خاکسار کی والدہ محترمہ حمیدہ بیگم اہلیہ محمد اسحٰق انور صاحب مرحوم مورخہ 13مئیء 2022 بروز جمعۃ المبارک بعد نماز فجربعمر 90سال اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہوگئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔
بُلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
خاندانی تعارف
میرے نا نا جان حضرت حکیم مولوی نظا م الد ینؓ کپورتھلہ (پنجاب انڈیا) شہر کے رہنے والے تھے۔آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ نے 20سال کی عمر میں 1905ء میں خود قادیان جاکر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپ کی وفات 7 جنوری 1968ء کو ہوئی۔ آپ کی بیعت کے حالات رجسٹر روایات صحابہؓ نمبر3 صفحہ36 پرمندرج ہیں۔
میرے نانا جان کے چار بچے تھے۔
- (ماموں) صوبیدار صلاح الدین صاحب مرحوم
- (ماموں) ضیا ء الدین صاحب۔ جرمنی
- (خالہ) خدیجہ بیگم اہلیہ چوہدری رحمت علی صاحب مرحوم
- (والدہ) محترمہ حمیدہ بیگم
میرے دادا صحابی حضرت مسیح موعودؑ حضرت میاں فضل کریمؓ گوجرانوالہ شہر کے رہنے والے تھے۔ ان کے چاربیٹے تھے۔ جن میں ایک میرے والد محمد اسحٰق انور صاحب واقف زندگی تھے۔ آپ کی پیدائش مارچ 1931ء میں گوجرانوالہ میں ہوئی اور وہیں سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور میٹرک کے بعد اپنی زندگی وقف کردی۔
شادی
میرے والد صاحب کی شادی میری والدہ حمیدہ بیگم سے فروری 1952ء میں ربوہ میں ہوئی۔ اس وقت میرے والد صاحب کی عمر 20سال اور والدہ کی عمر 18سال تھی۔
میرے نانا جان اس بات کے خواہشمند تھے کہ ان کی بیٹی کا رشتہ کسی واقف زندگی سے ہو۔ ایک دفعہ میرے ماموں جو اُن دنوں آرمی میں تھے وہ میری والدہ کے لئے ایک کیپٹن کا رشتہ لائے۔ میری والدہ جو ظاہراً بھی خوش شکل تھیں اور یہ رشتہ ان کے لئے بظاہر موزوں معلوم ہوتا تھا مگر میرے نانا جان نے قبول نہ کیا کیونکہ وہ اپنی بیٹی کے لئے ایک دنیا دار شخص کی جگہ ایک واقف زندگی کے متلاشی تھے۔ چنانچہ جب میرے والد صاحب کا رشتہ آیا تو نانا جان نے باوجود اس کے کہ والد صاحب بالکل تہی دست تھے، رشتہ قبول کر لیا کیونکہ اس وقت میرے والد محترم اپنی زندگی وقف کر چکے تھے۔
میرے والد صاحب بارات لے کر لاہور کے قریب ایک گاؤں بیگم کوٹ گئے تھے جہاں میرے نانا رہائش پذیر تھے اور یہیں بطور صدر جماعت بھی نانا جان نے خدمت کی توفیق پائی۔ بارات تین افراد پر مشتمل تھی جن میں ایک میرے تایا مولوی محمد اسماعیل منیر صاحب اور ایک میری دادی جان تھیں۔
والدہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ جب تمہارے والد مجھے بیاہ کر لائے تو ربوہ کے پرانے اڈہ پر جو مسجدمبارک کے قریب تھا اُترے اور بجائے گھر جانے کے مجھے کہنے لگے کہ آؤ! پہلے نوافل ادا کر لیتے ہیں پھر گھر جائیں گے۔ سردیوں کے ایام تھے۔ لوگ نماز عشاء ادا کر کے گھروں کو جاچکے تھے اورمسجد تقریباً خالی تھی۔ میرے درویش صفت والدین نے ان دو نوافل کی ادائیگی میں رات کا بیشتر حصہ صَرف کر دیا اور کافی دیر بعد مسجد سےواپس گھر گئے۔
صبرو شکر کے پیکر
ربوہ میں فضل عمر ہسپتال کے بالمقابل صدر انجمن احمدیہ کے جو کوارٹرز تعمیر ہوئے تھے ان میں ایک کوارٹر میرے والد صاحب کو بھی الاٹ ہوا۔ ہمارے ہمسایہ میں محترم مولوی دوست محمد شاہد صاحب اور محترم مولوی محمد یعقوب صاحب زود نویس رہائش پذیر تھے۔اسی کوارٹر میں نا مساعد حالات کے باوجود زندگی کا پہیہ چلتا رہا۔ ان ایام میں ربوہ کے کیا حالات تھے جاننا کچھ مشکل نہیں ہے۔مالی تنگدستی کے ساتھ ساتھ اشیائے خوردونوش کا بھی خاصا فقدان تھا۔بہر حال ان تمام ترمشکل حالات کے باوجود خدا تعالیٰ کا صبر و شکر ادا کرتے ہوئے اور اسی کی دی ہوئی توفیق سے محنت میں عظمت گردانتے ہوئے زندگی کے شب و روز گزار دیئے۔
والدہ صاحبہ بتاتی تھیں کہ آپ کے ابا نے کبھی مجھ سے سختی سے کلام نہیں کیا۔ میرے ساتھ ان کا سلوک نہایت اچھا رہا۔ گھرمیں مالی تنگی تھی مگر آپ کےوالد صاحب کے حسن سلوک اور شفقت و محبت سے وہ ایام بھی صبرو شکر سے گزرگئے۔
اولاد
27مئی 1953ء کو اللہ تعالیٰ نے میرے والدین کو پہلے بیٹے (محمد اسلم ناصر راقم) سے نوازا۔ بعدازاں اللہ تعالیٰ نے پانچ مزید بیٹوں سے نوازا۔سب سے چھوٹےبیٹے (محمد انور) کی پیدائش والد صاحب کے عرصہ بیماری میں ہوئی اور چند ماہ بعد ہی اس کی وفات ہوگئی۔
- محمد اشرف طاہر (شکور پارک)
- محمد اکرم خالد (Harrisburg PA USA)
- محمد افضل صادق (Auckland NZ نیوزی لینڈ)
- ڈاکٹر محمد امجد طارق (پی ایچ ڈی۔ کیمسٹری) (سڈنی آسٹریلیا)
حضرت مصلح موعودؓ نے والد صاحب کو اکاؤنٹس کے شعبہ میں لگایا اور آپ کو کچھ عرصہ دفتر خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ 1954ء میں تحریک جدید کی زمینوں پر محمدآباد سٹیٹ بطور اکاؤنٹنٹ بھجوادیا۔
1954ء سے مارچ 1963ء تک سندھ میں نو ر نگر فارم پر جو محمدآباد سٹیٹ میں ہے خدمت کرنے کا مو قع ملا۔ والد صاحب نے بڑی محنت اور جانفشانی سے یہ سارا عرصہ گزارا۔ والدہ بھی دوسرے بیٹے کی پیدائش کے بعد والد صاحب کے پاس چلی گئیں۔ ان ایام میں اس علاقہ میں ضروریات زندگی کی شدید قلت تھی۔ پانی بھی پینے کو میسر نہ تھا۔جو ملتا تھا وہ مضر صحت تھا۔ یہ سختی کےایام بھی انہوں نے وقف کی حقیقی روح کو نبھاتےہوئے ہنسی خوشی گزارے۔
یہ 1962ء کی بات ہے کہ ایک دفعہ والد صاحب گھوڑی پر سوار کہیں جارہے تھے چونکہ گھوڑی نئی تھی اس لئے اس نے تنگ کرنا شروع کیا اور ایک پُل پر میرے والد صاحب کو گرادیا۔ جس سے آپ کو شدید چوٹیں آئیں۔ خاص طور پر سر میں جو چوٹ لگی اس سے والد صاحب کے دماغ کی رگوں کو خاصا نقصان پہنچا اور اسی باعث جسم کا توازن برقرار نہ رہتا تھا۔ اس دوران علاج ہوتارہا۔ مگر کوئی خاطر خواہ بہتری نہ ہوئی۔چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے فیصلہ فرمایا کہ والد صاحب کو واپس مرکز بھجوادیا جائے۔
1963ء میں سندھ سے لاہور واپسی ہوئی اور علاج کرایا گیا مگر یہاں بھی افاقہ نہ ہونے پرچند ماہ بعدربوہ آگئے۔باوجود اس کے کہ چلنے میں تکلیف تھی تاہم آپ قریبا اڑھائی سال وکالت مال ثانی میں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔پھر تکلیف بڑھ جانے کے باعث چلنا پھرنا مشکل ہوگیا تو گھر پر صاحبِ فراش رہے اور زندگی کے آخری دو تین سال خاصے تکلیف میں بسر ہوئے۔
آزمائش کےان ایام میں میری والدہ صاحبہ نے اپنے شوہر کی خدمت، تیمارداری، اور دیکھ بھال میں کوئی کَسر اٹھا نہ رکھی۔ مزید براں ہم سب بھائیوں کی نگہداشت کا بھی پورا پورا اہتمام فرمایا۔ آخر خداتعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور 11 نومبر 1971ء کو والد صاحب اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔
خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق
میں اس بات کا گواہ ہوں کہ میری درویش صفت والدہ کا خدا تعالیٰ سے ایک زندہ اور مضبوط تعلق تھا۔ہر خوشی اور غمی میں خدا تعالیٰ کے حضور سربسجود ہونا ان کی زندگی کا ایک لازمی جزو تھا۔قبولیت دعا کے کئی ایک واقعات ہیں جو میری یادداشتوں میں محفوظ ہیں۔
ایک عید کا موقعہ تھا۔ ہم بچوں کے پاس نماز پہ جانے کے لئے چَپلیں نہ تھیں۔جو تھیں وہ کئی بار کی مرمت کی وجہ سے نا قابل استعمال ہو چکی تھیں۔کپڑے تو میری والدہ خوب دھو کر پہنانے کے قابل کر دیتی تھیں۔میری عابد ماں نے اپنے بچوں کی یہ حالت دیکھ کر اپنے خدا کے حضور فریاد کی کہ اے میرے خدا! آج عید کا دن ہے تو میری مدد فرما، تا میں اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید لوں۔قربان جاؤں اپنے خدا کے جس نے عید کے دن میری ماں کی دعا کو یوں فوری قبول فرمایا کہ ابھی صبح کی سیاہی، روشنی میں تبدیل نہ ہوئی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جو ابھی خلافت کی مسند پر متمکن نہ ہوئے تھے تشریف لائے اور ہم بچوں کے لئے میری والدہ کو پچاس روپے عیدی دے گئے۔نماز کی ادائیگی کے بعدمیں واپس گھر آیا تو میری ماں قبولیت دعا کے اس واقعہ کا بڑی خوشی سے ذکر کرنے لگیں اور اپنے زندہ خدا کی تائید اور نصرت کے گیت گانے لگیں۔
1974ء میں جب میں بی ایس سی کر رہا تھا۔ سارا سارا دن اوررات ڈیوٹیز میں بسر ہوتے تھےاور اگر کبھی رات کو ڈیوٹی نہ بھی ہوتی تو چونکہ گھر مہمان آئے ہوئے تھے اس لئے پردہ کی وجہ سے گھر نہ آتا اورمسجد میں ہی سوجاتا۔7 ستمبر جب ہمارے خلاف فیصلہ ہوا تو کم علمی کے باعث میں جماعت کی نسبت کچھ تحفظات کا شکار ہوا۔لیکن میری والدہ نے عین اس موقعہ پر جہاں خفگی کا اظہار فرمایا وہیں مجھے یہ سمجھایا کہ الٰہی جماعتوں کی مخالفت بہت ضروری ہے اور یہی اس کی ترقی کا راز ہے۔فرمایا کہ اب دیکھنا کہ خداتعالیٰ کیا کرتا ہے پھر ہمسایہ سے مجھے حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ازالہ اوہام منگوا کر دی کہ یہ پڑھو۔
امتحانات کے دن آئے تو چونکہ ڈیوٹیز کی وجہ سے تیاری نہ کر سکا تھا اس لئے کہنے لگیں کہ اس بار امتحان میں شامل نہ ہو اور داخلہ فیس واپس لے لو ایسا نہ ہو کہ فیل ہو جاؤ اور داخلہ فیس ضائع ہو جائے۔ بہرحال میں والدہ کو قائل کرکےامتحان میں شامل ہو گیا۔
17ستمبر کو امتحانات شروع ہوئے۔ان ایام میں بھی ڈیوٹیز جاری رہیں۔جو وقت ملتا اس میں کچھ پڑھ لیتا اور ساتھ دعائیں بھی کرتارہتا۔ میری والدہ بھی مسلسل دعاؤں سے میری تائید اور نصرت فرماتی رہیں نتیجۃً تقریبا ہر پرچہ سے پہلےرات کو امتحان میں آنے والے تمام سوالات سامنے آجاتے۔ صبح اٹھ کر ان کو دیکھ لیتا اور امتحان دے آیا کرتا تھا۔الحمد للہ یونیورسٹی میں ریاضی میں میری دوم پوزیشن رہی اور تعلیم الاسلام کالج میں بھی میں اول رہا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے جماعت کی طرف سے سکالر شپ دیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے بھی سکالر شپ آفر ہوئی۔ اسی طرح اسلام آباد یونیورسٹی سے بھی پیشکش ہوئی اور ایم ایس سی کے لئے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد چلا گیا۔
قبولیت دعا کے بیسیوں واقعات ہیں۔ آج ہمیں خدا تعالیٰ کی نعماء میں سے جو کچھ بھی میسر ہے یہ میرے والدین کی دعاؤں کے طفیل ہے۔
میرے والدین بہت دعا گو تھے۔ راتوں کو اٹھ کر دعائیں کرنا ان کا معمول تھااوریہ بات انہوں نے اپنے بچوں میں بھی پیدا کی۔ نماز باجماعت کی پابندی، خلافت سے محبت اور اطاعت نظام ان کا خاصہ تھا۔
عشق قرآن
قرآن مجید سے بہت عشق و لگاؤ تھا۔مجھے اور میرے باقی بھائیوں کو خود قرآن مجید ناظرہ پڑھایا اور مجھے تو اپنی والدہ سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کی بھی توفیق ملی۔جب میرے پاس فجی آئیں تو کئی ایک احمدی اور غیر احمدی بچوں کو قرآن پڑھاتی رہیں۔
خلفائے سلسلہ سے محبت وعقیدت
میرے والدین کو خلفائے احمدیت سے والہانہ عشق و محبت تھی اور یہ عشق ومحبت صرف زبانی نہ تھی بلکہ اس کا اظہار ان کےعمل اور خطوط میں بھی نمایاں تھا۔والد صاحب خلیفہ ٔوقت کی خدمت میں اکثر دعا کے لیے خط لکھتے رہتے تھے اور بچوں کو بھی باقاعدگی سے خطوط لکھنے کی تاکید فرماتے کہ خلیفۂ وقت کی دعائیں ہی اصل خزانہ ہیں جسے ہر حال میں حاصل کرنا چاہئے۔ والدہ محترمہ مجھے ہر خط جو میں حضور کی خدمت میں تحریر کرتا کہتی تھیں کہ میری طرف سے حضور کی خدمت میں محبت بھرا سلام عرض کر دو۔
یہ 1964ء۔ 1965ء کی بات ہے جب حضورؓ بیمار تھے۔ میری والدہ ہر ہفتہ یا دوسرے ہفتہ کو بڑے بچوں کو حضورؓ کی خدمت میں لے کر جاتیں۔ حضورؓ چارپائی پر لیٹے ہوتے اور ہم قریب کھڑے ہو جاتے۔ چونکہ ہمارے نام حضورؓ کے رکھے ہوئے تھے اس لئے سب بچوں کو پہچانتے تھے کہ یہ اسحاق کے بیٹے ہیں۔ ہم سب بھائیوں کا قد دیکھ کر حضور ہمارے نام لے کر فرماتے کہ یہ اسلم ہے، یہ اشرف ہے، یہ اکرم ہے گویا ہمارےقد کاٹھ سے ہمارے ناموں کو یاد رکھا ہوا تھا۔ہم بھی ایک دو منٹ کھڑے رہ کر حسب ہدایت واپس آجاتے تھے۔یہ شفقتوں اور محبتوں کا سلسلہ خلافت ثالثہ میں بھی جاری رہا۔
خلافت ثالثہ میں اہالیان ربوہ کےلئے ہفتہ میں ایک یا دو دن ملاقات کے لئے مختص تھے۔جو دن بھی ملاقات کے لئے مقررہوتا ہم بھائی جاکر اپنا نام لکھوا تے اور ملاقات کر کے واپس آتے۔بعض اوقات اگر ہم دو تین بچے ہوتے تو بھی ملاقات کا موقع مل جاتا اور کبھی سب بچوں کی ملاقات مجموعی طور پر ہو جاتی تھی۔چونکہ حضور ؒہمارے حال سے ہم سے زیادہ واقف تھے اس لئے خصوصی شفقت کا اظہار ہوتا تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے بھی خلافت سے پہلے سے ہی انتہائی پیار محبت اور اخوت کا تعلق تھا۔ چنانچہ حضورؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اسحاق میرا چھوٹا بھائی ہے مگر والد صاحب حضورؒ کو اپنا روحانی باپ ہی سمجھتے تھے۔ حضورؒ اکثر مواقع پر ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔ والد صاحب بھی اکثر حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ حضورؒ والد صاحب سے مل کر بہت خوش ہوتے اور بسااوقات لطائف وغیرہ بھی سنایا کرتے تھے۔
خلافت ثالثہ میں والد محترم کا علاج حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ بھی فرمایا کرتے تھے۔ حضورؒ سے ان ایام میں اسی باعث بہت قریبی تعلق ہو گیا تھا۔میری والدہ کو بھی اگر دوا کی ضرورت ہوتی تو وقف جدید تشریف لے جاتیں۔ ایک مرتبہ شام کے وقت میری دوا لینے کے لئے مجھےبھی ساتھ لے کر حضورؒ کی خدمت میں گئیں تھیں۔
ستمبر1996ء میں خاکسار حضور ؒ سے ملاقات کے لئے پرتھ سے لندن گیا تو حضورؒ نے مجھے پیغام بھجوایا کہ آج شام ربوہ سے جو کارکنان تشریف لائے ہیں ان کی دعوت ہے اور مجھے بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی۔میں بڑی خوشی اور مسرت کے جذبات لئے محمود ہال گیا۔ وہاں (U) کی شکل میں نشستوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔وہاں ہر ایک نے اپنا تعارف کروانا تھا۔جب میری باری آئی تو حضور ؒ نے فرمایا کہ ان کا تعارف میں کرواتا ہوں۔
حضورؒ نے بڑی تفصیل سے میری والدہ محترمہ کی قربانیوں، محنت اور جفاکشی کا تذکرہ فرمایا۔
اس ملاقات کے بعد حسب ارشاد حضورؒ میں امریکہ چلا گیا۔اس سے قبل میں تین مرتبہ امریکہ جانے کی آفر ہوئی تھی۔ (ایم۔ایس۔سی کے دوران چونکہ میں ٹیوشن پڑھاتا تھا تو امریکن ایمبیسی نے مجھے گرین کارڈ دینے کی پیشکش کی تھی لیکن میں نے حامی نہ بھری۔ پھر پی۔ایچ۔ڈی کے دوران چونکہ میرا ایکسڑنل اگزیمنر امریکن تھا اور NASA میں ایک شعبے کا ڈائرکٹر تھا اس نے بھی مجھے امریکہ آنےکی پیشکش کی اور اسی طرح NASA کی طرف سے بھی مجھے پیشکش ہوئی، ان سب پیشکشوں کو میں نے انتہائی عدم دلچسپی سے چھوڑ دیا۔ میرے دل میں صرف ربوہ واپس جانے کی خواہش تھی۔مگر 1996ء میں حضورؒ کے ارشاد کی تعمیل میں امریکہ چلا گیا۔ چنانچہ جب میرے بچے جلسہ سالانہ پر لندن آئے اور اردو کلاس میں شامل ہونے کا موقع میسر آیا تو حضورؒ نے میرے بچوں کا تعارف خود کروایا اور یہ تعارف میری والدہ محترمہ کے ذکر سے شروع کیا۔
والدہ کی دو خوبیاں
میری والدہ انتہائی محنتی، جفا کش، نظام جماعت کی مطیع اور خلافت سے حد درجہ محبت کرنے والی تھیں۔ مجھے اپنی والدہ کی دو خوبیاں اچھی طرح یاد ہیں۔
1۔ آپ نےصدقہ کبھی نہیں لیا۔ قناعت پسندی اور خودداری بہت تھی۔ مالی حالت بہت دگر گوں تھے ان حالات میں بھی آپ نے بچوں کو صدقہ لینے سے منع فرمایا ہوا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی بیماری کے ایام تھے۔ صدقہ کے لیے اْونٹ اور گائے ذبح کی گئی اور گوشت ربوہ کے ہر گھر میں تقسیم ہوا۔ جب ایک طفل ہمارے گھر آیا تو خاکسار نے گوشت لینے سے انکار کردیا۔ والدہ صاحبہ گھر واپس آئیں اور اس بات کا علم ہوا تو فرمایا کہ خلیفۂ وقت کی طرف سے اگر کچھ ملے تو ہمیشہ قبول کرلینا چاہیے اور انکار نہیں کرنا چاہیے۔
والدہ صاحبہ نے نہایت تنگی اور ترشی سے بہت معمولی تنخواہ میں گزارہ کیا۔ مگر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔یہی اپنے بچوں کو سمجھایا کہ محنت کرو اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاؤ۔ والدین کی اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ خاکسار نے پہاڑی پر جاکر پتھر کوٹ کرسخت مشقت برداشت کی، اسٹیشن پر جاکر مسافروں کا سامان اٹھایا، چارپائیاں بُن کر گزارہ کیا۔ اسی طرح چونکہ واقفین کے محلہ میں رہائش تھی میں خود گھروں میں جاکر احباب کے حسب منشاء ان کا کام کر دیتا تھا اور وہ جو بخوشی دے دیتے تھے وہ میں لے لیتا تھا۔ محنت مزدوری کرکے گزارہ کیا مگر کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔
2۔ میری والدہ کی دوسری خوبی یہ تھی کہ کسی کو کام کہنے میں انتہائی عار محسوس کرتیں اور کسی کے کام آنے میں عظمت محسوس کرتیں۔
جلسہ سالانہ کے ایام میں جب نان بائیوں نے ہڑتال کر دی تو میری والدہ نے فوراً گھر میں جتنا آٹا موجود تھا گوندھ کر روٹیاں پکا کر میرے ہاتھ بھجواناشروع کر دیں۔پھر مرکز سے مزید آٹا آگیا تو اس کی بھی روٹیاں پکا کر بھجواتی رہیں۔غرض مہمان نوازی کا وصف بدرجہ اتم موجود تھا۔باوجود مالی تنگدستی کے حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانان کی مہمان نوازی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ ہونے دیتیں۔
چندہ کی ادائیگی کے معاملہ میں ناصرف خود بہت پابند تھیں بلکہ اس معاملہ میں ان کی سختی نمایاں تھی۔مالی تنگی اور کشائش کے ایام میں چندہ کی ادائیگیوں میں بہت پابند رہیں۔میں بارہ سال کا تھا اور اسٹیشن پر سامان اٹھانے سے مجھے چار آنے ملے۔ جب گھر لایا تو والدہ نے فرمایا کہ پہلے جا کر چندہ دے آؤ۔ چنانچہ میں والدہ کی ہدایت پر فورادو آنہ چندہ دینے چلا گیا اور واپسی پر بقایا دو آنے کی آدھا کلو دال لایا۔ جب کہیں سے کوئی آمد ہوتی تو واضح ہدایت کی فورا جا کر پہلے چندہ ادا کرو اور ساری زندگی خود بھی ہمارے لئے اس اعلی نمونہ پر کاربند رہیں۔
آپ نے بچوں میں جماعت کی محبت، نظام جماعت کی اطاعت، عہدہ داران کا ادب اور احترام اور جماعتی کاموں میں تعاون کی عادت پیدا کی۔
ہم نے کبھی والدین کو آپس میں ناراض ہوتے نہیں دیکھا۔ کبھی ان میں رنج کی کیفیت نہیں دیکھی۔ ہمیشہ ایک دوسرے کی عزت کرتے دیکھا ہے۔ ایک دوسرے کا احترام کرتے۔ جو ہم بچوں کے لیے ایک نمونہ تھا۔
میرے برادر محمد اشرف صاحب نے تعزیتی مکتوب میں تحریر کیا ہے کہ ’’بیوگی کا وقت والدہ نے نہایت صبر اور تقویٰ سے گزارہ اپنے بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم میں اعلیٰ مقام تک پہنچانے کے لئے انتھک جدوجہد کی اور غربت کا وقت نہایت حوصلہ اور صبر کے ساتھ گزارا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ والدہ نے غربت کے وقت میں صدقہ کا گوشت یا صدقہ کی رقم کبھی نہیں لی تھی پانچ وقت کی نمازی تھیں۔ تہجد کی نماز کبھی نہیں چھوڑی تھی۔ خلافت سے محبت ان کی زندگی کا لازمی حصہ تھی۔ ہمیشہ خلافت کی اطاعت کی نصیحت کرتی تھیں۔ 1947 ءکی ہجرت کے واقعات اکثر میرے ساتھ شیئر کرتی تھیں اور قادیان کی بہت سی باتیں بھی یاد تھیں۔ کبھی کسی رشتے دار سے ناراضگی نہ رکھتی تھیں عید کے موقع پر خود پہلے تمام رشتہ داروں کے گھر جا کر عید مبارک دیتی تھیں۔ تمام بہوؤں کے ساتھ ایک احترام کا رشتہ قائم تھا۔ کبھی کسی بہو یا رشتہ دار کی برائی نہیں کرتی تھیں۔
میری والدہ کی بعض نیکیاں ایسی ہیں جو آج بھی ذہن پر نقش ہیں۔ 1968ء میں جب تحریک جدید کے کوارٹرز میں گیس کا آغاز ہوا تو اس وقت بیرون ربوہ سے آنے والے طلباء کی رہائش کے لئے دوکمرے موجودہ سرائے مسرور کی عمارت کی جگہ پر تھے۔ان میں کلر کہار کے ایک نئے احمدی دوست جن کے تین بچے لیاقت، خالد سلیم، اورنسیم گل تھے۔سالن تو یہ بھائی پکا لیتے تھے لیکن روٹی پکانے میں دقت تھی۔ چونکہ ہماری ان سے دوستی تھی اور اسی وجہ سے ان کا ہماری طرف آنا جانا تھا لہذا میری والدہ نے ان سے کہا کہ روٹی میں آپ کو پکا دیا کروں گی۔ ناشتے کا انتظام وہ خود کر لیتے تھے لیکن دوپہر اور شام کی روٹی میری والدہ پکا یا کرتی تھیں۔روٹی پکانے کا یہ سلسلہ قریباً 9سے 10سال تک جاری رہا۔اسی طرح اگر کوئی اچھی چیز پکتی تو وہ بھی بھجواتی تھیں اور وہ بھی اگر شکار یا مچھلی بناتے تو والدہ کو بھجوایا کرتے تھے۔‘‘
محلہ کے کئی غریب بچوں کے کھانے اور مالی اعانت کا اہتمام بھی کردیا کرتی تھیں۔
ہمارے بچپن کے ہمسائے برادرم مجیب احمد صاحب مربی سلسلہ استاد جامعہ احمدیہ نے مجھ سےوالدہ صاحبہ کی تعزیت کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ
’’آپ کو انتہائی بچپن سے بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا آپ کی زندگی جہدِ مسلسل کی مثال دیکھی۔ بچپن میں آپ کی دل موہ لینے والی شفقت مگر شفقت کے ساتھ وہ فاصلہ جو بچے کو بگڑنے نہ دے وہ بھی قائم رکھناآپ کی خاصیت تھی۔ ہر وقت گھر کے کاموں میں مگن رہتیں۔ گھر کی صفائی میسر وسائل میں اعلی ترین، بچوں کو اعلی ترین صحت مند غذا اپنے وسائل میں مہیا کی۔ میری والدہ اپنے بہت سے معاملاتِ زندگی میں آپا (خاکسار کی والدہ) کی راہنمائی کا ذکر فرماتیں۔ دوستی یا تعلق میں وہ مرحلہ بھی آتا ہے جہاں اختلاف رائے ہوجائے ایسے میں بھی ہم نے اپنی والدہ اورآپا سے سیکھا کہ اختلاف میں بھی اعلی انسانی قدریں کیسے قائم رکھی جاتی ہیں۔ میری والدہ اور آپا جب کوارٹروں رہتیں تو تین خلفائے سلسلہ سے اکٹھے ملاقاتوں کی بھی یادیں تھیں جن سے خوب خوب محظوظ ہوتیں اور جب کبھی یہ ذکر چھڑتا تو باری نہ آتی دونوں ایک دوسری کو واقعات کی لڑی میں پروئے جاتیں اور ہم یوں محسوس کرتے کہ ہم بھی ملاقاتوں میں شامل ہیں۔ دونوں کو دیکھا کہ خلافت کے عشق میں ایسی سرشار تھیں کہ خلافت پر معترض قریب ترین دنیاوی رشتہ کو بھی خاطر میں نہ لاتیں کیا شان تھی کیا افتخارپایا۔‘‘
میرے مرحوم والدین کی سادگی، درویشی اور توکل علی اللہ میں سرشار زندگی کی یہ ایک مختصر ترین جھلک ہے جو میں ان دونوں بزرگ ہستیوں کے لئے دعا کی عاجزانہ درخواست کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ میرے بزرگ والدین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اپنے پیاروں میں شامل فرمائے اور ہم سب افراد خاندان کو ان کی نیکیاں زندہ و قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(ڈاکٹر محمد اسلم ناصر۔نیوزی لینڈ)