• 27 اپریل, 2024

ایک فضول رسم ۔ اپریل فول

آج کچھ لکھنے کا موڈ تھا مگر مجھے کوئی ٹاپک یعنی ‘عنوان’ نہیں مل رہا تھا کہ کس کے متعلق قلم کوجنبش دوں۔اتنےمیں گارڈن کی طرف نگاہ پڑی تو پھولوں کی کیاریوں میں پھول کھلےہوئےرنگ رنگ کے نظر آئے ۔ درمیان میں گھاس بھی سبز ہوکر Fur کی طرح ہلکی ہوا کے جھونکوں سےایک لہر میں ادھر جاتی دوسری لہر میں دوسری جانب ۔ میں نے سوچا کہ آج Lawn Mower سے اس کو صاف اور ہموار کرنا چا ہئے ۔

میں ضرور شام کوکروں گی۔ ابھی یہ سوچا ہی تھا کہ ڈاکیا میری ڈاک دروازےمیں رکھ کر چلا گیا۔ میں نے جوکھڑکی سے باہر جھانکا تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک پارسل جو خاصہ بڑے سائز کا تھا ساتھ ہی پڑا ہے جو میرے نام ہی تھا۔ میں نے اس کو ایک طرف رکھ دیا کہ بچوں کو پارسل کھولنے میں ، تہ بہ تہ ورق اُتارنے میں مزا آتا ہے اور خوش ہو ہو کر کاغذ پھاڑ کر پھینکتے جاتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس میں ہے کیا؟ اور یہ کس نے بھیجا ہے ؟ اب میں تو کچھ لکھنے کی کوشش میں تھی کہ فون کی گھنٹی بجی کہ تم گھر بیٹھی کیا کر رہی ہو ؟آج تو تمہیں تمہاری سہیلی نے اور بھی سہیلیوں کے ساتھ اپنے گھر دوپہر کے کھانے پر بلایا ہے اور میں تمہیں لینے آرہی ہوں بس جلدی سے تیار ہو جاؤ ۔ وہ انتظار کر رہی ہے اور اس نے مجھے ہی کہا تھا کہ اس وقت باسط کے پاس کا رنہیں ہوتی ڈاکٹر صاحب لے جاتے ہیں وہ کیسے آئے گی ۔ تم ہی ساتھ لے آنا۔ یہ باتیں کہہ کر رومانہ نے فون رکھ دیا۔ میں ذرا جزبز کرنے ہی والی تھی کہ پھر دروازے کی گھنٹی بجی۔ دروازہ کھولنے پر پتہ چلا کہ ننھی کے پاؤں پاؤں چلنےکی خوشی میں ریحانہ برفی کی پلیٹ لائی ہے ۔ میں نے مبارک باد دیتےہوئےریحانہ سے معذرت کی کہ میں نے ابھی کہیں جانا ہے آپ کو بیٹھنے کے لئے نہ کہہ سکوں گی مگر تمہارےگھر مبارک باد دینے ضرور آؤں گی مگرر یحانہ نے جاتے جاتے منہ بسور کےیہ کہہ کرزوردارقہقہہ بھی لگایا کہ اری پگلی ذرا ہوش کرو میں نے تو تمہیں فول Fool بنایا ہے ابھی تومیری بیٹی صرف 6 ماہ کی ہے چلنے کیسے لگے گی ! اور ہاں یہ برفی بھی دھیان سے کھانا اور چل پڑی۔ میں نے کہا ایسی کون سی بات ہے ورق لگی خوبصورت پستہ بادام کی برفی جو ایک دم تازہ اور نرم محسوس ہورہی تھی ، میں نے جھٹ اس کے سامنے ہی منہ میٹھا کرنا چاہا تو کیا تھا اور کیا ہوا یہ جان کر آ پ کوبھی افسوس ہوگا کہ صابن کے سفید ٹکڑوں پر سجاوٹ کر کے لائی تھی اور مجھے فول بنا کریعنی تکلیف دےکر خودخوش ہورہی تھی ۔ ایسامذاق تکلیف دہ بھی ہوتا ہے اور انسان کی بد نماشخصیت کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ بھلا کیا فا ئد ہ ایسا کرنے کا ؟بیوقوف بننا آسان ہوتا ہے بنانا مشکل ہوتا ہے اورجولوگ بیوقوف بنانے میں کامیاب ہو جائیں وہ تھوڑی دیر کے لئے تو خوش ہوتے ہیں اپنے کارنامے پر۔ کوئی کہتا ہے خوب اُلّو بنایاتمہیں اتنا بھی یاد نہیں کہ آج یکم اپریل ہے.ابھی منہ ہاتھ دھو کر اور بار بار ابکائیاں لے کر میرا تو بُرا حال ہورہا تھا کہ وہ آن ٹپکی چلو جلدی چلو سب تمہارا انتظار کر رہی ہیں اور یہ حال کیا بنا رکھا ہے تم نے؟ چہرہ سرخ ہورہا ہے۔کیاکھایا ہے؟ میں نے جواب دیئے بغیر اس کے سامنے جلدی جلدی تیار ہونا شروع کر دیااوراپنی سب سے پیاری سہیلی کی اس احمقانہ حرکت کا ذکر اس سے نہ کیا کہ اس نے ایسے برفی کی جگہ صابن مجھے کھلا کر فول بنایا ہے اور میں ہرگز کوئی شک نہ کرسکی ۔ اب ہم تھوڑی دیر میں موسم کے مزے لیتے ہوئے کار میں دعوت دینے والی سہیلی کے گھر پہنچے ۔ دروازہ اس نے ہی کھولا دروازہ کھلتےہی تقریباً بیس کے قریب سہیلیاں یک زبان ہو کر السلام علیکم کی بجائے اپریل فول پکار اٹھیں اورمیں اپنے دوسری بار بیوقوف بننے پر پھر سے نادم ہوگئی بلکہ اب تو کافی غصہ میں آ کر ان سب کوتبلیغ ہی کرنےلگی کہ اے مسلمان لڑ کیو !سلام کا جواب ہی دیا ہوتا۔ نہ سہی کوئی پارٹی وغیرہ مگر اسلامی اخلاق کو تو نہ بھولو۔سب نے ہی منہ بسور لئے کہ اس کوتو بس سنجید ہ لوگ ہی اچھے لگتے ہیں حالانکہ بات یہ نہیں ہے میں کم ہوں کسی سے شوروغل اور ہنسی مذاق کرنے میں مگر موقع محل پر ہربات اچھی لگتی ہے۔ آخر ہم کون ہیں؟ چلو میں تم سب کو کچھ اس دن کے متعلق معلومات دیتی ہوں کہ یہ کیا رسم ہے جو عیسائیوں میں رائج ہے اور ہر سال یکم اپریل کوکسی کو دھوکہ دے کرفریب دےکر، جھوٹ اور نا واجب ہنسی مذاق اور کئی فضول شغل اور حرکات سے ایک دوسرے کو فول یعنی بیوقوف بنا کر اس کا مذاق اڑایا جا تا ہے اور ایسی ایسی باتیں جو مذاق میں بھی کرنا غیر موزوں اور معیوب خیال کی جاتی ہیں اس دن کے موقع پر روارکھی جاتی ہیں ۔

شام کوتو جو پارسل کا مذاق میرےبچوں کے سامنے میرا بنا وہ بیان سے باہر ہے۔ میں تیارہو کرایک اور سہیلی کے گھر چل پڑی اور یہ کہتے ہوئے کہ دعوت ہے کوئی تحفہ ہی لے جاتی چلو خیر راستےسے florist سے تھوڑے پھول ہی لے لوں گی میں نے کوٹ نقاب لیا اور چل پڑی ابھی ذرا فاصلے پر ہی تھی کہ ثمین بڑی تیز تیز چلتی ہوئی آئی کہنے لگی کہاں جا رہی ہو اور یہ پھول کتنے خوبصورت اور خوشبو دار لئے جا رہی ہو کون ہے وہ پیارا یا پیاری ؟ یہ سب باتیں اس نے ایک ہی سانس میں کہہ ڈالیں اور مجھے گلے ملنے لگی اور میرے ہاتھ سے پھول لیتے ہوئے کہہ اٹھی کہ کاش مجھے بھی کبھی کوئی ایسے خوبصورت پھول تحفہ میں دے۔ میں نے کہا اری پگلی کاش نہ کہو بلکہ لویہ پھول تمہارے لئے ہی لا رہی ہوں جلدی میں بس یہی تحفہ ہے اور کیا بتاؤ کہ باقی سب مہمان سہیلیاں آگئی ہیں کیا؟ اس نے حیران ہو کر پوچھا کون سہیلیاں اورکہاں اورکب کیا پو چھ رہی ہو؟ تم دیوانی تو نہیں ہوگئیں بہکی بہکی سی باتیں کر رہی ہو۔ میں نے کہاتم نے تو چار بجے کی چائے پر بلایا ہے Text Message کا پیغام ملنے پر چلی آ رہی ہوں لوپوچھ لو ۔ اسی سے یہیMessage رومانہ نے بھی سنا ہے۔ وہ بھی تو ساتھ ہے اس پر دونوں سہیلیوں نے میرا fool بنا کر خوب مذاق اڑایا کہ تمہیں کچھ یاد ہی نہیں کہ آج یکم اپریل ہے اور ہم نےتمہیں فول بنایا ہے۔ میں تو بس چپ کی چپ منہ لٹکا ئے اِدھر اُدھر دیکھنےلگی۔ اپنی بیوقوفی پراور وقت ضائع کرنے پر ان فضول مذاق اور حرکتوں پر جو ہمارے مذہب اسلام میں ہرگز پسند نہیں کی جا تیں بھلا کیا ملا ان کو ایسے مذاق بنانے میں ۔

در اصل اپریل فول ایک بھیڑ چال کی طرح کی رسم بنتی جارہی ہے۔ اس کی افادیت تو ہے ہی نہیں اور نہ لوگ اس کی احمقانہ حرکتوں کو رواج دینے کا نقصان زیرِغور لا تے ہیں ۔ یہ بُری رسم عیسائیوں میں کیونکر پیدا ہوئی ؟ مؤرخین کا اس بارہ میں اختلاف ہے مثلاً بعض کے نزدیک یہ رسم سولہویں صدی عیسوی میں رائج ہوئی اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس زمانہ میں سال کا پہلا مہینہ اپریل کا مہینہ ہوا کرتا تھا لیکن 1684ء میں شاہ فرانس چارلس نہم نے اپریل کی بجائے جنوری کو سال کا پہلا مہینہ قرار دیا اور اسی وجہ سے عیسائی لوگ نئے سال کے آغاز پر ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیا کرتے تھے اور تفر یحی مشاغل میں مصروف رہتے چونکہ سال میں ایک بار ہی کارڈ بھجوانے یا تحفہ دینےیا فون کرنے سے ہی سال کا آغاز ہوا کرتا تھااور اب تو باقاعدہ تبا ہی ہوتی ہے مہینوں پہلے پروگرام بنا کر کسی نہ کسی کو پریشان کیا جا تا ہے ۔ اپریل فول ڈے کی ایک اور وضاحت جوزف فاسٹن، جوبوسٹن Boston یو نیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہیں،نےکی ہے انہوں نے بتایا ہے کہ اس کا آغاز شہنشاہ روم کے زمانہ میں ہوا۔ اس کے دربار میں مسخروں کا ایک ٹولہ تھا جو لوگوں کی خوش طبعی کے لئے دربار میں موجود رہتا تھا تاکہ وہ کام اچھی طرح سےکر سکیں ۔

یہ واقعہ شہنشاہ کانسٹنٹائن Constantine کے زمانے کا ہے۔ ایک دفعہ اس نے اپنے ایک مسخرے کو جس کا نام گوگل تھا ایک دن کے لئے بادشاہ بنا دیا۔ گوگل نے اپنی بادشاہت کے دن حکم جاری کیا کہ اس دن سارے نامعقول حرکتیں کریں ۔ کیسا بیہوده بادشاہ ہوگا آپ تصوّر کر ہی سکتے ہیں جبھی تو بادشاہت بھی ایک ہی دن رہی۔ چنانچہ اس طرح سے یہ دن منانے کا رواج ہو گیا اور یہ دن منانے کی بنیاد پڑی ۔ عیسائیوں کے علاوہ دوسرے مختلف قبائل اور مذہب بھی اپریل میں خوش طبعی یا موسم بہار کی آمد پر

فصل کی کٹائی شروع کرنے پر ایسے تہوار منا کر اپنی خوشی اور رونق کے سامان کرتے ہیں جو کہ اپر یل ہی کے مہینے میں ہوتے ہیں ، مثلاً رومن لوگ اس ماہ میں ایک تہوار مناتے ہیں جسے Hilaria کہتے ہیں جو 25 مارچ کو ہوتا ہے جو کہ ہندو کیلنڈر کا آغاز ہوتا ہے۔ اسی طرح یہودی بھی سال میں کسی وقت اسی قسم کے تفریحی دن کو رواج دےکر آغاز کرتے ہیں ۔ چین کے لوگ اپنے سال شروع ہونے پر کچھ اورقسم کی رسم مناتے ہیں اکثر میں ناچ گانا اور رت جگے منانا ، شراب پینا اور پارٹیوں میں فضول باتیں، ہنسی مذاق جائز و ناجائز کر گزرنا ہوتا ہے مگر ہمارا مذہب اسلام ان باتو ں کونا پسند کرتا ہے۔ فرانس میں سکولوں میں بچے اپنے ہیڈ ماسٹر اور ٹیچر کے کپڑوں پر سیاہی پھینکتے یا رنگ کی چھاپ لگا دیتے ہیں مذاق ہی کرنا مقصود ہوتاہے۔دراصل وضاحت اس قدرمشکل ہے کہ بتایا ہی نہیں جا سکتا کہ یہ رسم کب سے شروع ہوئی ۔

مختلف آراء ہیں،خیالات ہیں، اندازے ہیں ۔کچھ لوگ اس کو اپریل فول ڈے کہنے کی بجائے ‘آل فولزڈے’ یعنی سب بیوقوفوں یا احمقوں کا دن کہتے ہیں ۔ اب کون ہے ہم میں سے جو یہ کہلاناپسندکرے گا ؟ مگر عیسائی لوگوں کے زیر اثر آنے کی وجہ سے بعض کمزور مسلمان بھی اس رسم میں بُرابر کے شریک ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنا منع ہے کسی بھی حدیث سےجھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حد یث تو یہ ہے اِنْ ُقُتِلْتَ وَأُحْرِقْتَ

یعنی سچ کو مت چھوڑ و خواہ تم قتل کئے جاؤ۔ اتنا سخت تاکیدی حکم سچ کے بارہ میں پڑھ کر یاسُن کر کون ہے جوایسا کر ےگا!

کذب کے بارہ میں ارشاد ہے کہ “اپریل فول” جو انفرادی صورت تو کجا صرف تفریح طبع کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان اس کے مطابق کذب وغیرہ سے کام لے تو اپنی نافرمانی کا خود ہی اندازہ کرسکتا ہے۔ “اپریل فول”کی نسبت بھی اس زمانہ کے حکم و عدل کے ذر یعہ فیصلہ کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نور القرآن حصہ دوئم صفحہ 221 پرتحریرفرماتے ہیں:

’’قرآن نے جھوٹوں پر لعنت کی ہے اور نیز فرمایا کہ جھوٹے شیطان کے مصاحب ہوتے ہیں اور جھوٹے بے ایمان ہوتے ہیں ۔ اور جھوٹوں پر شیطان نازل ہوتے ہیں اور صرف یہی نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ نہ بولو بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ تم جھوٹوں کی صحبت بھی چھوڑ دو اور ان کو اپنا یار دوست مت بناؤ اور خدا سے ڈرو اورسچوں کے ساتھ رہو۔‘‘

اور ایک جگہ فرمایا ہے کہ
’’جب تو کوئی کام کرے تو تیرا کلام محض صدق ہو ،ٹھٹھے کے طور پر بھی اس میں جھوٹ نہ ہو۔ اب بتاؤ یہ تعلیمات انجیل میں کہاں ہیں؟ اگر ایسی تعلیمات ہوتیں تو عیسائیوں میں اپریل فول کی گندی رسمیں اب تک کیوں جاری رہتیں ؟ دیکھواپریل فول کیسی بُری رسم ہے کہ ناحق جھوٹ بولنا اس میں تہذیب کی بات سمجھی جاتی ہے۔ یہ عیسائی تہذیب اور انجیلی تعلیم ہے۔‘‘

المختصر یہ کہ اس بُری رسم سے ہم سب کو اجتناب کرنا چاہئے اور اپنے بچوں کو بھی اس سے بچانے کے لئے اچھی طرح سے سمجھا دینا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور نیکی و تقوٰی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(زُجاجۃ ،صفحہ259 تا 265)

(امۃ الباسط ایاز۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

ضروری اعلان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اپریل 2020