• 19 مئی, 2024

مکرم حاجی غلام مصطفیٰ

مکرم غلام مصطفیٰ صاحب کی کرونا وائرس کے باعث شہادت کی خبر ملی ہے۔ دل اُن کی جدائی کے سبب مغموم ہے لیکن اپنے مولا کی رضا پر راضی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی جنت میں جگہ دے اور ان کی فیملی کو صبر ، ہمت اور حوصلہ عطا کرے۔ مرحوم سے میرا دوستی کا تعلق 81ء۔1980ء سے تھا۔ ان کے احمدیت قبول کرنے سے لے کر وفات تک انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ بے شمار خوبیوں کے مالک، اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے اور خلافت کے عاشق تھے۔

مکرم حاجی غلام مصطفیٰ صاحب سے میرا تعارف 1980ء میں اس وقت ہوا جب میں لیاقت میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھا اور مصطفیٰ صاحب اپنے ساتھ غریب ہاریوں (مزدوروں) اور ان کے اہل خانہ کو لے کر جامشورو آجاتے کہ اُن کو ہماری وساطت سے کسی سینئر ڈاکٹر کو دکھا دیں یا ہسپتال داخل کر وا دیں۔ آپ اُس وقت احمدی نہیں تھے لیکن خدمت خلق کا جذبہ بہت نمایاں تھا۔

پھر مجھے پتہ چلا کہ اُن پر زمین کے کسی جھگڑے کی وجہ سےسندھ میں آکرمکرم چوہدری اصغر صاحب،جن سے ان کی کوئی دور کی رشتہ داری تھی،کے ہاں رہنے لگے تھے۔ مکرم چوہدری اصغرصاحب امیر ضلع بدین تھے اور کھوسکی کے قریب ان کی رہائش تھی۔ ان کے بیٹے مکرم سلیم صاحب اُن دنوں قائد ضلع بدین تھے۔ وہاں ان کا احمدیت سے تعارف ہوا۔ مسلسل تین سال تک ان سے تبلیغ کا سلسلہ چلتا رہا۔ یہ اس دوران وہاں بھی اُن کی مسجد میں اذان باقاعدگی سے دیتے۔ جس کا انہیں شروع سے شوق تھا حتیٰ کہ جیل میں بھی اذان ، نمازوں اور تہجد میں باقاعدہ تھے۔

بدین میں مکرم سمیع اللہ قمرصاحب مربی سلسلہ مرحوم اور ایک مخلص خادم مکرم نثار احمدصاحب سے ان کی بات چیت رہتی۔ میرے والد مکرم چوہدری خادم حسین صاحب سکول ہیڈماسٹر تھے اور اُن دنوں ان کی پوسٹنگ نندو شہر میں تھی جو بدین سے کھوسکی کے راستہ میں پڑتا تھا۔ سکول اور ہماری رہائش برلب سٹرک تھی۔ یہ موٹر سائیکل پر ہوتے اور وہاں ضرور رُکتے۔ بعد میں اکثر ذکر کیا کرتے کہ ماسٹر صاحب مجھے بتاتے کہ ’’میری تُوڑی مُک جائے تے میں حضور نوں خط لکھ دینا۔ اللہ انتظام کردیندا اے‘‘ اور میں حیرت سے ان کو دیکھا کرتا۔ اب خود میرا یہی تجربہ ہے۔ آخر انہوں نے ایک خواب دیکھنے کے بعد فوری طور پر بیعت کی۔ وہ خواب یہ تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’دو خدام کی ضرورت ہے۔‘‘ سلیم صاحب اور پھر ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’ایک تم آجاؤ اور ایک تم۔‘‘

آپ بیعت سے پہلے ہی جماعت کے اجتماعات وغیرہ میں شامل ہوتے۔ ایک دفعہ اس بات پر ناراض ہوئے کہ مجھے کبڈی کی ٹیم میں کیوں شامل نہیں کیا گیا۔ بیعت کے بعد اخلاص میں بہت ترقی کی۔ تعلیم زیاد ہ نہیں تھی غالباً میٹرک تک لیکن توجہ سے خطبات اور سوال وجواب سن کر اتنا اعتماد آگیا تھا کہ کہتے: ’’میں اب خود ہی غیر احمدی مولویوں کے لئے کافی ہوں۔ میرے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔‘‘

1987ء میں لندن آگئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے ملاقات کے بعد تو اُن سے عشق کا تعلق ہوگیا۔ 3سال تک مسجد فضل کے کچن میں برتن دھونے اور کھانا پیش کرنے کا کام رضاکارانہ طور پر کرتے رہے۔ کبھی اگر کوئی سالن کے بارے میں کہتا کہ یہ نہیں یہ چاہئے تو کہتے: ’’یہ مسیح موعودؑ کا لنگر ہے۔ سارا ہی بابرکت ہے۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا معمول تھا کہ کسی دورہ پر روانہ ہونے سے پہلے سفر کے آغاز پر یہاں کارکنان کو تحفۃً کچھ رقم بھجوایاکرتے۔ ایک دفعہ مصطفیٰ صاحب بڑی رنجیدہ حالت میں میری خوشدامن محترمہ سارہ رحمان بٹ صاحب کے پاس آئے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیوں پریشان ہو؟ کہنے لگے میں تو کچن میں اللہ کی رضا کی خاطر کام کرتا ہوں لیکن لوگ مجھے ’’کمیّ‘‘ سمجھنے لگے ہیں اور آج تو حد ہوگئی۔ اب تو حضوؒر نے بھی مجھے کمیّ سمجھ کرمکرم عیسیٰ صاحب کو کہا ہے کہ میری طرف سے مصطفیٰ کو10 پاؤنڈ دے دو۔ میں نے تو نہیں لئے اور یہاں آپ کے پاس آگیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ: ’’یہ تم نے کیا کیا ہے۔ جاؤ اور وہ پیسے لاکر مجھے دے دو۔ وہ تو خلیفۂ وقت کا دیا ہوا تحفہ ہے اور انتہائی بابرکت ہے۔ مجھے لا دو میں خود رکھ لوں گی۔‘‘

اس پر انہیں احساس ہوا اور واپس پہنچے تو مکرم عیسیٰ جو پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں کا م کرتے تھے مسکرا ئے اور کہنے لگے میں انتظار ہی کر رہا تھا کہ تم واپس آؤ گے۔ انہوں نے وہ 10 پاؤنڈ اپنے پاس رکھ لئے ان سے انہیں اتنی برکت عطا ہوئی کہ خدا تعالیٰ نے انہیں مالا مال کر دیا۔ کم پڑھے لکھے ہونے کے باوجود دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں رضا کارانہ خدمت کرتے اور گھر بیٹھے اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے وسیع رزق کا سامان کر دیا۔ پہلے ایک مکا ن لیا پھر دوسرا، تیسرا ایک دکان مع متعدد فلیٹس۔ ان کا اس طرح گزارا چلنے لگا اور پورا وقت نمازوں اور جماعتی خدمت میں صرف ہونے لگا۔

جن دنوں آپ کچن میں کام کرتے تھےاس وقت کی بات ہےکہ ایک روزرات کچھ لوگوں کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے جو Augustus Road پر نئے بننے والے فلیٹس پر حفاظت کی ڈیوٹی پر مامور تھےتو کچھ چور وہاں آگئے۔ ڈیوٹی والے تو بھاگ گئے لیکن مصطفیٰ صاحب نے چور کو پکڑلیا اور پولیس کو بلا کر ان کے حوالے کیا۔ فلیٹس کے مالک نے انہیں سکیورٹی کی ڈیوٹی دے کر ایک فلیٹ رہائش کیلئے دے دیاجس میں یہ فلیٹس مکمل ہونے تک رہائش پذیر رہے۔ یہیں پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی شفقت سے ان کی شادی کے بعد ان کی بیگم تشریف لائیں۔ اُن دنوں لندن جماعت میں مہمان خانہ کوئی نہیں تھا اور مصطفیٰ صاحب عشاء کے بعد کھلی دعوت دیتے کہ رات رہنے کیلئے کوئی بھی ان کے ساتھ جا سکتا ہے۔ چنانچہ بہت سے بزرگانِ سلسلہ بھی عام لوگوں کے علاوہ ان کے ہاں ٹھہرتے۔ یہ معمول انہوں نے زندگی بھر نہیں چھوڑااور انتہائی اخلاص کے ساتھ دعوت دے کر مہمانوں کو اپنے ساتھ ٹھہراتے۔ جلسہ سالانہ اور اجتماعات کے موقع پر بھی ان کا گھر ہمیشہ مہمانوں سے بھرارہتا۔ ہمیشہ یہی کہتے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے کی برکت سے ہی سب کچھ ملا ہے اور شکرکا اظہار کرتے رہتے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ان کو مکان خریدنے کی تحریک کی تو ان کے پاس deposit کی رقم نہیں تھی۔ خود حضور ؒنے زور دے کر ان کو عاریتاًدی اور جب مکان خرید لیا تو خود حضورؒ نے اسے دیکھنے کا کہا اور ازراہِ شفقت ٹوٹنگ میں واقع مکان میں تشریف لے گئے۔

مصطفیٰ صاحب کو اذان دینے کا شروع سے شوق تھا۔ چنانچہ مسجد فضل میں اذان دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے خصوصاً فجر کی اذان۔ اسلام آباد میں بھی انہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شفقت سے اذان دینے کا موقع مل جاتا۔ نماز تہجدکے علاوہ بھی نوافل باقاعدگی سے ادا کرتے۔ روزہ رمضان کے علاوہ بھی رکھتے۔ چندہ دینے میں ہمیشہ پہل کرتے۔ عہدیداران سے درخواست کرتے کہ سب سے پہلے ان سے یکم تاریخ کو چندہ لیا جائے اور تحریک جدید اور وقف جدید کا اعلان ہوتے ہی ان کا چندہ لیا جائے۔ آخری بیماری میں ہسپتال میں بھی یہی فکر تھی کہ چندہ ابھی تک ادا نہیں ہوا لیٹ ہو گیا ہے۔

بہت سے لوگوں کی خاموشی سے مدد کرتے اور باقاعدگی سے پاکستان رقم بھجوایا کرتے۔ بچوں کو اور اپنی اہلیہ کو ہمیشہ یہی تلقین کرتے کہ یہ جو ہم کھاتے ہیں چندے کی برکت ہے۔ مہمان نوازی کی برکات کے بارے بتاتے رہتے۔ متعدد مرتبہ انہیں عمرہ کرنے کی توفیق ملی۔ جب بدین میں تھے تو لوگوں نے انہیں حاجی کہنا شروع کر دیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ واقعی حاجی کیوں نہیں بن جاتے۔ چنانچہ 2010ء میں انہوں نے حج کی سعادت پائی۔

انہیں قادیان سے بھی محبت تھی اور اکثر وہاں چلے جاتے۔ مرکز میں اپنا مکان ہونے کی خواہش پر ایک وسیع مکان بنوا یا اور پھر جماعت کو استعمال کیلئے پیش کر دیا۔ بےحد نڈر اور بیباک احمدی تھے۔ پاکستان جاتے تو اپنے عزیزوں اور جاننے والوں کو احمدیت کا پیغام دیتے۔ بہت سے غیر از جماعت دوست ان کے زیر تبلیغ رہے۔ اپنی پہلی بیٹی کو وقفِ نو میں شامل کیا۔ دوسری بیٹی ہوئی تو اسے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں وقفِ نو کیلئے پیش کر دیا۔ جس پر حضور نے فرمایا کہ نہیں اسے رہنے دو آئندہ بیٹا ہو گا اُس کو شامل کر لیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد بیٹا دیا جو وقفِ نو میں شامل ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے انتخاب سے ایک دن قبل جبکہ لوگ نماز کے بعد اُن سے مل کر اظہار ِ تعزیت کر رہے تھے تو مصطفی صاحب نے یہ دیکھ کر دل میں سوچا کہ انتخاب خلافت سے پہلے لوگ ان سے کیوں مل رہے ہیں یہ تو ٹھیک نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ معاً میں نے نظارہ دیکھا کہ حضرت مرزا مسرور احمد کے چہرے کی بجائے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا چہرہ آگیا ہے۔ اس پر انہیں تسلی ہوگئی اور انتخاب ِ خلافت کے بعد تو خلافت پر جاں نثار رہتے۔ اکثر کہتے ’’یہ خلیفہ نہیں بولتا، اللہ بولتا ہے۔‘‘

ان کی دعوت پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مع فیملی ان کے گھر واقع گریسن ہال روڈ بھی تشریف لے گئے اور انہیں مہمان نوازی کا شرف بخشا۔

جب انہیں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اسلام آباد رہائش پذیر ہونے کا پتہ چلا تو یہی فکر تھی کہ یہ نہ ہو کہ حضور چلے جائیں اور ہم یہیں رہ جائیں۔ چنانچہ ٹلفورڈ میں اپنا مکان خرید کر وہاں منتقل ہوگئے اور خلیفہ وقت کے پیچھے نمازوں، اذان اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں رضا کارانہ خدمت کا سلسلہ جاری رکھا اور وہیں سے اپنی آخری بیماری میں ہسپتال گئے۔

اُن کی بیماری کے دوران 13اپریل 2020ء کو میں نے ایک نظارہ دیکھا اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بھی تحریر کیا۔ رات کو اُن کے لئے دعا کی صبح فجر کے وقت مصطفی کے بارے میں خیال آیا تو دل میں آیا کہ وہ تو جنت میں لایا گیا ہے۔ صندوق کا اوپر والا حصہ کُھلا ہے اور اگرچہ چہرہ دکھائی نہیں دیا لیکن پتہ ہے کہ مصطفی ہے۔ ساتھ ہی زبان پر الفاظ آئے ’’خدا تعالیٰ نے اُسے اپنا نور عطا کیا ہے اور اُسے بخش دیا ہے اور جنت میں جگہ دی ہے۔‘‘ اس پر مجھے اُس کی بیوی اور بچوں کا خیال آیا تو ان الفاظ میں تسلی دی گئی۔ ’’اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَاف عَبْدَہُ۔‘‘

اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی اہلیہ اور بچوں کو بھی صبر دے اور ان کے نیک نمونے، اُن کی خوبیوں کو اپنانے اور جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

(ڈاکٹر طارق انور باجوہ۔لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 ستمبر 2020