• 26 اپریل, 2024

تعارف سورۃ الواقعۃ (56 ویں سورۃ)

(تعارف سورۃ الواقعۃ (56 ویں سورۃ))
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی97آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورۃ، سورۃ ق سے شروع ہونے والے گروپ کی ساتویں اور آخری سورۃ ہے۔ یہ ساتوں سورتیں آنحضرتﷺ کی نبوت کے ابتدائی زمانہ میں، مکہ میں نازل ہوئیں۔ اس لئے فطرتی طور پر یہ اپنی وضع اور ساخت میں مشابہت رکھتی ہیں مگر جو خاص مشابہت موجودہ سورۃ (الواقعۃ) اور اس سے پہلی سورۃ (الرحمٰن) میں ہے وہ کسی بھی دوسری سورت میں نہیں پائی جاتی۔ سورۃ الرحمٰن میں مذکور مضمون کی تکمیل موجودہ سورۃ میں ہوئی ہے یوں سورۃ الرحمٰن کے بعد اس سورۃ کا رکھا جانا بہترین ترتیب کی مثال ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ الرحمٰن میں لوگوں کے تین گروہوں کا ذکر ہوا ہے؛

(الف) وہ خاص عباد الرحمٰن جو خدا سے قربت رکھتے ہیں۔

(ب) بالعموم مؤمنین کی جماعت جو خدائی رضا کی متحمل ہے۔

(ج) خدا کے رسولوں کا انکار کرنے والے (جن کا مختصر ذکر کیا گیا تھا)۔

موجودہ سورۃ میں مؤخر الذکر گروہ کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ اس سورۃ کے اہم ترین مضامین میں قیامت، وحی و الہام اور بت پرستی سے بیزاری شامل ہیں۔ ان سب مضامین کا ابتدائی مکی دور میں نازل ہونا جبکہ اولین مخاطب بت پرست قریش تھے، نہایت بر محل بیان ہے جبکہ قریش کے لوگ قیامت اور وحی و الہام پر یقین نہ رکھتے تھے۔ ان ساتوں سورتوں میں اسلام کے شاندار مستقبل کی پیشگوئیاں بھی مذکور ہیں اور ساتھ ساتھ قیامت کے یقینی ہونے کا بیان ہے۔ یوں اسلام کی ترقی کے متعلق پیشگوئیوں کی تکمیل کو قیامت کے برپا ہونے کے لئے بطور دلیل کے پیش کیا گیا ہے۔

مضامین کا خلاصہ

اس سورۃ کا آغاز ایک عظیم اور ناقابلِ تردید واقع کے پُرتحدی بیان سے ہوا ہے، جس کا بیان سابقہ سورۃ میں ہوا ہے کہ یہ واقع ضرور وقوع پذیر ہوگا اور جب رونما ہوگا تو زمین اپنی گہرائیوں سے ہلا دی جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ یوں پرانی دنیا کے باقیات سے نئی دنیا ابھرے گی۔یوں اس عظیم الشان واقع کے رونما ہونے کے وقت لوگوں کے تین گروہ ہوں گے؛

(الف) وہ خوش قسمت لوگ جو خدا کی قربت سے فیضیاب ہوں گے۔

(ب) ایسےسچے اور مخلص مومنین جو اپنے نیک اعمال کے باعث خدا سے انعام و اکرام حاصل کریں گے۔

(ج) وہ بد قسمت کفار جو اپنے بد اعمال کے باعث موردِ عذاب الٰہی ہوں گے۔

بعد ازاں اس سورۃ میں پہلے دو گروپوں کے مومنین کو ملنے والے الٰہی انعامات اور افضال کی تفصیل بیان کی گئی ہےاور اس کے بعد الٰہی پیغام کا انکار کرنے والوں کو ملنے والے عذاب کا ذکر کیا گیاہے۔ پھر اس سورۃ میں انسان کی تخلیق اور نطفہ کے قطرہ سے ایک کامل انسانی بچہ کی پیدائش کا ذکر ہےجس کی تفصیل کے بیان کا مقصد انسان کی حیات بعد الموت کا ثبوت فراہم کرنا ہے۔

اپنے اختتام پر یہ سورۃ اپنے ابتدائی مضمون کی طرف عود کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ وہ عظیم الشان انقلاب جس کا ذکر اس سورۃ کی ابتداء میں کیا گیاہے وہ قرآن کریم کے ذریعہ سے برپا ہوگا جو یقینی طور پر خدا کا کلام ہے اور جس کی حفاظت ایک قیمتی خزانہ کی طرح کی گئی ہے۔ اس سورۃ کا اختتام اس خوبصورت وعظ پر ہوا ہے کہ جب ہر طرح کی زندگی کا یقینی اختتام موت ہے جس سے کوئی فرار نہیں ہے تو پھر لوگ کیونکر اس حقیقت سے لا پرواہ ہیں اور خدا کو بھول بیٹھے ہیں؟

(ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اپریل 2021