• 19 مئی, 2024

حضرت حافظ احمد دین صاحبؓ

تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت حافظ احمد دین صاحب رضی اللہ عنہ۔ڈنگہ ضلع گجرات

حضرت حافظ احمد دین صاحب رضی اللہ عنہ ولد محترم حافظ پیر بخش صاحب قوم جنجوعہ ڈنگہ ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ آپ نے 21؍جون 1897ء کو ڈنگہ کے چار اور بزرگان کی معیت میں قادیان حاضر ہوکر شرف بیعت حاصل کیا، آپ پانچوں کی بیعت کا اندراج اس زمانے کی ایک نایاب فہرست میں محفوظ ہے۔ (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 649) یہ وہ ایام تھے جبکہ ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے سلسلے میں قادیان میں بھی جلسہ منعقد کیا جا رہا تھا چنانچہ جلسہ کی کارروائی کی رپورٹ اور شاملین جلسہ کے اسماء کتاب تحفہ قیصریہ کے آخر میں درج ہیں جس میں 170 نمبر پر آپ کا نام بھی درج ہے۔ (روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 307) آپ اپنی بیعت کا پس منظر اور احوال بیان کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:
’’عاجز جون 1897ء بتقریب جلسہ جوبلی ملکہ معظمہ بہمراہی سید خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم سب انسپکٹر پولیس تھانہ ڈنگہ ضلع گجرات و حافظ احمد دین صاحب مرحوم درزی استاذیم و میاں کرم دین صاحب مرحوم مدرس و حافظ کرم دین صاحب مرحو م احمدی ایک رؤیا کی بناء پر آیا۔ وہ رؤیا جنوری 1895ء بمقام پنیالہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان دیکھا تھا اور یکم جون 1897ء جبکہ عاجز رخصت پر گھر ڈنگہ آیا تو وہ رؤیا مولوی کرم الدین صاحب احمدی مرحوم کے آگے بیا ن کی۔ انہوں نے جناب سید صاحب مرحوم کے آگے بیان کی۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ رؤیا دارالامان کا نقشہ ہے اور وہ بزرگ سرخ ریش مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ وہاں چلو تصدیق کرلو۔ حافظ احمد دین صاحب مرحوم استاذیم کے آگے بیان کیا کہ سید صاحب مرحوم رؤیا کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ رؤیا مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق ہے، چونکہ وہ احمدیت کے مخالف تھے،سیخ پا ہوگے۔ آخر بڑی منت و سماجت سے ان کو اس بات پر راضی کیا کہ ایک دفعہ وہاں جاکر حالت دیکھنی چاہیئے۔ انہوں نے فرمایا کہ تم بچے ہو وہاں بڑا جادو کا کام ہے۔ جو شخص قادیان کا کھانا کھالے اور مرزا صاحب کے پاس جاوے جادو سے مطیع کرلیتے ہیں۔ میں خود تمہارے ساتھ چلتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ نہ قادیان سے کوئی کھائیں گے نہ وہاں ٹھہریں گے۔ آخر جلسہ جشن جوبلی جس کی تاریخ مجھے یاد نہیں جون 1897ء تھا دارالامان آئے۔ بہشتی مقبرہ سے پرلی طرف ننگل کے کنویں پر جس پر پختہ خانقاہ بنی ہوئی ہے ٹھہرے ۔ رات وہیں رہے۔ ننگل سے روٹی لائے۔ 3 بجے دوپہر کے بعد یہاں آئے تھے۔ قادیان سے باہر کی طرف سے بڑے باغ سے ہوکر اس کنوئیں پر چلے گئے۔ شاہ صاحب موصوف سید ھے قادیان آئے۔ ان کا ایک نوکر ہم کو کنویں پر چھوڑ کر وہ بھی شاہ صاحب کے پاس چلا گیا۔ شام کے بعد شاہ صاحب کا نوکر آیا کہ تھوڑی دیر کے لئے قادیان آؤ۔ استاذیم نے فرمایا کہ اس شرط پر چلتے ہیں کہ کھانے کے لئے مجبور نہ کیا جائے۔ اس نے کہا۔ اچھا آؤ۔ اس کے ساتھ آئے۔ جب ہم آئے حضرت اقدس مسجد مبارک کے چھت پر جنوبی شہ نشین پر رونق فرما تھے۔ ہم نے ’’السلام علیکم‘‘ نہ کیا۔ میں نے حضرت اقدس کو دیکھتے ہی استاذیم کو کہا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جن کو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ انہوں نے فرمایا خاموش رہو۔ میرے کچھ اعتراض ہیں وہ دل میں ہیں۔ اگر یہ سچے ہیں تو میرے اعتراضوں کا خود بخود جواب دیں گے۔ ورنہ صبح واپس چلے جائیں گے۔ حضرت اقدس نے تقریر شروع کردی۔ اس وقت حضور انور نے جمع نماز (اور) قادیان کے لنگر کے نہ کھانے کے متعلق بڑی زور سے تقریر کی اور کفار مکہ کے یہی اعتراض دہرائے پھر نماز کا وقت ہوگیا۔ ہم باہر کنویں پر چلے گئے۔ رات کے وقت شیخ علی محمد صاحب مرحوم ڈنگوی بھی آگیا۔ رات کنویں پر سوئے۔ 4 بجے صبح کو میں نے دیکھا کہ حافظ صاحب لالٹین جلا کر کچھ لکھ رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ کیا لکھ رہے ہیں۔ وہ رونے لگ پڑے۔ فرمایا خواب لکھ رہا ہوں۔ بتلاتا نہیں۔ پھر بڑے زور سے رونے لگے۔ جس پر باقی ساتھی بھی اٹھ بیٹھے۔ آخر فرمانے لگے کہ چلو قادیان چلیں۔ ہم نے کہا نماز پڑھ کر چلیں گے۔ فرمانے لگے۔ جب تک خواب کا فیصلہ نہ ہوجائے۔ ہماری نماز نماز نہیں ہے۔ پھر کپڑو ں کے پاس مجھے بٹھا کر ہر سہ ہمراہی قادیان چلے آئے۔ میں وہاں بیٹھا تھا۔ آٹھ بجے دن کے سب واپس آئے۔ میں نے کہا کہ اتنی دیر کیوں کی؟ استاد صاحب فرمانے لگے کہ میں نے بیعت کرلی ہے۔ بستر اٹھاؤ قادیان چلیں۔ بستریں اٹھا کر حضرت خلیفۃ المسیح اول کے درس گاہ میں آگئے۔ اس دن وہ جلسہ جشن جوبلی تھا۔ پھر میں نے بھی دوسرے دن بیعت کرلی ۔ اس کے بعد اکتوبر 1898ء میں آیا۔ فضل حق پادری کا سارا مباحثہ میں نے خود سنا اور اس کا اسلام لانا میں نے دیکھا۔ 11/نومبر1899ء کو جلسہ الوداع کے موقعہ پر بھی آیا۔ سردار فضل حق ساکن بگہ نے مسجد اقصیٰ میں میری موجودگی میں اپنا رسالہ فضل حق سنا کر اعلان اسلام کیا۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 95،96)

اخبار الحکم 7؍جون 1935ء صفحہ 5 اور6 پر بھی آپ کی مختصر روایات درج ہیں۔ آپ نہایت رقیق القلب، پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ جماعت احمدیہ ڈنگہ کے امیر اور سیکرٹری مال رہے اور نہایت اخلاص سے جماعتی امور سر انجام دیتے رہے۔ محترم ناظر صاحب بیت المال قادیان ایک رپورٹ میں جماعت ڈنگہ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’حافظ احمد الدین ڈنگوی اس جماعت کے روح رواں ہیں، جن کو مالی کام کے ساتھ ایک خاص انس ہے، جب سال کا اخیر آتا ہے تو بجٹ میں جس قدر کمی ہو اسے اپنے پاس سے پورا کرنا اپنا فرض خیال کرتے ہیں اور مرکزی تحریک میں بھی نہ صرف خود باقاعدہ اور با شرح حصہ لیتے ہیں بلکہ دوسرے احباب سے بھی پوری مستعدی اور سعی سے وصول کیا کرتے ہیں ۔ بیت المال حافظ صاحب کی کوششوں کا خاص طور پر شکریہ ادا کرتا ہے۔‘‘

(الفضل 20 جنوری 1930ء صفحہ 30کالم 2)

آپ نے 18؍نومبر 1954ء کو بعمر قریبًا 84 سال وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 4494) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ محترم مولانا ابو العطاء جالندھری صاحب نے لکھا:
’’ڈنگہ ضلع گجرات میں سلسلہ احمدیہ کے اولین خدام میں حضرت حافظ احمد دین صاحب ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ آپ کی زندگی زاہدانہ اور تقویٰ کے بلند مقام پر تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے 1898ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس کے بعد ہمیشہ احمدیت کی تبلیغ میں ہمہ تن مصروف رہے۔ قول کی بجائے زیادہ تر اپنے نیک عمل اور صالح اسوہ سے آپ نے اسلام کی تبلیغ کی۔ آپ نے اپنی اولاد کی نہایت اچھی تربیت کی جو اُن کے لیے باقیات صالحات میں ہیں ….. حضرت حافظ صاحب مرحوم ؓ محترم جناب بھائی محمود احمد صاحب سرگودھا کے حقیقی بھائی اور مکرم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب سرگودھا کے تایا تھے ….‘‘

(الفضل 25؍نومبر 1954ء صفحہ6)

آپ کی اہلیہ کا نام حضرت بیگم بی بی صاحبہ (عرف نیک بی بی صاحبہ) تھا، انھوں نے 1936ء کے اواخر میں وفات پائی، اخبار الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:
’’مسماۃ بیگم بی بی صاحبہ زوجہ میاں احمد دین صاحب ڈنگہ جو صحابیہ تھیں، بعمر 63سال 11؍دسمبر کو فوت ہوئیں، آج بذریعہ لاری ان کی نعش لائی گئی اور مقبرہ بہشتی میں دفن کی گئیں۔‘‘

(الفضل 15دسمبر 1936ء صفحہ1)

آپ کی اولاد میں دو بیٹے محترم ڈاکٹر محمد دین صاحب وہاڑی اور محترم غلام محمد صاحب سرگودھا اور دو بیٹیاں محترمہ صابرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم بابو عبداللطیف صاحب اور محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم قریشی مبارک احمد صاحب پشاور تھے۔ آپ کی بیٹی محترمہ صابرہ بیگم صاحبہ (وفات: 22؍مئی 1964ء) محترم حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ ہالینڈ کی ساس تھیں۔ آپ کے بیٹے مکرم غلام محمد صاحب کا نکاح مکرمہ آمنہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی ؓ کے ساتھ ہوا۔

(الفضل 18؍اگست 1925ء صفحہ 2 کالم 3)

(نوٹ: آپ کی تصویر اور اولاد کی تفصیل آپ کے پڑ نواسے مکرم عزیز اللہ صاحب (ابن مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب سابق مبلغ سلسلہ) آف کورنوال، کینیڈا نے مہیا کی ہے، جزاہ اللہ احسن الجزاء۔)

(غلام مصباح بلوچ ۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جولائی 2021