راہیان دربار خلافت
مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی، مکرم صدیق دُمبیا صاحب اور مکرم عبدالرحمان کناتے صاحب کا سفرِ پاکستان
جسمی یطیر الیک من شوق علا
میرا جسم تو شوق غالب سے تیری جانب پرواز کرنا چاہتا ہے
تاریخ مذاہب کی اگر ورق گردانی کی جائے تواس کے ابواب عشق و وفا کی عظیم داستانوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں عاشقوں اور وفا شعاروں نےاپنے محبوبین کی محبت اور ان کی ایک جھلک کی خاطر اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر رکھ کر ہزاروں کوس کےا سفارطے کئے۔ ان اسفارمیں کہیں وہ پیادہ نظر آئے اور کہیں انہوں نے قید و بندکی صعوبتوں کو برداشت کیا،کہیں فاقہ کشیوں نے ان کا استقبال کیا تو کہیں درندوں نے انہیں زخمی کیااورکہیں جوتوں کی جگہ بوسیدہ کپڑے پاؤں پر باندھ کر ان راہیان عشق و وفا نے اپنی منزل کی جانب سفرکو جاری رکھا۔ ایسا ہی ایک سفر خلافت احمدیہ سے سچی محبت اور خلیفۃ المسیح کے دیدار کی خاطر مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی، مکرم صدیق دُمبیا صاحب اورمکرم عبدالرحمان کناتے صاحب نے افریقہ سے پاکستان تک کا کیا۔
یہ وہ عظیم الشان سفرتھاجوجہاں اللہ تعالیٰ کے زندہ معجزات اور نشانات کا شاہد ہے وہاں یہ آنحضورﷺ کی اس حدیث مبارکہ کی عملی تفسیر ہے جس میں آنحضور ﷺنے فرما یا کہ مسیح کو میرا سلام کہنا اور اس کی بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے پہاڑوں پر گھٹنوں کے بل جانا پڑے۔
آئیوری کو سٹ میں بیعت کرنے کے بعد مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی کی دوستی دو احمدی اساتذہ مکرم صدیق دُمبیا صاحب اور مکرم عبد الرحمان کناتے صاحب سے ہو گئی۔ ایک روز مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی نے دربار خلافت احمدیہ پر حاضری دینے اور زیارت خلیفۃ المہدی کی شدید خواہش کا اظہار کیا۔ آپ کے دونوں ساتھی جو کہ اسی قسم کی خواہش رکھتے تھے فوراًاس کے لئے آمادہ ہو گئے ۔
کچھ عرصہ بعد رمضان المبارک کارحمتوں اوربرکتوں والا مہینہ شروع ہو گیا۔ اس مہینہ میں مکرم عمر معاذصاحب کولیبالی اور آپ کے ساتھیوں نے دل گدازی سےدعائیں کیں اور استخارہ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کی اور ان دعاؤں میں خاص طور پراللہ تعالیٰ سے راستہ کے اختیار کرنے سے متعلق بھی رہنمائی طلب کرتے رہے۔ رمضان المبارک کے ٓاخرپر اللہ تعالیٰ نے ایک رؤیا کے ذریعہ سے مکرم صدیق دُمبیا صاحب کو آپ تینوں کے سفر سے متعلق رہنمائی کی۔
مکرم صدیق دمبیا صاحب کی مبشر رؤیا
مکرم صدیق دمبیا صاحب نےرؤیا میں دیکھا کہ ان کے سفر کا آغاز آئیوری کوسٹ سے ہوا ۔جس کے بعد وہ گھانا، ٹوگو، بینن، نائیجیریا اور کیمرون کی سرحد پر دریا کو عبور کرتے ہوئے چاڈ میں داخل ہوئے۔ خواب میں چاڈ پہنچنے پر ایک افریقی نوجوان دوست نے ان کا استقبال کیا۔ اس نوجوان نے ان سےمنزل مقصود کے بارہ میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ لیبیا جا رہے ہیں۔رؤیا میں دیکھا کہ اس نوجوان نے مدد کے طور پر دس ہزار فرانک سیفا آپ لوگوں کو دیئے مگر پھر تھوڑی دیر کے بعد ناراض ہونے پر رقم کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔ مکرم صدیق دمبیا صاحب نے جب اپنا خواب مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی اور مکرم عبدالرحمان کناتے صاحب کوبیان کیاتو انہوں نے کہا کہ بہت مبارک خواب ہےاور اس میں سفر سے متعلق رہنمائی بھی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ
کی خدمت میں دعائیہ خط
مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی اور آپ کے دوستوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کواس سفر کے لئے دعائیہ خط لکھا جس میں سفر کا ارادہ اور دعا کی درخواست کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے خط کا بہت خوبصورت جواب بھجوایا جس میں بہت سی دعائیں سفر کے لئے لکھی تھیں اور فرمایا کہ اللہ تعالی ٰ آپ کے سفر کو مبارک کرے اور راستے کی تمام مشکلات آسا ن کر دے۔ خلیفہ وقت کے دعاؤں بھرے خط نے آپ تینوں کے ارادوں میں نئی روح پھونک دی ۔
آپ تینوں نے ایک اندازہ لگایا کہ تقریباً 10 سال کے عرصہ میں پاکستان تک کا سفر طے ہوجائے گا اور اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے جمع پونجی سے ضرورت کی چند اشیاء، کپڑے اور ایک خیمہ خرید لیا۔ صرف یہی تیاری تھی جو کہ آپ تینوں نے اس طویل اور دشوارگزار سفر کے لئے کی تھی۔دعاؤں اور ان چند چیزوں کے علاوہ کوئی بھی رخت سفر آپ لوگوں نے نہ باندھا تھا اور نہ ہی کوئی زاد راہ جمع کیا تھا ۔ جہاں یہ سفر آپ لوگوں کے لئے مشکل اور کٹھن تھا وہیں یہ اللہ تعالیٰ کے آپ سے محبت و پیار کے سلوک کا ثبوت ہے۔
سفر کا آغاز
اس عظیم الشان سفر کا آغاز 20 اگست 1981ء کو ہوا۔ آئیوری کوسٹ سے دعا کے بعد آپ روانہ ہوکر سفر کی پہلی منزل گھانا پہنچے اور مکرم عبدالوہاب بن آدم صاحب امیر و مشنری انچارج گھانا سے شرف ملاقات پایا اس کے بعد ٹوگو کے لئے روانہ ہوئے۔ ٹوگو پہنچنے کے بعد بینن کے لئے روانہ ہوئے مگر سرحد بند ہوجانے کے باعث رات ٹوگو اور بینن کی سرحد پر گذاری۔ اگلے روز بینن کو عبور کرتے ہوئے نائیجیریا کے دارالسلطنت لاگوس پہنچے۔ لاگوس مشن میں دو روز قیام کے بعد کیمرون کے لئے روانہ ہوتے وقت مکرم امیر و مشنری انچارج صاحب نائیجیریا نے دعاؤں کے ساتھ ان راہیان دربار خلافت کو رخصت کیا اور پچاس ہزار نیرے تحفتاً عطا کئے۔ نائیجیریا سے اگلی منزل کیمرون تک کا سفر انتہائی مشکل اور تکلیف دہ تھا بالآخر 24 گھنٹے کے بعداس طویل سفر کا اختتام ہوا اور آپ لوگ کیمرون کی سرحد پر پہنچ گئے۔
مصائب سفر کا آغاز
سفر کے آغاز میں صرف چند مشکلات کا سامنا تھا لیکن کیمرون کی سرحد پر پہنچنے پر مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی اور ان کے ساتھیوں کی مشکلات کا حقیقی طور پر آغاز ہوا۔یہاں پہنچ کر علم ہوا کہ ان کے ساتھی دوست مکرم عبدالرحمان کناتے صاحب کے پاس پاسپورٹ ہی نہیں ہے۔ سرحد پر موجود کمشنر صاحب نے مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی اور مکرم صدیق دُمبیا صاحب کو تو دس ہزار فرانک سیفا فی کس ادائیگی کے بعد کیمرون میں داخلے کی اجازت دے دی لیکن مکرم عبدالرحمان کناتے صاحب کو داخلہ کی اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا بالآخر باقی ساتھیوں کی مداخلت کے نتیجہ میں مزید پندرہ ہزار فرانک سیفا کی ادائیگی کے بعد ان کو بھی اجازت دے دی گئی۔ یوں ان اصحاب نے کیمرون کو عبور کیا اور چاڈ کی سرحد پر پہنچ گئے۔ کیمرون اور چاڈ کی سرحد پر ایک دریا بہتا ہے اور یہی دریا مکرم صدیق دُمبیا صاحب کوسفر سے پہلے خواب میں دکھایا گیا تھا۔ شام کے چھ بج چکے تھے۔ اس مذکورہ دریا کو کشتی کے ذریعہ عبور کر کے چاڈ میں داخل ہو گئے۔
چاڈ میں داخل ہونے پر ایک خیر خواہ سے ملاقات ہوئی۔اس نے مشورہ دیا کہ چونکہ چاڈ اور لیبیا کے درمیان حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں اس لئے کمشنر صاحب کے پاس ویزہ کے لئے جائیں لیکن اپنی منزل مقصود لیبیا کی بجائے مصر بتائیں۔ کمشنر صاحب کے پاس جانے سے قبل مکرم عبد الرحمان کناتے صاحب کو پاسپورٹ نہ ہونے کے باعث ان کے ساتھیوں نے شہر کی جامع مسجد پہنچنے کے لئے کہا اور خود ویزہ کے حصول کے لئے کمشنر صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ کمشنر صاحب نے ویزہ دینے سے انکار کردیاجو کہ اس وقت سخت پریشانی کا باعث بنا۔
کمشنر صاحب کے دفتر کے باہر ان کی ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی یہ وہی نوجوان تھا جو مکرم صدیق دمبیا صاحب کو خواب میں دکھایا گیا تھا۔ اس نوجوان نے جو خود کو مالین ظاہر کرتا تھا انہیں رہائش دلانے کا یقین دلایا ۔کمشنر صاحب کے پاس سے حسب پروگرام جب وہ مکرم عبد الرحمان کناتے صاحب کو جامع مسجد لینے کے لئے پہنچے تو انہیں وہاں نہ پایا اورتلاش بسیار کے باوجود ان کی کوئی خبر نہ ملی۔ مجبوراً اس نوجوان کی پیشکش قبول کرتے ہوئے رات گزارنے کی غرض سے اس نوجوان کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ اگلے روزایک مرتبہ پھر تلاش کا آغاز کیا مگر مکرم عبد الرحمان کناتے صاحب کا کہیں پتہ نہ چل سکا۔حالات کچھ ایسے پیش آئے کہ 20 دن انہیں اسی نوجوان کے گھر گزارنا پڑے۔ ان 20روز کے قیام نے ان کے مادی زاد راہ کو ختم کر ڈالا۔ سخت پریشانی لاحق تھی اور دعا گو تھے کہ اللہ تعالیٰ رہنمائی فرمائے اور اس مصیبت سے نجات بخشے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اوران کے بچھڑے ہوئے ساتھی مکرم عبدالرحمان کناتے صاحب اچانک 20روز بعدان سے بازار میں آملے۔
مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی کی دو خوابیں
مکرم عمر معاذصاحب کولیبالی کو ایک رات خواب میں آواز آئی کہ کامیابی کے خواہاں ہو تو کتے بن جاؤ اور اگلے روز خواب میں دیکھا کہ انہوں نے فوجی وردیاں پہن رکھی ہیں ۔مؤخر الذکر خواب کی تعبیریہ کی کہ انہیں فوج میں بھرتی ہونا پڑے گا۔ اس سلسلے میں ان کا پہلا خیال چاڈ میں موجود لیبیا کے فوجیوں کی طرف گیا چنانچہ لیبیا کے فوجی آفیسر کے ساتھ رابطہ کےلئے ان کےفوجی کیمپ پہنچے۔ فوجی آفیسرنےتفتیش کی غرض سےان تینوں اصحاب سے کئی سوالات کئے جس پر انہوں نے عرض کیا کہ ہم فوج میں بھرتی ہونے کی غرض سے آئے ہیں اورجس محاذ پر چاہے ہمیں بھجوا دیا جائے ۔ہم فلسطین جانے کے لئےبھی تیار ہیں جہاں پر اسرائیل نے انتہائی ظلم اور زیادتی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ آپ کا یہ فقرہ سن کر اس فوجی آفیسر کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے کہا کہ اگر آپ ہوش میں ہیں تو یہ فقرہ دوبارہ دہرائیں۔ آپ نے یہ فقرہ دوبارہ دہرایا۔ اسے پھر بھی یقین نہیں ہوا اس نے کہا کہ اسے یہ فقرہ لکھ دیں۔ چنانچہ آپ تینوں نے یہ عبارت اپنے دستخطوں کے ساتھ لکھ کر دے دی۔ تحریر کے بعد فوجی آفیسر نے انہیں آئندہ اتوار کے روز واپس کیمپ پہنچنے کی ہدایت کی ۔اتوار کے روز حسب ہدایت جب یہ دربار خلافت کے مسافر فوجی کیمپ پہنچے تو فوج میں بھرتی کرنے کے بجائے انہیں جاسوس سمجھ کر قید لیا گیا۔
قید و بند کی صعوبتیں
قید کے یہ ایام انتہائی سخت اور تکلیف دہ تھے۔ آپ تینوں کو باقی قیدیوں کے بر عکس جس کال کوٹھری میں رکھا گیا وہاں ہوا کا کہیں سے بھی گزر نہ تھااور آپ تینوں کا دم گھٹتا تھا۔ کھانے پینے کی اشیاء کو زمین پر پھینکا جاتا تھا جو اس خواب کے عین مطابق تھا کہ کامیابی کے خواہاں ہو تو کتے بن جاؤ۔ قید و بند کے ان ایام میں جب کبھی بھی آپ لوگوں کو مایوسی ہوتی تو حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا دعاؤں بھرا خط پڑھ کر اپنے آپ کو حوصلہ دیتے اور باقی تمام وقت عبادات قرآن کریم کی تلاوت اوراللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری میں گزارتے۔
سال 1981ء کی عید الاضحیہ بھی قید کے دوران ہی آئی اور چلی گئی۔حسب روایت عید الاضحیہ کے موقع پر تمام قیدیوں کو عید منانے کا موقع دیا گیا لیکن انہیں یکسر اس خوشی کے موقع سے محروم رکھا گیا بلکہ عید کے روز پانی تک نہ دیا گیا۔ شام کے وقت عید منانے کے بعد جب دیگر قیدیوں کو لایا گیا تو انہوں نے حفاظتی عملے کے فوجی سے سوال کیا کہ آپ نے سب قیدیوں کو تو عید منانے کا موقع دیا لیکن ان کا کیا قصور ہے کہ انہیں اس سے محروم رکھا۔ حفاظتی عملے کے فوجی نے ان کی استدعا کو جیلر صاحب تک پہنچا دیا۔
مبشر رؤیا اور لیبیا کے دارالحکومت ٹریپولی روانگی
عید کے روز ہونے والے امتیازی سلوک کے بعد آپ تینوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور بہت دعائیں کیں کہ اے اللہ! تو جانتا ہے کہ ہمارا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ تیرے پیارے خلیفۃ المسیح کا دیدار نصیب ہو۔ تو ہی اپنے فضل سے ہمارے لئے نجات کی کوئی راہ نکال۔ اس گریہ و زاری کے بعد جب رات کو آپ تینوں آرام کی غرض سے لیٹے تو مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی کو خواب میں آواز سنائی دی کہ آپ تینوں کی عید کل ہو گی۔
اللہ تعالیٰ کا فضل ہو ا اور 17 روز کی قید و بند کی صعوبتوں کے بعد انہیں فوجی حکام کی طرف سے پیغام ملا کہ ان کو غلط فہمی کی بنیاد پر قید کر دیا گیا تھا۔ اب انہیں فوج میں بھرتی کے ساتھ آزاد کیا جاتا ہے اور انہیں لیبیا کے دارالحکومت ٹریپولی بھجوایا جا ئے گا اور انہیں کہا گیا کہ اگلے روز تیاری کیساتھ ائیر پورٹ پہنچ جائیں۔
اس پیغام کے بعد سامان لینے کی غرض سے اس مالین نوجوان کے ہاں پہنچے جس نے انہیں چاڈمیں پناہ دے رکھی تھی اوریہ دیکھ کر سخت پریشانی کا سامنا ہوا کہ اس نوجوان نے ان کا سارا سامان فروخت کر ڈالا تھا۔ یہ تمام معاملہ بھی مکرم صدیق دمبیا صاحب کی خواب کے عین مطابق ہوا جو اللہ تعالیٰ نے سفر سے قبل انہیں آئیوری کوسٹ میں دکھایا تھاکہ چاڈ میں ایک نوجوان ان کیساتھ دھوکا کرے گا۔بہر حال حقیقی زاد راہ یعنی تقویٰ پھر بھی ان کے ساتھ تھا جس تک کسی کی رسائی نہ تھی اور اسی زاد راہ نے انہیں منزل مقصود تک پہنچنے کا حوصلہ دے رکھا تھا۔ اس ظاہری بے سر و سامانی کی حالت میں فوجی کیمپ واپس لوٹے۔ اگلے روز یہ تینوں اصحاب ٹوگو کے تین نوجوانوں اور ایک لیبین فوجی افسر کے ہمراہ چاڈ سے روانہ ہوکر لیبیاکے دارالحکومت ٹریپولی پہنچے ۔
ان کے ہمراہ روانہ ہونے والے فوجی افسر انہیں ایک فوجی کیمپ لے گئے اور ان کی فوج میں بھرتی کے لئے سفارش کا ذکر کیا۔کیمپ کے انچارج نے بھرتی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ نئے صدارتی حکم کے مطابق وہ کسی افریقن کو بغیر تحریری صدارتی حکم کے بھرتی نہیں کر سکتے۔اس پر مذکورہ فوجی افسر انہیں ایک ہوٹل میں لے گیااور ہوٹل مینیجر سے کہا کہ یہ افراد حکومتی مہمان ہیں ۔رات ہوٹل میں گزاریں گے اور اگلے روز آکر وہ انہیں لے جائیں گے۔
17روز ہوٹل میں گزر گئے لیکن وہ فوجی افسر انہیں لینے نہ آیا۔اس پر ہوٹل کے مینیجر نے ان تمام اصحاب کو ہوٹل چھوڑنے کے لئے کہا۔ ہوٹل سے نکل کر وہ لیبیاکے وزات داخلہ کے دفتر پہنچے۔وہاں موجود افسر سے درخواست کی کہ آیا ان سے متعلق ان کے دفتر میں کوئی خط و کتابت ہو رہی ہے یا نہیں؟افسر نے جانچ پڑتال کے بعد کہا کہ ہمیں تو یہ تک علم نہیں کہ آپ لیبیا میں داخل کیسے ہو ئے؟اس لئے بہتر یہی ہو گا کہ آپ یہاں سے واپس اپنے ملکوں کی طرف لوٹ جائیں۔
وزارت داخلہ کے جواب سے آپ سب بہت مایو س ہوئے اور سمجھے کہ اب آخری امید لیبیا کے صدر مملکت ہی ہیں اس لئے ان کے سامنے اپنی عرضی پیش کی جائے چنانچہ وزارت داخلہ کے دفتر سے باہر آنے کے بعد آپ سب افراد صدارتی محل کا پتہ پوچھ کرمحل پہنچےاور سیکیورٹی پر مامور محافظ سے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا اور محل میں داخل ہونے کی اجازت چاہی۔سیکیورٹی پر مامور محافظ نے ان کا پیغام اپنے ایک افسر بالا فوجی کیپٹن تک پہنچا دیا۔
لیبیا سے ملک بدری کے احکام
صدراتی محل کے کیپٹن صاحب مکرم عمر معاذصاحب کولیبالی اور ان کے ساتھیوں کے پاس تشریف لائے اور تمام معاملہ کی تفصیلات معلوم کیں اور جس ہوٹل میں وہ 17 روزگزار چکے تھے اس کے مینیجر کو فون کر کے ان کے بیانات کی تصدیق کروائی۔اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد کیپٹن صاحب نے ہوٹل کے مینیجر کوفون کر کے کہا کہ ان لوگوں کے قیام کے اخراجات حکومت ادا کرے گی ان کا ہوٹل میں رہائش کا انتظام کر دیا جائے ۔اس کے ساتھ ہی کیپٹن صاحب نےمکرم عمر معاذصاحب کولیبالی اور ان کے ساتھیوں کوہدا یت کی وہ ہوٹل تشریف لے جائیں۔ ان سے متعلق جو بھی فیصلہ ہو گا اس کی اطلاع انہیں کر دی جائے گی۔
اگلے روز کچھ فوجی کمانڈوز ہوٹل تشریف لائے اورتما م احباب کو ایک فوجی کیمپ میں لے گئے جہاں صدارتی محل والے کیپٹن صاحب بھی موجود تھے ۔ فوجی حکام کی طرف سے مکرم عمر معاذصاحب کولیبالی اور ان کے ساتھیوں کیساتھ گزرا تمام معاملہ قلمبند کیا گیا جس کے بعد ان تمام افراد کو ہو ٹل واپس پہنچا دیا گیا اور کسی بھی صورت میں ہوٹل نہ چھوڑنے کی ہدایات کی گئیں ۔ اگلے روزمکرم عمر معاذصاحب کولیبالی اور ان کے ساتھیوں کو لیبیا کی حکومت کی طرف سے ملک بدری کا حکم نامہ موصول ہو ا۔
مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی کی رؤیا
لیبیا سے ملک بدری کا حکم ملنے کے بعد دیارغیر میں راہیان دربار خلافت کی بے چینی میں اضافہ ہوگیا اور ساتھ ہی یہ خوف بھی آنے لگا کہ کہیں یہ سفر یہیں اختتام نہ ہو جائے۔ اس صورتحال میں یہ بے یارو مددگار مسافر خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کرتے سو گئے۔ ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی نے اپنے ساتھیوں کو جگاکر کہاکہ انہیں ابھی خواب میں ایک آواز سنائی دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بہت درود شریف پڑھیں اور سورۃ کوثر کا بکثرت ورد کریں۔
خواب میں دیئے گئے پیغام کے بعد تمام احباب نے رات خداتعالیٰ کے حضور آہ و بکا کرتے ہوئے گزاری۔ حکومت لیبیا نے تو ان کی ملک بدری کا حکم نامہ جاری کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آسمان پر کچھ اور ہی مقدر کر دیا تھا۔صبح فوجی گاڑی میں ان احباب کو ائیر پورٹ پر لایا گیااور چاڈ یا آئیوری کوسٹ بھجوانے کے لئے مختلف فلائیٹس میں جگہ کی تلاش ہوتی رہی۔ دوپہر تک اس مسئلے کا جب کوئی حل سامنے نہ آیا تو ان تمام احباب کو واپس فوجی کیمپ بھجوا دیا گیا۔
اسی اثنا ء میں لیبیا اور چاڈ کی حکومتوں کے درمیان پہلے سے خراب معاملات مزید سنگین صورت اختیار کر گئے۔ اس کشیدگی کے باعث لیبیا کی حکومت نے اپنی افواج کو چاڈ سے واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کشیدہ صورتحال کے باعث مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی اور ان کے ساتھیوں کی ملک بدری کا مسئلہ پس منظرمیں چلا گیااور آپ لوگوں کو 20روز فوجی کیمپ میں گزارنے پڑے۔
20 روز گزر جانے کے بعدمکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی اور ان کے ساتھیوں نے صدارتی محل کے کیپٹن صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے خط لکھاکہ فوجی حکام کی ضیافت بہت مثالی ہےجس کے لئےوہ بہت شکر گزار ہیں لیکن بغیر کسی عوض کے یہ مہمان نوازیاں ان پر بہت گراں گزر رہی ہیں لہٰذابراہ مہربانی اگر ان کی ملک بدری کا فیصلہ کیا جا چکا ہے تو ان کی درخواست ہے کہ لیبیا کی حکومت اس کو عملی جامہ پہنائے وگرنہ فوج میں کوئی خدمت یا کوئی دوسرا کام ہمارے سپرد کردیں جس کے لئے وہ مکمل طورپرتیار ہیں۔
اگلے روزکیپٹن صاحب کی طرف سے خط کا جواب موصول ہوا کہ ان کے چھاؤنی میں قیام کے دوران ان پر فوجی حکام کی طرف سے تحقیقی نظر رکھی گئی تھی جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ آپ سب کا کردار قابل قدر اور مثالی ہے ۔لہٰذا آپ لوگوں کی ملک بدری نہیں ہو گی بلکہ لیبیا کی حکومت کی طرف سےآپ کے لئے رہائش کا انتظام اورکام کی تلاش کی جائے گی۔
؎ غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے
اے مرے فلسفیو! زورِ دعا دیکھو تو
(کلام محمود)
یہ سفر قبولیت دعا کے نشانات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک حکومت جوکہ ملک بدری کے احکامات جاری کر چکی ہےاللہ تعالیٰ کے حضور کی گئی دعاؤں کے سبب اب رہائش اور روزگار کا انتظام کر رہی ہے۔ چنانچہ اس صدارتی محل کے کیپٹن صاحب نے شہر میں ان کی رہائش کے لئے مکان تلاش کر کے دیااور کچھ عر صہ بعد کام بھی مل گیا اور فوجی شناختی کارڈ کے ذریعہ سے ان کو نقل وحرکت کی بھی سہولت میسر آگئی۔
ان سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لیبیا کے دارالحکومت میں سات ماہ تک مسلسل آپ لوگوں کو کام کرنے کا موقع ملا لیکن اس تما م عرصہ میں آپ تینوں نے ہر روز اللہ تعالیٰ کے حضور یہ التجائیں کیں کہ اےاللہ! تو جانتا ہے کہ یہاں آنے کا ہمارا مقصد ہر گز دنیاوی کمائی کرنا نہیں بلکہ ہمارا مقصد تو دربارِخلافت میں حاضر ہونا ہے جس کی یہاں کو ئی تدبیر معلوم نہیں ہوتی ہے۔ پس تو ہی اپنے فضل سے کو ئی راہ ہمارے لئے اپنے آقاکی خدمت میں حاضر ہونے کی نکال ۔چنانچہ ایک رات مکرم صدیق دمبیا صاحب نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ارض ابراہیم علیہ السلام کی طرف سفر کررہے ہیں۔ یہ خواب جب مکرم صدیق دمبیا صاحب نے اپنے ساتھیوں کو بیان کی تو سب نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اب ان کی اگلی منزل ارض ابراہیم علیہ السلام ہو گی۔
ارض شام و لبنان کا سفر
مکرم صدیق دمبیا صاحب کی خواب کے کچھ روز بعدیہ اطلاع موصول ہوئی کہ اسرائیل نے لبنان کے خلاف اعلان جنگ کر دیاہے۔لیبیا کے صدرکرنل قذافی صاحب نے اس جنگ میں اسرائیل کے خلاف اعلان جہاد کرتے ہوئے رضا کاروں کو شرکت کی دعوت دی۔اس اعلان کےسنتے ہی آپ تینوں نےصدارتی محل کے کیپٹن صاحب سےرابطہ کیا اور اسرائیل کے خلاف جہاد میں شرکت کی خواہش کا اظہار کیا۔ کیپٹن صاحب نے جواباً کہا کہ ایک جہاز کل لبنان کے لئے روانہ ہو رہا ہے۔اس لئے کل ائیرپورٹ پر رپورٹ کریں ۔کیپٹن صاحب کی ہدایت کے مطابق ضروری تیاری کے بعد آپ تینوں لبنان روانگی کے لئے ائیر پورٹ پہنچ گئے۔
ائیرپورٹ پہنچنے پر اطلاع ملی کہ لبنانی ائیرپورٹ جہاں ان کی فلائٹ کو اترنا تھا اسرائیلی فوج نے تباہ کر دیاہے لہٰذا جہاز کا وہاں اترنا ممکن نہیں۔چنانچہ اس صورتحال میں لبنان جانے والے جہاز کو شام کی طرف روانہ کردیا گیا اوراس طرح آپ تینوں لیبیا سے شام کے دارالحکومت دمشق پہنچ گئے۔
دمشق سے 7کلو میٹر کے فاصلے پر ایک کیمپ فلسطینی کیمپ کے نام سے قائم کیا گیا تھا اور اسی کیمپ میں آپ تینوں کا قیام ہوا ۔ایک روز شام کے کھانے کے بعد آپ تینوں کو لبنانی سرحد کی طرف روانگی کا حکم ملا جس پر مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی اور ان کے ساتھیوں نے عرض کی کہ جنگی محاذپر جانے سے قبل انہیں فوجی تربیت کی ضرورت ہے۔ کیمپ کے فوجی افسرنے درخواست کو قبول کرتےہوئے آپ تینوں کو دو ماہ کی فوجی تربیت دینے کا فیصلہ کیا۔
آپ کوفوجی تربیت کی غرض سے ایک فوجی کیمپ سبعۃایول میں رکھا گیاجہاں آپ کو مسلسل دو ماہ تک فوجی مشقیں کروائی گئیں ۔آپ تینوں نے ان مشقوں میں بڑی محنت سے حصہ لیا ۔ اس کیمپ میں صرف آپ تین ہی نمازی تھے جبکہ جہاد کے نام پر جمع ہونے والے باقی تما م عربی وعجمی بے نمازی تھے۔ آپ کے افسر مکرم ابو علی صاحب آپ تینوں کی فوجی مشقوں میں محنت کے علاوہ باقی باتیں بھی بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے فوجی کیمپ میں قیام کے دوران چند ایسے واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے کیمپ کے افسران کی نظر میں آپ تینوں کا مقام اور بھی بڑھ گیا ۔ ان واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہواکہ ایک رات پہرہ کی ڈیوٹی کے دوران خودکیمپ کے افسر نے پو سٹوں کی چیکنگ کی توسوائے آپ تینوں کے باقی تمام فوجیوں کو ان کی پوسٹ پر سوئے ہوئے پایا۔
دو ماہ کی ٹریننگ کے بعد کیمپ کے افسر نےمیدان جنگ میں روانگی سے قبل تمام فوجیوں کو اکٹھا کیا اور آپ تینوں کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس کے پاس آپ جیسے صرف چالیس فوجی ہوتےتو وہ تمام دشمنوں پر غالب آجاتا۔ اس کے بعد کیمپ میں موجود تمام فوجیوں کومختلف گروپس میں تقسیم کر کے میدان جنگ میں بھیجا جانے لگا۔جس روز آپ کےگروپ کی باری تھی اس روز خدائی تصرف کے ماتحت مکرم صدیق دمبیا صاحب کی صحت اچانک خراب ہو گئی جس کی وجہ سے آپ تینوں اس روز اپنے گروپ کے ہمراہ روانہ نہ ہوسکے۔یہ تمام معاملہ اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر کے تحت ہوا کیونکہ جو فوجی بھی آپ کے گروپ میں سےاس روز میدان جنگ میں گئے تھے وہ تمام مارے گئے اور ان میں سے کوئی ایک بھی زند ہ نہیں بچا۔لہٰذااس طرح ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے آپ تینوں کو موت کے منہ سے بچا لیا ۔
مکرم صدیق دمبیا صاحب کی صحتیابی کے بعد دوسرے گروپ میں آپ تینوں بذریعہ جہاز شام سے لبنان کے شہر البقاء روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچے تو سخت جنگ جاری تھی ۔ چاروں اطراف تباہی کے مناظر تھے اورہر جانب سے بم اور گولیاں برس رہی تھی۔ جنگ کے دوران بھی آپ تینوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری جاری رکھی کہ اے اللہ !ہماری منزل ہمارے آقا کےمبارک قدموں میں ہے پس تو ہی اپنے فضل سے اس کی کو ئی راہ نکال۔
مبشر رؤیا
جنگ کے دوران ایک رات مکرم عمر معاذ صاحب کولیبالی نےخواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ چارپائی پر لیٹےہوئے ہیں اورآپ حضورانور رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاؤں مبارک دبا رہے ہیں ۔ خواب میں آپ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعاکی درخواست کر تے ہیں کہ آپ لوگوں کا سفر بہت کٹھن اور مشکل ہوگیا ہے۔ اس پر حضور رحمہ اللہ نے آپ کو ارشاد فرمایا :
سورۃ الاخلاص اور معوذتین کا بکثرت ورد کریں
حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے بعد آپ کی آنکھ کھل گئی۔ اس وقت جنگ اپنے جوبن پر تھی اور ہر طرف سے شدید حملے ہو رہے تھے ۔ ان ایام میں آپ تینوں نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ہرگھڑی مذکورہ سورتوں کاورد جاری رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے خلیفۂ وقت کی دعاؤں کے طفیل جنگ کے شدید ترین ایام میں جہاں ہر طرف سے خون ریزی تھی معجزانہ طور پر آپ لوگوں کی حفاظت کی اور ہر قسم کی معذوری سے محفوظ رکھا۔ چھ ماہ کے طویل عرصہ بعد اقوا م متحدہ کی جانب سے فریقین میں جنگ بندی کروا دی گئی اور اس خون ریز جنگ کا خاتمہ ہوا۔ جنگ کے اختتام پر آپ تینوں دوسرےفوجیوں کے ہمراہ لبنان سےواپس شام ا ٓگئے اور شام سے تمام رضاکاران اپنے اپنے ممالک اور علاقوں کی طرف روانہ ہونے لگے۔
ملک شام سے پاکستان کا سفر
شام میں آپ کے فوجی افسروں نے آپ تینوں کو بلاکر شکریہ ادا کیا اور آپ سے مستقبل کے حوالے سے خواہش دریافت کی ۔اس پر آپ لوگوں نے پاکستان جانے کی خواہش کا اظہار کیا اور افسران سے درخواست کی کہ آپ تینوں کے پاکستان جانے کا انتظام کروا دیا جائے۔اس کے علاوہ آپ کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ افسران نے آپ تینوں کے پاسپورٹ لے کرویزہ کے حصول کے لئے پاکستان کے سفارت خانے میں بھجوا دیئے ۔ اس وقت پاکستانی سفارت خانہ کسی کو بھی پاکستانی ویزہ جاری نہیں کر رہا تھا۔ فوجی افسران کی جانب سے ویزوں کے حصول کی بہت کو شش کی گئی مگر پاکستا نی سفارت خانہ نےان جنگی حالات کے باعث ویزوں کے اجراء سےصاف معذرت کر لی ۔
ویزوں کے حصول میں ناکامی کے بعد فوجی افسران نے آپ لوگوں کو بلایا اور معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت ہی شرمندہ ہیں کہ آپ لوگوں نے تو جان پر کھیل کران کی مدد کی مگر وہ آپ لوگوں کے لئے ویزہ تک نہ حاصل کر سکے۔ اگر آپ لوگوں کی کسی اور صورت میں مددہو سکے تو وہ ضرور آپ کی مدد کے لئے تیار ہیں۔تب آپ تینوں نے فوجی افسران کے سامنے درخواست کی کہ آپ تینوں کے پاکستان تک کے ہوائی ٹکٹ کا انتظام کر دیا جائے۔ آپ لوگوں کو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان میں داخل ہونے کا کوئی نہ کوئی انتظام ضرور کر دے گا۔ اس پر مذکورہ فوجی افسران نے دمشق سے کراچی تک کے جہاز کے ٹکٹ خرید کر آپ کے حوالے کر دیئے۔
آپ تینوں یہ ٹکٹیں دیکھ کر اس قدر خوش ہوئے کہ کچھ رقم کے علاوہ اپنی تمام جمع شدہ رقم کو غرباء میں تقسیم کر دیا۔ وہاں موجود تمام لوگ حیران تھے کہ آپ تینوں کوکیا ہوگیا ہے؟ مگر لوگوں کو آپ تینوں کے خلیفۂ وقت کے دیدار کی خوشی کا اندازہ ہی نہ تھا۔ جس منزل کے حصول کا اندازہ آپ تینوں نے دس سال مقرر کیا تھا اب اس منزل کے طے ہونے کے آثار صرف ڈیڑھ سال بعدنظر آرہے تھے۔ کراچی روانگی سے قبل آپ تینوں نے خدا تعالیٰ کے حضور بہت دعائیں کیں کہ اے اللہ !ہمارے پاس پاکستان میں داخل ہونے کا اجازت نامہ نہیں تو جو ہر چیز کی قدرت رکھنے والا ہے اس مرحلے پر بھی ہمیشہ کی طرح ہماری مدد کو آ اور اپنا فضل فرماتے ہو ئے اس مشکل کو ہمارے لئے آسان بنا دے۔
پاکستان روانگی کے مقررہ روز آپ تینوں فوجی گاڑی میں بیٹھ کرائیرپورٹ روانہ ہوئے۔ راستہ خراب ہو نے کے باعث آپ لوگ تاخیر سے ائیرپورٹ پہنچے اور اس تاخیرکے ہونے میں بھی اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر نے کام کیا ۔جب آپ لوگوں کے ائیرپورٹ پہنچے توجہازکےاڑان بھرنے کا وقت ہو چکا تھا اور جہاز کے نیچے سے سیڑھی ہٹائی جارہی تھی۔ اس موقع پر ویزہ چیکر نے جب آپ تینوںکو تیزی سے آتے دیکھا تو ایک بلند آواز لگائی کہ ویزہ چیک کرنےکا وقت نہیں آپ لوگ جلد جہاز میں داخل ہوجائیں۔ اس طرح آپ خدا ئی تصرف کے تحت بغیر ویزہ چیک کروائے ہی جہاز میں داخل ہوگئے۔ آپ لوگوں کے سوار ہوتے ہی رات گیارہ بجے جہاز نے کراچی کی جانب اڑان بھری ۔اس موقع پر آپ تینوں کے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر گئے اور بے اختیار زبانوں پر حمد الہٰی جاری ہوگئی ۔مؤرخہ28نومبر 1982ءکی صبح فجر کے وقت جہازاپنی منزل کراچی پہنچ گیا۔
کراچی ائیرپورٹ پرپاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کا سامنا
اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور اس کےخاص فضل سے آپ تینوں نے وہ سفرطےکیا جوکہ بادئ النظر میں ناممکن اور خود کو ہلاک کرنے کے مترادف تھا۔ کراچی پہنچنے پر آپ لوگوں کی اگلی منزل خلیفۃ المسیح کی پیاری بستی ربوہ تھی جس تک پہنچنے سے پہلے آپ لوگوں کا سامنا پاکستان میں موجود جماعت احمدیہ کی اندھا دھند مخالفت سے ہوا۔
جہاز سے اترنے کے بعدآپ تینوں فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد اِمیگریشن کاؤنٹر پرگئےجہاں آپ لوگوں کاواسطہ جماعت احمدیہ کے مخالف آفیسر سے پڑا۔ اس آفیسر نے آپ کا ویزہ نہ دیکھ کر پوچھا کہ آپ کے پاس ویزہ نہیں ہے اور پاکستان آنے کا مقصد کیا ہے؟ آپ لوگوں نے جواب دیا کہ آپ لوگ کسی دنیاو ی کاروبار یا کسی دنیاوی غرض سے یہاں تشریف نہیں لائے بلکہ صرف اپنے دین کی خاطر یہاں آئے ہیں۔ دین کا لفظ سن کر وہ آفیسر بہت خوش ہوا اور آپ تینوں کے پاسپورٹ پرمقررہ رقم لے کر ویزے لگادیئے۔
ویزہ لگانے کے بعد اس نے سوال کیا کہ آپ لوگ پاکستان میں اجنبی ہیں ۔یہاں آپ کی اگلی منزل کہاں ہے؟ اس پر آپ لوگوں نے جوا ب دیا کہ یہاں سے آپ لوگوں نے ربوہ جانا ہے ۔ ربوہ کا نام سن کر وہی آفیسر جو آپ تینوں کے ساتھ انتہائی احترام و محبت کا سلوک کر رہا تھا طیش میں آگیا اور غصہ میں آپ لوگوں کو مخاطب کر کے پوچھا:
Are you Mirzai?
کہ کیا آپ مرزائی ہیں؟
آپ کو پتا نہ تھا کہ مرزائی کیا ہوتا ہے لہٰذا آپ نے جواب دیا :
No we don’t know what is Mirzai?
یعنی ہم نہیں جانتے کہ مرزائی کیا ہے؟
Are you Qadiani?
کہ کیا آپ قادیا نی ہیں؟
اس کا بھی آپ کو پتا نہ تھا لہٰذا آپ نے جواباً کہا :
No we do not know what is Qadiani?
کہ آپ کونہیں پتا کہ قادیانی کیا ہیں؟
اس نے شدید غصے سے پوچھا :
Are you Ahmadies?
کہ کیا آپ احمدی ہیں؟
اس پرآپ سب نے بیک زبان جواب دیا :
Yes, yes, we are Alhamdolillah Ahmadies.
کہ جی جی ہم الحمد للہ احمدی ہیں۔
آپ لوگوں کے جواب سن کر آفیسر کے غصہ میں مزیداضافہ ہو گیا اوراس نے غصہ میں کچھ سوچنا شروع کردیا۔ قریب کھڑے ایک شریف النفس انسان نے جو کہ یہ سارا معاملہ دیکھ رہے تھے اس آفیسر کے پاس آئے اور اردو زبان میں غالباً انہیں یہ سمجھایا کہ دیکھو!یہ لوگ غیر ملکی ہیں اور آپ کے اس طرح کے رویہ سے ان غیر ملکیوں پر برا تأثر پڑے گا اور ملک کی بدنامی بھی ہو گی اس لئے براہ کرم ان لو گوں کو جانے دیں۔جس کے بعد اس آفیسر نے آپ لوگوں کے پاسپورٹ واپس کرتے ہوئے فوری جگہ چھوڑنے کا کہا۔ آپ تینوں نے اپنےپاسپورٹ اٹھائےاورائیرپورٹ سے باہر آگئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اس مرحلے پر بھی آپ لوگوں کا ساتھ دیا۔ ائیرپورٹ پر جماعت احمدیہ کے خلاف آفیسر کارویہ آپ لوگوں کے لئے بہت حیرت کا باعث تھا کیونکہ اس وقت تک آپ لوگوں کو پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کا اندازہ نہیں تھا۔
کراچی سے ربوہ کا سفر
ائیرپورٹ سے باہر آنے پر ایک نیک دل راہگیر نے بتایا کہ ربوہ جانے کے لئے آپ لوگوں کوکراچی ریلوے اسٹیشن سے بذریعہ ریل جانا پڑے گا اور انہی کی مددسے ٹیکسی کے ذریعے کراچی ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ اسٹیشن پہنچ کر آپ تینوں نے لوگوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ربوہ جانے والی ریل گاڑی کا ٹکٹ کہاں سے ملے گا؟ آپ لوگوں کے یہ الفاظ وہاں موجود ایک آنکھ سےمعذورمولوی صاحب نے بھی سن لئےجس پر اپنی مولویانہ فطرت کے مطابق ان مولوی صاحب کو وہاں زہر پھیلانے کا موقع مل گیا۔آپ کے ٹکٹ گھر پہنچنے سے پہلے ہی وہ لائن میں موجود لوگوں کو پھلانگتے ہوئے ٹکٹ گھر کے کاؤنٹر پر پہنچ گئے اور کچھ الفاظ کہہ کے واپس آگئے۔جب آپ اپنی باری پرکاؤنٹر پہنچے تو ٹکٹ بیچنے والے نے آپ لوگوں سے مقررہ قیمت سے دوگنی قیمت کا مطالبہ کردیا۔آپ لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کیا ماجرہ ہے؟ تب آپ نے ایک اور کاؤنٹر کا رخ کیا مگر اس سے پہلے کہ آپ اس کاؤنٹر پر پہنچتے مولوی صاحب اپنا زہر وہاں بھی پھیلا چکے تھے اور اس کاؤنٹر پر بھی موجود ریلوے ملازم صاحب نے آپ لوگوں سے دوگنی قیمت کا مطالبہ کیا۔ یہ سن کر آپ کو بہت حیرت ہوئی اور آپ لوگ وہاں سے بھی واپس آگئے۔
آپ اسٹیشن پر کھڑے ٹکٹ کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی مدد کے لئے ایک نیک فرشتہ صفت نوجوان کو متعین کیا۔ یہ نوجوان جوآپ لوگوں کیساتھ ہو رہا تھاوہ سارا معاملہ دیکھ رہا تھا۔وہ آپ لوگوں کے پاس آیا اور ادب سے سلام عرض کیا۔ سلام کے بعد اس نے کہا کہ وہ احمدی تو نہیں ہے مگر وہ احمدیت کو پسند کرتا ہے ۔اس کے بعد اس نے آپ لوگوں کو درست قیمت پر ٹکٹ خرید دیئے اور ساتھ یہ نیکی بھی کمائی کہ ریل میں رش کے باوجود آپ لوگوں کے بیٹھنے کے لئے جگہ تلاش کر کے دی۔ آپ لوگوں نے اس شخص کا شکریہ ادا کیا اور اس کےکچھ دیر بعد ریل کراچی سے روانہ ہوئی ۔
ہر اس اسٹیشن پر جس پر گاڑی رکتی تھی آپ لوگ بے چین ہوکر ربوہ کے بارے میں پوچھنے لگ جاتے۔ غرض یہ سفرجتنا کم تھا اتنی ہی مشکل سے گزر رہا تھا اور آپ جلد سے جلد ربوہ پہنچنا چاہتے تھے۔ آخر خدا خدا کر کے گاڑی فیصل آباد اسٹیشن پر پہنچی اور فیصل آباد سے کچھ نئے مسافر سوار ہوئے جن میں ایک مسافر مکرم انوار محمد صاحب بھی تھے۔ آپ لوگوں نے جب ان سے ربوہ کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ربوہ یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ہے نیز بتایا کہ وہ ربوہ اسٹیشن پر ملازمت کرتےہیں ۔ ربوہ کے قریب ہونے کے بارے میں سن کر آپ کی جان میں جان آئی اور بے انتہاء تسلی ہوئی کہ اب آپ جلد ہی اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائیں گے ۔اسکے تھوڑی دیر بعد گاڑی ایک اسٹیشن پر رکی ۔اس ریلوے کارکن نے آپ کو آواز دی کہ آپ لوگ اتر جائیں آپ کی منزل ربوہ شہر آگیا ہے۔ یہ سنتے ہی آپ کی خوشی کی انتہاء نہ رہی۔آپ لوگ جلدی جلدی گاڑی سے اترے اور چاروں طرف نظر دوڑا کر ربوہ کی عظیم بستی کو دیکھااور ساتھ اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ادا کیا کہ جس نے آپ کو اپنے مقصدمیں کامیاب کیا ہے اور اپنی منزل پر پہنچایا ہے۔
ریلوے کے ملازم صاحب نے ربوہ ریلوے اسٹیشن سے آپ کو جامعۂ احمدیہ کا طالب علم سمجھ کر ایک ٹانگے کے ذریعہ سے جامعہ احمدیہ بھجوادیا۔جامعہ کے طلباء نے آپ لوگوں کا بہت اچھا استقبال کیا۔جامعہ احمدیہ کے طلباء اپنی گفتگو کے دورا ن بار بار حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے الفاظ استعمال کر رہے تھے۔ الرابع کا لفظ سن کر آپ تینوں نے استفسار کیا تو بتایا گیا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی وفات ہو گئی ہے (انا للہ و انا الیہ راجعون) اور اب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک دور کا آغاز ہوگیا۔حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کی خبر پاکر آپ تینوں کو بے حد دکھ اور سخت تکلیف ہوئی۔ آپ جامعہ احمدیہ تھوڑی دیرٹھہرے جس کے بعدآپ لوگوں کو دارالضیافت ربوہ لا یا گیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملاقات کا شرف
آپ لوگوں کے پہنچنے کی اطلاع حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں دی گئی جس کے بعد آپ تینوں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے اور حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں آنحضور ﷺ کا سلام پہنچایا ۔ حضو ررحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سلام کا بڑی محبت سے جواب دیااور بے پناہ محبت وشفقت کا سلوک فرمایا۔ اس کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ تینوں سے سفر کے حالات وواقعات سنے ۔اس کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مٹھائی منگوائی اور آپ تینوں کو دی۔ملاقات کے بعد حضور رحمہ اللہ نے آپ تینوں کوداخلے کے لئے جامعہ احمدیہ بھجوادیا۔
آپ تینوں کوحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اپریل 1984ء میں انگلستان ہجرت کر جانے تک اس سراپا شفیق وجود کی شفقت ومحبت کو قریب سے خوب سمیٹنے کا موقع ملا۔ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح کی ملاقات اور ربوہ کی بستی کے سامنے آپ تینوں کو وہ تمام مصائب و مشکلات چھوٹے لگنے لگے جو اس سفر میں آپ تینوں نے اٹھائے تھے۔
بیشک اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو جب کُنْ کا اشارہ کر دے تو پھر دنیا بھر کے تمام اسباب جمع ہو کر فَیَکُوْن کا عمل شروع کرتے ہیں اور پھر اس عمل کوانجام تک پہنچاتے ہیں۔
٭…٭…٭
(احمد بلال مغل ۔ مبلغ سلسلہ سکاسو ، مالی)