• 26 اپریل, 2024

اسلام کی نظر میں حضرت گوتم بُدھ علیہ السلام کا مقام

اسلام کی نظر میں حضرت گوتم بُدھ علیہ السلام کا مقام
8 دسمبر یومِ بودھی کے موقع پر تائیوان کے شہر Tainan میں بدھ مت کے معبد میں اذان اور تقریر

8دسمبر کا دن بدھ مت کے پیرو کار یوم بودھی کے طور پر مناتے ہیں یعنی وہ دن جب حضرت گوتم بدھ علیہ السلام کو عرفان نصیب ہوا اور انہوں نے اپنے مشن کا آغاز کیا۔ Tainan کے ایک بدھ مت معبد Rissho Koseikai Tainan کی طرف سے خاکسار کو اس دن کی مناسبت سے ’’اسلام اور گوتم بدھؑ‘‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ تقریر کے بعد خاکسار نے اس معبد میں اذان دے کر نماز ادا کی اور اپنے معروضات کے علاوہ اذان کے ذریعہ بھی حاضر ین کو یہ بات باور کروانے کی کوشش کی۔ خدا تعالیٰ کی توحید اور بڑائی کا عرفان ہی وہ گیان تھا جو حضرت گوتم بدھؑ کو نصیب ہوا۔

اس کانفرنس کے موقع پر خاکسار نے جو معروضات پیش کیں۔ قدرے تفصیل اور حوالہ جات کے ساتھ قارئین کی خدمت میں عرض کی جارہی ہیں۔

عہد عتیق کے برگزیدہ درویشوں اور اولیاء میں ایک اہم نام حضرت بدھؑ کا ہے۔ پیدائش کے وقت آپ کا نام سدھارتھ رکھا گیا جبکہ گوتم آپ کا خاندانی نام ہے۔ جب آپ کو عرفان الہٰی نصیب ہوا تو اس کے بعد آپ کا نام بدھ پڑ گیا۔ بدھ کا مطلب ہے دانا، عقلمند و بینا۔ آپ چھٹی صدی قبل مسیح میں ہندوستان کی ایک ریاست ’’کپل وستو‘‘ میں پیدا ہوئے جو کہ موجودہ نیپال میں واقع ہے۔ آپ کے والد اس چھوٹی سی ریاست کے راجہ تھے گویا آپ ایک آسودہ حال گھرانے کے شہزادے تھے۔

حضرت بدھؑ کو نصیب ہونے والا گیان

روایات کے مطابق حضرت گوتم بدھؑ عین عالم جوانی میں اپنے گھر بار اور خواہشات کو خیرباد کہہ کر حق کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ پھر برسوں اسی تپسیا اور ریاضت میں بسر کئے لیکن کسی پل سکون اور قرار نصیب نہ ہوا۔

ایک دن آپ املی کے ایک درخت تلے مراقبہ کے انداز میں بیٹھے تھے کہ آپ نے دل میں روشنی اور اطمینان سا محسوس کیا۔ گویا آپ کو اپنے سب سوالوں کا جواب مل گیا ہو۔یعنی آپ کو یہ گیان اور عرفان نصیب ہوگیا کہ محض تپسیا اور چلہ کشی نہیں بلکہ نیک اور پاکیزہ زندگی،میانہ روی اور دوسروں پر رحم ہی وہ عرفان ہے جس سے محبوب حقیقی کو پایا جاسکتا ہے ۔ پس یہ وہ نور اور گیان تھا جو حضرت بدھؑ کو عطا کیا گیا۔ گویا یہ خدا تعالیٰ کی پاک تجلی تھی جس نےحضرت گوتم بدھؑ کے دل کو عرفان اور نور سے بھر دیا۔

حضرت گوتم بدھؑ ہستی باری تعالیٰ کے قائل تھے

اب سدھارتھ گوتم نے بدھ یعنی عارف کا لقب اختیار کرلیا، آپ گوشہ تنہائی سے نکلے اور دنیا کی تعلیم و تلقین کی غرض سے دیس بدیس پھرنا شروع کیا۔ پہلے بنارس پہنچے۔پھر راج گڑھ گئے۔ پھر کپل وستو میں تشریف لائے جہاں آپ کے بوڑھےباپ راجا تھے۔وطن سے رخصت ہوتےوقت آپ شہزادہ تھے، اب جو واپس تشریف لائے توسادہ لباس ، ہاتھ میں کاسئہ گدائی،یعنی ایک درویشانہ روپ میں تھے ۔ برہمنوں کو تبلیغ کرتے ہوئے دعوت الیٰ اللہ کی اس مہم کے ساتھ جب آپ کوشالہ نامی علاقہ کا دورہ کر رہے تھے تو Manasakta نامی گاؤں میں مقامی برہمنوں کے ساتھ ہونے والا مکالمہ جو Tevigga Suttana میں مرقوم ہے ، اس میں جا بجا یہ شہادتیں نظر آتی ہیں کہ آپ ناستک نہیں بلکہ آستک تھے اور خدا کے وجود کے اقراری تھے۔بدھ مت کی جن روایات سے یہ نتیجہ اخذکیا جاتا ہے کہ حضرت گوتم بدھ ناستک تھے دراصل وہ برہمنوں کے مروجہ عقائد کی تردید تھی ۔نیز محقّقین نے تحقیق کے لئے جو روش اختیار کی اس نے بھی اس غلط فہمی کو جنم دیا ۔

بدھ مت کو ملحدانہ مذہب خیال کرنے کی غلط فہمی

’’18ویں اور 19 ویں صدی کے مغربی محقّقین بدھ مت کے بارہ میں یہ عام غلط فہمی پھیلا نے کے ذمہ دار ہیں کہ یہ ایک ملحدانہ مذہب ہے ۔ اس سلسلہ میں ان کی معلومات کی بنیاد زیادہ تر بدھ علماء کے پالی زبان سے کئے گئے تراجم پر تھی جن کے متعصّبانہ اور ملحدانہ خیالات نے ان تراجم کو متاثر کیا ۔ ان مغربی محقّقین میں سے کم ہی پالی زبان کو سمجھتے تھے جو بدھ کی بنیادی تعلیم کا ماخذ تھی۔‘‘

(الہام ،عقل اور سچائی از حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع ؒ صفحہ 118)

حضرت گوتم بدھؑ کے خدا تعالیٰ پر ایمان کے حق میں اُٹھنے والی تنہاء آواز

’’مغربی مفکرین کے اس عمومی رحجان کے خلاف حضرت مرزاغلام احمدیہ قادیانی علیہ السلام (1908-1835ء) نے تنہا آواز بلند کی اور ایک بالکل مختلف نظریہ پیش کیا ۔آپ نے دعویٰ کیا کہ مہاتما بدھ وجود باری پر ایمان رکھتے تھے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے خاص مقصد کے لئے مبعوث فرمایا تھا۔ آپؑ نے ثابت کیا کہ باقی انبیاء کی طرح حضرت بدھؑ بھی فرشتوں، جنت دوزخ، قیامت کے دن اور شیطان کے وجود پر ایمان رکھتے تھے۔ لہٰذا یہ الزام کہ حضرت بدھؑ خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے تھے، سرار اختراع ہے۔ حضرت بدھؑ نے دراصل ویدانتا (وہ مذہبی عقائد اور اصول جو ہندوؤں کی مقدس کتب ویدوں میں موجود ہیں) کی نفی کی تھی اور ہندو مت کے خدا کے جسمانی شکل میں ظہورکے عقیدہ کو رد کیا تھا ۔حضرت بدھؑ نے برہمنوں پر سخت تنقید کی جنہوں نے اپنی غلط تشریحات سے ہندومت کی الہامی تعلیمات کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔‘‘

(الہام ،عقل اور سچائی از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃالمسیح الرابعؒ ص118)

دیکھتے ہی دیکھتےآپ کا پیغام عام ہونا شروع ہوگیا اور ساکیہ قوم کے بعد بہار اور آگرہ کے باشندے بدھ مت کی تعلیم سے آشکار ہوئےاور آج بدھ مت دنیا کا چوتھابڑا مذہب ہےاور ایشیا کے اکثر ممالک میں اسی کا راج ہےنیز حضرت گوتم بدھؑ کو نورِ ایشیا کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

پس حضرت گوتم بدھؑ کو جو قبولیتِ عام نصیب ہوئی اسی میں یہ راز اور سِر پنہاں ہے کہ آپ ایک درویش صفت ولی اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان صفات سے متّصف تھے جو انبیاء اور مامورین خدا کا خاصہ ہیں ۔

کروڑہا بندگانِ خدا میں مقبولیت آپ کی صداقت کی دلیل

امام الزماں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ہم لوگ دوسری قوموں کے نبیوں کی نسبت ہرگز بدزبانی نہیں کرتے بلکہ ہم یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس قدر دُنیا میں مختلف قوموں کے لئے نبی آئے ہیں اور کروڑہا لوگوں نے اُن کو مان لیا ہے اور دُنیا کے کسی ایک حصہ میں اُن کی محبت جاگزیں ہوگئی ہے اور ایک زمانہ دراز اس محبت اور اعتقاد پر گزر گیا ہے تو بس یہی ایک دلیل اُن کی سچائی کے لئے کافی ہے کیونکہ اگر وہ خدا کی طرف سے نہ ہوتے تو یہ قبولیت کروڑہا لوگوں کے دلوں میں نہ پھیلتی ۔ خدا اپنے مقبول بندوں کی عزت دوسروں کو ہرگز نہیں دیتا اور اگر کوئی کاذب اُن کی کُرسی پر بیٹھنا چاہے تو جلد تباہ ہوتا اور ہلاک کیا جاتا ہے۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد نمبر 23 صفحہ 452)

حضرت بدھؑ کو حاصل ہونے والا گیان

عبادات، ریاضتوں اور جاں گُسل مجاہدہ کے بعد حضرت گوتم بدھؑ کو جو گیان نصیب ہوا دراصل یہ خداوند کی تجلی اور حق کی شناخت تھی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو نصیب ہوئی، بدھ مت کے مروجہ عقائد کے مطابق اس موقع پر آپ پر درج ذیل چار صداقتیں آشکار ہوئیں۔

1۔معاشرہ میں ہر طرف دُکھ کا بسیرا ہے۔
2۔یہ دُکھ اور تکلیف خواہشات کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔
3۔خواہشات کو جس قدر دبایا اور کُچلا جائے اسی قدر دُکھ اور
تکلیف سے بچا جا سکتا ہے۔
4۔عمل اور کردار کے ہشت پہلو راستہ پر عمل کرکے نروان

یعنی نجات نصیب ہوسکتی ہے۔

نروان یا نجات کے حصول کا راستہ

بدھ مت کے فلسفہ کے مطابق نروان یا نجات درج ذیل آٹھ درست راستوں سے نصیب ہوسکتی ہے۔

1۔ درست فہم و ادارک
2۔ درست فکر و خیال
3۔ درست گفتار
4۔ درست عمل
5۔ درست ذریعہ معاش
6۔ درست جدو جہد
7۔ درست چستی و بیداری
8۔ درست توجہ اور دھیان

حضرت بدھؑ کو حاصل ہونے والا عرفان میانہ روی کا راستہ تھا
برسہا برس کے مجاہدہ اور جاں گُسل ریاضت کے بعد دراصل حضرت گوتم بدھؑ کو یہ عرفان نصیب ہوا کہ نجات میانہ روی سے وابستہ ہے ۔ چنانچہ گیان نصیب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں جو ’’تری پٹک‘‘ کی کتاب Mahavagga میں The First Sermon کے نام سے درج ہے آپ نے ارشاد فرمایا:۔

“By avoiding these two extremes, monks the Tathagata has gained the knowledge of the middle path which leads to insight, calm, to knowledge to sambodhi, to Nibbana.”

پس یہ خوبصورت اور متوازن تعلیم اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ حضرت گوتم بدھؑ خدا تعالیٰ سے ہدایت یافتہ پاک اور مصفیّٰ وجود تھے ۔آپ کی عطا فرمودہ تعلیم کا بنظر غور مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ انبیاء کو حاصل شدہ اوصاف سے متصف تھے اور آپ کے عقائد انہی بنیادوں پر استوار ہیں جو انبیاء کی لائی ہوئی تعلیم میں ہی نظر آسکتےہیں ۔ امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’ہم بیان کرچکے ہیں کہ بدھ شیطان کا بھی قائل ہے ایسا ہی دوزخ اور بہشت اور ملائک اور قیامت کو بھی مانتا ہے اور یہ الزام کہ بدھ خدا کا منکر ہے محض افتراء ہے بلکہ بدھ ویدانت کا منکر ہے اور ان جسمانی خداؤں کامنکر ہے جو ہندو مذہب میں بنائے گئے تھے ۔ ہاں وہ وید پر بہت نکتہ چینی کرتا ہے اور موجودہ وید کو صحیح نہیں مانتا اور اس کو ایک بگڑی ہوئی محرّف ومبدّل کتاب خیال کرتا ہے۔‘‘

(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 90)

اب رہا یہ سوال کہ اگر آپ دیگر انبیاء کی طرح پیغمبرانہ اوصاف رکھتے تھے تو آپ کا ذکر خیر قرآن کریم میں کیوں نہیں ہوا۔اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے قرآن کریم کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ:
کیا حضرت بدھؑ کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے؟

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایسے انبیاء بھی ہیں جن کے بارہ میں ہم کچھ بیان نہیں کر رہے۔

(النساء:165)

نیز ایک عام اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی طرف ہادی بھیجے ہیں ۔

(الرعد:8)

نیز ایک اور موقع پر فرمایا کہ ہر امت میں رسول آئے۔

(یونس:48)

پس قرآن کریم کے اس اُصولی بیانیہ کی روشنی میں اس سوال کا جواب نہایت آسانی سے تلاش کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم ایک آفاقی تعلیم بیان کرتا ہے اور یہ اصول اختیار فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی ملک و قوم کو اپنے فیض اور ہدایت سے محروم نہیں رکھا۔

حضرت گوتم بدھؑ کو پیغمبر ماننے والے مسلمان مشاہیر

بعض محقّقین امکانات کا جائزہ لیتے ہوئے حضرت ذوالکفل اور حضرت گوتم بدھ علیھما السلام کو ایک ہی وجود قرار دیتے ہیں۔ قرآن کریم حضرت ذوالکفل کا ذکرتے ہوئے انہیں صابرین اور اَخیار میں سے قرار دیتا ہے ۔ اس امکان پر اظہار خیال کرنے والے محقّقین کی رائے ہے کہ حضرت ذوالکفل سے گوتم بدھ بھی مراد ہوسکتے ہیں ۔ کیونکہ آپ ریاست ’’کپل‘‘ کے رہنے والے تھے اور ’’ذو‘‘ عربی زبان میں والا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔عربی زبان میں چونکہ پ کا لفظ نہیں لہٰذا کپل سے کفل بن گیا ۔

مشہور مسلمان سیرت نگار اور مؤرخ سید سلیمان ندوی کا خیال ہے کہ: قرآن مجید کی آیت وَاِن مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّاخَلَا فِیْھَا نَذِیْر کو پیش نظر رکھ کر مہاتما گوتم بدھ کانظریہ ایک حد تک مانوس ہوجاتا ہے ۔

(المعارف۔ایڈیٹر سید سلیمان ندوی بابت ماہ جنوری 1922ء)

اسی طرح مولوی حشمت اللہ خان لکھنوی نے تاریخ جمّوں سے متعلق ایک ضخیم کتاب تصنیف فرمائی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’کتب تواریخ میں لکھا ہے کہ سکیامنی (بدھ) ہندوستان کے انبیاء میں سے تھا۔‘‘

(تاریخ جموں وریاست مفتوحہ گلاب سنگھ حصہ سوم صفحہ258)

ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال حضرت گوتم بدھ کے بارےمیں منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

قوم نے پیغامِ گوتم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہرِ یک دانہ کی
آہ بدقسمت رہے آوازِ حق سے بے خبر
غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
آشکار اس نے کیا جو زندگی کا راز تھا
ہند کو لیکن خیالی فلسفہ پر ناز تھا
شمع حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی
بارش ِ رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی
آہ شودر کے لئے ہندوستاں غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
شمعِ گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں

اسی طرح ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی تصنیف جاوید نامہ میں جب اقبال اور رومی فلک قمر پر پہنچتے ہیں تو وہاں انہیں حضرت گوتم بدھ، حضرت زرتشت،حضرت عیسی علیھم السلام اور آنحضورﷺکی زیارت نصیب ہوتی ہے ۔ اس تخیلاتی مقابلہ میں حضرت گوتم بدھ کے ذریعہ ایک رقاصہ کے توبہ کرنے کی تمثیل بیان ہوئی۔


حضرت گوتم بدھؑ کا لایا ہوا دین آج ہندوستان سے لے کر جاپان تک کے وسیع خطۂ ارض میں پھیلا ہوا ہے ۔آپ کو نورِ ایشیاء بھی کہا جاتا ہے۔ آپ یقیناً اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ ، درویش اور ولی تھے اور انہی صفات سے متّصف تھے جو انبیاء اور اَصفیاء کا خاصہ ہیں ۔ گوکہ بدھ مت کے موجودہ عقائد خدا کے وجود سے برگشتہ دکھائی دیتے ہیں لیکن حضرت گوتم بدھ کی حیاتِ مبارکہ اور پاکیزہ تعلیم اس بات کی عکاس ہے کہ آپ نے جس حقیقت کو پایا وہ خدا تعالیٰ کا جلوہ اور محبت ہی تھی ۔

مسلمان علماء اور محقّقین کی ان موہوم سی آوازوں کو ایک نئی جہت اور گونج اس وقت نصیب ہوئی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حضرت گوتم بدھ علیہ السلام کی برگزیدہ اور پاکیزہ صفات کا ببانگ دہل اعلان کیا گیا اور “مسیح ہندوستان میں” میں آپ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہت بیان فرمائی ۔آپ کی اقتداء میں خلفائے حضرت مسیح موعودؑ اور علمائے سلسلہ احمدیہ نے اس حوالہ سے نہایت قطعی مؤقف اختیا کرتے ہوئے آپ کی شخصیت اور تعلیم کو انقلاب انگیز قرار دیا ۔حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ آپ کی تعلیم کے اثرات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اس تعلیم نے ایک ایسا تغیّر پیدا کیا کہ ہندوؤں کی عیاشیاں مٹا ڈالیں اور ان کو تباہی سے بچا لیا ۔ جب حضرت بدھ پیدا ہوئے اس وقت دام مارگیوں کا بڑا زور تھا جن کا مذہب یہ ہے کہ ماں بہن سے زنا کرنا بڑا ثواب کا کام ہے ۔ یہ لوگ اب بھی موجود ہیں…………اس وقت جب ان کا بڑا زور تھا حضرت بدھ نے خواہشات کو مٹانے کی تعلیم دی ۔ اس وقت تو اس تعلیم کی کوئی ایسی قدر نہ کی گئی مگر کچھ عرصہ کے بعد اس تعلیم نے لوگوں کی حالت بدل دی۔‘‘

(حضرت مسیح موعودؑ کےکارنامے،انوارالعلوم جلد10ص 116)

نیز آپؓ فرماتے ہیں ۔
’’دراصل وہ (بدھ) نبی تھا اور خدا تعالیٰ کا قائل تھا۔‘‘

(نجات ۔ انوار العلوم جلد 7 صفحہ 52)

ایک اور موقع پر آپؓ نے فرمایا کہ۔
’’اس نے خدا تعالیٰ کو پالیا اور اس کا نام بدھ یعنی عقل مجسم ہوا۔‘‘

(عرفانِ الہٰی اور محبت باللہ کا عالی مرتبہ۔ انوار العلوم جلد 11صفحہ 230)

(انیس احمد ندیم۔جاپان)

پچھلا پڑھیں

ضروری اعلان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اپریل 2020