مرشد دعا کریں کہ خدا درگزر کرے
دونوں جہاں میں پیار کی مجھ پر نظر کرے
اپنا بنائے وہ مجھے اور معتبر کرے
پتھر سے اس وجود کو لعل و گہر کرے
مرشد خزاں کی شام ہوں میں آپ کے بغیر
مرشد دعا کریں مرا انجام ہو بخیر
مرشد مرا یہ خواب تھا قرباں یہ جاں کروں
شام و سحر دوائے غمِ دوستاں کروں
وقفِ رضائے یار میں شایانِ شاں کروں
توفیق دے خدا تو فلاں اور فلاں کروں
مرشد یہ میرے خواب تھے کچھ ہو نہیں سکا
کچھ سانحے تھے جن پہ کبھی رو نہیں سکا
اب زندگی کی شام ہے اور غم ہزار ہیں
دشمن بھی باکمال ہیں اور بے شمار ہیں
پاؤں بھی سخت جاں نہیں رستے بھی خار ہیں
اور دکھ بھی ایسے ساتھ کہ یاروں کے یار ہیں
مرشد بس ایک آپ کی شفقت کا مان ہے
ورنہ غریب شخص کا دشمن جہان ہے
مرشد میں دل فگار ہوں اور بے شمار ہوں
کندن مثال لوگوں میں مثلِ غبار ہوں
پھر بھی رضائے یار کا امیدوار ہوں
بس آپ کا ہوں اور میں دیوانہ وار ہوں
مرشد کوئی درود کوئی دم دعا کریں
اس بے ثمر سی خاک کو بھی کیمیا کریں
(مبارک صدیقی۔ لندن)