• 23 اپریل, 2024

حصول علم اور اُس کی ترغیب

اسلام نے تحصیل علم کی طرف نہ صرف مسلمانوں کو بار بار تاکید کی ہے بلکہ اس کے گُر اور طریق بھی جا بجا بیان فر مائے ہیں بلکہ قرآن کریم نے علم کی بڑھوتی کے لئے رَبّ زِدّنی عِلماً کی دُعا بھی سکھلائی ہے جس کے معنی ہیں: اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ کرتا رہ۔

آنحضور ﷺ کے روحانی فرزند حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے درج ذیل دو الہامی دعائیں بھی سکھلائی ہیں۔

رَبِّ اَرِنی حَقَائق الاَشْیَاءِ (تذکرہ) کہ اے میرے رب! مجھے تمام قسم کے اشیاء کے حقائق عطا فرما۔

رَبّ اَرِ نی اَنْوَارک الْکُلِّیَّۃَ (تذکرہ) کہ اے میرے رب! مجھے اپنے تمام انوار سکھلادے۔

علم اور اُس کے حصول کی تر غیب کو اگر آ نحضور ﷺ کی احادیث اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اعمال اور سیرت کی روشنی میں دیکھیں تو وہ ایک بہت دلچسپ، ایمان افروز اور قابل تقلید نمونہ کی دعوت ہم سب کو دیتا ہوا دکھلائی دیتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنا سب گھر بار چھوڑ کر اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے در مبارک پر دھونی رما بیٹھے تھے۔ اور آ ستانہ رسولؐ کے باہر بیٹھے رہتے اس خیال سے کہ آنحضور ﷺ کے زبان مبارک سے کوئی فرمان اور حدیث بیان ہو اور وہ سننے سے نہ رہ جائیں۔ جہاں آنحضور ﷺ جاتے آپ ان کے پیچھے ہو لیتے اور حضورؐ کے سنے ہوئے فر مان کو آ گے صحابہ تک فوری پہنچاتے تا ہر شخص جس نے اپنے رسول ﷺ سے ایک روحانی تعلق قائم کیا ہے وہ سنت رسولﷺ کا تابع ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے بہت تھوڑا عرصہ آنحضور ﷺ کی معیت میں گزارا جو کچھ سال کا تھا۔ مگر سب سے زیادہ روایتیں آپ سے ہی مروی ہیں ۔ اور یوں آپؓ اپنے آقا و مولیٰ حضرت رسول مقبول ﷺ کے اس فر ماں پر اوّلین عمل کرنے والوں اور دُعاؤں کے مستحق ٹھہرے۔ آنحضور ﷺ نے فر مایا ہے کہ:۔
اللہ تعالیٰ اس شخص کو ترو تازہ اور خوشحال رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سُنی اور آ گے اسی طرح اُسے پہنچایا جس طرح اس نے سنا تھا ۔ کیونکہ بہت سے ایسے لوگ جن کو بات پہنچائی گئی ہے سُننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے، سمجھ سے کام لینے والے ہوتے ہیں۔

(ترمذی کتاب العلم)

آنحضور ﷺ کے دور میں جب مدینہ آبادی کی وجہ سے پھیلنے لگا اور بعض صحابہؓ نے مدینہ کے گرد و نواح میں زمینیں خرید کر آ بادکاری کی تو ان سب کا مسجد نبوی میں نماز پر آنا مشکل ہوا تو ان فدائی صحابہ ؓ نے ہر نماز پر اپنے نمائندوں کو مسجد میں آنحضور ﷺ کی اقتداء میں نمازیں پڑھنے اور فر مان رسولؐ سننے کے لئے مقرر فر مایا تھا تا وہ واپس آ کر آنحضور ﷺ کے تازہ بتازہ فر مانوں کو سُن کر عمل کر سکیں۔

آنحضور ﷺ کی وفات کے بعد جب مسلمان اور صحابہؓ دنیا بھر میں پھیلنے لگے تو وہ اپنے کانوں سے سماعت کی گئی احادیث کو بھی ساتھ لے گئے۔ اسلام کے چاروں اماموں اور فقہاء نے اصل روٹ تک پہنچنے اور جاننے کے لئے سینکڑوں میل کا سفر اونٹوں اور گھوڑوں پر کیا۔ اور احادیث کو ہمارے لئے جمع فرمایا جو ایک حقیقی علمی اور روحانی خزانہ ہے قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے۔ فجزاہم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء فی الدنیا و الآخرہ۔ آنحضور ﷺ نے فر مایا ہے کہ بہترین صدقہ یہ ہے کہ ایک مسلمان علم حاصل کرے پھر اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے (ابن ماجہ ثواب معلم الناس الخیر) ویسے بھی اپنے علم کو جو انسان اپنے پیچھے چھوڑ جائے اور لوگ اس پر عمل کریں صدقہ جاریہ قرار دیا جاتا ہے۔

(ابن ماجہ ثواب معلم الناس)

ہمارے رسولِ مقبو ل حضرت محمد مصطفےٰﷺ نے فر مایا کہ جب تمہارا ریاض الجنّہ (جنت کے باغوں) سے گزر ہو تو وہاں خوب چرو ۔صحابہ ؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! ریاض الجنّہ سے کیا مراد ہے تو آپ نے فر مایا کہ مجالس علمی، جن سے بھر پور استفادہ کیا کرو ۔

آج کے دور میں جماعت احمدیہ میں علمی مجالس کا احاطہ کیا جائے تو mta کے ذریعہ خلیفہ وقت کے خطبات جمعہ سے علمی و روحانی فیوض و برکات سے حصّہ لینا ہے اور یہ در بار ہر ہفتہ ہم اہل ایمان کے لئے دنیا بھر میں سجایا جاتا ہے۔ پھر covid 19 کی وجہ سے جو ورچوئل ملاقاتیں خواتین و احباب اور عہدیداران کی حضور اقدس سے ہوتی ہیں وہ ایم ٹی اے ہم تک پہنچاتا ہے اور ہم ان سے محظوظ ہوتے اور پھر ان ارشادات پر عمل کرنے کی بھر پور کو شش کرتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل ایک بچی نے رمضان المبارک کی مناسبت سے یہ سوال کیا کہ حضور! افطاری و سحری میں کیا تناول فرماتے ہیں؟ تو حضور نے فرمایا کہ جو میں صبح ناشتہ میں روز کھاتا ہوں وہ میں سحری میں کھا لیتا ہوں اور جو میں شام کو کھانا کھاتا ہوں وہ افطاری کے وقت کھا لیتا ہوں ہاں سنت رسولؐ پر عمل کرتے ہوئے ایک کھجور سے روزہ کھول لیتا ہوں۔ میں دیگر لوازمات جو لوگ عموماً رمضان میں کرتے ہیں ان سے میں پرہیز کرتا ہوں۔ جس سے انسان سست بھی ہوتا اور عبادت میں بھی خلل آتا ہے۔ اس لئے ہم سب کو حصول علم کے لئے ایم ٹی اے جیسی عظیم نعمت سے بھر پور فائدہ اُٹھانا چایئے۔

پھر آج کل جماعتوں میں Zoom پر میٹنگز اور اجتماعات ہو رہے ہیں وہ بھی ایک قسم کی علمی مجالس ہیں ان سے بھی بھر پور استفادہ کرنا چاہیئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک موقع پر دینی علوم کی تحصیل، انسان صادق کی صحبت کو بھی قرار دیا ہے۔

(ملفوظات جلد7 ص401)

پھر ایک موقع پر آ نحضور ﷺ فر ماتے ہیں کہ:۔ طلَبُ الْعِلْم فَریِضۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِم اور ایک اور روایت مُسْلِمَۃٌ کے الفاظ کے اضافہ کے ساتھ بھی آتی ہے کہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم حاصل کرے۔

(ابن ماجہ باب فضل العلماء)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام علوم دینیہ کے حصول کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فر ماتے ہیں کہ:۔
’’مانا کہ طلب علم ہر مرد و عورت پر فرض ہے جیسا کہ حدیث طَلَبُ الْعِلمِ فَریضۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسلِم وَ مُسْلِمَۃٌ سے ظاہر ہے مگر اول علوم دینیہ کا حصول فرض ہے جب بچے علوم دینی سے پورے واقف ہو جاویں اور ان کو اسلام کی حقیقت اور نور سے پوری اطلاع ہو جاوے تب ان مروّجہ علوم کے پڑھانے کا کوئی ہرج نہیں‘‘۔

(ملفوطات جلد10 ص393،394 مطبوعہ لندن)

ایک اور حدیث ہے جسے علماء و محدثین ضعیف سمجھتے ہیں مگریہ حدیث معروف و مشہور ہے جس سے علم کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے کہ اُطْلِبُو العِلْمَ وَلَوْ بالصین کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین تک جانے کے لئے مشکل ترین راستوں میں سے گزرنا پڑے ۔سر کارِ دوعالم کے دَور میں بھی چین اپنی مختلف حدود کے ساتھ نہ صرف موجود تھا بلکہ اس وقت بھی علم کی آماجگاہ تھا۔ اس روایت میں حصول علم کی تر غیب اور اس کی افادیت بتلانی مقصود ہے۔ کیونکہ عرب سے چین جانا ایک جان جوکھوں کا کام تھا۔ راستے میں طویل و عریض صحرا کو عبور کرنا پڑتا تھا۔ جو سخت دشوار ترین ہوتا تھا۔ پھر تعلیم حاصل کرنے کے لئے کوئی عمر کی بندش بھی نہیں ۔ فر مایا کہ مہد سے لحد تک علم حاصل کرو۔ اس کے لئے سب سے عظیم، بڑی اور بابرکت درس گاہ تو قرآن کریم ہے۔ جس سے ہم تمام بڑوں، نوجوانوں، بچوں اور عورتوں، بچیوں کو یکساں طور پر بھر پور فائدہ اُٹھانا چایئے۔ ہماری جماعت میں مختلف تراجم اور تفاسیر موجود ہیں۔ ان میں سے جو بھی میسر ہو اسے روزانہ کی بنیاد پر زیر مطالعہ رکھنا چاہیئے۔ یہ بھی علمی مجالس ہیں جن کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔ اب تو اللہ تعالیٰ نے یہ علمی اور روحانی فیوض ہمیں نیٹ کے ذریعہ بھی میسر کروا رکھے ہیں۔ انہیں download کر کے استفادہ کرنا چایئے۔ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر مکرم عبد السلام نے ایٹم کو پھاڑنے اور باریک ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا نسخہ قرآن کریم سے ہی ایجاد فر مایا۔ آج کل مادیت کے دور میں ہم میں سےبعض دنیوی علوم کو دینی علوم پر زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ اور بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کی ترغیب دلاتے ہیں اور اس کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادیتے ہیں۔ جبکہ دنیوی تعلیم کو اس وقت زیادہ چمک مل جاتی ہے جب وہ دینی تعلیم کو ساتھ ملا لیتے ہیں۔ جس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی حتٰی کہ آ نحضور ﷺ کی معیت بھی نصیب ہو جاتی ہے۔

ایک دفعہ آ نحضور ﷺ کے در بار میں دو آ دمیوں کا ذکر کیا گیا ۔ جن میں ایک عابد اور دوسرا عالم تھا۔ اس پر حضورؐ نے فر مایا کہ عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک معمولی آدمی پر۔ پھر فرمایا کہ اللہ، اس کے فرشتے، آ سمانوں اور زمین پر رہنے والے حتیٰ کہ بِل میں چونٹیاں اور پانی میں مچھلیاں بھی اس شخص کے لئے دعائیں کرتی ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم د یتے ہیں۔

(ترمذی کتاب العلم)

اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ اِ نَّمَا یَخْشَی اللّٰہ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا (فاطر :29) کہ بندوں میں سے علماء ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔

ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے مسجد میں دو قسم کے لوگوں کے حلقے دیکھے۔ ایک تلاوت اور دعاؤں میں مصروف تھے۔ دوسرے پڑھنے پڑھانے میں مشغول تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر آپؐ نے فرمایا۔ دونوں نیک کام کر رہے ہیں اور یہ فر ماتے ہوئے آپ پڑھانے والوں میں جا بیٹھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے معلم اور استاد بنایا ہے۔

(ابن ماجہ باب فضل العلماء)

پھر ایک موقعہ پر فرمایا کہ یاد رکھو علم کے بغیر عبادت میں کوئی بھلائی نہیں اور سمجھ کے بغیر علم کا دعویٰ درست نہیں اور تدبر و غور و فکر کے بغیر محض قرآت کا کچھ فائدہ نہیں

(سنن الدارمی)

جماعت احمدیہ کے پاس تو مسیح دوران حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی کتب اور فر مودات (ملفوظات) اور خلفائے جماعت کی کتب اور خطبات و خطابات کا ایک عظیم نادر خزانہ موجود ہے۔ جو قرآن کریم اور احادیث کی لاجواب تشریح و تفسیرپر مشتمل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودات اور ارشادات جو 10 جلدوں میں ملفوظات کے نام سے طبع شدہ ہیں ان کا احاطہ کریں اور بغور مطالعہ کریں تو اس سے جہاں علم میں اضافہ ہوتا ہے وہاں ایمان وایقان اور تقویٰ و طہارت میں بھی اضافہ کا موجب ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم تو خدائی اور الہامی تھا۔ اللہ تعالیٰ رہنمائی بھی کرتا رہا۔ لیکن وسعت مطالعہ کی داد دینے کو برابر اور مسلسل دل کرتا رہتا ہے ۔جس وقت آپ حافظ شیرازی، مثنوی رومی، شیخ سعدی کے فارسی اشعار و مقولے بر وقت اور بر محل استعمال فرماتے ہیں۔ تذکرہ اولیاء کے واقعات، مختلف مثالیں دے دے کر جب بات کو سمجھاتے ہیں تو آپؐ کے حق میں دعائیں نکلتی ہیں جس نے جماعت کو روحانی علم سے مالا مال کیا ہے۔

آپؑ ایک جگہ فر ماتے ہیں کہ:۔
اصل میں جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں ان کی خدمت میں دین سیکھنے کے واسطے جانا بھی اک طرح کا حج ہی ہے۔ حج بھی خدا تعالیٰ کے حکم کی پابندی ہی ہے اور ہم بھی تو اس کے دین اور اس کے گھر یعنی خانہ کعبہ کی حفاظت کے واسطے آئے ہیں۔ (ملفوظات جلد4 چہارم ص258) پس ہمیں روزانہ ان کتب کی صحبت سے فائدہ اٹھانا چایئے اور چند صفحات مطالعہ کر کے اور اس علم کو آگے پہنچا کر اس مقام تک رسائی کی کوشش کرنی چایئے جہاں ہمیں اوپر بیان فرمودہ احادیث کی روشنی میں آ نحضورﷺ کی صحبت نصیب ہو۔

اور آ نحضور ﷺ کی یہ دُعا حرز جان بنانی چایئے ۔ اللھم انی اعوذبک من علم لا ینفعُ۔

(مسلم کتاب الذکر و الدعاء)

کہ اے اللہ ! میں اس علم سے تیری پناہ میں آتا ہوں جو مجھے فائدہ نہ دے۔ آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مئی 2021