ اگر غلط پروگرام دیکھے جا رہے ہیں تو یہ ماں باپ کی بھی ذمہ داری ہے اور بارہ تیرہ سال کی عمر کی جو بچیاں ہیں ان کی بھی ہوش کی عمر ہوتی ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ اس سے بچیں۔ آپ احمدی ہیں اور احمدی کا کردار ایسا ہونا چاہئے جو ایک نرالہ اور انوکھا کردار ہو۔ پتہ لگے کہ ایک احمدی بچی ہے۔‘‘

(خطاب لجنہ اجتماع جرمنی 17ستمبر2011ء)

پھر فرمایا:

’’بار بار میں والدین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے بچوں کے باہر کے ماحول پر بھی نظر رکھاکریں اور گھر میں بھی بچوں کے جو پروگرام ہیں، جو ٹی وی پروگرام وہ دیکھتے ہیں یا انٹرنیٹ وغیرہ استعمال کرتے ہیں ان پر بھی نظر رکھیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 13دسمبر2013ء)

پھر فرمایا:

’’ماں باپ کو ہدایت کریں کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں۔ ہر وقت کمپیوٹر اور موبائل فون ہاتھ میں رکھنا مناسب نہیں۔ جو مائیں کمپیوٹر نہیں جانتیں وہ سیکھ لیں تا کہ بچوں پر نظر رہے۔‘‘

فیس بک کی قباحتوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:

’’یہ بے حیائیوں کی ترغیب دیتا ہے جو آپس کے حجاب ہیں، ایک دوسرے کا حجاب ہے، اپنے راز ہیں ان حجابوں کو توڑتا ہے ۔ رازوں کو فاش کرتا ہے اور بے حیائیوں کی دعوت دیتا ہے ۔ اس سائٹ کو بنانے والا جو ہے اس نے خود یہ کہا ہے کہ میں نے اسے اس لئے بنایا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ انسان جو کچھ ہے وہ ظاہر و باہر ہو کر دوسرے کے سامنے آجائے اور اس کے نزدیک ظاہر و باہر ہوجانا یہ ہے کہ اگر ننگی تصویر بھی کوئی اپنی ڈالتا ہے تو بیشک ڈال دے اور اس پر دوسروں کو تبصرہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تو یہ جائز ہے۔ اناللّٰہ۔ اسی طرح دوسرے بھی جو کچھ دیکھیں کسی بارے میں اس میں ڈال دیں۔ یہ اخلاقی پستی اور گراوٹ کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟ اس اخلاقی پستی اور گراوٹ کی حالت میں ایک احمدی ہی ہے جس نے دنیا کو اخلاق اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار بتانے ہیں۔

(اختتامی خطاب جلسہ سالانہ جرمنی 26جون 2011ء)

انٹر نیٹ پر غیراز جماعت مردوں سے شادیاں اور ان کے نقصان

انٹرنیٹ کے ذریعہ سے غیروں سے روابط بڑھنے کی صورت میں شادیاں ہو جاتی ہیں۔ اس حوالہ سے جو نقصان گھرانوں کو پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس فرماتے ہیں۔

’’آج کل تو انٹرنیٹ ہے۔ آج سے پہلے بھی جہاں وہ عورتیں جنہوں نے غیراز جماعت مردوں سے شادیاں کی ہیں، اب پریشانی اور پشیمانی کا اظہار کرتی ہیں اور لکھتی ہیں کہ ہمارے سے یہ غلطی ہوگئی جو غیر از جماعت سے شادی کی۔ اوّل تو بچے باپ کی طرف زیادہ رجحان رکھتے ہیں، غیرازجماعت باپ کی طرف، اس لئے کہ ان میں آزادی زیادہ ہے …….یاد رکھیں کہ آپ احمدی ماؤں کی کوکھوں سے نکلنے والے بچے غیروں کی گودوں میں دے رہی ہوں گی۔ کیوں آپ لوگ اپنے آپ پر اور اپنی نسلوں پر ظلم کر رہے ہیں؟‘‘

(خطاب لجنہ اجتماع یوکے 19۔اکتوبر2003ء)

اکائی ختم ہو رہی ہے

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر لجنہ کو ایک نصیحت و سبق آموز خطاب فرمایا۔ جس میں تفصیل سے ان جدید ایجادوں کے نقصانات پر روشنی ڈالی۔ آپ سیل فونز (Cell Phone) کے حوالہ سے فرماتے ہیں۔

’’اس کا نقصان یہ ہے کہ گھر ٹوٹ رہے ہیں۔ بچے بگڑ رہے ہیں۔ مائیں کھانے پر بلاتی ہیں اگر آجائیں تو ہاتھ میں فون ہوتے ہیں۔ پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔ اب تو بعض عقل وا لے دنیا داربھی کہنے لگ گئے ہیں کہ ہمارے گھر کی اکائی ختم ہو گئی ہے۔ میاں بیوی اکٹھے باتیں کرتے تھے ۔ اس کمپیوٹر اور فونز نے رشتوں کو توڑ دیا ہے۔ ہر عقل مند کو یہ ایجادات پریشان کر رہی ہیں۔‘‘

پھر اسی خطاب میں حضور یورپ کے سکولوں میں مذہبی تعلیم پر پابندی کا ذکر کرتے ہوئے (اب تو یہ معاملہ احمدیوں کو پاکستان میں بھی درپیش ہے) آپ فرماتے ہیں۔

’’آج کل کے ماحول میں بچے سکول میں دوسرے بچوں سے باتیں سیکھ رہے ہوتے ہیںاور سکول میں بھی سکھایا اور کہا جاتا ہے کہ کوئی دین اور مذہب نہیں سکھانا چاہئے بلکہ بڑا ہو کر خود اس کو اختیار دیا جائے جب ایسا ماحول ہو تو اگلی نسل کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ اگر ماحول اور تعلیمی درسگاہیں پابندی لگائیں کہ دین نہ سکھائیں تو اس سے زیادہ خطرناک بات نہیں ہو سکتی ۔ یقیناً یہ بےچین کر دینے والی باتیں ہیں ۔ ان دنیا داروں کی اپنی بات میں بھی تضاد ہے ۔ ایک طرف لا مذہب کر کے مذہب کے خلاف بولتے ہیں اور پھر تسلیم بھی کرتے ہیں کہ مذہب نے اخلاق سکھایا ہے۔ بہرحال انکار کرنے کے باوجود انہیں مذہب کی بعض باتیں ماننے کے بغیر چارہ نہیں۔ ایسے میں ہم جو اس زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں ،ہمیں بہت محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے نہ صرف اپنے آپ کو بچانا ہے بلکہ اگلی نسلوں کو بھی بچانا ہے تا کہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے والی بھی بنتی چلی جائے۔‘‘

(اختتامی خطاب جلسہ سالانہ جرمنی 26جون 2011ء)

ایم ٹی اے ایک عظیم نعمت

اللہ تعالیٰ نے ان بے حیائیوں کے لیبر روم کے مقابل پر ہم پر احسان کرتے ہوئے ایم ٹی اے کی نعمت سے نوازا ہے۔ حضور اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’والدین بھی اس طرف توجہ کریں اور اپنی اولاد کو بھی ایم ٹی اے سے وابستہ کریں ۔ یہ بھی ایک روحانی مائدہ ہے جو آپ کی روحانی بقا کا ذریعہ ہے۔ اس سے آپ کا دینی علم بڑھے گا۔ روحانیت میں ترقی ہو گی اور (امامت) سے کامل تعلق پیدا ہو گا اور دنیا کے دوسرے چینلز کے زہریلے اثر سے بھی محفوظ رہیں گے۔‘‘

(پیغام برائے جلسہ سالانہ آسٹریلیا 24دسمبر 2015ء)

پھر فرمایا:

’’میڈیا نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے اور بدقسمتی سے نیکیوں میں قریب کرنے کی بجائے شیطان کے پیچھے چلنے میں زیادہ قریب کر دیا ہے ۔ ایسے حالات میں ایک احمدی کو بہت زیادہ بڑھ کر اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے عطا فرمایا ہے ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں جماعت کے روحانی ، علمی پروگراموں کے لئے ویب سائٹ بھی عطا فرمائی۔ اگر ہم اپنی زیادہ توجہ اس طرف کریں تو پھر ہی ہماری توجہ اس طرف رہے گی جس سے ہم اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے والے ہوں گے اور شیطان سے بچنے والے ہوں گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 20مئی 2016ء)

پھر حضورانور نے ایم ٹی اے اور اس پر اپنے خطبہ کے سننے کی طرف یوں توجہ دلائی۔

’’لجنہ اماء اللہ کی ہر ممبر کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے جوڑ دے اور باقاعدگی سے اس کے پروگرام دیکھیں ۔ کم از کم اس بات کو یقینی بنائیں کہ میرا خطبہ جمعہ اور خلیفۃ المسیح کے دیگر پروگرام ضرور دیکھیں اور اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ ان کے بچے بھی بیٹھ کر یہ پروگرام ضرور دیکھیں۔‘‘

(خطاب لجنہ اجتماع یوکے 25۔اکتوبر2015ء)

انصار کی ذمہ داریاں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جماعت کے تمام طبقہ ہائےفکر کو مخاطب ہو کر ان برائیوں سے بچنے کی نہایت درد بھرے دل کے ساتھ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’بعض ماں باپ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ جماعتی نظام کا کام ہے کہ ان کو اس بارے میں آگاہ کریں۔ اسی طرح انصاراللہ ہے،لجنہ ہے، خدام ہے یہ تنظیمیں اپنی اپنی تنظیموں کے ماتحت بھی ان بُرائیوں سے بچنے کے پروگرام بنائیں۔ نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو جماعتی نظام سے اس طرح جوڑیں، اپنی تنظیموں کے ساتھ اس طرح جوڑیںکہ دین اس کو ہمیشہ مقدم رہے اور اس بارے میں ماں باپ کو بھی جماعتی نظام سے یا ذیلی تنظیموں سے بھرپور تعاون کرنا چاہئے۔ اگر ماں باپ کسی قسم کی کمزوری دکھائیں گے تو اپنے بچوں کی ہلاکت کا سامان کر رہے ہوں گے۔ خاص طور پر گھر کے جو نگران ہیں یعنی مرد (انصار ہی زیادہ ترنگران ہوتے ہیں۔ ناقل) ان کا سب سے زیادہ یہ فرض ہے اور ذمہ داری ہے کہ اپنی اولادوں کو اس آگ میں گرنے سے بچائیں جس آگ کے عذاب سے خداتعالیٰ نے آپ کو یا آپ کے بڑوں کو بچایا ہے اور اپنے فضل سے زمانہ کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ دنیا خاص طور پر دوسرے (غیراز جماعت) شدید بے چینی میں مبتلا ہیں کہ ان کو کوئی ایسی لیڈر شپ ملے جو ان کی رہنمائی کرے۔ لیکن آپ پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہوا ہے کہ زمانے کے امام کی بیعت میں آکر رہنمائی مل رہی ہے۔ خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے سے نیکیوں پر قائم رہنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے یہ سب فضل تقاضا کرتے ہیں کہ توجہ دلانے پر ہر بُرائی سے بچنے کا عہد کرتے ہوئے لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھیں۔ نیکیوں پر خود بھی قدم ماریں اور اولاد کو بھی اس پر چلنے کی تلقین کریں پہلے روشن خیالی کے نام پر بعض غلط کام کئے جاتے ہیں اور پھر وہ بُرائیوں کی طرف دھکیلتے چلے جاتے ہیں۔ تو یہ نہ ہی تفریح ہے ، نہ آزادی بلکہ تفریح اور آزادی کے نام پر آگ کے گڑھے ہیں۔

اس لئے خدا تعالیٰ نے جو اپنے بندوں پر انتہائی مہربان ہے۔مومنوں کو کھول کر بتا دیا کہ یہ آگ ہے، یہ آگ ہے، اس سے اپنے آپ کو بھی بچاؤ اور اپنی اولادوں کو بھی بچاؤ۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو اس معاشرے میں رہ رہے ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ یہ تمہاری زندگی کا مقصد نہیں ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے کہ اس لہو و لعب میں پڑا جائے۔ یہی ہمارے لئے سب کچھ ہے۔ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے تمہارے میں اور غیر میں فرق ہونا چاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 23۔اپریل 2010ء)

پچھلا پڑھیں

ضروری اعلان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اپریل 2020