• 17 جولائی, 2025

ایک قبیح رسم۔ اپریل فول

فی زمانہ باقی دنیا میں بھی اور دنیائے اسلام میں بھی بہت سی جہالتوں، روایتوں، رضالتوں، رواجوں نے ذہن انسانی پر قبضہ جما لیا ہے۔ ان رسوم میں سے ایک ہلاکت خیز رسم اپریل فول (April Fool) بھی ہے۔ وہ لوگ جو اس رسم کے رسیا ہیں وہ جھوٹ بول کر، بے بنیاد خبریں بنا کر، مختلف انداز سے دھوکہ دے کر اپنے ہی بھائی بندوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اور زیادہ افسوس والی بات یہ ہے کہ پھر اس پر خوشی منائی جاتی ہے۔

نور اللغات میں مولوی نور الحسن نیر صاحب تحریر کرتے ہیں:۔
’’انگریزوں میں دستور ہے کہ اپریل کی پہلی تاریخ دوستوں کے نام مذاقاً بیرنگ خط خالی لفافہ میں یا اور ولگی چیزیں لفافے میں رکھ کر بھیجتے ہیں اخباروں میں خلاف قیاس خبریں چھا پی جاتی ہیں۔ جو لوگ ایسے خطوط لیتے ہیں یا اس قسم کی خبر کو معتبر سمجھ لیتے ہیں وہ اپریل فول قرار پاتے ہیں۔‘‘

اردو لغت جلد نمبر1 ترقی اردو بورڈ کراچی میں لکھا ہے:۔
’’اپریل کی پہلی تاریخ کو خوش طبعی کے لئے بیوقوف بنانے کا دستور جو انگریزوں میں رائج ہے اور ان کی دیکھا دیکھی بعض اور لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔‘‘

انسائیکلو پیڈیا برطانیہ میں لکھا ہے:۔
1st April کو April Fool کا نام اس لئے دیا گیا کیونکہ یہ اس رسم کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں دوستوں کو مزاحیہ لطیفوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یا ان سے بیوقوفانہ کام لئے جاتے ہیں۔ اس کا آغاز بہت متنازعہ ہے۔ یہ ان قدیم تہواروں میں شامل ہے جو مقامی حیثیت رکھتے ہیں جیسے بھارت میں ہولی کا دن جو مارچ 31 ہے۔ اس دن بھی ان کا تفریحی پروگرام کا صدر ان کو بیوقوفانہ کاموں پر لگا دیتا ہے۔ جبکہ یکم اپریل عمومی طور پر برطانیہ میں قدیم سے تفریحی پروگرام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ 18 ویں صدی کے شروع میں عام رسم کے طور پر شروع ہوئی۔ سکاٹ لینڈ میں اس رسم کو Hunting the Gowk کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور فرانس میں اس کو کہا جاتا ہے۔ Poiss on D’Avril

(Encyclopaedia Britannica Volume 2)

گویا اپریل فول کی رسم جھوٹ پر مبنی ہے۔ اور سراسر جھوٹ ہے۔ جس سے جھوٹی اور غیر حقیقی خوشی حاصل کرنے کے لئے دوسروں سے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ جھوٹ مذاقاً کیا جاتا ہے۔ اور جانے ان جانے میں دوسروں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ مثلاً جھوٹ کے طور پر کہنا کہ آپ کا بیٹا فوت ہو گیا ہے۔ آپ کے خاوند کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ آپ کی دوکان کو آگ لگ گئی ہے۔ آپ کی کار چوری ہو گئی ہے۔ آپ کا بیٹا تاوان کے لئے اغوا ہو گیا ہے۔ آپ کے مکان پر قبضہ ہو گیا ہے۔ اور حقیقت کھلنے پر دانت نکالتے ہوئے اور کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے یہ کہہ دینا کہ ‘‘ اپریل فول ’’گویا خود کو عقل مند سمجھتے ہوئے دوسرے کو فول بنانے کو مزاح یا مذاق سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ نہیں جان رہا ہوتا یا نہیں سمجھ رہا ہوتا کہ وہ نادانی میں دوسرے کو کتنا بڑا نقصان پہنچا چکا ہے۔

مجھے اپنے بچپن کی بات یاد آ رہی ہے ایک عورت کو جب یہ بتایا گیا کہ تمہارا بیٹا جو لاہور سے واپس آ رہا تھا ایکسیڈنٹ کے نتیجہ میں فوت ہو گیا ہے تو اس صدمہ سے وہ بھی اللہ کو پیاری ہو گئی۔ اور ایک خاندان کو شادی کے لئے یکم اپریل کی تاریخ دی گئی جو وہ بڑے تزک و احتشام سے بارات لے کر پہنچے تو دروازے پر تالا پڑا تھا اور لکھا ہوا تھا۔ یکم اپریل۔

اب دیکھیں ایک معمولی سے جھوٹ کے نتیجہ میں کسی کی جان گئی اور کسی کی ادا ٹھہری۔ اور دوسروں کو ایک طرف مالی نقصان پہنچا تو دوسری طرف خجالت اور شرمندگی سے دو چار ہونا پڑا۔

جھوٹ کی نحوست کا ایک واقعہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان فرمایا ہے جو میں یہاں درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ فرماتے ہیں۔
’’کیمبل پور میں میرے ایک ہم وطن سول سرجن کے عہدے پر ترقی پا کر تعینات ہوئے۔ ایک دن کو ہاٹ سے ایک فوجی سب اسسٹنٹ سرجن متوطن کیمبل پور ان کے پاس آیا کہ میں مدت سے لمبی رخصت مانگ رہا ہوں۔ مجھے اس کی سخت ضرورت ہے۔ مگر افسر نہیں دیتے۔اب چار روز کی اتفاقی رخصت لے کر یہاں آیا ہوں۔ پر میشر کے لئے آ پ ہی مجھ پر رحم کریں۔ اور کسی طرح میری مشکل آسان کریں۔ انہوں نے محض ازراہ ہمدردی ایک سرٹیفیکیٹ اسے دے دیا کہ یہ ڈاکٹر یہاں آکر بیمار ہو گیا ہے۔ اسے دس یا پندرہ دن کی رخصت دے دی جائے۔ یہ بیماری کی وجہ سے سفر نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد ان کا ارادہ تھا کہ جب رخصت ختم ہو جائے گی تو مزید توسیع رخصت کا سرٹیفیکیٹ دے دوں گا۔ مگر جھوٹ کی نحوست سر پر منڈلا رہی تھی۔ جب سرٹیفیکیٹ کوہاٹ پہنچا تو آفیسر کمانڈنگ نے تین ڈاکٹر ایم ایس فوراً وہاں سے کیمبل پور بھیج دئیے۔ وہ دوسرے دن اس بیمار ڈاکٹر کے گھر پر پوچھتے پوچھتے پہنچ گئے۔ ڈاکٹر سیر سپاٹے کے لئے بازار گیا ہوا تھا۔ جب آیا تو ان کو دیکھتے ہی اس کا رنگ فق ہو گیا۔ غرض معائنہ ہوااور تینو ں نے یہ رائے دی کہ ڈاکٹر چنگا بھلا ہے۔ اس نے سول سرجن سے ساز باز کر کے جھوٹا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا ہے۔ چنانچہ سب اسسٹنٹ سرجن کو تو کورٹ مارشل نے ڈسمس کیا اور سول سرجن صاحب کا تنزل ہو کر پھر وہ اسسٹنٹ سرجن ہو گئے۔ اور پچیس سال کی نوکری داغدار ہو گئی۔ آخر شرم کے مارے انہوں نے خود ہی پنشن لے لی اور یاد خدا میں زندگی بسر کرنے لگے۔

(آپ بیتی حضرت ڈاکٹر میر اسماعیل صاحب صفحہ130-131)

بطور ایک احمدی مسلم ہم سب کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہمارے خالق و مالک خدائے رحیم و کریم نے قرآن کریم جو ہمارے لئے سر چشمہ ہدایت ہے اور سراسر نور اور صدق سے بھر پور ہے۔ میں جھوٹ کی انتہائی مذمت کی گئی ہے اور شناعت بیان کی گئی ہے۔ فرمایا۔

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ

(الحج: 31)

کہ بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹ سے اجتناب کرو۔

اسی طر ح فرمایا:۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ

(الزمر: 4)

اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والے اور جھوٹ بولنے والے کو کامیاب نہیں کرتا۔ ہدایت نہیں دیتا۔

جھوٹ بولنے کو عذاب الیم کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:۔

وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ

(البقرہ: 11)

کہ جھوٹ بولنے والوں کے لئے عذاب الیم ہے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاں جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے وہاں یہ بھی بتایا کہ جھوٹ بولنے والے ہدایت نہیں پا سکتے۔ اور ان لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہو گا۔

ہمارے پیارے آقا سید المرسلین خاتم النبیین ﷺ نے بھی جھوٹ بولنے کو سخت ناپسند فرمایا ہے اور بار بار مختلف طریقوں سے اسی کے نقصانات سے آگاہ فرمایا ہے۔ یہاں تک کہ مزاح میں بھی اسے ناپسند فرمایا ہے۔ چند احادیث درج کرتا ہوں۔

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا صدق سچائی نیکی کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ اور نیکی جنت کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ اور کوئی شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ سچوں میں لکھا جاتا ہے۔ (صدیق ہو جاتا ہے) اور جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے۔ اور برائی آگ میں پہنچا دیتی ہے۔ کوئی شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے حضور جھوٹا لکھا جاتا ہے۔

(بخاری کتاب ادب باب قول اللہ تعالیٰ یا ایھا الذین امنواتقواللہ و کو نوا مع الصادقین و ماینھی عن الکذب)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔
منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے۔

(بخاری کتاب الایمان باب علامات المنافق)

رسول اللہﷺ نے معراج میں ایک شخص کو اپنی باچھیں چیرتے ہوئے دیکھا تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ وہ شخص ہے جو بہت جھوٹ بولتا تھا۔

(بخاری کتاب الادب 6096)

فرمایا۔ میں ضامن ہوں اس شخص کے لئے جنت کے وسط میں گھر کا جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگر چہ وہ ہنسی مذاق میں ہی ہو۔

(ابوداؤد 4800)

نیز فرمایا۔ ہلاکت ہے اس کے لئے، ہلاکت ہے اس کے لئے، ہلاکت ہے اس کے لئے جو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے۔

(ترمذی 2315 کتاب الزہد۔ باب فیمن تکلم یکلمۃ۔ یضحک بھا الناس)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’میں تو آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے احیائے نو کے لئے آیا ہوں۔‘‘

(ملفوفات جلد نمبر1 صفحہ 490)

اس لئے اب میں امام آخر الزمان سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو جھوٹ اور اپریل فول کے بارے میں فرمایا ہے۔ تحریر کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’قرآن نے جھوٹوں پر لعنت کی ہے اور نیز فرمایا ہے کہ جھوٹے شیطان کے مصاحب ہوتے ہیں۔ اور جھوٹے بے ایمان ہوتے ہیں۔ اور جھوٹوں پر شیاطین نازل ہوتے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ مت بولو۔بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ تم جھوٹوں کی صحبت بھی چھوڑ دو۔ اور ان کو اپنا یا ر دوست مت بناؤ۔ اور خداسے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو او ر ایک جگہ فرماتا ہے کہ جب تو کوئی کلام کرے تو تیری کلام محض صدق ہو، ٹھٹھے کے طور پر بھی اس میں جھوٹ نہ ہو……… دیکھو اپریل فول کیسی بُری رسم ہے کہ ناحق جھوٹ بولنا اس میں تہذیب کی بات سمجھی جاتی ہے۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد نمبر1 صفحہ199)

’’کذب اختیار کرنے سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے اور اندر ہی اندر اسے دیمک لگ جاتی ہے۔ ایک جھوٹ کے لئے پھر اسے بہت سے جھوٹ تراشنے پڑتے ہیں۔ کیونکہ اسی جھوٹ کو سچائی کا رنگ دینا ہوتا ہے۔ اسی طرح اندر ہی اندر اس کے اخلاقی اور روحانی قویٰ زائل ہو جاتے ہیں…… یقیناً یاد رکھو جھوٹ بہت ہی بُری بلا ہے۔ جو انسان کو ہلاک کر دیتی ہے۔ اس سے بڑھ کر جھوٹ کا خطرناک نتیجہ اور کیا ہو گا کہ انسان خدا تعالیٰ کے مرسلوں اور اس کی آیات کی تکذیب کر کے سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔پس تمہارے لئے یہ ضروری بات ہے کہ صدق اختیار کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد1 نمبر245)

ہم احمدی احباب کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا مقصد دنیا کو نور اور روشنی سے منور اور جھوٹ اور باطل کو سرنگوں کرنا ہے جو صدق اور سچائی سے ہی ہو سکتا ہے جبکہ جھوٹ کا نتیجہ اوپر درج کی گئی آیات و احادیث اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے ظاہر ہوتا ہے۔

تنگدلی ، سنگدلی ، عداوت ودشمنی ، ظلم و تعدی ، قساوت و بے رحمی ، خون ریزی و بربادی ہے، جھوٹ اور کذب سے اتفاق و اتحاد کے رشتے منقطع ہو جاتے ہیں۔ کذب سے نفاق و منافقت پیدا ہوتی ہے۔ آشتی و محبت کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔ نامرادی در آتی ہے اور کامرانی رخ پھیر لیتی ہے۔ موسم بہار روٹھ جاتا ہے اور خزاں ڈیرہ جمالیتی ہے اور جو لوگ جھوٹ نہیں چھوڑتے ان کے لئے یہ تمام نظام ِمنور ، ظلمت و تاریک ہو جاتا ہے۔ اور ایک روایت کے مطابق جب کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو کی وجہ سے فرشتے اس سے ایک میل دُور چلے جاتے ہیں۔

(ترمذی 1972ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹ اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تمام ہلاکتوں، فلاکتوں، تباہیوں، ہربربادیوں اوررسموں سے بچائے۔ آمین

(عبدالقدیر قمر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ