• 11 جولائی, 2025

کامل اسوہ حسنہ

کامل اسوہ حسنہ
سب یادوں میں بہتر ہے وہ یاد کہ کچھ لمحے
جو اس کے تصور کے قدموں میں گزار آئی

مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب THE 100 میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اول نمبر پر شمار کیا ہے اور بنی اسرائیل کے شرعی نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام (جن کے آپ مثیل تھے) کو سولہویں نمبر پر شمار کیا ہے حضرت موسیٰ کو اس نے توحید کا علمبردار قرار دیا ہے وہ لکھتا ہے

… Many people consider Moses to be the founder of Jewish monotheism. In one sense, there is no basis at all for such a claim. Our only source of information concerning Moses is the Old Testament : and the Old Testament explicitly and unambiguously credits Abraham with being the founder of monotheism.

(The 100, page 116)

یعنی اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت موسیٰ یہودی مذہب میں توحید کے بانی ہیں جیسا کہ عہد نامہ قدیم میں لکھا ہوا ہے لیکن یہ کتاب بغیر کسی ابہام کے واضح طور پر اس کا کریڈٹ حضرت ابراہیم کو دیتی ہے۔

وہ آنحضرت کے بارے میں لکھتا ہے:۔

Most Arabs at that time were pagans, who believed in many gods. There were however, in Mecca a small number of Jews and Christians: it was from them no doubt that Muhammad first learned of a single omnipotent God who ruled the entire Universe. When he was 40 years old, Muhammad became convinced that one true God (Allah) was speaking to him, and had chosen …

(The 100, page 34)

یعنی اس وقت اکثر عرب مشرک تھے اور کئی خداؤں کو مانتے تھے تاہم مکہ میں چند یہود و نصاری تھے جن سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک قادر مطلق خدا کا علم ہوا جو سارے جہان پر حکومت کرتا ہے جب آپ 40 سال کے ہوئے اور آپ پر وحی نازل ہونی شروع ہوئی تو آپ کو یقین ہو گیا کہ یہ اسی خدائے واحد کا کلام ہے۔

مائیکل کا خیال غلط ہے کہ آنحضرتؐ نے ایک قادر مطلق خدا کا علم مکہ کے یہود و نصاریٰ سے حاصل کیا شاید اس کا اشارہ ورقہ بن نوفل کی طرف ہے جو حضرت خدیجہ کے یہودی رشتہ دار تھے اور جنہوں نے کہا تھا کہ وحی لانے والا وہی فرشتہ معلوم ہوتا ہے جو موسیٰ پر اترا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام دونوں کو توحید کا علمبردار اور اسوہ حسنہ قرار دیا۔

سورۃ الاحزاب آیت 22

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَالۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا

یعنی تمہارے لئے (یعنی ان لوگوں کے لئے) جو اللہ اور اخروی دن سے ملنے کی امید رکھتے ہیں اور اللہ کا بہت ذکر کرتے ہیں (اللہ تعالیٰ) کے رسول میں ایک اعلیٰ نمونہ ہے (جس کی انہیں پیروی کرنی چاہئے)۔

(تفسیر صغیر)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو اور ایک ذرہ بھر بھی ادھر ادھر ہونے کی کوشش نہ کرو

(تفسیر مسیح موعود جلد7 صفحہ39)

سورۃ الممتحنہ آیت 5

قَدۡ کَانَتۡ لَکُمۡ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَالَّذِیۡنَ مَعَہٗ ۚ اِذۡ قَالُوۡا لِقَوۡمِہِمۡ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنۡکُمۡ وَمِمَّا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۫ کَفَرۡنَا بِکُمۡ وَبَدَا بَیۡنَنَا وَبَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃُ وَالۡبَغۡضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَحۡدَہٗۤ اِلَّا قَوۡلَ اِبۡرٰہِیۡمَ لِاَبِیۡہِ لَاَسۡتَغۡفِرَنَّ لَکَ وَمَاۤ اَمۡلِکُ لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ رَبَّنَا عَلَیۡکَ تَوَکَّلۡنَا وَاِلَیۡکَ اَنَبۡنَا وَاِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۵﴾

یعنی ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں تمہارے لئے ایک اچھا نمونہ موجود ہے جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور اللہ کے سوا تمہارے معبودوں سے کلی طور پر بیزار ہیں ہم تمہاری باتوں کا انکار کرتے ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت اور بغض اس وقت تک کے لئے ظاہر ہو گیا ہے کہ تم خدا پر ایمان لاؤ ہاں ہم ابراہیم کے وعدہ کو جو اس نے اپنے باپ سے کیا تھا مستثنیٰ کرتے ہیں وہ یہ تھا کہ میں تیرے لئے استغفار کروں گا لیکن اللہ کے مقابلہ میں تیری کسی قسم کی مدد پر میں قادر نہیں (اور ابراہیم نے یہ بھی کہا کہ) اے ہمارے رب ہم تجھ پر توکل کرتے ہیں اور تیری طرف جھکتے ہیں اور تیری طرف ہی ہم کو لوٹ کر جانا ہے۔

(تفسیر صغیر)

کامل اسوہ حسنہ

خداوند تعالیٰ مسلمانوں کو حکم کرتا ہے کہ وہ آنحضرت کے نمونے پر چلیں اور آپ کے ہر قول اور فعل کی پیروی کریں چنانچہ فرماتا پے لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ پھر فرماتا ہے اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ اگر آنحضرت کے اقوال اور افعال عیب سے خالی نہ تھے تو کیوں ہم آپ کے نمونے پرچلیں جب خدا نے ابراہیم علیہ السلام کے نمونے پر چلنے کی تاکید فرمائی تو ساتھ ایک استثناء لگا دیا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں کوئی استثناء نہیں کیا۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود جلد8 صفحہ104)

پس کامل اسوہ حسنہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔

(ابن ایف آر بسمل)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ