مکرم مبارک محمود پانی پتی صاحب کی وفات 27 ستمبر 1996ء کو لاہور کے رشید ہسپتال ڈیفنس میں ہوئی تھی۔ 4اکتوبر 1996 کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ان کا ذکر خیر فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑہائی تھی۔ حضور نے فرمایا کہ ’’نماز جنازہ کے تعلق میں کچھ اور بھی نام ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ان کو بھی نماز جنازہ میں یاد رکھیں مبارک محمود صاحب پانی پتی لاہور جماعت کے مخلص فعال کارکن جن کے ساتھ بچپن ہی سے مجھے خدام الاحمدیہ کے سلسلے میں کام کرنے کا موقع ملا اور ہمیشہ بہت ہی اخلاص کیساتھ یہ مفوضہ سر انجام دیا کرتے تھے۔ ایک لاہور کے دوستوں کا ایک گروہ تھا جس میں یہ بھی تھے۔ صدیق شاکر صاحب بھی تھے، اور نیلا گنبد فیملی کے یحی صاحب وغیرہ، قیوم صاحب،یہ سب ہمارا ایک گروہ تھا جو خدمت دین کے معاملات میں ہم مل کر مشورے کرنے کے بعد لاہور کے دائرے میں کام کرتے تھے۔ میں تو لاہوری نہیں تھا مگر ربوہ سے آکر جس گروہ میں مل کر مجھے کام کرنے کا مزہ آتا تھا وہ بہت ہی سعادت کے ساتھ یہ خدمت کیاکرتے تھے۔ ان میں مبارک محمود پانی پتی کا نام بھی ان شاء اللّٰہ ہمیشہ رہے گا کیونکہ بڑا سلیقہ تھا خدمت کا‘‘
(الفضل انٹرنیشنل22-28 نومبر1996صفحہ9)
مکرم شیخ صاحب کی علالت کے دوران ان کی طبیعت کے بارے میں باقاعدہ حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ کو ذاتی طور لندن اطلاع اور درخواست دعا بھیجنے والوں میں مکرم عبد الحلیم طیب صاحب اور مکرم عبد المالک صاحب مرحوم شامل تھے۔آخری سالوں میں شیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب کا زیادہ وقت مکرم عبد المالک صاحب مرحوم کیساتھ گزرا۔ مکرم عبد الحلیم طیب صاحب نے ان کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مکرم شیخ صاحب وقت کے بہت پابند تھے، ہر جماعتی پروگرام اور میٹنگ کے لئے بسوں،تانگوں کے ذریعے ہرسرد گرم موسم،بارش میں لمبا سفر کرکے مکرم امیر صاحب سے ملنے ان کی رہائش گاہ کوٹھی، اور دارالذکر پہنچا کرتے تھے۔دارالذکر میں موجود ہوتے تو مکرم میجرعبد اللطیف صاحب نائب امیرکے کمرہ میں خوب رونق لگا رہتی تھی۔مبارک محمود صاحب پانی پتی کی بیماری کے دنوں میں مکرم میجر عبد اللطیف صاحب نائب امیر،مکرم شیخ ریاض محمود صاحب سیکرٹری ضیافت دیگر احباب کے ساتھ ان کی عیادت کرنے گاہے بگاہے ہسپتال جایا کرتے تھے۔ خاکسار کو 1980 کے شروع میں دارالذکر میں جن بزرگوں کی صحبت میسر آئی تھی انہی میں مکرم مبارک صاحب بھی شامل تھے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کبھی کبھار خاکسار، مکرم شیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب اور مکرم عبد المالک صاحب، شام کے وقت مغرب سے پہلے آصف شادی ہال کے سامنے ایک ہوٹل اور چائے کا کھوکھا ہوا کرتا تھا،وہاں بیٹھا کرتے تھے، چائے پان دونوں ساتھ ساتھ چلتے تھے اور مالک صاحب بھی اپنا شوق پورا کر لیتے تھے ہنسی مزاق کیساتھ ساتھ باتیں ہوتی رہتی تھیں۔وہ بہت اچھے دن تھے۔۔شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی کی خاص الخاص پہچان ’’پان‘‘ ہوا کرتی تھی جو ہر وقت ان کے پاس موجود ہوتا تھا اور اس کے بغیر ان کا گزارہ کافی مشکل ہوتا تھا۔مکرم شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی کے والد کا نام مکرم شیخ محمد اسماعیل پانی پتی تھا جو اپنے وقت کے ایک نامور اور معروف قلم کار، محقق،ادیب اور مصنف تھے۔ ان کی انہی ادبی اور قلمی خدمات پر حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ بھی دیا جاچکا تھا۔بطور احمدی انہوں نے صدق و وفا کیساتھ ملکی ادبی،صحافتی حلقوں میں بطور احمدی دانشور کے کمال درجہ کی جرات کیساتھ زندگی بسر کی اور قلم کا استعمال کیا تھا۔ انہی بزرگوں کے دور میں 1954 میں لاہور میں بدترین سیلاب آیا تھا، مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کو مثالی خدمت دین کی توفیق ملی تھی، بعدازاں حضرت مصلح موعود نے بھی لاہور کے متاثرہ علاقوں کا دورہ فرمایا تھا، حضور کیساتھ وفد میں شامل مکرم اسد اللہ خاں صاحب امیر لاہور، مکرم محمد سعید صاحب قائد مجلس اور دیگر چند احباب کے علاوہ مکرم م شیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب بھی شامل تھے۔حضور نے مجلس کے کاموں پر اظہار خوشنودی فرمایا تھا۔1955 میں دوبارہ لاہور شدید سیلاب کی زد میں آگیا تھا اس وقت مجلس کی قیادت مکرم خالد ہدایت بھٹی صاحب کے ہاتھوں میں تھی،امدادی کاموں کے لئے جو سیلاب کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس میں مکرم شیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب کے علاوہ مکرم میاں محمد یحییٰ صاحب، مکرم صدیق شاکر صاحب بھی شامل تھے۔ مکرم شیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب نائب نگران کمیٹی تھے جبکہ مکرم میاں محمد یحییٰ صاحب نگران اعلیٰ ریلیف کمیٹی تھے۔، مکرم صدیق شاکر صاحب کے پاس مال کی ذمہ داری تھی۔اس سیلاب کے دنوں میں کمیٹی اور خدام الاحمدیہ نے غیر معمولی خدمت خلق کی توفیق پائی تھی جس کے چرچے اس وقت کے تمام قومی اخبارات میں بھی ہوئے تھے ان میں روزنامہ نوائے وقت،پاکستان ٹائمز،سول اینڈ ملٹری گزٹ،روزنامہ امروز اور احسان قابل ذکر ہیں۔شیخ مبارک صاحب دیگر کاموں کے علاوہ رپورٹنگ بھی کیا کرتے تھے اور تمام اہم امور کی رپورٹنگ کرنا، ریکارڈسنبھالنا انہی کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔۔لاہور کے سیلاب1955 میں مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی غیر معمولی مساعی کی رپورٹس روزنامہ الفضل ربوہ میں بھی شائع ہوتی رہی جو مکرم مبارک محمود پانی پتی صاحب لکھ کر بھیجا کرتے تھے، انہی کی ایک مفصل رپورٹ روزنامہ الفضل ربوہ9 نومبر1955،صفحہ8 پر شائع موجود ہے۔1960کی دہائی میں جب مجلس کے زیر اہتمام، دو روزہ، سہہ روزہ اورہفت روزہ تربیتی کلاسز کا دور دورہ تھا،جید علماء سلسلہ ان کامیاب ترین کلاسز میں اعلیٰ پائے کی تقاریر فرمایا کرتے تھے۔مارچ1964میں ایک دو روزہ تربیتی کلاس شمش آباد،پتوکی اور تحصیل قصور کی مشترکہ منعقد ہوئی جس میں صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے علاوہ قائد ڈویژن لاہور مکرم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب، مکرم شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی معتمد علاقائی بھی شامل ہوئے تھے۔جولائی 1964کے آخری ہفتہ میں مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے لاہور کا تین روزہ دورہ فرمایا تھا جس میں دور دراز کی ضلع کی مجالس میں علم و عرفان سے بھرپورتربیتی کلاسز اور اجلاسات میں شرکت کی اور خطابات فرمائے تھے آپ کے ساتھ دوروں دیگر اراکین وفد کے علاوہ کرم شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی معتمد علاقائی ڈویژن اور مکرم صدیق شاکر صاحب معاون قائد مجلس شہر شامل ہوا کرتے تھے۔ایک اور سعادت جو شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی کو ملی وہ متبرک کپڑے کوربوہ سے لاہور لانا تھا۔ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ حضرت مسیح موعود کا ایک مشہور الہام ہے۔ یہ مبارک کپڑا ربوہ سے مکرم مبارک محمود پانی پتی صاحب لے کر لاہور تشریف لائے تو انہوں نے مکرم میاں عبد القیوم صاحب ناگی کو بتایا کہ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی یہ ہدایت ہے کہ کپڑے کو انشورنش کرواکر بھجوایا جائے اور بعد ازاں اس کو تھیلی میں سی کر دعا کرانے اور تصاویر کھینچنے کے بعد اس کوپارسل کی شکل میں بھجوایا جائے۔انشورنش کرانے کا کام مکرم میاں عبد القیوم ناگی صاحب آف نیلا گنبد نے کرایا تھا اور حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی ہدایت کے مطابق دعا کرائی گئی جس میں بھی شیخ مبارک محمود صاحب شامل تھے۔ (مزید تفصیلات روزنامہ الفضل ربوہ 17 مئی 2010 صٖفحہ6)۔ وقت گزرتا رہا اور پھر آپ نے دارالذکر میں انہوں نے کتابوں کا اسٹال لگانا شروع کیا جو کئی دہائیوں تک جاری رہا اور احباب لاہور سلسلہ کی ہر قسم کی نئی اور پرانی کتب وہاں سے جمعہ اور جلسہ کے دنوں میں خریدا کرتے تھے۔بعدازاں آپ نے بچوں کیساتھ مل کر پرنٹنگ پریس کا کام شروع کیا۔ جماعت کی کتب کی وہاں سے اشاعت ہونے لگی،اس کے علاوہ بھی میڈلز، ہر قسم کے بیجز کی تیاری بھی انہی کے پریس سے ہوا کرتی تھی۔ لاہور جماعت کے اشاعت کے کام بھی انہی کے سپرد تھے،۔ آپ اپنے اخلاص اور خلافت سے عشق وفا اور جماعتی کاموں میں محنت کرنے کی وجہ سے مکرم چوہدری حمید نصراللہ خان صاحب امیر لاہور کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہوچکے تھے اور جماعتی اہم بڑی تقریبات اور جلسوں کی کاروائیوں میں پیش پیش ہوتے تھے۔
(منور علی شاہد۔ جرمنی)