• 26 اپریل, 2024

’’اے میرے قادر خدا! اے میرے پیارے راہنما! تو ہمیں وہ راہ دکھا جس سے تجھے پاتے ہیں‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

’’اے میرے قادر خدا! اے میرے پیارے راہنما! تو ہمیں وہ راہ دکھا جس سے تجھے پاتے ہیں‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
عمومی طور پر بعض غلط قسم کے رسم و رواج سے ہم بچے ہوئے ہیں لیکن …

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس ہر احمدی نوجوان کو خاص طور پر یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آج کل کی برائیوں کو میڈیا پر دیکھ کر اس کے جال میں نہ پھنس جائیں ورنہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ انہی بیہودگیوں کا اثر ہے کہ پھر بعض لوگ جو اس میں ملوث ہوتے ہیں تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں اور اس وجہ سے پھر بعضوں کو اخراج از جماعت کی تعزیر بھی کرنی پڑتی ہے۔ ہمیشہ یہ بات ذہن میں ہو کہ میرا ہر کام خداتعالیٰ کی رضا کے لئے ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا :بے حیائی ہر مرتکب کو بدنما بنا دیتی ہے اور شرم و حیا ہر حیادار کو حسن و سیرت بخشتا ہے اور اسے خوبصورت بنا دیتا ہے۔

(ترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی الفحش والتفحش ۔حدیث نمبر 1974)

پس یہ خوبصورتی ہے جو انسان کے اندر نیک اعمال کو بجا لانے اور اس کی تحریک سے پیدا ہوتی ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی شرم دل میں ہو جیسا کہ اس سے شرم کرنے کا حق ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں شرم بخشی ہے ۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا: یوں نہیں۔ بلکہ جو شخص شرم رکھتا ہے وہ اپنے سر اور اس میں سمائے ہوئے خیالات کی حفاظت کرے۔ (یہ شرم ہے کہ اپنے دماغ میں آنے والے خیالات کی حفاظت کرو)۔ پیٹ اور جو اس میں خوراک بھرتا ہے اس کی بھی حفاظت کرے ۔موت اور ابتلا کو یاد رکھنا چاہئے۔ جو شخص آخرت پر نظر رکھتا ہے وہ دنیوی زندگی کی زینت کے خیالات کو چھوڑ دیتا ہے۔ پس جس نے یہ طرز زندگی اختیار کیا اس نے واقعی خدا کی شرم رکھی۔

(ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع باب 89/24حدیث نمبر 2458)

آنحضرت ﷺکا یہ فرمان ہے۔

پس ذہن میں آنے والے ہر خیال کو اللہ تعالیٰ کی شرم لئے ہوئے آنا چاہئے۔ اگر کوئی بدخیال آتا بھی ہے تو اسے فوری طور پر جھٹکا جانا چاہئے۔ استغفار کے ذریعہ سے اس کو جھٹکنا چاہئے۔ جب خیالات پاکیزہ ہوں گے تو عمل بھی پاک ہوں گے۔ پھر لغویات ایسے انسانوں پر کوئی اثر نہیں ڈال سکیں گی۔اسی طرح انسان اپنی روزی کے بھی حلال ذرائع استعمال کرے۔ محنت کرے۔محنت سے کمائے۔ بجائے اس کے کہ دوسروں کے پیسے پر نظر رکھ کر چھیننے کی کوشش کرے یا غلط طریق سے پیسے کمائے۔ پاکستان وغیرہ میں رشوت وغیرہ بھی بڑی عام ہے یہ سب حلال کی کمائیاں نہیں ہیں۔ آپ نے یہی فرمایاکہ اپنے پیٹ اور اس میں جوخوراک بھرتا ہے اس کی بھی حفاظت کرے۔پس جائز کمائی سے اپنا بھی اور اپنے بیوی بچوں کا بھی پیٹ پالے اور ایسے ہی لوگ ہیں جو پھر اللہ اور اس کےرسول پرصحیح ایمان لانے والے ہوتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک د عا ہے۔ اللہ کو پانے کے لئے یہ دعا لکھی ہوئی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ:
’’اے میرے قادر خدا! اے میرے پیارے راہنما! تو ہمیں وہ راہ دکھا جس سے تجھے پاتے ہیں اہل صدق و صفا اور ہمیں ان راہوں سے بچا جن کا مدعا صرف شہوات ہیں یا کینہ یا بغض یا دنیا کی حرص و ہوا‘‘۔

(پیغام صلح۔ روحانی خزائن جلد23 صفحہ439 مطبوعہ ربوہ)

پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے عہد کو نبھاتے ہوئے، اپنی بیعت کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے حقیقی ایمان لانے والوں میں شامل ہوں۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جنہوں نے ہمیں صحیح راستہ دکھایا ۔ہمیں اچھے اور برے کی تمیز سکھائی۔ اگر اس کے بعد پھر ہم دنیاداری میں پڑ کر رسم و رواج یا لغویات کے طوق اپنی گردنوں میں ڈالے رہیں گے تو ہم نہ عبادتوں کا حق ادا کر سکتے ہیں نہ نور سے حصہ لے سکتے ہیں۔

قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہ فرمایا کہ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ (الاعراف:158) کہ جو اس پر ایمان لانے والے ہیں وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور انہیں بُری باتوں سے روکتا ہے اور ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے اور ان پر ناپاک چیزیں حرام قرار دیتا ہے اور ان سے ان کے بوجھ اور طوق اتار دیتا ہے۔

گردنوں میں جو پھندے پڑے ہوئے ہیں وہ اتار دیتا ہے ۔جو پھندے پہلی قوموں میں پڑے ہوئے تھے، پہلی نسلوں میں پڑے ہوئے تھے، اپنے دین کو بھول کر رسم و رواج میں پڑ کر یہودیوں اور عیسائیوں نے گلوں میں جو پھندے ڈالے ہوئے تھے اب وہی باتیں بعض مسلمانوں میں پیدا ہو رہی ہیں۔ اگر ہم میں بھی پیدا ہو گئیں تو پھر ہم یہ کس طرح دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم اس وقت آنحضرت ﷺ کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ پس یہ طوق ہمیں اتارنے ہوں گے۔

پس اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ ہم اس نبی پر بھی ایمان لائے ہیں جس نے ہمارے لئے حلال و حرام کا فرق بتا کر دین کے بارہ میں غلط نظریات کے طوق ہماری گردنوں سے اتارے ۔لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ باوجود ان واضح ہدایات کے پھر بھی بعض طوق اپنی گردنوں پر ڈال لئے ہیں۔

لیکن ہم احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہد بیعت کے بعد اس حقیقت کو دوبارہ سمجھے ہیں کہ یہ طوق اپنی گردنوں سے کس طرح اتارنے ہیں۔ اللہ کا احسان ہے کہ قبروں پر سجدے سے ہم بچے ہوئے ہیں ۔ پیر پرستی سے عموماً بچے ہوئے ہیں۔ بعض جگہ اِکّا دُکّا شکایات آتی بھی ہیں۔ عمومی طور پر بعض غلط قسم کے رسم و رواج سے ہم بچے ہوئے ہیں لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا بعض چیزیں راہ پا رہی ہیں۔ اگر ہم بے احتیاطیوں میں بڑھتے رہے تو یہ طوق پھر ہمارے گلوں میں پڑ جائیں گے جوآنحضرت ﷺ نے ہمارے گلوں سے اتارے ہیں اور جن کو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اتار نے کی پھر نصیحت فرمائی ہے۔اور پھر ہم دین سے دور ہٹتے چلے جائیں گے۔ اب ظاہر ہے جب ایسی صورت ہو گی تو پھر جماعت سے بھی باہر ہو جائیں گے۔ کیونکہ جماعت سے تو وہی جڑ کر رہ سکتے ہیں جو نو ر سے حصہ لینے والے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول اور کتاب سے حصہ لے رہے ہیں۔ جو اللہ اور رسول اور اس کی کتاب سے حصہ نہیں لے رہے وہ نور سے بھی حصہ نہیں لے رہے۔ جو نور سے حصہ لینے کی کوشش نہیں کر رہے وہ ایمان سے بھی دور جا رہے ہیں۔ تو یہ تو ایک چکر ہے جو چلتا چلا جاتا ہے۔ پس ہر وقت اپنی حالتوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آنحضرت ﷺ جو خود بھی نور تھے اور آسمان سے کامل نور آپؐ پر اترا تھا یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ میرے دل اور میرے دیگر اعضاء میں نور رکھ دے۔

(بخاری کتاب ا لدعوات باب الدعا ء اذانتبہ من اللیل حدیث نمبر6316)

یہ دعا اصل میں تو ہمیں سکھائی گئی ہے کہ ہر وقت اپنی سوچوں اور اپنے اعضاء کو، اپنے خیالات کو، اپنے دماغوں کو، اپنے جسم کے ہر حصہ کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق استعمال میں لانے کی کوشش کرو اور اس کے لئے دعا کرو کہ ذہن بھی پاکیزہ خیال رکھنے والے ہوں اور عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنے والے ہوں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والے ہوں۔ اللہ اور اس کے رسول کے قول پر عمل کرنے والے ہوں ۔رسم و رواج سے بچنے والے ہوں۔ دنیاوی ہو او ہوس اور ظلموں سے دور رہنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نور سے ہم ہمیشہ حصّہ پاتے چلے جائیں۔ کبھی ہماری کوئی بدبختی ہمیں اس نور سے محروم نہ کرے۔

(خطبہ جمعہ 15؍ جنوری 2010ء)

(الفضل انٹرنیشنل جلد17 شمارہ6 مورخہ 5 فروری تا 11فروری 2010 صفحہ5تا8)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اپریل 2021