• 27 اپریل, 2024

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 17)

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
خلوت پسندی
قسط 17

خلوت کے معنی ہیں تنہائی اور علیحدگی۔ پوشیدہ در پردہ ہونا ’محبت خلائق اور ہستی سے بیگانہ ہونا۔ جلوت کا اُلٹ

انبیائے کرامؑ کی اعلیٰ لذات ان کے معبود میں ہوتی ہیں۔ عشقِ الٰہی میں بے خود ہوکر صرف خالق کائنات کے تصور اور یاد میں محو رہنا پسند کرتے ہیں اس لئے وہ دنیا اور دنیا کی دلچسپیوں سے بے نیاز ہو کر کسی گوشۂ تنہائی میں علیحدہ ہو رہتے ہیں جہاں تمام تر محویت کے ساتھ اپنا وقت یاد الٰہی میں گزار سکیں۔ان میں ظاہر داری نہیں ہوتی انہیں لوگوں کی تعریف و توصیف کی طلب نہیں ہوتی جاہ پسند نہیں ہوتے۔ صرف مولا کریم کی رضا چاہتے ہیں۔ اور اس کےبندوں کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں۔ مخلوق کی ہمدردی اور خیر خواہی میں انہیں صراط مستقیم پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ تنہائی میں ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ایسے خود فراموش بندوں کو اپنے لئے چن لیتا ہے اور ہاتھ پکڑ کر کنجَ عافیت سے نکال کر خدا نمائی کا کام سونپتا ہے۔ آنحضور ﷺ کی خلوت پسندی کی گواہ غار حرا کی چٹانیں ہیں جن پر کئی کئی دن رات تنہا بیٹھے دعاؤں میں گزار دیتے کبھی آپ ؐ جنگل میں نکل جاتے اور تنہا اپنے رب کو یاد کرتے۔ آپؐ گھر میں بھی گوشۂ عافیت تلاش کرلیتے۔ شب کی تاریکی بھی دنیا سے پردے کی صورت بن جاتی۔ پھر آپؐ اپنے محبوب کی خوب پرستش فرماتے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جو خود تنہائی میں یاد الٰہی کے رسیا تھے اور صاحب تجربہ تھے فرماتے ہیں:
’’اصل بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُنس اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر دنیا اور اہلِ دنیا سے ایک نفرت اور کراہت پیدا ہوجاتی ہے۔ بالطبع تنہائی اور خلوت پسند آتی ہے آنحضرت ﷺ کی بھی یہی حالت تھی اللہ تعالیٰ کی محبت میں آپؐ اس قدر فنا ہو چکے تھے کہ آپؐ اس تنہائی میں ہی پوری لذت اور ذوق پاتے تھے۔ ایسی جگہ میں جہاں کوئی آرام اور راحت کا سامان نہ تھا۔ اور جہاں جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہو آپؐ وہاں کئی کئی راتیں تنہا گزارتے تھے اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کیسے بہادر اور شجاع تھے جب خدا تعالیٰ سے تعلق شدید ہو تو پھر شجاعت بھی آجاتی ہے اس لئے مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا اہلِ دنیا بزدل ہوتے ہیں ان میں حقیقی شجاعت نہیں ہوتی‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ317)

’’آپؐ کی پہلی عبادت وہی تھی۔ جو آپؐ نے غار حرا میں کی جہاں کئی کئی دن ویرانہ پہاڑی کی غار میں جہاں ہر طرح کے جنگلی جانور اور سانپ چیتے وغیرہ کا خوف ہے دن رات اللہ تعالیٰ کے حضور میں عبادت کرتے تھے اور دعائیں مانگتے تھے۔ قاعدہ ہے کہ جب ایک طرف کی کشش بہت بڑھ جاتی ہے تو دوسری طرف کا خوف دل سے دور ہوجاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 322)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کَانَ یَذْکُرُ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ حَالٍ کہ حضور ؐہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے تھے۔ آپؐ کی بےشمار دُعائیں جو آپؐ نے مختلف اوقات میں بارگاہِ ایزدی میں کیں۔ آپؐ کے قلبی جذبات کی شاہد ہیں۔ ایسی خود سپردگی اور گداز ہے جیسے روح پگھل کر آستانۂ الوہیت پر بہہ رہی ہو اے خدا! تُو ہی میرا رب ہے۔ تیرے سوا کوئی قابل عبادت نہیں۔تُو نے مجھے پیدا کیا اور مَیں تیرا بندہ ہوں اور اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں۔اپنےکاموں کے خراب پہلو سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ تیرے احسانوں کا معترف اور اپنی کوتاہیوں کا اقراری ہوں۔تیرے سوا کوئی پَردہ پوش نہیں۔

آنحضرتﷺ اپنے خاندان اور احباب میں ایک پسندیدہ شخصیت تھے مکہ کے لوگ اس امین وصادق کو محبوب رکھتے تھے پھر گھر کا سکون بھی حاصل تھا قوم کی نظروں میں عزت و توقیر کا مقام تھا اس سکون کو تج کر اختیاری تنہائی میں وقت گزارتے۔ سارے شہر کے لوگ اپنی اپنی سرگرمیوں میں مگن زندگی کے مزے لے رہے ہوتے۔ صرف ایک شخص کو اس ماحول میں سکون نہیں ملتا تھا کیونکہ وہ اس دنیا کا نہیں اپنے رب کا بندہ تھا۔۔ زمانہ نبوت سے قبل کی زندگی میں جس کی پاکیزگی کے متعلق قرآن نے اعلان کیا فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ (یونس: 17)۔ اس مطہر اور مقدس وجود کوسکون غار ِحرا کی کنج خلوت میں ملتا۔ بخاری شریف میں لکھا ہے۔

حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلاَءُ فَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍفَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَات الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزعَ إِلٰی أَهْلِهٖ وَيَتَزَوَّدُ لِذَالِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلٰی خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتّٰی جَاءَ هٗ الْحَقُّ۔

(صحیح بخاری جلد1 صفحہ3)

آنحضرت کو خلوت بہت پسند تھی۔جو آپؐ غارِ حرا میں کئی کئی راتوں تک بغرض عبادت اختیار فرماتے اور اس عرصہ کے لئے کھانا گھر سے لے جاتے۔ جب وہ کھانا ختم ہوجاتا۔واپس آکر پھر توشہ لے جاتے۔ آپؐ اسی طرح کیا کرتے یہاں تک کہ آپؐ پر حق کھل گیا اور وحی لے کر فرشتہ آپؐ کے پاس حاضر ہو گیا۔

خلوت پسندی کا یہ جوہر خالقِ کائنات کی خاص عطا تھی۔اللہ پاک کی تربیت کا انداز تھا بڑی ذمہ داری کے لئے بڑی تربیت وہ خود فرماتا ہے۔ اور اپنے تربیت یافتہ کو وہ قوت قدسی عطا فرماتا ہے کہ وہ اپنا نور آگے منتقل کر سکیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’نبی کا کمال یہ ہے کہ وہ دوسرے شخص کو ظلّی طور پر نبوت کے کمالات سے متمتع کردے اور رُوحانی امور میں اس کی پوری پرورش کر کے دکھلاوے۔ اِسی پرورش کی غرض سے نبی آتے ہیں اور ماں کی طرح حق کے طالبوں کو گود میں لے کر خدا شناسی کا دودھ پلاتے ہیں۔ پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ دودھ نہیں تھا تو نعوذ باللہ آپ کی نبوت ثابت نہیں ہوسکتی۔ مگر خدا تعالیٰ نے تو قرآن شریف میں آپ کا نام سراج منیر رکھا ہے جو دوسروں کو روشن کرتا ہے اور اپنی روشنی کا اثر ڈال کر دوسروں کو اپنی مانند بنا دیتا ہے۔‘‘

(چشمہ مسیحی،روحانی خزائن جلد20 صفحہ388-389)

رسول کریم ﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام میں زمانی بُعد بے شک چودہ سو سال کا ہے مگر روحانی طور پر ایک ساتھ ہی تھے اللہ تبارک تعالیٰ کا عشق اور عاشقانہ ادائیں مماثل ہیں۔

فرماتے ہیں:

ابتدا سے گوشۂ خلوت رہا مجھ کو پسند
شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار
پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا
میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار

آپ کی خلوت پسندی تعلیم کے زمانے سے نظر آتی ہے

اساتذہ کرام گھر پر تعلیم دیتے سبق سے فارغ ہوکر آپ بالا خانے پر تشریف لے جاتے اور تنہائی میں بیٹھ کر پوری یکسوئی سے اپنا سبق دہراتے۔ آپ کے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ بار بار آپؑ کو سمجھاتے کہ اس طرح گزارا کیسے ہوگا آپؑ خاموشی سے سنتے اگر جواب دیتے تو یہ دیتے کہ
’’ابا بھلا بتاؤ تو سہی کہ جو افسروں کے افسر اور مالک الملک احکم الحاکمین کا ملازم ہو اور اپنے رب العالمین کا فرماں بردار ہو اس کو کسی کی ملازمت کی کیا پرواہے۔ ویسے میں آپ کے حکم سے بھی باہر نہیں‘‘

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ52)

والد صاحب فرماتے ’’اچھا بیٹا جاؤ اپنا خلوت خانہ سنبھالو‘‘ پھر آبدیدہ ہوکر کہتے ’’جو حال پاکیزہ غلام احمد کا ہے وہ ہمارا کہاں ہے۔ یہ شخص زمینی نہیں آسمانی (ہے) یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے‘‘

چودہ پندرہ سال کی عمر میں تنہا بیٹھ کر قرآن مجید پڑھتے رہنے کے ذکر میں آپ کے والد صاحب نے فرمایا یہ ’’کسی سے غرض نہیں رکھتا سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتا رہتا ہے۔‘‘

(ریویو آف ریلیجنز اردو قادیان جنوری 1942ء صفحہ9)

ایک اور موقع پر آپ ؑ کے والد صاحب نے فرمایا ’’غلام احمد کو پتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں جب میں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے‘‘

(سیرۃ المہدی حصہ اول صفحہ494 مطبوعہ 2008)

اس زمانے کی مصروفیات کے بارے میں آپؑ خود فرماتے ہیں ’’ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہئے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 181 بقیہ حاشیہ)

13-15سال کی عمر میں شادی ہوئی۔ لیکن یہ تعلق بھی آپؑ کی خلوت نشینی پر اثر انداز نہ ہوا تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ان دنوں اگر کوئی آپؑ کے والد صاحب سے آپ کے متعلق پوچھتا تو وہ بڑی فکر مندی سے جواب دیتے کہ اسے تو تنہا بیٹھ کے کتابیں پڑھنے کے سوا کچھ اچھا نہیں لگتا۔ یا مسجد میں عبادت کرتا ہے۔ آپؑ کے کم آمیز ہونے کی وجہ سے ملاں، دلہن اور مسیتڑ کے القاب دئے جاتے۔ شادی کے بعد سولہ سترہ سال کی عمر کے مشاغل دیکھئے فرماتے ہیں ’’میں سولہ سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا ہوں اور ان کے اعتراضوں پر غور کرتا ہوں میں نے اپنی جگہ ان اعتراضوں کو جمع کیا ہے جو عیسائی آنحضرت ﷺ پر کرتے ہیں ان کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچی ہوئی ہے۔‘‘

(الحکم 30؍ اپریل 1900ء صفحہ 2)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’براہین کی تالیف کے زمانہ کےقریب اسی شہر میں قریباً سات سال رہ چکا۔ تاہم آپ صاحبوں میں ایسے لوگ کم ہوں گے جو مجھ سے واقفیت رکھتے ہوں کیونکہ میں اس وقت ایک گمنام آدمی تھا اور اَحَدٌ مِّنَ النَّاسِ تھا اور میری کوئی عظمت اور عزت لوگوں کی نگاہ میں نہ تھی مگر وہ زمانہ میرے لئے نہایت شیریں تھا کہ انجمن میں خلوت تھی اور کثرت میں وحدت تھی اور شہر میں میں ایسارہتا تھا جیسا کہ ایک شخص جنگل میں۔ مجھے اس زمین سے ایسی ہی محبت ہے جیسا کہ قادیان سے کیونکہ میں اپنے اوائل زمانہ کی عمر میں سے ایک حصہ اس میں گزار چکا ہوں اور اس شہر کی گلیوں میں بہت سا پھر چکا ہوں‘‘

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 243)

لیکن 19 ویں صدی کے آخری ربع میں آپؑ کو خدائی تقدیر دنیا کی اصلاح کیلئے گوشہ گمنامی سے نکال کر علمی میدان کی جانب کھینچنے لگی۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تاریخی طور پر اس کی تفصیل یوں بیان فرماتے ہیں: ’’پبلک میں آپ نے تصنیف براہین سے صرف کچھ قبل یعنی 1877-1878ء میں آنا شروع کیا اور مضامین شائع کر نے شروع فرمائے اور تبلیغی خطوط کا دائرہ بھی وسیع کیا۔ مگر دراصل مستقل طور پر براہین احمدیہ کے اشتہار نے ہی سب سے پہلے آپ کو ملک کے سامنے کھڑا کیا اور اس طرح علم دوست اور مذہبی امور سے لگاؤ رکھنے والے طبقہ میں آپ کا انٹروڈکشن ہوا اور لوگوں کی نظریں اس دیہات کے رہنے والے گمنام شخص کی طرف حیرت کے ساتھ اُٹھنی شروع ہوئیں‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ93 مطبوعہ 2008)

تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اٹھائیس سال کی عمر میں آپ سیالکوٹ بحصول ملازمت تشریف لے گئے اور وہاں ڈپٹی کمشنر صاحب کے دفتر میں ملازم ہوگئے ملازمت کے وقت سے فارغ ہو کر اپنی قیام گاہ پر تشریف لاتے تو دروازہ بند کرلیتے مکان سے باہر کم جاتے اور اس خلوت میں اپنا وقت تلاوت قرآن مجید، عبادت گزاری، شب بیداری علمی مشاغل میں گزارتے کتابوں کا مطالعہ کرتے یا مذہبی مباحث میں حصہ لیتے تھے آپ کی پرہیز گاری اور تقویٰ کا اتنا اثر تھا کہ سب آپ کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے اور دینی مسائل دریافت کرتے تھے۔

ملازمت سے سبکدوش ہوکر قادیان تشریف لے آئے تو کلیۃً فنا فی اللہ ہونے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں فارسی میں ایک درخواست تحریر فرمائی اس کے چند جملوں کا ترجمہ ہے:
میرا دل دنیا سے سرد ہوگیا ہے اور چہرہ غم سے زرد۔اور اکثر حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمہ اللہ علیہ کے یہ دو مصرع زبان پر جاری رہتے ہیں اور حسرت و افسوس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بہ پڑتے ہیں۔

مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار
مباش ایمن از بازیٴ روزگار

(اپنے دل کو دنیائے دوں میں نہ لگا کیونکہ موت کا وقت ناگہاں پہنچ جاتا ہے)

’’میں چاہتا ہوں کہ باقی عمر گوشۂ تنہائی اور کنجِ عزلت میں بسر کروں اور عوام اور ان کی مجالس سے علیحدگی اختیار کروں اور اللہ تعالیٰ سبحانہ کی یاد میں مصروف ہوجاؤں تا تلافیٔ مافات کی صورت پیدا ہوجائے‘‘

فرمایا کرتے تھے ’’مجھے تو اللہ تعالیٰ کی محبت نے ایسی محویت دی تھی کہ تمام دنیا سے الگ ہو بیٹھا تھا۔ تمام چیزیں سوائے اُس کے مجھے ہرگز نہ بھاتی تھیں۔ میں ہرگز ہرگز حجرہ سے باہر قدم رکھنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے ایک لمحہ بھی شہرت کو پسند نہیں کیا۔ میں بالکل تنہائی میں تھا اور تنہائی ہی مجھ کو بھاتی تھی۔ شہرت اور جماعت کو جس نفرت سے میں دیکھتا تھا اس کو خدا ہی جانتا ہے میں تو طبعاً گمنامی کو چاہتا تھا اور یہی میری آرزو تھی خدا نے مجھ پر جبر کرکے اس سے مجھے باہر نکالا میری ہرگز مرضی نہ تھی مگر اُس نے میری خلاف مرضی کیا کیونکہ وہ ایک کام لینا چاہتا تھا۔ اُس کام کے لئے اُس نے مجھے پسند کیا اور اپنے فضل سے مجھ کو اس عہدۂ جلیلہ پر مامور فرمایا یہ اسی کا اپنا انتخاب اور کام ہے۔ میرا اس میں کچھ دخل نہیں۔ میں تو دیکھتا ہوں کہ میری طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہے شہرت اور جماعت سے کوسوں بھاگتی ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ کس طرح شہرت کی آرزو رکھتے ہیں۔ میری طبیعت اور طرف جاتی تھی لیکن خدا مجھے اور طرف لے جاتا تھا میں نے بار بار دعائیں کیں مجھے گوشہ میں ہی رہنے دیا جائے مجھے میرے خلوت کے حجرے میں چھوڑ دیا جائے لیکن بار بار یہی حکم ہوا کہ اس سے نکلو اور دین کا کام جو اس وقت سخت مصیبت کی حالت میں تھا اس کو سنوارو انبیاء کی طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہے وہ شہرت کی خواہش نہیں کیا کرتے کسی نبی نے کبھی شہرت کی خواہش نہیں کی ہمارے نبی کریم ﷺ بھی خلوت اور تنہائی کو ہی پسند کرتے تھے آپ عبادت کے لئے لوگوں سے دور تنہائی کی غار میں جو غار حرا تھی چلے جاتے تھے یہ غار اس قدر خوفناک تھی کہ کوئی انسان وہاں جانے کی جرأت نہ کر سکتا تھا لیکن آپ ؐ نے اس کو اس لئے پسند کیا ہوا تھا کہ وہاں کوئی ڈر کے مارے بھی نہ پہنچے گا۔ آپؐ بالکل تنہائی چاہتے تھے شہرت کو ہر گز پسند نہیں کرتے تھے مگر خدا کا حکم ہوا یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۲﴾ قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۳﴾ اس حکم میں ایک جبر معلوم ہوتا ہے اور اسی لئے جبر سے حکم دیا گیا آپؐ تنہائی کو جو آپؐ کو بہت پسند تھی اب چھوڑ دیں‘‘

(ذکر حبیب از مفتی محمد صادقؓ صفحہ 159-160)

’’اگر خدا تعالیٰ مجھے اختیار دے کہ خلوت اور جلوت میں سے تو کس کو پسند کرتا ہے تو اس پاک ذات کی قسم ہے کہ میں خلوت کو اختیار کروں مجھے تو کشاں کشاں میدانِ عالم میں اس نے نکالا ہے جو لذّت مجھے خلوت میں آتی ہے اس سے بجز خدا تعالیٰ کے کون واقف ہے میں قریب 25 سال تک خلوت میں بیٹھا رہا ہوں اور کبھی ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں چاہا کہ دربار شہرت کی کرسی پر بیٹھوں مجھے طبعاً اس سے کراہت رہی ہے کہ لوگوں میں مل کر بیٹھوں مگر امرِ آمر سے مجبور ہوں۔ فرمایا میں جو باہر بیٹھتا ہوں یا سیرکرنے جاتا ہوں اور لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کی بنا پر ہے‘‘

(سیرت مسیح موعود ؑ از عبد الکریم ؓ صفحہ 45)

اخبار زمیندار کے ایڈیٹر مولوی ظفر علی خاں صاحب کے والد اور اخبار زمیندار کے بانی منشی سراج الدین احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں لکھا: ’’ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعۂ دینیات میں صرف ہوتا تھا۔ عوام سے کم ملتے تھے۔ 1877ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے ہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی۔ ان دنوں میں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محو و مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے۔‘‘

(اخبار زمیندار مئی 1908ء بحوالہ بدر 25 جون 1908ء۔ صفحہ 13 کالم نمبر 1-2)

مَیں تھا غریب و بیکس و گُم نام و بے ہُنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کِدھر
لوگوں کی اِس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی
میرے وجود کی بھی کِسی کو خبر نہ تھی
کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا معتقد
لیکن اب دیکھو کہ چرچا کِس قدر ہے ہر کنار
اُس زمانے میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر
جو کہ اب پوری ہوئی بعد ازمُرورِ روزگار

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ