• 26 اپریل, 2024

تعارف کتب معجزاتُ القرآن

تعارف کتب
نام کتاب: معجزاتُ القرآن
(مصنف: حضرت مولانا ظفر محمد ظفرؔ سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ سن اشاعت: 2017ء:248)

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک زندہ و جاوید معجزہ ہے۔ یہ ایک ایسی کامل اور علوم الغیب سے پُر کتا ب ہے جس میں نہ صرف قیامت تک بلکہ اگلے جہان کے علوم بھی اس میں بیان فرمادیئے گئے ہیں۔ اور یہ ایسا معجز ہ ہے جو کسی اور نبی کو نہیں ملا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ وہ اول مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہوگا۔ اس کے فیوض و برکات کا در ہمیشہ جاری ہے۔ اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت ﷺ کے وقت تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد2، صفحہ40۔2003ء ایڈیشن)

قرآن کریم کی بعض آیات بہت سادہ فہم ہیں اور بعض دقیق و عمیق علوم اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ ان دقیق آیات میں حروف ِ مقطعات بھی شامل ہیں۔ جن پر ابھی تک بہت کم لکھا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بعض قرآنی علوم اپنے وقت پر کھلتے ہیں۔ اور حروفِ مقطعات کے اسرار کھلنے کا وقت حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ سے مختص ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نےفرمایا ہے:
’’رسول کریم ﷺ کے وقت تو قرآن کریم کے متن یعنی مفصل حصہ کی توضیح ہوئی ہے اور دوسرے حصہ مجمل یعنی مقطعات کی توضیح ہمارے زمانہ میں ہوگی۔‘‘

(سیرة المہدی حصہ پنجم صفحہ 193 روایت نمبر 1294 تالیف لطیف حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے)

حضرت مولانا ظفر محمد ظفرؔ صاحب کی کتاب ’’معجزاتُ القرآن‘‘ اس دوسرے حصہ مجمل یعنی مقطعات کی منفرد و جدید تحقیق پر مشتمل ہے۔ حضرت مولانا ظفر محمد ظفرؔ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت حافظ فتح محمد خان ؓ صاحب مندرانی کے فرزند تھے۔ آپ ایک نیک بزرگ وجود تھےجو قرآن ِکریم سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بچپن سے ہی آپ کے دل میں قرآنی علوم کی محبت ڈال دی تھی۔چنانچہ ان کے بچپن کے بارے لکھا ہے کہ ’’بچپن میں ۔۔۔۔ خواب میں دیکھا تھا کہ قرآن شریف سورة فاتحہ سے والناس تک میرے سینہ میں چمک رہا ہے۔‘‘

(الفضل 29 جولائی 1982ء)

حضرت مولانا ظفر محمد ظفر ؔصاحب کی کتاب معجزات القرآن اس بات کا زندہ ثبوت ہے۔ آپ نے اپنی اس نادر کتاب میں حروفِ مقطعات پر بہت کچھ لکھا ہے۔ اور خصوصی طور پر حسابِ ابجد کی روشنی میں بہت دقیق نکات نکالے ہیں۔حسابِ ابجد بذاتِ خود ایک نایاب اور پُر اسرار سا علم ہے۔ مگر آ پ نے ان دونوں علوم کو یکجا کرتے ہوئے بہت گہرے اور باریک مضامین لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے مختلف قرآنی آیات ومضامین کے معارف و دقیق نکات بھی نکالے ہیں۔ آپ کی کتاب معجزات القرآن چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ اب ان ابواب کا مختصرتعارف پیشِ خدمت ہے۔

باب اوّل میں ایسے علمی نکات پیش کئے گئے ہیں جو بعد میں آنے والے حصہ کو سمجھنے کے لئے بہت ضروری ہیں۔ ان علوم میں آپ نے بتایا ہے کہ ’’حروفِ مقطعات کا ماخذ سورة فاتحہ ہے۔‘‘ یہ ایک ایسی بات ہے جس کا تفصیلی ذکر بعد کے ابواب میں آتا ہے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ ’’حروف مقطعات سورة فاتحہ کی جو اُم الکتاب بھی کہلاتی ہے بیٹیاں ہیں اور سارا قرآن شریف انہیں کے اشارے کے مطابق چل رہا ہے جب یہ کسی سورت کا کسی معین زمانے سے لگاؤ دکھاتی ہیں تو کتاب مکنون کے چہرے پر جو زمانے کا پردہ پڑا ہوا ہے وہ پردہ اُٹھ جاتا ہے۔ اور خداتعالیٰ کے قول و فعل میں مطابقت پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘

(معجزات القرآن۔ صفحہ39)

اسی طرح آپ نے اس باب میں اسلام کی دو ترقیات کے زمانوں کا ذکر کیا ہے ۔ جس طرح آنحضورﷺ کے دونام ’محمد‘ اور ’احمد‘ ہیں اسی اسلام کے دو قسم کے دور ہونگے۔ ایک جلالی دور ہو گا اور ایک جمالی دور ہوگا۔ نام ‘محمدؐ ’جلالی شان رکھتا ہے اور ’احمد‘ جمالی شان رکھتا ہے۔ جلالی دور میں ظاہری جنگ و جدال کے ذریعہ اسلام کا دفاع کیا جائے گا اور جمالی دور میں صرف روحانی اور علمی جنگ کے ذریعہ اسلام کا دفاع کیا جائے گا۔چنانچہ آپ نے اس کی مزید تشریح مختلف آیات کے ذریعہ مختلف زاویوں سے کی ہے۔

پھر اسی باب میں آپ نے بتایا ہے کہ کس طرح قرآن کریم ایک زندہ معجزہ ہے۔ اور آپ اس کتاب میں قرآن کریم کے تین ایسے معجزات پیش کریں گے جو اس زمانے میں ظہور پذیر ہوئے۔ 1۔ قرآن کریم کے حروف اور ان کے اعداد۔ 2۔ قرآن کریم کے واقعات کے ذریعہ پیشگوئیوں کا بیان کیا جانا۔ 3۔ قرآن شریف کی غیب کی خبروں میں جدید تحقیقات اور ایجادات کا بیان ہونا۔

اسی طرح اس باب میں حسابِ ابجدکا تعارف بھی کروایا ہے اور اس کے کچھ اصول بیان فرمائے ہیں جس کے بنیادی علم کے بغیر اس کتاب کو سمجھنا مشکل ہے۔

دوسرے باب میں قرآنی مقطعات اور سورة فاتحہ کے حیرت انگیز تعلق کے بارے تفصیل سے لکھا ہے۔ آپ نے یہ موقف پیش کیاکہ سورةالفاتحہ حروفِ مقطعات کو سمجھنے اور حل کرنے کی کنجی ہے۔ چنانچہ آپ نے حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے حوالہ جات بھی پیش کئے ہیں جس میں ان دونوں بزرگ نے یہی فرمایا ہے کہ قرآنی مقطعات سورةالفاتحہ کے ٹکڑے ہیں یا سورةالفاتحہ حروفِ مقطعات کا ماخذ ہے۔

اس باب کا آغاز آنحضورﷺ کی مشہور حدیث سے ہوا جس میں یہودی علماء نے حروفِ مقطعات کے اعداد نکالے اور اس سے یہ نتیجہ نکالنا چاہا کہ آپ ﷺ کی امت کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ مگر جب آنحضورﷺ مزید مقطعات بتاتے گئے تو وہ شرمندہ ہوکر چلے گئے۔ کیونکہ ان یہود ی علماء کے مطابق ہی آنحضورﷺ کی امت کی عمر بڑھتی جا رہی تھی۔

چنانچہ حضرت مولاناظفر صاحب نے مقطعات کے ذریعہ امتِ محمدیہ کی مجموعی عمر پر تحقیق کی۔ اس کے علاوہ اسلام کی نشأةِ اولیٰ اور نشأةِ ثانیہ کے بارے بھی دلچسپ اور حیرت انگیز نکات پیش کئےہیں اور اس کی تطبیق سورة الفاتحہ اور دیگر آیات سے کی ہے۔ آپ نے سورةالفاتحہ، حروفِ مقطعات اور سورة العصر سے دنیا کے اس دور کی عمر نکالی۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے وقتِ ظہور، سن پیدائش، سن تاسیس اور سن وصال حسابِ ابجد اور حروف مقطعات کے ذریعہ بھی ثابت کیا جس سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت پر ایک نئی دلیل حروفِ مقطعات کے ذریعہ قائم ہوتی ہے۔

معجزاتُ القرآن کے تیسرے باب میں حضرت مولانا ظفر صاحب نے انبیاء علیہ السلام کے نام اور ان کے اعداد کے ذریعہ پُر معارف نکات سے پردہ اُٹھایا۔ اس باب میں بھی آنحضورﷺ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت پر نئے انداز سے روشنی ڈالی ہے۔

اسی طرح چوتھے باب میں قرآن کریم میں بیان فرمودہ مختلف واقعات میں چھپی پیشگوئیوں کا ذکر کیا ہے۔وہ تمام واقعات جن کا تعلق اگرچہ ماضی سے ہے مگر اس میں کوئی نہ کوئی مستقبل سے متعلق پیش گوئی مضمر ہے۔چنانچہ آپ مختلف قرآنی سورتوں میں بیان شدہ مختلف واقعات اور اس کا امتِ محمدیہ اور جماعت احمدیہ سے متعلق مختلف پیش گوئیوں کا ذکر کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے اور اس میں ہمیشہ کے لئے پیشگوئیاں درج ہیں۔ اور یہ ایک ایسا علمی معجزہ ہے جس کی نظیر کسی اور نبی کو نہیں دی گئی۔

پھر اس باب میں آپ نے سورة مریم کی منتخب آیات کی تفسیر بھی لکھی جس میں خصوصیت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے قبل زمانہ پر مشتمل پیشگوئیاں کھول کر بیان کی ہیں۔ ان کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سورة مریم کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے خصوصیت کے ساتھ تعلق ہے اور یہ سورة مریم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر مزید دلائل و براہین دیتے ہیں اور احمدیت کی حقانیت ثابت کرتے ہیں ۔

اس کے بعد سورة طٰہٰ کی بعض آیات کی تفسیر کرتے ہیں۔ حساب ابجد کے مطابق طٰہٰ کے اعداد14 بنتے ہیں۔ اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صدی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس سورة میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر آیا ہے جن کے مثیل آنحضورﷺ تھے۔ ان کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کی پہلی تین صدیوں یعنی چودھویں، پندرھویں اور سولھویں صدی کی طرف اشارہ ہے جو ’’وادی مقدس طویٰ‘‘ میں مستتر ہے۔

اس کے علاوہ سورة طٰہٰ میں بنی اسرائیل قوم کے بچھڑے کی عبادت کا ہندو قوم کی رسوم کے ساتھ ایک دلچسپ مماثلت پیش کی ہے ۔ اور یہ بتایا ہے کہ ہندو قوم دراصل مصر سے آئی تھی اور گو سالے کی عبادت سامری تعلیم کے ماتحت کرتی چلی آ رہی ہے۔

آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور کے بارے مزید نشانیوں کا ذکر فرمایا ہے جو سورة طٰہٰ میں مذکور ہیں۔

باب پنجم میں دورِ حاضر میں ہونے والی جدید تحقیقات اور دریافتوں پر تحریر فرمایا ہے ۔ اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ جدید علوم جسے سائنس اب دریافت کر رہی ہے قرآن کریم میں چودہ سو سال قبل بیان فرما دیئے گئے ہیں۔ ان دریافتوں میں زمین سے متعلق مختلف سائنسی علوم کے بارے لکھا ہے۔ جیسے زمینی گردش، کشش ثقل وغیرہ۔

اسی طرح حال میں ہونے والی حیریت انگیز ایجادات کے بارے میں بھی قرآن کریم سے مخفی پیشگوئیوں سے پردہ اٹھایا ہےجن میں جدید سواریاں، ٹیپ ریکارڈر، ائیر کنڈیشن شامل ہیں۔ اور یہ ثابت کیا ہے قرآنی علوم ہمیشہ سائنسی ایجادات اور سائنسی دریافت سے مقدم رہیں گے۔

باب ششم متفرق مضامین پر مشتمل ہیں جس میں یأجوج مأجوج پر قرآن کریم اور بائبل کے حوالہ جات کے ساتھ تفصیلی مضمون لکھا ہے۔ اسی طرح ان کا آخری انجام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے منسلک ہے اس پر بھی تحریر فرمایا ہے۔اور بائبل کے حوالہ جات سے ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ جس ملک میں آئیں گے وہ ہندوستان کا علاقہ پنجاب ہے۔

اسی طرح آپ نے قرآن کریم کی ترتیب کو سمجھنے کے لئے آٹھ طریق بیان فرمائے ہیں جن کو استعمال کرنے سے ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق قرآن کریم کے علمی سمندر میں غوطہ زن ہو کر علمی جوہر تلاش کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے آٹھ سورتوں کے درمیان مضامین کے ربط کے بارے تحریر فرمایا اور اس مثال سے ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم کے مضامین میں ایک ترتیب پائی جاتی ہے۔

آخری مضمون عربی زبان کی بعض امتیازی خصوصیات پر مشتمل ہے۔ جس میں آپ نے بہت ہی دلچسپ حقائق بیان فرمائے ہیں۔ اور عربی زبان اور طب کا باطنی تعلق پر روشنی ڈالی ہے،جس سے عربی زبان پر تحقیق کے لئے ایک نئے زاویے سے دروازہ کھولا ہے۔ اور یہ عربی زبان کے الہامی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

حضرت مولانا ظفر محمد ظفرؔ صاحب کی کتاب معجزات القرآن ایک جداگانہ کتاب ہے جو قرآن کریم کے حروفِ مقطعات کی ایک منفرد تفسیر پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ حسابِ ابجد اور حروفِ مقطعات کے ساتھ ایک گہرےتعلق سے پردہ اٹھاتی ہے۔ اس طرح مستقبل کے لئے مزید تحقیق کا دروازہ بھی کھولتی ہے۔ اور یہ کتاب مزید تحقیق کے لئے بھی بہت مفید ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ ۔

دعا ہے کہ حضرت مولانا ظفر محمد ظفرؔ صاحب کی علمی کاوش سے انسانیت کو فائدہ ہو اور قرآنی علوم کے سمجھنے اور تحقیق کو آگے بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہو۔ اسی طرح اس ایڈیشن کی اشاعت کرنے والے تمام احباب خصوصاً حضرت مولانا ظفر محمد صاحب کے بیٹے مکرم طاہر احمد ظفر صاحب اور پوتے مکرم آصف احمد ظفر صاحب کے لئے بھی دعا گو ہیں جن کی محنت سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو دنیا و آخرت میں اجر عطا فرمائےاور اپنے فضلوں کا وارث بنائے۔ آمین اللھم آمین

(مقصود احمد منصور مبلغ سلسلہ گیاناؔ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مئی 2021