رَضِیْنَا بِاللّٰہِ رَبًّا وَ بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا
تبرکات حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کو خبر پہنچی کہ منافق لوگ آپؐ سے سوال کر کے امتحان لینا چاہتے ہیں۔ آپ ظہر کی نماز کے بعد منبر پر تشریف لائے اور قیامت کا ذکر شروع فرمایا کہ اس میں بڑی بڑی باتیں ہوں گی۔ پھر فرمایا جس کو کوئی سوال کرنا ہو پوچھ لے۔ میں اسی وقت جواب دوں گا۔ اور آپ بار بار فرماتے تھے۔ تو عبداللہ بن حذیفہ سہمی کھڑا ہوا اور اس نے آپؐ سے سوال کیا۔ مَنْ اَبِیْ میرا باپ کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا اَبُوْکَ حُذَیفہ۔ تیرا باپ حذیفہ ہے۔ آپؐ بار بار فرماتے تھے کہ جس نے کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ لے (آپ کا اشارہ منافقوں کی طرف تھا) جاں نثار صحابہؓ نے جب چہرہ اقدس پر غصہ اور ناراضگی کے آثار دیکھے تو رونے لگ پڑے۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ دو زانو ہو کر بیٹھ گئے اور کہا۔ رَضِیْنَا بِاللّٰہِ رَبًّا وَ بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا۔ ہم خدا سے راضی ہوئے۔ ہم نے اس پر اطمینان کیا بوجہ اُس کے رب ہونے کے۔ اسی طرح ہم اسلام جیسے مکمل و اکمل دین کو قبول کر کے راضی ہیں اور ہم راضی ہیں محمد (ﷺ) جیسے نبی کو مان کر۔ حضرت عمرؓ کی اس عرض کے بعد آنحضرت ﷺ خاموش ہو گئے۔ حضرت عمرؓ کا رَضِیْنَا بِاللّٰہِ رَبًّا کہنا حق و صداقت سے مملو کلمہ ہے۔ یعنی ہم مطمئن ہیں اپنے خدا کی ذات پر اس کے بوجہ رب ہونے کے۔ کیونکہ وہی ایک ذات والا صفات ہے جو ہماری تمام ضروریات کو پورا کر رہی ہے۔ انسان اگرچہ خاک کا پُتلا ہے لیکن وہ پسند نہیں کرتا کہ مٹی اپنے منہ کو لگنے دے۔ لیکن خداتعالیٰ نے انسان کی ربوبیت کے لئے اس مٹی میں سے ہزاروں مختلف انواع و اقسام کے پھل پھول پیدا کئے۔ یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ نباتات ایک ہی زمین اور ایک ہی مٹی سے پیدا ہوتے ہیں۔ ایک ہی پانی ہے جس سے وہ سینچے جاتے ہیں۔ ایک ہی ہوا ہے جس میں وہ سانس لیتے ہیں۔ مگر کتنے رنگ برنگ کے پھل پھول، میوے، درخت اُگتے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک کا رنگ علیحدہ علیحدہ، مزا جدا جدا اور پتے الگ الگ ہوتے ہیں۔ کیا یہ امر خدا کی شان کو رب الارباب ظاہر نہیں کرتا۔ پھر انسان اپنے بدن پر غور کرے۔ اگر اسے کان دیئے تو ان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے صدہا اقسام کی آوازیں پیدا کیں۔ آنکھیں عطا فرمائیں تو ان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے روشنی پیدا کی۔ معدہ دیا تو اس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہزاروں قسموں کے کھانے پیدا کئے۔ اسی لئے فرمانِ خدا ہے کہ آتَاکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا (ابراھیم:35)۔ اے انسانو! ہم نے تمہیں وہ کچھ عنایت فرمایا جس کی تمہیں ضرورت محسوس ہوئی اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم خدا کے انعاموں کو گن نہ سکو گے۔
دہریہ جو خدا کی ہستی کا منکر ہے اس سے ہمیشہ یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ اگر تمہارے قول کے مطابق یہ دنیا خودبخود مادے سے بنی ہے اور یہ کارخانہ اتفاقی ہے تو یہ آپس میں تلازم کا سلسلہ کیوں قائم و دائم ہے۔ چاہئے تھا کہ کہیں نہ کہیں یہ سلسلہ متلازم ٹوٹ جاتا۔ خدا نے بینائی عطا فرمائی تو ساتھ ہی روشنی بھی پیدا کی۔ جس کی وجہ سے ہماری آنکھیں عجائباتِ قدرت دیکھتی ہیں۔ اگر شنوائی عطا فرمائی تو اس کی ضرورت کو آوازوں کے ساتھ پورا کیا۔ زبان کے ذائقہ کے تقاضے کو پورا کیا۔ پھر انسان کی طبعی خواہش ہوتی ہے کہ میرے بعد میری یادگار باقی رہے۔ تو توالد و تناسل کا سلسلہ جاری کر دیا۔ غرضکہ اگر یہ کارخانہ اتفاقی ہے تو یہ تلازم کہاں سے آ گیا جس میں کبھی بھی سرمُو فرق نہیں ہوتا۔ ربوبیت کے معنے عدم سے وجود میں لانے کے ہیں۔ ہم عدم میں تھے۔ ہمیں وجود میں لا کر پھر مناسب حال ضروریات پوری کرنا۔ ربوبیت کی اعلیٰ ترین مثال یہ ہے کہ ایک نوزائیدہ بچے کو دودھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر وہ کسی اور چیز پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کے لئے دنیا میں قدم رکھتے ہی دو کٹورے دودھ کے لبالب بھرے ہوئے اس کے سامنے آ جاتے ہیں۔ جو دہریہ کہتا ہے کہ یہ کارخانہ خودبخود اور اتفاقی ہے۔ اس سے ہم سوال کرتے ہیں کہ اگر یہ کارخانہ خودبخود ہے تو یہ تلازم کہاں سے آیا۔ کہیں نہ کہیں تو سلسلہ تلازم کو ٹوٹنا چاہئے تھا۔ پس اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ کارخانہ خودبخود مادے سے نہیں بنا بلکہ اس کا صانع وہی ہے جس کے متعلق حضرت عمر نے کہا رَضِیْنَا بِاللّٰہِ رَبًّا۔
دوسرا کلمہ حضرت عمرؓ نے یہ کہا۔ رَضِیْنَا بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا۔ ہم راضی ہیں اسلام جیسے دین کو پا کر۔ دنیا کا کوئی مذہب یا ضابطہ ایسا نہیں جو اسلام جیسا مکمل ہو۔ ان تمام مذاہب میں کچھ نہ کچھ خامیاں ضرور ہیں لیکن دین اسلام ایک مکمل قانون اور ضابطہ ہے۔ اسی لئے بعض اوقات مذاہب غیر والوں کو اس بات کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش ہم مسلمان ہوتے۔ رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ (الحجر:3)۔ پس ہمیں دنیا کے کسی اور مذہب سے دل لگانے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ رَضِیْنَا بِالْاِسْلامِ دِیْنًا۔ ہم خوش اور مطمئن ہیں اسلام جیسے دین کے پیرو ہو کر۔
پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا۔ رَضِیْنَا بِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا۔ حضرت عمرؓ کا یہ قول کس قدر سچا اور حقائق پر مبنی ہے۔ یعنی ہمیں بلاوجہ سوالات کر کے آپ کا امتحان لینا مقصود نہیں جبکہ ہم نے آپ کو کامل و اکمل نبی تسلیم کیا ہے اور آپ کی ذات مبارک میں ہمارے لئے کامل نمونہ ہے۔ دنیا کے اطوار میں سے کوئی طور ایسا نہیں جس پر آپ نے عمل نہ کیا ہو۔ اسی لئے آپ نے اپنے بعد تاقیامت امت محمدیہ کے لئے اسوۂ حسنہ قائم کیا۔ خدا نے بھی بایں الفاظ وحی مبارک فرمایا۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:22)۔حضرت موسٰی علیہ السلام کی طرف ہم اپنے آپ کو کس بل بوتے پر منسوب کر سکتے ہیں۔ جبکہ وہ ہمیں یہودا کی اولاد میں سے نہ پائیں گے۔ توریت کا رُوئے سخن صرف ’’اے اسرائیل‘‘ اے اسرائیل تک محدود ہے۔ ہم کرشن کی طرف کیسے منسوب ہو سکتے ہیں جبکہ ہندو شودروں کو اپنے میں سے الگ سمجھتے ہیں۔ لیکن داعیٔ اسلام ﷺ کو حکم ہوتا ہے۔ قُلْ اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْل اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا۔ اے پیغمبر! کہدو کہ میں بلا استثنیٰ تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں اور آپ سب کے لئے نمونہ ہیں۔ ایک غریب آدمی کہہ سکتا ہے کہ میں نے سلیمان کی شکوہ و حشمت تو دیکھی لیکن اس کی غربت نہیں دیکھی۔ میں اس کو کیسے نمونہ بناؤں۔ اس غریب کے لئے آنحضرت ﷺ کی غربت نمونہ ہو سکتی ہے۔ آپ ایک زمانہ میں غریب بھی رہے وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَاَغْنٰی (الضحٰی:9)۔ پھر ایک بادشاہ کے لئے حضرت مسیح نمونہ نہیں ہو سکتے۔ لیکن آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ اس کو پکار کر کہے گا کہ آ اور میری پیروی کر۔ کیونکہ آپ کو مدنی زندگی میں بادشاہت بھی ملی۔ امریکہ کا کروڑ پتی ہنری فورڈ کیا حضرت مسیح کے متعلق کہہ سکتا ہے رَضِینا بیسوع نبیا۔ تب تو ہنری فورڈ کو اپنی تمام دولت کو خیرباد کہنا ہو گا۔ پھر ایک یتیم کے لئے کون نمونہ ہو سکتا ہے۔ ایک مجرد؟ اور ایک اہل و عیال والے کے لئے کون نمونہ بن سکتا ہے اور اولاد کے ساتھ سلوک کرنے میں کون نمونہ ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام سوالات کا صرف ایک ہی جواب صحیح ہے یعنی سرورِ کائنات ﷺ کا وجود باجود۔ اور حضورؐ کی حیاتِ طیبہ کا ایک ایک لمحہ اس پر شاہد ناطق ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ بَارک وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد۔
(ادارہ)