• 25 اپریل, 2024

رمضان میں خصوصیت سے لقاء حاصل کرنے کی دعائیں کریں

خداسے لقاء کی تیاری

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
’’حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ایک بار کسی نے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ ؐ! قیامت کب ہوگی۔ تو آپ نے جواباً فرمایا۔ تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے۔ بہت ہی پیا را اوربہت پر حکمت جواب ہے۔ کب سے انسان کو غرض نہیں ہونی چاہئے۔ تیاری ہمیشہ رہنی چاہئے۔ پس گزشتہ جمعہ میں میں نے اللہ تعالیٰ سے لقاءکے متعلق جو دعاؤں کی تحریک کی تھی۔ اس کے تعلق میں مجھے خیال آیا کہ تیاری کے سلسلے میں بھی یہ باتیں آج آپ کے سامنے رکھوں۔ کیونکہ قیامت کی تیاری در حقیقت لقاء کی تیاری ہے۔ اور دونوں ایک ہی مضمون ہیں۔ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جب فرمایا کہ قیامت کی کیا تیاری کی ہے تو بلاشبہ اس سے مراد یہ تھی کہ قیامت میں تو خداسے لقاء ہوگی یعنی وہ لقاء جو ایک نہ ایک رنگ میں ہر ایک کو نصیب ہوگی۔ اس کے سامنے پیش ہونا ہو گا۔ ان معنوں میں لقاء۔ پس جب پیش ہو گے تو اس کے لئے کیا تیاری ہے۔ اور مراد درحقیقت یہ تھی کہ اصل لقاءجو تعلق اور محبت کی لقاء ہوا کرتی ہے، اس کے لئے اگر تم نے اس دنیا میں تیاری نہ کی تو قیامت کا تمہیں کوئی بھی فائدہ نہیں ہو گا۔ پس اس پہلو سے ہمیں خدا تعالیٰ کی لقاء کے مضمون کو سمجھنا بھی چاہیے اور اس کے لئے ہمہ وقت تیاری بھی کرنی چاہئے۔‘‘

خدا کی لقاء ایک لامتناہی سفرہے

’’اس ضمن میں پہلی بات تو یہ آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں کہ لقاء کسی ایسے ایک لمحے کی ملاقات کا نام نہیں جو اچانک نصیب ہو جاتا ہے اور جس طرح آپ ایک ایسے دوست سے ملتے ہیں اور پھر اس سے جدا ہو جاتے ہیں اور اس کی خوشیاں دل میں لئے پھرتے ہیں ،خدا سے بھی گویا اسی قسم کی کوئی ملاقات ہوگی۔ لقاء کا مضمون جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑنے مختلف ملفوظات اور کتب میں بہت کھول کر بیان فرمایا ہے، عام انسانی ملاقات سے مختلف حیثیت رکھتا ہے۔ یہ لقاء ایسی ہے جس میں جس حصے کی لقاء نصیب ہو جائے وہ پھر مستقل لقاء رہتی ہے اور اگلے کی طلب پیدا ہو جاتی ہے۔ خداتعالیٰ کی لقاءدنیا میں بیک وقت کسی کو نصیب نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ لامحدود ہے اور انسان محدود ہے۔ اور محدود انسان لامحدود میں سفر کر سکتا ہے لیکن اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ پس لقاء باری تعالیٰ کا مضمون خدا کی ذات میں سفر کرنے کا مضمون ہے اور جو قدم آگے بڑھایا جا تا ہے پھر اس میں واپسی نہیں ہوا کرتی۔ جتنا حصہ خدا کا پالیا۔ یہ تو نہیں ہوا کرتا کہ پھر اس کے بعد خدا کے احاطے میں سے باہر نکل جائیں اورکہیں یہ لقاء ہو گئی۔ اب ایک دو سری لقاء کی کوشش کرتا ہوں بلکہ ایک سفر ہے جو لامتناہی ہے تبھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ایک دفعہ جب ایک کھوکھلے فلسفی نے سوال کیا کہ اگر کوئی انسان سمندر میں کشتی پر سفر کر رہا ہو اور کنارہ آجائے اور پھر بھی کشتی میں بیٹھا رہے تو اس کے متعلق آپ کیا خیال کریں گے جیسا کہ میں نے پہلے بھی یہ واقعہ بیان کیا ہے۔ بڑا دلچسپ ہے۔ مطلب یہ تھا کہ عبادتیں کرتے ہو اس غرض سے کہ خدا مل جائے لیکن اگر خدا مل جائے اور پھر کشتی میں ہی بیٹھے رہو تو بڑی بے وقوفی ہوگی۔ تو آپ نے فرمایا کہ اگر تو کوئی کنارے والا سمندر ہو تو کشتی میں بیٹھے رہنا بہت بے وقوفی ہے لیکن اگر کوئی سمندر بے کنارہ ہو تو کسی مقام کو کنارا سمجھ کر وہاں جو اترے گا ،وہ وہیں ہلاک ہو جائے گا۔‘‘

’’پس خدا تعالیٰ کی لقاء کا مضمون دراصل یہی ایک لا متناہی سفر ہے اور اس سفر میں کوئی واپسی نہیں ہے کوئی قدم پیچھے اٹھنے والا نہیں ہے کیونکہ اگر اس سفر میں واپسی شروع ہو جائے تو وہ بہت ہی زیادہ خطرناک بات ہے۔ خدا کو پانے کے بعد اس سے بے وفائی کرنا اور اس سے منہ موڑنا ہلا کت کو دعوت دینے والی بات ہے۔ پس ایسى لقاء جو مسلسل بڑھتی چلی جائے اس کو لقائے باری تعالیٰ کہتے ہیں اور جو اس دنیا میں نصیب ہونی شروع ہو جائے پھر قیامت کے دن اس لقاء کا ایک ظاہری نظارہ بھی دکھائی دے گا۔ تو کیا ہوگا ہم اس کا تصور نہیں باندھ سکتے۔ مگر ہر شخص کی لقاء کی حیثیت اور توفیق اس دنیا میں طے ہوگی اور جتنی لقاء اس دنیا میں کسی کو نصیب ہوئی ہے، اس سے ممکن ہے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ اس میں روشنی پیدا ہوجائے اور اس لقاء کی جزاء یہ ہو کہ خدا ایسے دکھائی دینے لگے گویا ہماری آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو گیا ہے مگر اس کے باوجود ہر شخص کی لقاء الگ الگ ہے۔ چنانچہ اس گڈریے کی القاء اور تھی جو خدا تعالیٰ سے اپنے رنگ میں پیار سے باتیں کر رہا تھا کہ تو مجھے ملے تو میں تیری جو ئیں ماروں، تیرے کپڑے دھوؤں، کانٹے نکالوں اور موسیٰ کی لقاء اور تھی، موسیٰ کو خدا تعالیٰ نے کلیم اللہ کا لقب عطا فرمایا۔ اور لقاء کے تعلق میں حضرت موسٰی علیہ الصلوة والسلام کا ایک خاص مقام تھا مگر وہ مقام محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کی لقاء کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ پس وہ سفر جو ایک گڈریے کی لقاء سے شروع ہوتا ہے، وہ طور پر جاکر ختم نہیں ہوتا بلکہ طور کے بعد مقام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و سلم آتاہے یعنی محمد مصطفیٰؐ کا قلب جس پر خدا جلوہ گر ہوا تو انسانی بقاء کا مضمون کامل ہوا۔ لیکن یہ مطلب نہیں کہ خدا محدود ہو گیا۔ مراد صرف یہ ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے جتنی توفیق عطا فرمائی ہے، جتنی استطاعت بخشی ہے، اس کی آخری حد تک خدا تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو پہنچنے کی توفیق بخشی لیکن ساتھ ہی معراج میں یہ بات ظاہر فرمادی کہ وہ حد آپ کی آخری حد تھی۔ خدا کی آخری حد نہیں تھی بلکہ خدا کی حدود کا آغاز تھا۔یہاں وہ تمثیلی ہی کی ہوگی۔جو انسان کی حد کو خدا کی حدوں سے جدا کرتی ہے۔ وہاں تک پہنچنا انسان کامل کا کام تھا لیکن یہ مراد نہیں کہ اس کے بعد خدا ختم ہوجاتا ہے۔ خدا تو ایک لامتناہی ہستی ہے اور پھر اپنے فضل سے اس نے کس حد تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اپنے اندر سفر کی توفیق بخشی۔ یہ ایک عام انسان خواہ وہ کیساہی نیک اور بزرگ اور فلسفی کیوں نہ ہو، سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ یہ ایسی باتیں ہی جن کا تصور تجربے کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتا۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں جو تجربے کے بغیر بھی سوچی جا سکتی ہیں۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جو بغیر تجربے کے نصیب نہیں ہو سکتیں …… پس اگر حضرت محمد مصطفی ٰ صلی الله علیہ وعلی آلہ وسلم بھی عام انسانوں کو مکمل طور پر دکھائی نہیں دے سکتے تو خدا تعالیٰ کے متعلق یہ تصور کر لینا کہ اس کی لقاء آناً فاناً ایک جلوے کی صورت میں ظاہر ہو اور وہی اس کا منتہی بن جائے یہ ناممکن بات ہے یہ بے وقوفی والی بات ہے۔ پس اس پہلو سے لقاء کے مضمون کو اپنی توفیق کے مطابق سمجھنے اور اپنی توفیق کے مطابق اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ……‘‘

جماعت احمدیہ میں اصلاح بہت آسان ہے

’’پس یہ جو مضمون ہے اس کو سمجھتے ہوئے رمضان شریف میں اپنے اوپر غور کریں۔ بعض دفعہ خدمت سلسلہ کرنے والے جو خط لکھتے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بہت ہی اصلاح کی گنجائش ہے اور بہت تکلیف دہ حالت ہے۔ میں نے ایک لمبا سلسلہ خطبات کا شروع کیا تھا، مختلف اخلاق پر زور دینے کے لئے مالی لین دین، بیویوں سے سلوک، خاوندوں سے سلوک، دوستوں سے گفتگو میں، طرز تکلم میں اصلاح وغیرہ وغیرہ- وہ اگلی صدی میں داخل ہونے کا بہانہ سامنے رکھ کرتاکہ اس طرح جماعت میں ایک ولولہ پیدا ہو، جوش پیدا ہو، میں نے وہ باتیں بیان کیں لیکن حقیقت میں تو ان باتوں کا صدیوں سے تعلق نہیں تھا وہ ایک دائمی اہمیت دائمی حیثیت کی باتیں ہیں۔ حقیقت میں ان باتوں کا صدیوں سے نہیں بلکہ ہر آنے والے لمحے سے تعلق ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کی وہ لقاء جو زبردستی کی لقاء ہوگی ،ہمارا اس میں اختیار نہیں۔ ہم نے بہرحال لوٹ کے اس کے پاس جانا ہے۔ وہ تو صدیوں کا انتظار نہیں کیا کرتی۔ اس میں تو لمحے لمحے کی بھی ہمیں خبر نہیں کہ اب ہوگی یا اگلے لمحے ہوگی۔ پس وہ ساری باتیں ایسی ہیں جن کالمحات سے تعلق ہے اور ہر آنے والے لمحے سے تعلق ہے۔ ان باتوں میں اصلاح کریں اور پھر دیکھیں کہ آپ کے لئے اللہ تعالیٰ کی لقاء زیادہ آسان ہونی شروع ہو جائے گی اور بعض دفعہ اخلاق کی ترقی کے ساتھ انسان جزوی طور پر خدا کو اس طرح پانا شروع کردیتا ہے کہ اس کو پھر چسکا پڑ جاتا ہے۔ پھر وہ آگے بڑھتا چلا جا تا ہے۔ پھر اور آگے بڑھتا چلا جاتا اور جو لقاء لطف ہے وہی اگلے قدموں کے لئے غذا بن جاتا ہے لیکن اگر وہ لطف ہی نصیب نہ ہوا ہو تو اگلے قدم کے لئے طاقت نہیں ہوتی بلکہ قدم واپس مڑتے ہیں اور دنیاوی مادی لذتوں جھکتے ہیں اور انسان دن بدن اپنے ذوق میں زیادہ سفلہ پن محسوس کرنے لگتا ہے لیکن ایسے بھی ہیں جو کوئی محسوس نہیں کرتے۔ ان کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ پس خدا کی طرف سفر کے لئے ذوق کا لطیف تر ہوتے چلے جانا نہایت ضروری ہے۔ پس اپنے ماحول میں اپنے بچوں سے گفت و شنید میں اعلیٰ ذوق کا مظاہرہ کریں۔اپنی بیویوں سے گفت و شنید میں اعلیٰ ذوق کا مظاہرہ کریں۔ بیویاں خاوندوں سے گفت و شنید میں اعلیٰ ذوق کا مظاہرہ کریں۔بھائی بہنوں سے،دوستوں سے بے تکلفی کے باوجود ایک اخلاق کا پاس ضرور رکھا کریں۔ کیونکہ وہ بے تکلفی جو بد تمیزی پرمنتج ہو جائے، وہ بے تکلفی جس سے کلام میں بد خلقی پیدا ہو، وہ بے تکلفی حقیقت میں ایک مہلک زہر ہے۔ وہ دوستیوں کو تباہ کرنے والی بے تکلفی ہوا کرتی ہے، دوستیوں کو بڑھانے والی نہیں ہوا کرتی اور ہمارے ملک میں خصوصیت سے یعنی پاکستان اور ہندوستان میں بھی اب یہ کثرت سے رواج ہو رہا ہے کہ بے تکلفی اور دوستی کا اظہار گندی گالیوں سے کرنا ہے۔ اور یہ گندی گالیاں پھر آہستہ آہستہ ایسی عادت بن جاتی ہیں کہ اس میں انسان کو شعورہی نہیں رہتا کہ میں کہہ کیا رہا ہوں اور کرکیا رہا ہوں۔ہمارے ایک خادم سلسلہ نے خدام الاحمدیہ کے اصلاحی دوروں کے سلسلہ میں حیدر آباد ڈویژن کا اور بعض دوسرے علاقوں کا سفر کیا تو ان کا بڑا تکلیف دہ خط موصول ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ماحول کو تو میں جانتا ہی ہوں۔ کیا حال ہو چکا ہے مجھے تعجب ہوا کہ بعض دیہاتی احمدی جماعتوں میں بھی زبان کی صفائی کا خیال نہیں ہے۔ وہ عام روز مرہ گالیاں دینے لگ گئے ہیں محاورے کے طور پر ہل چلا رہے ہیں تو اور کچھ نہیں بیل کوہی گالیاں دیتے جاتے ہیں۔ کسی قدر بیوقوفی ہے۔ کہتے ہیں ایک فرق میں نے ضرور دیکھا کہ اگر باقی معاشرے کی اصلاح کے لئے میں عمربھی وقف کردیتا تو کسی نے میری بات نہیں ماننی تھی۔ میں عمر کا چھوٹا ہوں۔ ان سے ناواقف بھی تھا جن کے پاس پہنچا لیکن جب میں نے ان کو سمجھایا کہ تم ہو کون اور تم سے کیا توقعات ہیں تو ہر ایک نے فوری طور پر مثبت ردّعمل دکھایا اور پھر کہتے ہیں کہ میں نے دوروں میں دوبارہ جاکر رابطے کئے تو مجھے یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ وہ محض ایک فرضی ردعمل نہیں بلکہ واقعتًا ان کے اندر تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ پس احمدیت کی مٹی میں یہی تو مزا ہے کہ واقعتاًوه مٹی ہے جو نم ہو تو بہت ذرخیز ہے۔ اس وقت احمدی معاشرے کی اصلاح مشکل نہیں ہے کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نے دلوں میں ایک ایسی نرمی پیدا کردی ہے اور وہ ملائمت پیدا کردی ہے جس کے نتیجے میں جس طرح آپ موم کو جس طرح چاہیں ڈھال لیں یہ مٹی نیکی میں ڈھلنے کے لئے موم کی طرح اثر رکھتی ہے۔ اور بدی میں ڈھلنے کے لئے سخت ہو جاتی ہے۔ بیک وقت اس مٹی میں یہ دو خصوصیات موجود ہیں۔خدا ان خصوصیات کو ہمیشگی کی زندگی دے۔ جس قوم میں یہ خصوصیات پائی جائیں ان کی اصلاح آسان ہو جایا کرتی ہے اور بہت ہی ہوا کے رخ پر چلنے والی بات ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ہاتھوں میں ڈھلنے والی مٹی کی یہ تعریف فرمائی ۔ یہاں جوسختی پائی گئی ہے دراصل کفار کی عادات کے خلاف سختی مراد ہے۔ کفر کے خلاف سختی ہے۔ جہاں تک بدی کا تعلق ہے وہ بدی ان کے اوپر اثر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے اور نامراد رہتی ہے۔ وہ ان کو اپنے رنگ میں ڈھال نہیں سکتی لیکن جہاں ایمان لانے والوں کے اثر قبول کرنے کا معاملہ ہے۔فرمایاوہ نہایت ہی نرم اور بہت ہی تعاون کرنے والے اور جھکنے والے اور ان کے سامنے مٹ جانے والے لوگ ہیں۔ پس جو کوشش بھی آپ جماعت احمدیہ میں اصلاح کی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کاردعمل عام دنیا کے رد عمل کے مقابل پر ایک جداگانہ ردعمل ہے۔ محض باشعور طور پر محنت کی ضرورت ہے۔ پس ہمارے نظام سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی عہدیداران ہیں خواہ وہ خدام الاحمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ لجنہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ انصار سے تعلق رکھتے ہوں اور نظام جماعت کے دوسرے عہدیدار وہ ان باتوں کا خیال کریں اور اس رمضان میں خصوصیت سے ہر جگہ یہ شعور بیدار کریں کہ ہم نے خدا سے لقاء کی دعائیں مانگنی ہیں اور لقاء کی تیاریاں کرنی ہیں اور اس کی لقاء کی خاطر اپنے گھروں کو سنوارنا ہے۔ اپنے صحنوں کو جھاڑو دینے ہیں اور اپنی دیواروں کو دھونا اور صاف کرنا اور اپنے فرشوں کو ما نجھنا ہے۔ جس طرح ایک اچھے مہمان اور پیارے مہمان کی تیاری ہر گھر کرتا ہے خواہ وہ غریب ہو خواہ امیر ہو۔ ہم نے اپنی توفیق کے مطابق اپنے گھر کو خدا کے لئے سنوارناہے تاکہ وہ ایک معزز مہمان کی طرح یہاں نازل ہو۔کئی دفعہ اگروقت نہ بھی ہو اور پتہ چلے کہ کوئی شخص بے چارہ تیاری کر کے بیٹھا ہوا ہے تو انسان مجبوراً بھی وہاں چلا جاتا ہے۔ میں نے سفروں کے دوران دیکھا ہے۔ وقف جدید انصاراللہ خدام الاحمدیہ کے دوران میں نے پنجاب میں بڑے سفر کئے ہیں بعض دفعہ ہمارے دورے میں ایک گاؤں نہیں ہوا کرتا تھا اور ان کو پتہ ہوتا تھا کہ یہ دورے میں شامل نہیں ہے۔ گاؤں والے پہنچ جاتے تھے۔ کہتے تھے کہ جی ہم تو تیاری کر کے بیٹھے ہیں۔ کیا کریں؟ اس میں محبت کا ایسا ایسا جذبہ پایا جاتا ہے کہ دوسرے کو بے اختیار کر دیتا ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو جی تیار بیٹھے ہیں تو پھر انسان کیسے کہہ دہے۔ اچھا تیار بیٹھے رہو۔ ہم نہیں آسکتے۔ مجبوراً وقت نکالنا ہی پڑتا ہے۔ کچھ وہاں سے پھر وقت کھینچا۔ کچھ کہیں سے کھینچ کے لمبا کیا۔ بہرحال وقت دینا پڑتا ہے تو اگر انسان میں ایسا جذبہ ہے احسان مندی کا تو خدا تعالیٰ نے تو ہمیں احسان سکھایا ہے۔ وہ ہمارے احسان کا بھی خالق ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ آپ خدا کے لئے کچھ تیاری کریں اور خدا کی طرف سے کوراسا جواب مل جائے کہ میرے پاس تمہارے لئے وقت نہیں ہے کہ تم پوری طرح صاف نہیں ہوئے۔ پس صاف ہونے کی کوشش شروع کردیں۔ پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح آپ پر اپنی رحمت کا جلوہ دکھاتا ہے۔ وہ جھکا کرتا ہے۔ آپ میں اٹھنے کی طاقت نہیں ہے۔ پس آپ لقائے باری تعالیٰ کی تیاری کریں اس طرح تفصیل سے اس مضمون کو سمجھنے کے بعد کچھ نہ کچھ ضرور شروع کر دیں اور آج کے بعد جب رمضان ختم ہو تو دیکھیں کہ آپ نے کتنا خدا کی ذات میں سفر کیاہے۔ وہی سفر سفر ہو گا جو رمضان کے بعد بھی جاری رہے گا۔ وہ سفرجہاں آپ پھسل کر واپس آجائیں وہ سفر سفر نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوششوں میں انسان پھسلتا رہے لیکن جب ایک مقام کو حاصل کرلیتا ہے تو پھر اس کے بعد پھسلنا نہیں ہونا چاہئے۔

ہم نے کئی دفعہ بچپن میں ایسے POLES پر چڑھنے کی کوشش کی جس میں انسان پھسل جاتا ہے۔ بعض درختوں پر انسان چڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور پھسل جاتاہے کیڑیاں بھی دیواروں پر چڑھتی ہیں اور پھسل جاتی ہیں لیکن اگر انسان عزم جاری رکھے تو بار بارپھسلنے کے باوجود پھر ایک موقعہ ایسا نصیب ہوتا ہے جب انسان اس چوٹی کو پالیتا ہے۔جس کی طرف سے وہ حرکت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب اس درخت پر چڑھ کراس چوٹی پر بیٹھتا ہے تو پھر کوئی پھسلینا نہیں ہے۔ پھر اپنی مرضی سے نیچے اتریں تو اتریں۔ ایک اور ہی لطف اس وقت فتح کا محسوس ہو رہا ہوتا ہے کہ ہاں اب میں مقام محفوظ پر پہنچ گیاہوں۔ پس اس لقاء کا جو اس رمضان کے دوران حاصل ہو۔ اس پیمانے پر جانچیں اور دیکھیں کہ آپ نے جو کچھ خدا کا پایا تھا۔رمضان گزرنے کے بعد بھی ہاتھ میں رہا یا نہ رہا۔ اگر نہیں رہا تو پھر میرا آپ کو یہی پیغام ہو سکتا ہے کہ کوشش جار ی رکھیں اور نہیں تو بار بار گرنے والی کیڑیوں سے ہی سبق حاصل کریں۔ پھسلیں۔بے شک لیں پھسلیں مگر پھر اس نیت کے ساتھ دوبارہ سفر شروع کریں کہ میں نے ہمت نہیں توڑنی اور ضرور اپنے مقصد کو حاصل کرکے چھوڑنا ہے پھر آپ کے پہلے پھسلنے سے نقصان نہیں ہو گا۔ لیکن اگر پھلسنے کا مطلب یہ ہے کہ اگلے رمضان تک مسلسل خدا سے دور ہی ہٹتے چلے جانا ہے تو پھر یہ لقاء نہیں ہے۔ اس کا جو کچھ اور نام رکھ دیں لیکن اسے آپ لقاء نہیں کہہ سکتے ہیں پس اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو حقیقت میں لقاء کے مضمون کا عرفان عطا فرمائے اور اس مضمون کو سمجھنے کے بعد لقائے باری تعالیٰ نصیب کرے۔ سب سے بڑی دنیا کی طاقت ہی مذہبی قوموں میں لقاء سے حاصل ہوا کرتی ہے۔ اتنا بڑا کام ہے ہمارے سپرد اتنے بڑے انقلابات ہم نے برپا کرنے ہیں کہ لقاء کے بغیر ناممکن ہے کہ ہم اس کام کو سرانجام دے سکیں۔ پس اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ جتنے زیادہ صاحب لقاء جماعت احمدیہ کو نصیب ہوں گے اتنے ہی جلدی بڑے بڑے عظیم الشان انقلاب دنیا میں برپا کرنے کی ہمیں توفیق عطا ہوگی۔ اللہ کرے کہ جلد تر ہمیں یہ توفیق نصیب ہو۔‘‘

(انصاراللہ ربوہ مارچ 1992)

(اقتباسات از خطبہ فرموده مطبوعہ 30مارچ 1991ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مئی 2021