• 26 اپریل, 2024

ایمیزون کا جنگل

ایمیزون کا جنگل
جوحقیقت میں پراسراریت کا معمہ ہے

ایمزون جنگل کے نام سے آج سبھی واقف ہیں ۔ اس کے بارے میں لوگ کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے ہیں ۔کبھی سرسری طور پر اور کبھی دلچسپی کے ساتھ ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اندر چھپی سنسنی خیزی سے بھرپور خبریں آئے دن منظر عام پر آتی رہتی ہیں لیکن اس کے باوجود ایمیزون جنگل کی پراسراریت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آج بھی یہ جنگل روئے زمین کا سب سے خوفناک جنگل ہونے کا درجہ رکھتا ہے جس کے اندر راز اور اسرار چھپے ہوئے ہیں ۔ ایمزون کے جنگل کو اگر قدرتی عجوبہ قرار دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا ۔ کیڑے مکوڑوں، پرندوں، چرندوں، جانوروں کی ایسی ہزاروں مخلوق موجود ہیں جن کو ابھی تک کوئی نام نہیں دیا جاسکا۔ ایمیزون کے جنگل میں آج بھی وحشی اور انسان خور قبائل موجود ہیں جو انسانوں کو کھاتے ہیں ۔ جنگل میں موجود ان قبائل کی تعداد400 بتائی جاتی ہے جن کی کل آبادی چالیس لاکھ سے زائد ہے۔ جب سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہو تو تب بھی ایمیزون کے جنگل کا بڑا حصہ اس قدر تاریکی میں ڈوبا ہوتا ہے کہ ٹارچ کے ساتھ آپ کو زمین دیکھنی پڑتی ہے۔ جنگل کے کچھ حصے اس قدر گھنے ہوتے ہیں کہ اگر ایک انسان جنگل کے ایک حصہ میں کھڑا ہو اور بارش شروع ہوجائے تو اس تک بارش کے قطرے دس سے پندرہ منٹ تک پہنچیں گے، ایمیزون کے جنگل بارے بہت کچھ جاننے کی کوششیں جاری ہیں اور بہت کچھ جانا بھی جاچکا ہے لیکن کل جنگل کے دس فیصد حصہ تک ہی رسائی ممکن ہوسکی ہے۔ ایمیزون جنگل کے بارے میں سائنس اور دیگر ذرائع کی تحقیق کے بعد جو اعدادو شمار اور حقائق منظر عام پر آئے ہیں اس سے اس جنگل کے خوفناک ہونے پر کسی قسم کا کوئی شبہ باقی نہیں رہتا ۔ اس علاقے کو ایمزونیا بھی کہا جاتا ہے۔

ایمیزون جنگل شمالی اور جنوبی امریکہ کے علاقوں کی طرف کا ایک غیرمعمولی بڑا جنگلاتی علاقہ ہے جو دریائے ایمیزون کو بھی عبور کرتا ہے اور کہیں اس کے ساتھ ساتھ سینکڑوں میل تک آباد ہے۔ایمیزون دریا پانی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے جس کی کل لمبائی7 ہزار کلو میٹر ہے اور اس کی عمر کا تخمینہ 11 ملین سال تک کا لگایا گیا ہے اور اس کی ابتداء جنوبی امریکہ کے 12 لاکھ سال پرانے پہاڑوں سے ہوتی ہے جو پھر نہ جانے کہاں کہاں سے گزرتا ہوا کہیں سے کہیں پہنچتا ہے۔ تاریخ میں اس دریا کے اندر عجیب و غریب جانوروں اور مچھلیوں کی خبریں موجود ہیں جن کی شناخت ابھی تک ممکن نہیں ہوسکی۔ ایک گلابی ڈالفن کے بارے میں سائنس دانوں نے کہا تھا کہ یہ ایک نایاب ڈالفن ہے جو ایمیزون دریا کے گہرے پانی میں رہتی ہے۔ ایمیزون کا جنگل دنیا کے9 ممالک کی حدود میں واقع ہے۔ گویا اس جنگل کی حدود میں 9 ممالک آتے ہیں۔ ان ممالک میں برازیل، فرانسیسی گیانا، ایکواڈور، گیانا، کولمبیا، ونزویلا، بولیویا، پیرو اور سرینام کے کچھ حصے شامل ہیں۔ ایمزون جنگل کا بہت بڑا حصہ برازیل میں واقع ہے جو پچاس فیصد سے زائد ہے۔ وسطیٰ ایمیزون میں درجہ حرارت 30ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے جبکہ ایمیزون کے مغربی حصہ میں درجہ حرارت 25ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق ایمیزون جنگل کا رقبہ2,510,000 مربع میل ہے جو کہ آسٹریلیا کے رقبہ کے تقریبا ًبرابر ہے۔ دنیا کی زندہ حیات کا نصف اسی جنگل میں پایا جاتا ہے ۔ ایمیزون جنگل کے بارے میں مہم جوؤں اور دیگر ماہر حیاتیات کی کچھ مستند لیکن انتہائی حیرت انگیز حقائق مختلف تحقیقی رپورٹوں کی روشنی میں سامنے آئے ہیں جو پڑھنے کے لائق ہیں۔ ان کے مطابق ایمزون ایک یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ’’لڑاکو عورت‘‘ ہے۔ یہ جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے۔ زمین کی20 فیصد آکسیجن اسی جنگل کے درخت اور پودے پیدا کرتے ہیں۔ دنیا کے چالیس فیصد جانور، پرند، چرند، حشرات العرض ایمزون میں پائے جاتے ہیں۔ کیڑے مکوڑوں کی25 لاکھ سے زائد اقسام، پرندوں کی1500 اور دریا، ندیوں میں مچھلیوں کی دو ہزار سے زائد اقسام یہاں پائی جاتی ہیں۔ ایسے زہریلے حشرات العرض یہاں پائے جاتے ہیں کہ کاٹ لینے کی صورت میں چند منٹوں میں انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ایمیزون جنگل کی سب سے خوفناک بات وہاں کی جانورخور مکڑیاں ہیں جو اتنی بڑی اور طاقتور ہوتی ہیں کہ پرندوں کو موقع ملتے ہی دبوچ کر ہلاک کردیتی ہیں۔ جانوروں کو سورج کی دھوپ لینے کے لئے اونچے اونچے درختوں پر چڑھنا پڑھتا ہے۔ بندر خاص طور پر ایسا کرتے ہیں۔ وہاں 9 میٹر سے زائد لمبے سانپ تو عام پائے جاتے ہیں جو اپنی ہیبت اور شکل سے ہی جان لیوا دکھائی دیتے ہیں۔ 1922ء میں وکٹر ہائنٹس نامی پادری جب دریا ایمیزون کی طرف گیا تو اس نے دریا میں تیرتے ایسے سانپ کو دیکھا جس کی آنکھیں اتنی بڑی تھیں کہ بوٹ کی روشینیوں کی مانند لگتی تھیں۔

ایمیزون کے جنگلات میں درجنوں مہم جو گئے لیکن واپس نہیں لوٹے اور آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ آیا وہ درندوں کے ہاتھ لگے یا انسان خور وحشی قبائلیوں کی خوراک بن گئے۔ 2009ء میں سی این این کی ایک خبر نے سنسنی پھیلا دی جس کے مطابق برازیل کے ایک قبیلہ ’’کولینا‘‘ نے ایک انیس سالہ نوجوان کو اغوا کیا اور اس کے ٹکڑے کرکے اس کا کھا لیاگیا۔ وہ قبیلہ پیرو کی سرحد کے قریب رہتاتھا ۔ مقامی پولیس لڑکے کے اہل خانہ کے ساتھ اندر ان تک پہنچی تو وہاں اس کی کھوپڑی کو لٹکا دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہوگئے اور الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس کو ایسے قبائل تک پہنچنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسی طرح برازیل کا قانون بھی پولیس کو ایسے قبائلیوں تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ پیرو ملک کے ایمیزون جنگل کے ایک علاقہ میں ایک دریا بہتا ہے جو اتنا گرم ہے کہ اندر گرنے والا منٹوں ہی میں پانی میں گھل جاتا ہے۔ ابلتے پانی کی بھاپ ہمیشہ دریا کے کناروں پر بہتی رہتی ہے۔ مقامی لوگ اس کو روحانی پانی مانتے ہوئے اس کے ارد گرد مختلف عبادتیں کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ایمیزون کے جنگل میں اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں جو جدید زندگی سے خود کو دور رکھتے ہیں اور ماضی کی طرح اپنے آباؤ اجداد کی طرح رہنا پسند کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ جنگل سے باہر کے لوگوں سے رابطہ کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ایسے قبائل کی بڑی تعداد ایمیزون جنگل کے وسط میں رہتی ہے۔ سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق ایسے الگ تھلگ رہنے والے قبائل کی تعداد 50 ہے۔ ایمیزون جنگل میں 180 کے قریب مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جون اور اگست کے مہینوں میں ایمیزون جنگل کے کچھ قبائل کوارپ نامی جشن مناتے ہیں۔ اس موقع پر ہر قبیلہ اپنے رواج کے مطابق رقص، کھانا اور رسومات پیش کرتا ہے۔ اجنبی صرف قبائل کے راہنماؤں کی اجازت سے ہی ان کو دیکھ سکتے ہیں ۔ ان قبائل کے آس پاس بڑی تعداد میں ایسے قبائل بھی آباد ہیں جن کا جدید دنیا سے رابطے ہیں ۔

ایمیزون کے جنگل میں انسانی فلاح اور صحت کے ایسے ایسے خزانے موجود ہیں جن کو ابھی تک دریافت نہیں کیا جاسکا اور یہ خزانہ پودوں ، جڑی بوٹیوں اور دیگر نایاب نباتات کی شکل میں موجود ہے۔ یہ درخت اور پودے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ہوا میں سے صاف کرتے ہیں۔ جہاں تک رسائی ممکن ہوئی ہے وہاں جڑی بوٹیوں، نباتات اور پودوں سے انسانی بیماریوں کے علاج اور مختلف تحقیقوں میں زبردست کام لیا جا رہا ہے اور بہت سی کارآمد دوائیں انہی پودوں، جڑی بوٹیوں کی بدولت تیار ہوئیں ہیں ان میں درد کی انتہائی معروف و مقبول گولی اسپرین قابل ذکرہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایمیزون کے گھنے ترین جنگلات میں درختوں اور پودوں کی40 ہزار اقسام موجود ہیں ۔ اس لحاظ سے دیکھا اور سوچا جائے تو ایمیزون کا جنگل ایک قدرتی خزانہ کی طرح بھی ہے جو مستقبل میں انسانی فلاح میں انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے ۔

انسانی ہاتھوں کے قدیم عجائبات کی طرح اس قدرتی عجوبہ نے بھی دنیا بھر کے سائنس دانوں اور ماہر حیاتیات اور آثار قدیمہ کو تحقیق میں مصروف کر رکھا ہے، ایمیزون کے گھنے جنگلوں میں بڑے بڑے سائز کے گول پتھروں کو وہاں دیکھا گیا ہے، وہ قدرتی طور پر گول نہیں ہیں بلکہ ان کو بنایا گیا ہے، خبروں اور عالمی جریدوں میں شائع ہونے والے مضامین کے مطابق آثار قدیمہ کے ماہرین ابھی تک یہ نہیں جان سکے کہ یہ بڑے گول پتھر کیوں اور کیسے بنائے گئے تھے، ان کا قطر2.5 میٹر ہے، مختلف مضامین میں ان کو ’’جنگل کی گیندیں‘‘ کہا گیا ہے اور ان کی تعمیر ابھی تک سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے۔ اسی طرح کا ایک حیرت کا جھٹکا سائنس دانوں اور آثار قدیمہ کو 2012 میں اس وقت لگا تھا جب ایکواڈور کے ایمیزون کے جبگلوں میں سے ایک ’’گمشدہ شہر‘‘ دیارفت ہوا تھا جس کو بعد میں ’’جنات کا شہر‘‘ کا نام دیا گیا تھا، کیونکہ وہاں موجود ہر چیز انسانی ہاتھوں کی بنی تھی لیکن کیسے بنی تھی، اس پر انسانی عقل دنگ رہ گئی تھی کیونکہ وہاں ہر چیز بڑے پیمانہ کی تیار کردہ تھی ،وہاں ایک بہت بڑا اہرام بھی موجود تھا جس کی اونچائی78 میٹر تھی، اس شہر کی تعمیر میں جتنے بڑے سائز کے پتھر استعمال ہوئے تھے اس نے بھی سائنس دانوں کو درجہ حیرت میں ڈالا ہوا ہے، اس سائٹ کے مطالعے اور تحقیق سے انکشاف ہوا کہ ان بھاری بھرکم پتھروں کو کہیں بہت دور سے لایا گیا تھا جو خاص قسم کی ٹیکنالوجی کے ذریعہ ہی ممکن تھا اور عام انسانوں کا ان بھاری پتھروں سے اس شہر کو بسانا ممکن ہی نہیں لگتا ، ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا تھا کہ جن انسانوں نے اس شہر کی تعمیر کی ہے ان کے قد 8 میٹر کے لگ بھگ تھے، یہی وجہ ہے کہ اس شہر کو جنات کا شہر کہا گیا تھا۔ ایمیزون کے اندر کیا کچھ ہے اس بارے بہت کچھ ابھی تک پردے میں ہے ۔

ایمیزون کے جنگل بلاشبہ دور حاضر کا سب سے بڑا جنگل ہے جو ہزاروں لاکھوں نباتات، حیوانات، چرند اور پرندوں کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ انسانوں کو آکسیجن فراہم کرنے اور طبی میدان میں ادویات کی تیاری میں نایاب پودے، درخت اور جڑی بوٹیاں فراہم کرنے میں ایک ’’انسان محسن‘‘ کا کردار ادا کر رہا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ وہاں لگنے والی مسلسل آگ اور غیر قانونی طریقوں سے درختوں کی کٹائی، جنگل کی صفائی سے اس عظیم الشان جنگل کو شدید خطرات بھی لاحق ہیں اور اس کے جنگل والے رقبے میں تیزی سے کمی آ رہی ہے جو پوری دنیا کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔

(منور علی شاہد(جرمنی))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اپریل 2021