• 19 مئی, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش

تبرکات

حضرت مرزا بشیر احمد

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم نے مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم اے مبلغ انگلستان کا حسب ذیل مضمون اپنے ان الفاظ کے ساتھ اشاعت کے لئے مرحمت فرمایا ہے۔

’’مکرمی مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے مبلغ لندن نے ایک مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر اور تاریخ پیدائش کی تعیین کے متعلق لندن سے ارسال فرمایا۔ مجھے درد صاحب نے اجازت دی ہے کہ اگر مناسب ہو تو مضمون میں تبدیلی کر لی جائے لیکن چونکہ مضمون بہت محنت اور تحقیق کے ساتھ لکھا ہوا ہے اور ایسے تحقیقی مضامین میں رائے کا اختلاف چنداں قابلِ لحاظ نہیں ہوتا اس لئے باوجود اس مضمون کے بعض حصص سے اختلاف رکھنے کے میں اسے بغیر کسی تبدیلی کے آپ کی خدمت میں بغرض اشاعت ارسال کرتا ہوں‘‘

ذیل میں مذکورہ بالا مضمون شکریہ کے ساتھ درج کیا جاتا ہے (ایڈیٹر)

الفضل مورخہ11جون 1933ء اور18جون 1933ء میں سید احمد علی صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی عمر کے متعلق بہت مفید حوالے جمع کئے ہیں اور مکرمی مولوی اللہ دتا صاحب (ابوالعطاء جالندھری۔ ناقل) نے اپنی کتاب تفہیماتِ ربّانیہ میں صفحہ 100 سے 112 تک آپ کی عمر کے متعلق عالمانہ بحث کی ہے لیکن دونوں صاحبوں نے ’’اہلحدیث‘‘ مجریہ 26 مئی 1933ء اور مولوی صاحب نے عشرئہ کاملہ کا جواب دیا ہے۔ میرے نزدیک آپ کی عمر کا سوال ایسا ہے کہ اسے مستقل حیثیت سے فیصلہ کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔

عمر کے متعلق الہامات

الہام ثَمَانِیْنَ حَوْلاً اَوْ قَرِیْباً مِنْ ذَالِکَ اَوْ تَزِیْدُ عَلَیْہِ سَنِیْنًا وَ تَریٰ نَسْلاً بَعِیْداً (اربعین نمبر 3۔ طبع دوم صفحہ 36۔ اور ضمیمہ تحفہ گولڑویہ طبع دوم صفحہ 29) اور الہام وَ تَرٰی نَسْلاً بَعِیْداً وَ لِنُحْیِیَنَّکَ حَیوٰۃً طَیِّبَۃً ثَمَانِیْنَ حَوْلاً اَوْ قَرِیْباً مِنْ ذَالِکَ (ازالہ اوہام حصہ دوم طبع اول صفحہ 634و635) کا مطلب حضرت مسیح موعودؑ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرما دیا ہے۔

’’جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو 74 اور 86 کے اندر اندر عمر کی تعیین کرتے ہیں‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 97)

پس اگر آپ کی عمر شمسی یا قمری حساب سے اس کے اندر اندر ثابت ہو جائے تو یہ الہامات پورے ہو جاتے ہیں۔ یعنی اگر آپ کی پیدائش 1836ء و1822ء کے اندر ثابت ہو جائے تو کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

تاریخ پیدائش کا تعیّن

یقینا ہماری طرف سے جو کچھ اس بارے میں لکھا گیا ہے اس سے ثابت ہو چکا ہے کہ آپ کے الہامات پورے ہو گئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کا تعین ایک بالکل الگ سوال ہے۔ اس لئے دیکھنا چاہئے کہ ان الہامی حدود کے اندر اندر بحیثیت مجموعی آپ کی تاریخ پیدائش کہاں تک معین کی جا سکتی ہے۔

تاریخ پیدائش کے فیصلہ کا طریق

یہ یقینی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو اپنی صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہ تھی کیونکہ حضور فرماتے ہیں۔

’’عمر کا اصل اندازہ تو خداتعالیٰ کو معلوم ہے‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 193)

اسی طرح غالباً ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمارے پاس کوئی یادداشت نہیں کیونکہ اس زمانہ میں بچوں کی عمر کے لکھنے کا کوئی طریق نہ تھا۔ ایسی صورت اصل تاریخ پیدائش کا فیصلہ دو ہی طرح ہو سکتا ہے۔ یا تو کسی کے پاس کوئی ایسی مستند تحریر مل جائے جس میں تاریخ پرانے زمانہ کی لکھی ہوئی ہو یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مخالفین کی تحریرات پر یکجائی نظر ڈال کر دیکھا جائے کہ زیادہ میلان کس سن کی طرف ہے۔

قابلِ غور امور

پیشتر اس کے کہ مختلف تحریرات پر اس طرح نظر ڈالی جائے دو تین امور قابل غور ہیں اور وہ یہ کہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل تحریر سےمجھے (سید احمد علی صاحب نے انجام آتھم حاشیہ صفحہ 7 کا بھی حوالہ دیا ہے جو اس طرح ہے۔ ’’آتھم کی عمر قریباً میرے برابر تھی۔‘‘ پھر اس کتاب کے صفحہ 206 پر فرمایا ’’کمثل کان فی عمروھن‘‘ دکھلاؤ کہ آتھم کہاں ہے۔ اس کی عمر تو میری عمر کے برابر تھی۔ یعنی قریب 64 سال کے (اعجاز احمدی صفحہ 3) یہ نتیجہ نکالنا کہ چونکہ آتھم 27 جولائی 1896ء کو مرا تھا۔ (انجام آتھم صفحہ 1) اس لئے آپ کی عمر 76 سال ہوئی درست نہیں معلوم ہوتا۔ کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نے جس رنگ میں اپنی عمر آتھم کے برابر ظاہر کی ہے وہ ایسا نہیں کہ صرف ایک حوالہ کو لے کر نتیجہ نکال لیا جائے۔ آتھم کے مقابلہ میں جس امر پر آپ زور دینا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ’’ہم دونوں پر قانون قدرت یکساں مؤثر ہے‘‘ (اشتہار انعامی دو ہزار روپیہ مورخہ 20ستمبر 1894ء) پھر فرماتے ہیں ’’ہم اور آتھم صاحب ایک ہی قانون قدرت کے نیچے ہیں۔‘‘ (اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ) عمر کے متعلق جو وضاحت فرمائی ہے وہ اس طرح ہے۔

’’اگر آتھم صاحب 64 برس کے ہیں تو عاجز قریباً 60 برس کا ہے۔‘‘

(اشتہار انعامی دو ہزار روپیہ مورخہ 20 ستمبر 1894ء)

پھر فرماتے ہیں کہ: ’’اور بار بار کہتے ہیں (آتھم صاحب) کہ میری عمر قریب 64 یا 68 برس کی ہے ۔۔۔۔۔۔ دیکھو میری عمر بھی تو قریب ساٹھ برس کے ہے۔‘‘

(اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ)

پھر فرماتے ہیں: ’’آپ لکھتے ہیں کہ قریب ستر برس کی میری عمر ہے اور پہلے آپ اس سے اسی سال کے کسی پرچہ ’’نور افشاں‘‘ میں چھپا تھا کہ آپ کی عمر 64 برس کے قریب ہے۔ پس میں متعجب ہوں کہ اس ذکر سے کیا فائدہ۔ کیا آپ عمر کے لحاظ سے ڈرتے ہیں کہ شاید میں فوت نہ ہو جاؤں۔ مگر آپ نہیں سوچتے کہ بجز ارادئہ قادر مطلق کوئی فوت نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔۔ اگر آپ 64 برس کے ہیں تو میری عمر بھی قریباً 60 کے ہو چکی‘‘

(اشتہاری انعام تین ہزار روپیہ مورخہ5 اکتوبر 1894ء)

پس ان واضح تحریروں کے ہوتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر آتھم کے بالکل برابر نہیں قرار دی جا سکتی۔ بلکہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں۔
’’بہتیرے سو سو برس زندہ رہتے ہیں۔ مگر عبداللہ آتھم کی جیسا کہ نور افشاں میں لکھا گیا ہے صرف اب تک 64 برس کی عمر ہے۔ جو میری عمر سے صرف چھ سات برس ہی زیادہ ہے۔ ہاں اگر مسیح کی قدرت پر اب بھروسہ نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔ مرنے کا قانون قدرت ہر یک کے لئے مساوی ہے۔ جیسا آتھم صاحب اس کے نیچے ہیں۔ ہم بھی اس سے باہر نہیں اور جیسا کہ اس عالم کون و فساد کے اسباب ان کی زندگی پر اثر کر رہے ہیں۔ ویسا ہی ہماری زندگی پر بھی مؤثر ہیں‘‘

(انوار الاسلام حاشیہ روحانی خزائن جلد9 صفحہ 38-37)

پس میں سمجھتا ہوں کہ آتھم کے مقابلہ میں جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے وہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک موٹا اندازہ ہے۔ اصل غرض آپ کی عمر کا تعین نہیں بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ زندہ رکھنا ار مارنا خدا کے اختیار میں ہے۔ اور قانون قدرت کے اثر کے لحاظ سے دونوں کی عمروں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔

دوسرا امر جو قابل غور ہے۔وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مقامات پر یہ تحریر فرمایا ہے کہ ’’جب میری عمر چالیس برس تک پہنچی تو خداتعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف فرمایا۔‘‘(تریاق القلوب صفحہ 68 و براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 105۔ اور آئینہ کمالات اسلام صفحہ 548) لیکن جہاں تک مجھے علم ہے۔ آپ نے یہ کہیں فرمایا۔ ’’سب سے پہلا الہام قریباً 25 برس سے ہو چکا ہے۔‘‘ یہ اندازہ لگانا کہ چونکہ اربعین 1900ء میں تالیف ہوئی۔ اس لئے آپ کی پیدائش 1825ء میں ثابت ہوئی۔ درست نہیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ ثمانین حولاً والا الہام سب سے پہلا الہام ہے اور نہ یہ کہ سب سے پہلا الہام چالیس برس کی عمر میں ہوا۔

تیسرا امر یہ ہے کہ ایک کتاب کی کسی عبارت کو اس کتاب کی تاریخ اشاعت سے ملا کر نتیجہ نکالتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ عبارت کے لکھے جانے کی تاریخ اور کتاب کی تاریخ اشاعت میں بہت بڑا فرق ممکن ہے۔ مثلاً نزول المسیح اگست 1909ء میں شائع ہوئی ہے لیکن اس کا صفحہ 117۔ اگست 1902ء میں لکھا گیا۔ جیسا کہ اس صفحہ پر لکھا ہے۔ ’’آج تک جو 10 اگست 1902ء ہے۔‘‘ البتہ اشتہارات اور ماہواری رسائل کی صورت اور ہے۔ ان کی تاریخ اشاعت پر نتیجہ نکالنے میں غلطی کا کم احتمال ہے۔ حقیقۃ الوحی ایک ضخیم کتاب ہے۔ اس کے صفحہ 201 پر حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔ ’’میری عمر اس وقت 68 سال کی ہے۔‘‘ یہاں ظاہر ہے کہ لفظ ’’اس وقت‘‘ سے کتاب کی تاریخ اشاعت فرض کرنا نہایت غلط ہو گا۔ کیونکہ اشاعت کی تاریخ 15 مئی 1907ء کتاب پر لکھی ہوئی ہے۔

چوتھی بات قابل غور یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر شمسی حساب مدنظر رکھتے تھے۔ یا قمری۔ سو اس کے متعلق جہاں تک میں سمجھتا ہوں۔ عام طور پر آ پ کا طریق اپنی تصانیف، اشتہارات اور خطوط میں ملک کے رواج کے مطابق شمسی حساب اور تاریخ کا شمار تھا۔ گو قمری سن بھی کہیں کہیں درج کیا گیا ہے۔ مگر کثرت سے عموماً شمسی طریق کو ہی آپ مدنظر رکھتے تھے۔ اس لئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عمر کا اندازہ بیان فرمایا ہے وہاں شمسی سال ہی مراد لئے جائیں گے۔ قمری نہیں۔ خواہ کہیں کہیں قمری سن بھی آپ نے بیان فرما دیا ہو۔

1833ء

اب دیکھنا چاہئے کہ بحیثیت مجموعی آپ کی تاریخ پیدائش کہاں تک معین کی جا سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:۔
’’جب میری عمر 40 برس تک پہنچی تو خداتعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف فرمایا‘‘

دوسری جگہ فرماتے ہیں۔ ’’ٹھیک 1290ھ میں خداتعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ مخاطبہ پا چکا تھا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی صفحہ 199)

گویا کہ 1290ھ میں آپ کی عمر چالیس برس ہو چکی تھی۔ آپ کی وفات 1326ھ میں ہوئی۔ گویا قمری حساب سے پورے 36برس آپ شرف مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ سے ممتاز رہے۔ شمسی حساب سے 35 سال۔ اس طرح آپ کی تاریخ پیدائش 1833ء ثابت ہوئی۔

1835ء

ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 97 پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’میری عمر 70 برس کے قریب ہے۔‘‘

یہ کتاب اندرونی شہادت سے ثابت ہے کہ 1905ء میں لکھی گئی (سیّد احمد علی صاحب نے جو حوالہ اس ضمن میں دیا ہے وہ درست نہیں۔ گو دوسرے مقامات سے یہ ثابت ہے) اس لئے آپ کی تاریخ پیدائش 1835ء معلوم ہوئی۔

ریویو بابت نومبر دسمبر 1903ء صفحہ 479 پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’میری عمر 70 سال کے قریب ہے۔ حالانکہ ڈوئی صرف 55 سال کی عمر کا ہے۔‘‘

اسی طرح تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 71 پر فرماتے ہیں۔ ’’میری طرف سے 23 اگست 1903ء کو ڈوئی کے مقابل پر انگریزی میں یہ اشتہار شائع ہوا تھا۔ جس میں یہ فقرہ ہے کہ میں عمر میں 70 برس کے قریب ہوں۔ اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے۔ پچاس برس کا جوان ہے۔‘‘

ان دونوں حوالوں سے نتیجہ نکالتے وقت ایک تیسرا حوالہ بھی جو اسی کے متعلق ہے مگر کچھ پہلے کا ہے مدنظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ ہے۔ ’’میری عمر غالباً 66 سال سے بھی کچھ زیادہ ہے۔‘‘ (ریویو اردو ستمبر 1903ء صفحہ 346) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’66 سال سے کچھ زیادہ۔‘‘ اگر اس وقت آپ کی عمر 67 سال سمجھی جائے تو تاریخ پیدائش 1835 بنی۔

1834ء

کتاب البریہ سے جو عبارت سیرۃ المہدی حصہ اول میں نقل کی گئی ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گزری۔ ایک طرف ان کا دنیا سے اٹھایا جانا اور ایک طرف بڑے زور شور سے سلسلہ مکالمات الٰہیہ کا مجھ سے شروع ہوا۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ والد بزرگوار کے انتقال کے وقت آپ کی عمر چالیس برس کے قریب تھی۔ اس کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ سلسلۂ مکالمات الٰہیہ کے شرف کے وقت آپ نے اپنی عمر متعدد مقامات پر چالیس برس بیان فرمائی ہے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ آپ کے والد ماجد کی وفات کب ہوئی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تصنیف سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ 150 پر آپ کے والد بزرگوار کے انتقال کو 1876ء میں قرار دیا ہے۔ لیکن جہاں تک مجھے علم ہے۔ اس واقعہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر فیصلہ کن ہے اور وہ یہ ہے کہ نزول المسیح صفحہ 118-117 پر آپ تحریر فرماتے ہیں۔‘‘آج تک جو دس اگست 1902ء ہے۔مرزا صاحب مرحوم کے انتقال کو 28 برس ہو چکے ہیں۔’’گویا کہ یہ واقعہ 1874ء کا ہے۔ اس میں سے 40 نکالیں تو تاریخ پیدائش 1834ء ثابت ہوتی ہے۔

غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پر یکجائی نظر ڈالنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کی پیدائش 1836ء سے پہلے پہلے کی ہے اس کے بعد یا 1839ء کسی صورت میں بھی صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا۔

تاریخی شہادتیں

کتاب البریہ میں آپ تحریرفرماتے ہیں۔ ’’میری پیدائش کے دنوں میں ان کی تنگی کا زمانہ فراخی کی طرف بدل گیا تھا اور یہ خداتعالیٰ کی رحمت ہے کہ میں نے ان کے مصائب کے زمانہ سے کچھ بھی حصہ نہیں لیا۔ اسی طرح آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ صفحہ 544-543 پر بھی آپ یہی فرماتے ہیں۔ ’’سو اس کے متعلق تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ 1818ء کے قریب راجہ رنجیت سنگھ نے رام گڑھیوں کو زیر کر کے ان کا تمام علاقہ اپنے قبضہ میں کر لیا تھا۔ یعنی قادیان رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آ گیا تھا۔’’(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 110) اور پنجاب چیفس میں لکھا ہے کہ ’’رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی تمام جاگیر پر قابض ہو گیا۔ غلام مرتضےٰ کو قادیان واپس بلا لیا اور اس کی جدی جاگیر کا ایک معقول حصہ اسے واپس کر دیا۔ اس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہو گیا۔ اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کشمیر کی فتح کے وقت زنجیت سنگھ کی فوج میں شامل تھے۔ کشمیر 1819ء میں فتح ہوا۔ اس لئے معلوم یہ ہوتا ہے کہ گو مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم قادیان میں واپس آ گئے تھے مگر قادیان کے اردگرد کے گاؤں ابھی تک نہیں ملے تھے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ قادیان میں واپس آئے۔ اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے 5 گاؤں واپس ملے۔ کیونکہ اسی عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنا لی تھی۔ سو ہمارے تمام دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آ گئے تھے اور لاہور سے لے کر پشاور تک اور دوسری طرف لدھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا۔‘‘

(کتاب البریہ)

پشاور 1823ء میں رنجیت سنگھ کے ماتحت آیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں مصائب کا سلسلہ گو ختم ہو گیا تھا مگر ابھی فراخی نہیں شروع ہوئی تھی۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کو اکثر فوجی خدمات پر باہر رہنا پڑتا ہو گا اور گھر کا گزارہ تنگی ترشی میں ہوتا ہو گا۔ حتٰی کہ غالباً 1833ء کے قریب انہوں نے کشمیر جانے کا ارادہ کیا جس کی طرف آئینہ کمالات اسلام حصہ عربی صفحہ 543 میں اشارہ کیا گیا ہے اور غالباً 1833-1834ء میں رنجیت سنگھ نے اپنے مرنے سے 5 سال پہلے قادیان کے اردگرد کے 5 گاؤں ان کی جدی جاگیر کے انہیں واپس کر دیئے۔ اس وقت تک وہ رنجیت سنگھ کی فوج میں نمایاں خدمات بھی کر چکے تھے اور ان کا حق بھی ایک طرح دوبارہ قائم ہو گیا تھا۔ پس اس حساب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش 1833-1834ء کے قریب ماننی پڑے گی۔

مخالفین کی شہادت

اب دیکھنا چاہئے کہ آپ کے مخالفین آپ کی عمر کے متعلق کیا کچھ کہتے ہیں۔ لیکھرام کا جو حوالہ سیّد احمد علی صاحب نے درج کیا ہے اس کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش 1836ء اور 1833ء پیدائش کے سن نکلتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک ان سے بڑھ کر جس مخالف کو علم ہونا چاہئے وہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں جن کو بچپن سے ہی آپ سے ملنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ ان کے اشاعت السنہ 1893ء کے حوالہ سے آپ کی پیدائش 1830ء کے قریب بنتی ہے۔

صحیح سن ولادت

غرض 1836ء انتہائی حد ہے۔ اس کے بعد کا کوئی سن ولادت تجویز نہیں کیا جا سکتا۔ بحیثیت مجموعی زیادہ تر میلان 1833ء اور 1834ء کی طرف معلوم ہوتا ہے کیونکہ شرف مکالمہ مخاطبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ معین ہیں۔ اور یہ واقعی ایک اہم واقعہ ہے جس پر تاریخ پیدائش کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ 1290ھجری ایک معین تاریخ ے اور اس حساب سے 1833ء کی پیدائش ثابت ہوتی ہے۔ دوسرا اہم واقعہ آپ کے والد ماجد کے انتقال کا ہے۔ انسانی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت کے متعلق جو رائے ہو وہ بھی زیادہ وزن دار سمجھنی چاہئے۔ سو اس کے متعلق آپ واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ والد ماجد کی وفات کے وقت آپ کی عمر چالیس سال کے قریب تھی اور اپنے والد صاحب کی وفات 1874ء میں معین فرما دی۔ خلاصہ میرے نزدیک یہ نکلا کہ 1833-1834ء صحیح سنِ ولادت قرار دیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

(اخبار الفضل قادیان 3 ستمبر 1933ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 ستمبر 2020