اشکوں سے جھلملاتی دعا عرش تک گئی
کرنی نہ آئی ہم کو دیا ایسی بندگی
کل رات آسمان پہ تھا جشنِ ماہتاب
آئی تھی مجھ کو لینے ستاروں کی پالکی
سانسوں نے ساتھ چھوڑا تھا محفل میں بار بار
ہم سر جھکا کے بیٹھے رہے آہ تک نہ کی
جب عمر گھٹی، آیا سمجھ چاند کا بھی دکھ
ہائے یہ مری سادگی، ہائے یہ سادگی
دن میں تو کئی بار یہ کہتا ہے آئینہ
او بد نصیب! تجھ کو ہے کس چیز کی کمی
رخصت ہوا تو آنکھ سے موتی بکھر گئے
اے چارہ گر! فراق میں چنتی رہی وہی
(دیا جیم۔ فیجی)