حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’جب سے خدا تعالیٰ نے زمین وآسمان کو بنایا کبھی ایسا اتفاق نہ ہوا کہ اس نے نیکوں کو تباہ اور ہلاک اور نیست و نابود کر دیا ہو۔بلکہ وہ ان کے لیے بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے اور اب بھی دکھلائے گا۔‘‘
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ20)
اللہ تعالیٰ ہماراخالق ہے اور ہم اس کی مخلوق۔ عربی زبان میں جو اُمّ الالسنہ ہے اور نہایت پر حکمت زبان ہے بندے کے لیے جو انسان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ دو اُنسوں اور محبتوں کا مجموعہ ہے۔ ایک انس اس کو اللہ تعالیٰ سے ہے اور دوسرا انس اپنے بنی نوع سے ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے میں نے بڑے اور چھوٹے تمام انسانوں کو عبد بننے کے لیے پیدا کیا ہے۔ (الذاریات: 3) اور عبد اس وجود کو کہتے ہیں جو دوسروں کا نقش قبول کرے۔ پس انسان کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفا ت کو اپنے اندر پیدا کرے اور اس کی صفات اور اخلاق کے لیے بطور آئینہ کے بن جائے۔
غرض خدا تعالیٰ کی محبت، اس کے رنگ میں رنگین ہونا اور اس کی پاک صفات سے متصف ہونا انسانی پیدائش کا مقصد ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ وراء الوراہستی ہے اور یہ دنیا اپنے اجرام فلکی کے ساتھ ایک شیش محل کی طرح ہے جس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی شدید القویٰ ہستی کام کر رہی ہےاس وجہ سے اکثر لوگوں کو غلطی لگی اور انہوں نے ان ہی شیشوں کی طرف اس کام کو منسوب کردیا اور اس واحد یگانہ اور مالک حقیقی سے بیگانہ ہوگئے۔
پس ضروری ہے کہ ان ذرائع اور وسائل پر غور کیا جائے جو اس محبوب حقیقی کے پانے اور اس سے تعلق مستحکم کرنے کےلیے قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں۔
پہلا ذریعہ
سو پہلا ذریعہ اللہ تعالیٰ کو پانے کا یہ ہے کہ اسے صحیح رنگ میں پہچانا جائے۔ اور سچے خدا پر ایمان لایا جائے۔ کیونکہ سچا خدا اپنے طالبوں کو مدد دیتا ہے۔ مگر مردہ مردہ کو مدد نہیں دے سکتا۔
پس اللہ تعالیٰ کو پانے اور اس سے تعلق مضبوط کرنے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ سچے خدا پر ایمان لایا جائے جو اپنی ہر صفت میں بے مثل ہے اور جو ہر چیز پر قادر ہے۔
دوسرا ذریعہ
یہ بات ظاہر ہے کہ انسان کمزور اور ضعیف ہے اور اپنے مقصد اور مدعا کو اپنے زورِ بازو حاصل نہیں کرسکتا اس لیے انسان کو اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی تا اس ذریعہ سے اس کو خدائی مدد اور تا ئید حاصل ہو اور جو روکیں مقصود حقیقی تک پہنچنے میں حا ئل ہیں وہ دورہوں۔
چنانچہ فرماتا ہے جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو میں ان کے قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔ (البقرہ: 24) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار دعا کے لیے رغبت دلائی ہے۔
تیسرا ذریعہ
ایک ذریعہ خدا تعالیٰ کو پانے کے لیے قرآن کریم میں مجاہدہ ٹھہرایا گیا ہے۔ یعنی اپنی جان، مال، عزت، عقل، علم اور ہنر کو خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اسے ڈھونڈا جائے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’جو لوگ ہماری راہ میں ہر طرح کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو اپنی راہیں دکھا دیا کرتے ہیں۔‘‘ (العنکبوت: 7) غرض اللہ تعالیٰ کی ملاقات عمر بھر مسلسل محنت اور مجاہدہ کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
چوتھا ذریعہ
اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب کے حصول کا ایک ذریعہ استقامت ہے۔ یعنی طالب راہ سلوک میں درماندہ اور عاجز نہ ہو۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور توحید خالص پر قائم ہوگئے۔ پھر استقامت اختیار کی یعنی آزمائش اور بلاؤں کے وقت ثابت قدم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم مت ڈرو۔اور مت غمگین ہو اور خوش ہو جاؤ کہ تم اس جنت کے وارث ہو گئے ہو جس کا تم کو وعدہ دیا گیا ہے۔ہم اس دنیوی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے دوست ہیں۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’یہ سچ بات ہے کہ استقامت فوق الکرامت ہے۔ کمال استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط دیکھیں اور خدا کی راہ میں جام اور عزت اور آبرو کو معرض خطر میں پاویں اور کوئی تسلی پانے والی بات موجود نہ ہو۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند کردے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے اس وقت نا مردی نہ دکھلاویں اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں اور وفاداری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں۔‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ420)
پانچواں ذریعہ
پانچواں ذریعہ صحبتِ صالحین ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ’’اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔‘‘
(التوبہ: 109)
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال ان دو شخصوں کی طرح جن میں سے ایک کستوری اٹھائے ہوئے ہو اور دوسرا بھٹی جھونکنے والا ہو۔
کستوری اٹھانے والا تجھے مفت خوشبو دے گا یا تُو اس سے خرید لے گا۔ ورنہ کم از کم تُو اس کی خوشبو اور مہک تو سونگھ ہی لے گا۔
اور بھٹی جھونکنے والا یا تیرے کپڑے جلا دے گا یا اس کا بد بو دار دھواں تجھے تنگ کرے گا۔
(مسلم کتاب البر و الصلۃباب استحباب مجالسۃ الصالحین)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’دل کی پاکیزگی کا حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ حاصل نہیں ہو سکتی جب تک منہاج نبوت پر آئے ہوئے پاک انسان کی صحبت میں نہ بیٹھے۔‘‘
(الحکم جلد4 نمبر 46موٴرخہ 24دسمبر 1900صفحہ3)
چھٹا ذریعہ
خداتعالیٰ کی مخلوق سے خیر خواہی کی جا ئے۔ اور خدمت خلق کی عادت پیدا کی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
’’اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘
آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں۔ مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ پس بہترین شخص وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے کنبہ سے احسان کرے۔
(مشکوۃ باب الشفقۃ)
ساتواں ذریعہ
اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے اور اس سے تعلق بڑھانے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ انسان ہر وقت اس کی یاد تازہ رکھے۔
تعلق باللہ کے یہ چند ذرائع ہیں جو اس وقت بیان کئے گئے ہیں۔ ورنہ قرآن کریم، احادیث، اور حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات اور ملفوظات میں اور بھی ذرائع بیان فرمائے گئے ہیں۔
(شکیل احمد ضمیر)