• 19 مئی, 2024

خواتین مبارکہ جن کے تعاون سے لجنہ تنظیم پھلی پھولی

خدائے عزوجل نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کی جوشاندار صفات بیان کی ہیں تمام خواتین مبارکہ ان کا جیتا جاگتا نمونہ اورغیر معمولی شخصیت اور سیرت و کردار کے لحاظ سے امتیازی شان کی مالک تھیں۔ ان کے اخلاق فاضلہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، تقویٰ، انفاق فی سبیل اللہ اور شفقت علیٰ خلق اللہ نمایاں تھے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔
’’یعنی تو کہہ دے میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘

(الانعام: 163)

ان مبارک ہستیوں کی زندگی کے ہر پہلو میں محبت الٰہی غالب نظر آتی ہے۔ ان کے اسلامی کردار سرکار دوعالم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اسوہ کا عمدہ نمونہ تھے۔

اللہ تعالیٰ جو کل کائنات میں اپنے حسن و جمال میں لاثانی ہے جب کسی محبوب بندے کی تخلیق کرتا ہے تو اس میں وہ اپنے حسن کے لازوال رنگ بھر دیتا ہے۔ حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا جو بانی سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ تھیں ان کے اخلاق فاضلہ بھی انہی حسین رنگوں سے مزین تھے۔

آپؓ کی پاکیزہ نیک فطرت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت اور تربیت نے بہت پیارا بنا دیا تھا۔ آپؓ نہایت خوش مزاج، سلیقہ شعار، مخلوق خدا کی سچی خیر خواہ، عمدہ خدمت گزار اور ہر ایک سے محبت کرنے والی تھیں۔

آپؓ نہایت درجہ کی صابر و شاکرتھیں کسی مشکل میں نہ گھبراتیں۔ اللہ تعالیٰ پر کامل توکل تھا۔ مشکل وقت میں دعا میں لگ جاتی تھیں۔ آپؓ کا دل محبت کا ایک سمندر تھا۔ آپؓ شریعت کی پوری پابندی تھیں۔ آخری وقت تک مکمل پردہ کرتی رہیں۔ آپؓ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔ تہجد اس ذوق و شوق سے ادا کرتی تھیں کہ دیکھنے والوں کے دل میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہو نے لگتی۔

آپؓ کو قرآن مجید سے بہت محبت تھی۔ کثرت سے تلاوت کرتیں بڑھاپے میں جب نظر کمزور ہو گئی تو آپؓ کسی نہ کسی کو بٹھا کر قرآن مجید کی تلاوت سنا کرتی تھیں۔ آپؓ نے اپنی وفات سے قبل بھی قرآن مجید سننے کی خواہش کی تھی۔

حضرت اماں جانؓ کو حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی۔ جس طرح قرآن کریم سنتیں اسی طرح احادیث کی کتب روزانہ سنتیں۔ وفات کے قریب بیماری میں یہ شوق اس قدر بڑھ گیا تھا کہ سنانے والا تھک جاتا لیکن آپؓ کی پیاس نہیں بجھتی۔

آپؓ کے عظیم الشان صبر کا ایک اور واقعہ جس کو پڑھ کے ہمارے ایمان میں بہت اضافہ ہوتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی کی بیماری کے ایام میں کوئی دقیقہ ان کے علاج معالجہ میں فروگذاشت نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن جب تقدیر الٰہی سے وہ بھی فوت ہو گئے تو حضرت ام المومنین نے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کہنے کے بعد فرمایا میں خدا کی تقدیر پر راضی ہوں۔ جب خدا تعالیٰ نے ام المومنین رضی اللہ عنہا کے اس عظیم الشان صبر کو دیکھا تو اس نے اپنے پیارے مسیح علیہ السلام پر الہام نازل فرمایا ’’خدا خوش ہو گیا۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ الہام حضرت ام المومنینؓ کو سنایا تو آپؓ نے فرمایا ’’مجھے اس الہام سے اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ دو ہزار مبارک احمد بھی مر جاتا تو میں پرواہ نہ کرتی۔‘‘

(سیرت حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ از شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ268)

آپؓ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت احسن رنگ میں فرماتیں۔ ہفتے میں ایک دفعہ نابیناؤں، یتیم بچوں کو گھر کھانے پر بلاتیں۔

آپؓ کی ایک بیش قیمت مالی قربانی یہ بھی ہے کہ جون 1914ء میں الفضل کے اجراء میں آپؓ نے اپنی زمین فروخت کرکے اس کی رقم جو تقریبا ایک ہزار روپے بنتی تھی، عنایت فرمائی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے زریعے بتایا تھا ’’تیرا گھر برکتوں سے بھرے گا۔ اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوی کروں گا۔ اور خواتینِ مبارکہ میں سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا، تیری نسل بہت ہوگی۔‘‘

ذیل میں اب آپ کے سامنے مزید خواتین مبارکہ کا اعلی اسلامی کردار پیش کیا جا رہا ہے۔

حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ

حضرت نواب مبارکہ بیگم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے تھیں۔ آپؓ بہت دعا گو اور عبادت گزار تھیں بڑے اہتمام سے، بڑے خشوع و خزوع سے لمبی لمبی نمازیں پڑھتیں۔ آپؓ کو مقامِ خلافت کا بیحد احترام تھا اور نظام خلافت سے وابستگی اور اطاعت گذاری ہمیشہ آپؓ کا چلن رہا۔ آپ نے اپنی زندگی میں تین خلفاء کا دور دیکھا اور تینوں ہی سے آپؓ کو بیحد محبت اور اس قدر عقیدت تھی کہ جس کی مثال نہیں۔

جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ آپؓ کے بھائی بھی تھے، آپؓ سے جدا ہوئے تو غم سے نڈھال ہوگئیں۔ لیکن اس وقت بھی کمال صبر اور حوصلے کا نمونہ پیش کیا، سب بچے، عزیز، حضرت مصلح موعودؓ کے گرد جمع تھے، آپؓ کی وفات پر سب ہی تڑپ اٹھے، رونے لگے، ان آہوں اور سسکیوں میں ایک شا ندار آواز بلند ہوئی کڑا کے دار ’’سنو! خاموش ہو جاؤ! میری بات سنو، مجھے وہ وقت یاد ہے، یہ وہ ہیں، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جنازے پر کھڑے ہوکر یہ عہد کیا تھا کہ:
’’اگر سب میرا ساتھ چھوڑ دیں، میں اکیلا رہ جاؤں تو بھی میں عہد کرتا ہوں کہ اس مشن کو میں پورا کروں گا، جس کے لئے آپؑ بھیجے گئے تھے۔‘‘

دیکھو! میری آنکھوں نے دیکھا انہوں نے ہر لحاظ سے اس عہد کو پورا کیا، آخر دم تک اس عہد پر قائم رہے، دین کی خدمت میں ہی جان دی، اب رونے کا وقت نہیں، دعائیں کرو اور خدا کے سامنے عہد کرو کہ تم بھی ان کے نقش قدم پر چلو گے، اب تم پر یہ ذ مہ داری ہے۔‘‘

(حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ صفحہ103 شائع کردہ لجنہ اماء اللہ)

آپؓ نے حضرت اماں جان کے طریق پر بہت سی یتیم لڑکیوں کی اور جو سفید پوش گھرانے، اپنی بچیاں آپ کے پاس تربیت کے لئے چھوڑ جاتے، ان سب کی بہترین تربیت کی، پکانا، ریندھنا سب سکھایا۔ پھر اچھے گھروں میں ان کی شادیاں کیں، سب اپنے اپنے گھروں میں بہت سکھی رہیں۔

حضرت سیّدہ نواب امة الحفیظ بیگمؓ 

حضرت سیّدہ نواب امة الحفیظ بیگمؓ  حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے آخری وجود تھیں۔

حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کی وارث اور حضرت اماں جانؓ کی تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے حضرت صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ نے اپنی عائلی زندگی خوب بسر کی۔ اپنے خاوند سے محبت و وفا کا تعلق نبھایا اور عسر و یسر میں پورا ساتھ دیا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب دل کی بیماری میں مبتلا ہوئے تو حضرت سیدہ صاحبہ نے اپنے خاوند کی خدمت کا صحیح معنوں میں پورا حق ادا کیا اور دن رات اپنے خاوند اور بچوں کی دیکھ بھال میں لگی رہتیں۔ اس خدمت میں اپنی صحت کی بھی پروانہ کی۔ چنانچہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب اپنی صاحبزادی کو شادی کے موقع پر نصائح پر مشتمل خط میں اپنی اہلیہ کی وفاداری کی شہادت دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’تمہاری امی اس معاملہ میں بہترین نمونہ ہیں تم نے خود دیکھا ہے کہ کس قدر تنگی انہوں نے میرے ساتھ اٹھائی لیکن اس وقت کو نہایت و فا اور محبت کے ساتھ گزار دیا ایک طرف تو یہ تسلیم ورضا تھی اور دوسری طرف مجھے کام کرنے اور باہر نکل جانے کی ترغیب دیتی تھیں۔ آخر اس صابر و شاکر ہستی کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رحم اور فضل کے دروازے میرے پر کھول دیئے۔ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی امی کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ گھر میں مختلف قسم کی تکالیف بھی آئیں لیکن اس خدا کی بندی نے اپنے میکے میں ان تکالیف کا کبھی بھی ذکر نہ کیا۔ خود اپنے نفس پر سب کچھ برداشت کیا، لیکن دوسروں کو اپنی تکلیف میں شامل کرنا گوارا نہ کیا۔ وقت تھا گزر گیا، میری بچی! مجھے بڑی خوشی ہوگی تم بھی اپنی امی کی طرز ہی اختیار کرو وہ تمہارے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں۔‘‘

حضرت غلام فاطمہؓ 
دختر بزرگ صحابی مولوی فیض الدین
اہلیہ ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحب کامٹی

حضرت غلام فاطمہ بیگم صاحبہؓ کثرت سے ذکر الٰہی کرتیں، آپ دھیمی آواز میں وقار سے بات کرتیں اور دوسروں کو بھی تاکید کرتیں۔

ایک دفعہ غلام فاطمہ بیگمؓ صاحبہ کا بیٹا رفیع احمد نمونیہ و ٹائیفائڈ کی وجہ سے شدید بیمار ہو گیا۔ اس وقت علاج کے لئے موجودہ زمانہ جیسی سہولتیں اور دوائیں موجود نہیں تھیں۔ آپ لوگ رہتے بھی کامٹی میں تھے۔ خواتین آپ کو تعویذ گنڈے کرانے کا مشورہ دیتیں، چھری چاقو دم کر کے لاتیں کہ بچے کے پاس رکھیں مگر آپ نے اس قسم کا کوئی شرک نہیں کیا۔ آپ بچے کے لئے دعا کرتیں اور رات کو تکیے کے نیچے صدقے کے پیسے رکھ دیتیں اور صبح صدقہ دے دیتیں۔ مولا کریم نے شفاعنایت فرمادی۔

(غلام فاطمہ بیگم، میمونہ بیگم صفحہ14-15 شائع کردہ لجنہ اماءا للہ)

غلام فاطمہ بیگم صاحبہ اپنی بیٹیوں کو تاکید کرتیں کہ اپنے گھر اور خاص طور پر سسرال کی باتیں باہر کرنا مناسب نہیں۔ آپ مثال ایسی دیتی تھیں جو وہ کبھی نہ بھولتی تھیں۔

حضرت سرور سلطانہ

حضرت مولوی غلام حسین خان نیازی صاحب کی بیٹی سرور سلطان صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منجھلے بیٹے حضرت مرزا بشیر احمدؓکے نکاح میں آئیں۔

حضرت سیّدہ صاحبہ کو ایک بہت بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا۔ محض خدا کے فضل واحسان سے آپ اس امتحان میں پوری اتر یں اورسچائی پر قدم جمائےرکھے۔ ہوا یہ کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعد جماعت میں جو فتنہ اٹھا اور کچھ لوگ لاہور چلے گئے ان میں آپ کے والد صاحب بھی تھے قریباً چالیس سال آپ لاہوری جماعت میں شامل رہے۔

یہ بڑی تکلیف کی بات تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سمدھی خلافت کے منکر ہو گئے تھے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو اس کا بے حد دکھ تھا۔ دعائیں بھی کرتے اور خطوط لکھ کر سمجھانے کی کوشش بھی کرتے مگر ان کی بیٹی کو اس بات پر تنگ نہ کرتے اور نہ ہی بیٹی اپنے باپ کی طرف داری کرتیں بلکہ خلافت سے مضبوطی سے وابستہ رہیں۔

حضرت سیدہ محمودہ بیگمؓ

حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور والدہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمتہ اللہ علیہ تھیں۔

1913ء حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اخبار الفضل جاری کر نے کا ارادہ کیا تو آپؓ فرماتے ہیں۔
’’خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح حضرت خدیجہؓ کے دل میں رسول کریمﷺ کی مدد کی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں پیسہ لگانا ایسا ہی ہے۔ جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کر نے والا محمود ہو جو اس زمانہ میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا۔ اپنے دوز یور مجھے دے دیئے کہ ان کوفروخت کر کے اخبار جاری کر دوں۔

وہ بیوی جن کو میں نے اس وقت تک ایک سونے کی انگوٹھی بھی شاید بنوا کر نہ دی ہے۔ اس کی یہ قربانی میرے دل پر نقش ہے اور اگر ان کی اور قربانیاں اور ہمدردیاں اور اپنی سختیاں اور تیزیاں میں نظر انداز بھی کر دوں تو ان کا سلوک مجھے شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا اور میری زندگی کے ایک نئے باب کا ورق الٹ دیا۔ بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بڑا سبب پیدا کر دیا۔‘‘

(حضرت سیّدہ محمودہ بیگمؓ صفحہ13-14 شائع کردہ لجنہ اماء اللہ)

1922 میں جب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لجنہ اماءاللہ کی بنیاد رکھی تو پہلی چودہ خواتین میں آپؓ بھی شامل تھیں اور اس کے پہلے اجلاس میں حضرت اماں جانؓ نے صدارت کی کرسی پر آپؓ کو بٹھایا اور تقریبا 36 سال یعنی وفات تک آپ نے اس عہدے پر خدا تعالیٰ کے فضل و احسان کے ساتھ کام کیا اور احمدی خواتین کی بے حد خدمت کی۔

حضرت سیدہ مریم النساء بیگمؓ (امّ طاہر)

حضرت سیدہ مریم النساء ام طاہر صاحب حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تیسری بیوی تھیں۔ آپؓ کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بہت ہی گہرا احترام تھا۔ باوجود بہوہو نے کے ہمیشہ اپنے آپ کو حضور علیہ السلام کی اولاد سے کم مرتبہ سمجھا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
’’مریم ایک بہادر دل کی عورت تھیں۔ جب کوئی نازک موقع آتا میں یقین کے ساتھ ان پر اعتبار کر سکتا تھا۔ ان کی نسوانی کمزوری اس وقت دب جاتی تھی چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے تھے۔ اور دیکھنے والا کہہ سکتا تھا کہ اب موت اور کامیابی کے سوا اس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں ہے۔ یہ مر جائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہٹے گی۔ ضرورت کے وقت راتوں اس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے۔ اور تھکان کی شکایت نہیں کی۔ انہیں صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے۔ یا سلسلہ کے لیے کوئی خطرہ یا بدنامی ہے اور وہ شیرنی کی طرح لپک کر کھڑی ہو جاتیں اور بھول جاتیں اپنے آپ کو بھول جاتیں کھانے پینے کو، بھول جاتیں اپنے بچوں کو، بلکہ بھول جاتیں مجھ کو بھی اور صرف انہیں وہ کام ہی یاد رہ جاتا تھا۔ اور اس کے بعد جب کام ختم ہو جاتا تو وہ ہوتیں یا گرم پانی کی بوتلیں جن میں لپٹی ہوئی وہ اس طرح اپنے درد کرنے والے جسم اور متورم پیٹ کو چاروں طرف سے ڈھانپے ہوئے لیٹ جاتیں کہ دیکھنے والا سمجھتا تھا یہ عورت ابھی کوئی بڑا آپریشن کروا کر ہسپتال سے آئی ہے۔ اور وہ کام ان کے بیمار جسم کے لئے واقعی میں بڑا آپریشن ہی ہوتا تھا۔‘‘

(سیرت سیّدہ حضرت مریم النساء صفحہ13 شائع کردہ لجنہ اماء اللہ)

حضرت صالحہ بیگم المعروف امّ داؤد

حضرت صالحہ بیگم صاحبہ دختر حضرت پیر منظور محمد صاحب اور زوجہ حضرت میر محمد اسحٰق صاحب کا جماعت احمدیہ میں ایک خاص مقام تھا۔ حضرت میر صاحبؓ حضرت امّاں جان نور اللہ مرقدہ کے سگے بھائی تھے۔

حضرت صالحہ بیگم صاحبہ کو احمدی خواتین میں دینی مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے اور علمی لحاظ سے ایک اچھا مقام حاصل تھا۔ آپ بہت حساس طبیعت کی مالک تھیں کسی کی تکلیف دکھ اور پریشانی کو اس کے چہرہ سے پہچان لیتی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتی تھیں اور پوچھ لیتی تھیں کہ کیا تکلیف ہے۔ اور تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرتیں۔ ممبرات لجنہ اماء اللہ میں سے جو کوئی ضرورت مند ہوتی خاموشی کے ساتھ اس کی ضرورت کو پورا کر نے کی کوشش کرتیں۔

حضرت میمونہ صوفیہ المعروف ’’استانی جی‘‘
دختر چوہدری حبیب احمدؓ صاحب
(صحابی حضرت مسیح موعودؑ)

استانی جی بہت جرأت مند خاتون تھیں۔ اظہار رائے کا خاص ملکہ رکھتی تھیں۔ 1928ءکی مجلس مشاورت میں قادیان میں زنانہ ہوسٹل کھولنے کا معاملہ زیر بحث لایا گیا تو مستورات کو رائے کا اظہار کرنے کی دعوت حضرت مصلح موعودؓ نے دی۔ حضورؓ کی اجازت ملنے پر باہمی مشورہ کے بعد استانی جی نے عورتوں کی نمائندگی کی۔

ایک اور موقعہ پر 1929ء میں جب مجلس شوری میں عورتوں کو حق نمائندگی دینے کی تجویز زیر بحث لائی گئی تو حضرت مصلح موعودؓ نے پھر عورتوں کو بھی بولنے کی دعوت دی اور فرمایا:
’’جو چا ہیں بول سکتی ہیں، اب میں چار منٹ تک انتظار کروں گا کہ کوئی عورت بولتی ہے یا نہیں‘‘

اس پر استانی جی نے تقریر کی اور کہا کہ جب ہمارے لئے درس گاہیں اس لئے کھولی جا رہی ہیں کہ ہم علم حاصل کر یں تو کیا یہ بات ہمارے لئے سد راہ نہ ہوگی کہ قوم ہمارے لئے فیصلہ کر دے کہ عورتوں کو مجلس مشاورت کی نمائندگی کا حق حاصل نہیں جب ہم عورتوں کے سامنے اپنے خیالات پیش کر یں گی تو وہ جواب دیں گی کہ تمہارے مذہب نے تو تمہارے لئے مشورہ کا حق بھی نہیں رکھا اس لئے تمہاری بات ہم نہیں سنتیں۔

(استانی میمونہ صفحہ9 شائع کردہ لجنہ اماء اللہ)

1939ء میں خلافت جوبلی کے موقع پر جماعت احمدیہ لجنہ اماء اللہ کا جھنڈا بنا۔ اس کا سوت کاتنے والی خوش قسمت بزرگ خواتین میں آپ کا نام بھی شامل تھا۔

ہمیں ان بزرگ ہستیوں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کرنا چاہئے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنی چاہئیں۔

یہ تما م مبارک ہستیاں حقیقی رنگ میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی تھیں اور بجا طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کا مصداق تھیں

اسلام چیز کیا ہے، خدا کے لئے فنا
ترکِ رضاء خویش پئے مرضیِ خدا

(مظفرہ ثروت۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ