• 8 مئی, 2024

لجنہ اماء اللہ کو ڈائمنڈ جوبلی پر خراج تحسین

جماعت احمدیہ کی ذیلی تنظیمیں اور نظام جماعت میں ان کا انمٹ کردار
لجنہ اماء اللہ کو ڈائمنڈ جوبلی پر خراج تحسین

اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کے مبارک ہاتھوں کا لگا ہوا جماعت احمدیہ کا ترجمان اخبار روزنامہ الفضل آغاز سے ہی جماعت احمدیہ کے تمام طبقوں اور ذیلی تنظیموں کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنی توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔ باوجود اس کے کہ تما م ذیلی تنظیموں کے اپنے اپنے رسائل اور ذرائع ابلاغ موجود ہیں جو اپنے دائرہ کار میں تعلیم و تربیت کا بھر پور کام کرتے ہیں۔ لیکن روز نامہ الفضل تو انصار بھائیوں، اپنی لجنہ اماء اللہ میں شامل بہنوں، خدام اور بچے بچیوں (اطفال و ناصرات) اور اب واقفین/واقفات نو کے ساتھ ساتھ واقفین زندگی کے لئے بھی حصہ رسدی کے طور پرضروری، مفید اور اہم مواد مہیا کرتا چلا آرہا ہے۔

پاکستان میں کچھ عرصہ سے بعض شر پسند عناصر کی شہہ پر حکومتی جبری پابندیوں کی وجہ سے ذیلی تنظیموں کے آرگنز شائع نہیں ہو رہے۔ اور اُدھر لجنہ اماء اللہ کے قیام کو سو سال پورے ہو رہے ہیں۔ ادارہ الفضل آن لائن کی طرف سے دنیا بھر میں پھیلی لجنہ اماء اللہ کو اپنی ذیلی تنظیم کے صدسالہ جوبلی کے موقع پر ’’مبارک صد مبارک‘‘ پیش ہے۔

اندریں حالات خاکسار نے پیارے آقاحضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ء کے موقع پر جلسہ کے تینوں روز ذیلی تنظیموں کے حوالہ سے روزنامہ الفضل آن لائن کی طرف سے خصوصی نمبرز شائع کرنے کی اجازت چاہی۔ جسے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت منظور فرمایا۔ چنانچہ ادارہ الفضل آن لائن نے ان نمبرز کے شیڈ یول کواس طرح ترتیب دیا ہے۔ قارئین نوٹ فرمالیں۔

  • 1-2؍ اگست: لجنہ اماء اللہ کا خصوصی نمبر
  • 3؍ اگست: لجنہ اماءاللہ و ناصرات الاحمدیہ کا خصوصی نمبر
  • 4؍ اگست: مجلس خدام الاحمدیہ کا خصوصی نمبر
  • 5؍ اگست: مجلس خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کا خصوصی نمبر
  • 6 اور 8؍ اگست: مجلس انصار اللہ کا خصوصی نمبر

نظام جماعت احمدیہ میں ذیلی تنظیموں کی اہمیت و افادیت مسلّمہ ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جماعت کو مضبوط و مربوط بنیاد بہم پہنچانے کے لئے ذیلی تنظیموں کاقیام فرمایا۔ سب سے قبل احمدی خواتین کے لئے لجنہ اماء اللہ کے نام سے تنظیم بنائی اوراس کا مقصد یہ تھا کہ اگر احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت احسن رنگ میں ہو جائے تو آگے جماعت کی نئی پود اور نسل کی اصلاح کے انتظامات احسن رنگ میں طے ہو جائیں گے۔ بعد ازاں بالترتیب خدام اور انصار کی ذیلی تنظیمیں تشکیل دینے کے بعد جب اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کی بنیاد حضورؓ نے رکھی تو آپؓ نے فرمایا۔
’’میری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ ہے کہ عمارت کی چاروں دیواروں کو میں مکمل کر دوں۔ ایک دیوار انصار اللہ ہیں، دوسری دیوار خدام الا حمدیہ ہیں اور تیسری دیوار اطفال الاحمدیہ ہیں اور چوتھی لجنات اماء اللہ ہیں۔ اگر یہ چاروں دیواریں ایک دوسری سے علیحدہ علیحدہ ہو جائیں۔ تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہو سکے گی۔‘‘

(الفضل 30 جولائی 1945ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے اس ارشاد میں نہایت حکمت کے ساتھ جماعت کو یہ درس دیا ہے کہ جماعت احمدیہ ایک عمارت ہے اور یہ چاروں تنظیمیں اس کی چارمضبوط دیواریں ہیں۔ ہم بالعموم مشاہدہ کرتے ہیں کہ عمارت یا کوئی چھت چار دیواروں پرہی کھڑی ہوتی ہے اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دیواروں کی تعمیر کا کام بنیاد سے شروع ہوتا ہے۔ بلند و بالا عمارت تعمیر کرتے وقت بنیاد کو مضبوط بنایا جاتا ہے۔ کنکریٹ اور لوہے کے سریے سےان کو مضبوط بنایا جاتا ہے اور پھر اس پر پہلی اینٹ سیدھی کرکے رکھی جاتی ہے۔ اسے پوری محنت کے ساتھ معمار سوتر اورسیدھا کرنے کا پیمانہ لگا کر سیدھا کر رہا ہوتا ہے حالانکہ اس اینٹ نے مٹی کے اندر چھپ جانا ہوتا ہے۔ اور damp proof کےاوپر جا کر وہی معمار بڑی تیزی سے اینٹوں پر اینٹیں جڑتا چلا جاتا ہے۔ اور بسا اوقات اسے سوتر سے سیدھا بھی نہیں کرنا پڑتا۔ کسی فارسی شاعر نے کیا خوب کہا۔

خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج

یعنی پہلی اینٹ جب معمار ٹیڑھی لگا دے تو اگر دیوار ثریا تک بھی چلی جائے ٹیڑھی ہی ہوگی۔

خاکسار کے اصل مد عا کو اسی شعر میں بیان کردیا گیا ہے۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ معمار دیوار تعمیر کرتے وقت کبھی اینٹ کے اوپر اینٹ نہیں جڑتا بلکہ دو اینٹوں کے درمیانی حصے پر اگلے در کی اینٹ رکھتا ہے تا دیوار مضبوط ہوتی جائے۔ پھر ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ ایک دیوار کے آخری حصے کو دوسری دیوار کے داڑھے (خلا) کے ساتھ پیوست کرتا جاتا ہے۔ تا ایک دیوار دوسری دیوار کے ساتھ اپنا تعلق مضبوطی سے جوڑ لے۔ پرانے وقتوں میں جب پورا گھر تعمیر کرنے کے لیے مالک مکان کے پاس رقم دستیاب نہ ہوتی تھی اور وہ وقفوں وقفوں میں گھر تعمیر کرتا تھا تو وہ دیوار کے آخری حصے میں مستقبل میں بنائی جانے والی دیوار کے لیے اینٹیں نکلی ہوئی چھوڑ دیتا تھا جسے ہم داڑھے بولتے تھے اور ان کے ذریعہ سیڑھی کا کام لے کر ہم چھتوں پر بھی چڑھ جایا کرتے تھے۔ یہ دراصل آئندہ عمارت کو مکمل کرنے کے لئے چھوڑے جاتے تھے۔ کہ تعمیر کے وقت اگلی دیوار اس کے خلا میں مضبوطی کے ساتھ پیوست ہو جائے۔

پھر ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ سال دو سال یا چند سالوں کے بعد حسب توفیق دیواروں کی مرمتیں بھی ضرور کروائی جاتی ہیں۔ اور ڈسٹیمپر اور قلعی وغیرہ بھی کراوئی جاتی ہے۔ یہ سب عمل دیواروں کی مضبوطی کے لئے کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ سچ ہے کہ اگر دیواریں مضبوط رہیں گی تو چھت بھی مضبوط ہوگی اور بالائی منزل بھی اس پر قائم ہو سکے گی۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اطفال الاحمدیہ کی بنیاد رکھتے ہوئے فرمایا کہ آج میں جماعت کی چاروں دیواریں مکمل کر رہا ہوں۔ اس مضمون کو سامنے رکھتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کو من حیث الجماعت عمارت اور ذیلی تنظیموں کو دیواریں قرار دے کر ذیلی تنظیموں کے ممبران و ممبرات کو سمجھایا ہے کہ آپ جماعت کے ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ تنظیموں کے ممبرز بھی ہیں اور ذیلی تنظیموں کے ممبرز ہونے کے ناطےجماعت احمدیہ کی مضبوط اور بلند و بالا عمارت سے پہلے دیواروں کو مضبوط کرنا ہے اور مسلسل کرتے چلے جانا ہے۔ تا اس کے ذریعہ جماعت کی عمارت اور چھت مضبوط ہو جو آپ کا روحانی مسکن ہے۔

خاکسار نے مربی سلسلہ عا لیہ احمدیہ ہونے کے ناطے یہ محسوس کیا ہے کہ جن جماعتوں میں ذیلی تنظیمیں فعال اور active ہیں وہاں کی جماعتیں بھی مضبوط ہیں اور ترقی کر رہی ہیں۔ اس کا ایک دوسرا اینگل (زاویہ) بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ میرے مشاہدہ کے مطابق جہاں جہاں اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ فعال ہیں اور وضع کردہ تمام اصولوں کو بروئے کار لا کر اپنے آپ کو فعال رکھے ہوئے ہیں اور ان بچوں کی تعلیم و تربیت جماعتی اصولوں اور قواعد کے مطابق ہو رہی ہے تو وہ بچے یا بچیاں جب بڑے ہو کر لجنہ کی ممبرز اور خدام الاحمدیہ اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انصار اللہ کے ممبرز بنتے ہیں تو بچپن کی اصلاح اور حاصل کی گئی تعلیم بڑے ہونے تک کام آتی ہے۔ اور وہ جماعتی خدمات کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں۔ بچے معمار بن کر جماعتی عمارت تعمیر کرتے ہیں اور ان کی بچپن میں حاصل کی گئی تعلیم و تربیت عمارت کو مضبوط کرنے کے لیے سیمنٹ اور سریے کا کام کر رہی ہوتی ہے اور جہاں تک بچیوں یعنی ناصرات کا تعلق ہے تو وہ مستقبل کی مائیں بن کر بچپن میں حاصل کی گئی تعلیم و تربیت کو اپنی اولاد اور نسل پر لاگو کر کے اوران قیمتی پتھروں کو تراش خراش کراور ہیرے بنا کر جماعت کی انگشتری کا حصہ بناتی ہیں۔ ایسی بچیاں اور ایسے بچے بڑے ہو کر دنیا کے جس کونے میں بھی چلے جائیں وہاں جا کر اپنے خوبصورت اور حسین اعمال سے وہاں کی فضاؤں کو معطر کر دیتے ہیں اور ان کے ذریعہ ایک نئی زندگی جماعتوں کو ملتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ میرے دارالذکر لاہور میں قیام کے دوران ایک مذہبی جماعت کے کچھ لوگ جماعت احمدیہ کے بارے میں معلومات اور تعارف لینے کے لیے دار الذکر آئے تو خاکسار کی طرف سے گفتگو مکمل ہونے پر مہمان جماعت کے لاہور ونگ کے جنرل سیکرٹری نے جماعت احمدیہ کے بارے اپنے مشاہدات کا ذکر کیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولے کہ آپ کی جماعت میں کچھ وادھے (اضافے اور خوبیاں) بھی ہیں۔ ایک تو سرکاری دفاتر میں احمدی اپنے اخلاق و اطوار اور کردار کی وجہ سے نمایاں نظر آتا ہے وہ وقت پر نماز پڑھتا ہے، جھوٹ نہیں بولتا، رشوت نہیں لیتا اور اپنے کام سے دیانت دار ہے۔ اور دوم یہ کہ آپ کا ننھا بچہ جب معمولی چلنے اور باہر دروازہ کی دہلیز تک آنے کے قابل ہوتا ہے تو باہر آپ کی تنظیم کے لوگ اس کو سینے سے لگانے اور اس کی تعلیم و تربیت کے لئے موجود ہوتے ہیں گویا گھر کے اندر افراد خانہ تربیت کر رہے ہوتے ہیں اور باہر افراد جماعت۔

لجنہ کو خراج تحسین

چونکہ 2022ء میں لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کو 100 سال پورے ہو رہے ہیں۔ اس لئے اپنی تحریر کا رُخ لجنہ اماءاللہ تنظیم کی طرف موڑتے ہوئے اس بات کا کھلے بندوں اعتراف کرنا ہوگا کہ یہ تنظیم اپنے عظیم بانی ؓ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے آغاز سے ہی فعال رہی ہے اور دنیا بھر میں تمام مقامات پر کارہائے نمایاں سر انجام دے کر جماعت کو ایسے سپوت مہیا کئے ہیں اور آج بھی مسلسل کر رہی ہے جو جماعت احمدیہ کے لئے نیک نامی کا باعث ہیں اور جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس دور کے روحانی نظام ’’خلافت احمدیہ‘‘ کی حفاظت اور مضبوطی کے سامان پیدا کر رکھے ہیں۔

میں نے پاکستان میں لاہور، پشاور، اسلام آباد، بدّو ملہی اور پیر محل، ٹوبہ ٹیک سنگھ میں خدمات بجا لانے کے علاوہ ربوہ میں قیام کے دوران اور بیرون پاکستان سیرا لیون، برطانیہ میں لجنہ تنظیم کو دوسری تنظیموں سے زیادہ فعال پایا۔ اور آج کل الفضل آن لائن کی ترتیب و آرائش، تشہیر، اس کی پروف ریڈنگ کرنے اور مضامین کو اخبار کاحصہ بنانے کے لئے مرد خدمت گزاروں کے شانہ بشانہ خواتین خدمت گزار جو کام کر رہی ہیں۔ ان کو دیکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان خدمت کرنے والی خواتین کی تعلیم و تربیت بچپن میں ایسی ناصرات کی تنظیم میں ہوئی جو بہت فعال تھیں۔ فَجَزَاھُمُ اللّٰہُ تَعَالیٰ اٴَحْسَنَ الْجَزَآء۔ کَانَ اللّٰہُ مَعَھُمْ وَ اٴَیَّدَھُمْ وَ بَارِکْ فِیْ سَعْیِھِمْ۔

*جناب عبد الحمید قریشی (نامور صحافی) ’’احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ نسل سے زیادہ مضبوط اور پُر جوش ہوں گی‘‘ کے عنوان کے تحت لجنہ اماء اللہ کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

’’لجنہ اماء اللہ قادیان احمد یہ خواتین کی انجمن کا نام ہے۔ اس انجمن کے ماتحت ہر جگہ عورتوں کی اصلاحی مجالس قائم کی گئی ہیں اور اس طرح پر ہر وہ تحریک جو مردوں کی طرف سے اٹھتی ہے خواتین کی تائید سے کامیاب بنائی جاتی ہے اس انجمن نے تمام خواتین کو سلسلہ کے مقاصد کے ساتھ عملی طور پر وابستہ کر دیا ہے۔ عورتوں کا ایمان مردوں کی نسبت زیادہ مخلص اور مربوط ہوتا ہے۔ عورتیں مذہبی جوش کو مردوں کی نسبت زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ لجنہ اماء اللہ کی جس قدر کارگزاریاں اخبار میں چھپ رہی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت زیادہ مضبوط اور پُر جوش ہوں گی اور احمدی عورتیں اس چمن کو تازہ دم رکھیں گی جس کا مرور زمانہ کے باعث اپنی قدرتی شادابی اور سر سبزی سے محروم ہونا لازمی تھا۔‘‘

(اخبار تنظیم۔ امرتسر28دسمبر 1926ء
بحوالہ خلافت وقت کی ضرورت ہے (اغیار کی نظر میں) از حنیف احمدمحمود صفحہ90-100)

• حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جماعت احمدیہ کے تمام مرد و زن، چھوٹے بڑے، بزرگ اور نو جوانوں کی مختلف تنظیمیں بنا کے جب آپس میں باندھ دیا اور اس کے شیریں ثمرات نظر آنے لگے تو جماعت احمدیہ کی مخالفت میں بد نامی کی حد تک مشہور مجلس احرار کے ترجمان اخبار ’’زمزم‘‘ نے جماعت کی اس قابل رشک تنظیم کا ذکر کرتے ہوئے بے حد حسرت و یاس سے لکھا۔ درج ذیل تحریر سے ان کی بے چارگی تو ظاہر ہوتی ہی ہے لیکن یہ ان کو معلوم نہیں ہوسکا کہ ا ن کے یہ الفاظ جماعت احمدیہ کے نظام کی کامیابی اور پختگی کو تسلیم کرنے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لامحالہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جماعت احمدیہ کے لیے تائید ونصرت کا ایک اور نشان ہیں۔

’’ایک ہم ہیں کہ ہماری کوئی بھی تنظیم نہیں اور ایک وہ ہیں کہ جن کی تنظیم اور تنظیم کی تنظیمیں ہیں۔ ایک ہم ہیں آوارہ، منتشر اور پریشان ہیں۔ ایک وہ ہیں کہ حلقہ در حلقہ، محدودو محصور اور مضبوط اور منظّم ہیں ایک حلقہ احمدیت ہے۔ اس میں چھوٹا، بڑا، زن و مرد، بچہ بوڑھا، ہر احمدی مرکز ’’نبوت‘‘ پر مرکوز مجتمع ہے۔ مگر تنظیم کی ضرورت اور برکات کا علم و احساس ملاحظہ ہو کہ اس جامع و مانع تنظیم پر بس نہیں۔ اس وسیع حلقہ کے اندر متعدد چھوٹے چھوٹے حلقے بنا کر ہر فرد کو اس طرح جکڑ دیا گیا ہے کہ ہل نہ سکے۔ عورتوں کی مستقل جماعت لجنہ اماء اللہ ہے۔ اس کا مستقل نظام ہے۔ سالانہ جلسہ کے موقع پر اس کا جدا گانہ سالانہ جلسہ ہوتا ہے۔ خدام الاحمدیہ نو جوانوں کا جدا نظام ہے۔ پندرہ تا چالیس سال کے ہر فرد جماعت کا خدام الا حمدیہ میں شامل ہونا ضروری ہے۔ چالیس سال سے اوپر والوں کا مستقل ایک اور حلقہ ہے۔ انصار اللہ جس میں چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان تک شامل ہیں۔ میں ان واقعات اور حالات میں مسلمانوں سے صرف اس قدر دریافت کرتا ہوں کہ کیا ابھی تمہارے جاگنے اور اُٹھنے اور منظّم ہونے کا وقت نہیں آیا؟ تم نے متعدد مورچوں کے مقابلہ میں کوئی ایک مورچہ لگایا۔ حریف نے عورتوں کو میدان جہاد میں لا کھڑا کیا۔ میرے نزدیک ہماری ذلت اور رسوائی اور میدان کشا کش میں شکست و پسپائی کا ایک بہت بڑا سبب یہی غلط معیار شرافت ہے۔‘‘

(زمزم لاہور 23جنوری 1945ء
بحوالہ خلافت وقت کی ضرورت ہے (اغیار کی نظر میں) از حنیف احمد محمود صفحہ100-101)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے تمام ممالک کی تنظیموں کو آزاد کر کے اپنے ماتحت لینے اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہر تین تنظیموں کے نظام کو مزید مضبوط و مربوط کرنے کے لئے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری برائے لجنہ، برائے خدام اور برائے انصار مقرر فرمایا تو کام میں جہاں جدّت پیدا ہوئی وہاں کام میں بہتری بھی آئی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ

اللہ تعالیٰ ہمیں نظام سلسلہ کا فعال کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

پروگرام جلسہ سالانہ 2022

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اگست 2022