• 27 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود کے صحابہ کا قصبہ ’’دین گاہ‘‘ اور میرے آباء و اجداد (قسط دوئم آخر)

حضرت مسیح موعود کے صحابہ کا قصبہ ’’دین گاہ‘‘ اور میرے آباء و اجداد
قسط دوئم آخر

تسلسل کے لئے دیکھیں الفضل آن لائن موٴرخہ 25؍اگست 2022ء

میرے نانا بھائی محمود

’’عرصہ ہوا میرے پردادا کے وقت میں ایک بزرگ نے میرے دادا کو دعا دی تھی کہ وہ قرآن حفظ کر لیں اور ایسا ہی ہوا اور بہت تھوڑے عرصے میں وہ حافظ بن گئے۔ اسی نیک بزرگ نے ایک اور دعا دی کہ اس گلی میں کوئی چوری نہ ہو گی اور جو بدکار ہو گا اس کا گھر تباہ ہو جائے گا۔‘‘

چنانچہ ایسا ہی ہوا جب 1953ء میں میاں عطاء محمد نے ڈائری میں لکھا۔
’’اب یہ گلی تمام کی تمام ویران پڑی ہے۔ ہمارے ایک چچا زاد بھائی نے دو شادیاں کیں اس کے نصیب میں کوئی اولاد نہ ہوئی۔

گویا اب بالکل ابتر ہیں۔ اس کے دوسرے دو بھائی شراب پی کر بے نور ہو گئے۔ وہ بھی ان کی طرح شرابی اور زانی ہیں۔ ان کے مکانوں کو تالے لگ گئے۔‘‘

میاں عطاء محمد صاحب احمدی کو اللہ تعالیٰ نے چھ بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا۔ آپ کی بیٹی کی شادی دلاور چیمہ گاؤں تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ کے گھرانے میں محمد حسین اُپل سے ہوئی جو اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ میاں عطاء محمد کے بڑے بیٹے عبدالحی کی شادی سیالکوٹ کے میرزا بیگ خاندان میں ہوئی جن کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے تھا۔ شادی کے بعد عبدالحئی کو ان کے والد نے خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں درویش کے طور پر قادیان بھیج دیا۔ جہاں وہ کم ازکم تین سال اکیلے مشکل حالات میں رہے۔ آپ کے ایک اور بیٹے عبدالحمید کی شادی لالہ موسیٰ ضلع گجرات میں میاں فضل الہیٰ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی سے ہوئی۔ میاں عطاء محمد صاحب احمدی کو اللہ تعالیٰ نے 25 پوتے، پوتیوں، نواسے،نواسیوں سے نوازا۔ آپ کی ایک نواسی کے داماد آئرش احمدی ابراہیم نونن ہیں۔ جنہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد اسلام احمدیت کے لیے زندگی وقف کر دی اور آج کل آئر لینڈ میں مربی اور مبلغ کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ میاں عطاء محمد احمدی کی اگلی نسل جو گجرات میں آباد ہوئی یعنی ان کے بڑے نواسے وہ وہاں بہت عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کی بیوی بھی سیالکوٹ کے میرزا بیگ خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور گجرات میں ایک نیک باپردہ خاتون کے طور پر اپنی پہچان بنائی۔ میاں عطاء محمد صاحب کی قبر ڈنگہ کے اسی پرانے قبرستان میں موجود ہے اور کتبہ پر تحریر ہے۔

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود

بابو عطاء محمد صاحب احمدی قوم وڑائچ سکنہ ڈنگہ ضلع گجرات
صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
تاریخ پیدائش یکم محرم ہجری 1300ء
1900ء میں پیدل چل کر قادیان میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی۔
تاریخ وفات 4 نومبر 1954ء بروز جمعرات
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

میرے نانا
حضرت بھائی محمود احمدؓ کا قبول احمدیت

میرے نانا ڈنگہ میں 1889ء میں ایک نیک دین دار راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد اور دادا حافظ قرآن تھے۔ آپ بھی بہت خوش الحانی سے بچپن ہی سے قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ آپ کے والدین بچپن میں وفات پا گئے اور آپ اپنے بڑے بھائی حافظ احمد دین کی زیر کفالت رہے۔ جب حافظ احمد دین صاحب بیعت کے لیے قادیان گئے تو میرے نانا کو ساتھ نہ لے گئے۔ میرے نانا اگلے دن ہی ایک وکیل کے ہمراہ قادیان چلے گئے تا بیعت کر سکیں مگر وہاں لوگوں نے مشورہ دیا کہ بہت کم سن ہو ابھی واپس جاؤ اور سوچ کر فیصلہ کرو۔ ڈنگہ واپس آنے کے بعد آپ واپس قادیان جانے کے لیے بہت بے چین رہنے لگے۔ آپ کے بڑے بھائی واپس ڈیرہ اسماعیل خان کام پر جا چکے تھے۔ چنانچہ 1901ء میں آپ پیدل سفر کرتے قادیان پہنچ گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپ صرف بارہ سال کے بچے تھے لیکن واپس جانے کا خیال ترک کر دیا۔ قادیان میں ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے نانا) نے میرے نانا کو بیٹا بنا کر پال لیا اور بہت محبت سے دیکھ بھال کی۔ ڈاکٹر صاحب کی زیر نگرانی میرے نانا نے تعلیم الاسلام ہائی اسکول سے تعلیم مکمل کی اور ڈسپنسر کا کورس کرنے کے بعد نور ہسپتال میں نوکری کر لی مگر تنخواہ مقرر نہ ہوئی اور کھانے کے لیے کوئی رقم نہ تھی۔ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام علیہ السلام کو خط لکھا جس کامضمون یہ تھا۔

بسم اللّٰہ الرحمان الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم

بخدمت امامنا علیہ الصلوۃ والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ برکاتہ

خاکسار شفا خانہ میں کام کرتا ہے۔ کچھ مقرر تنخواہ نہ ہونے پر کھانے کی بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اگر حضور لنگر خانہ میں اجازت فرما دیویں تو ان شاء اللہ القدیر تنخواہ کے مقرر ہونے پر بحسب توفیق حضور کی خدمت اقدس میں جو کچھ خاکسار سے ہو سکا ان شاء اللہ تعالیٰ حاضر خدمت کر دیا کروں گا۔

والسلام
راقم آپ کا غلام محمود احمد شفا خانہ احمدیہ قادیان

یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاغذات میں محفوظ رہ گیا اور آپ کے کاغذات کے ساتھ سفر کرتا ہوا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ربوہ پہنچ گیا اور آپ کی وفات سے چند ہفتہ قبل میرے ماموں حافظ مسعود احمد صاحب کو سرگودھا پہنچایا گیا۔ جس پر پرائیویٹ سیکریڑی صاحب کے دستخط اور تاریخ درج ہے۔ 25 مئی 1965ء میرے ماموں ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب کے حوالے کیا جب آپ قادیان سے ہجرت کر کے سرگودھا رہائش پذیر ہو چکے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد میرے نانا کو اپنے آقا سے بہت عقیدت اور محبت تھی۔ آپ ہمیشہ مسجد مبارک میں نماز ادا کرتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ سیر کے لیے جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ سیر کے دوران جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ بھی آپ کے ساتھ تھے اور مولوی محمد علی صاحب بھی شامل تھے کہ نماز کا وقت ہوا اور کسی نے کہا مولوی صاحب نماز پڑھا دیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود امامت کرنا پسند فرمائی۔ میرے نانا بیان فرماتے تھے کہ ان کے کندھے پر ایک چادر تھی جو انہوں نے جلدی سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے لیے بچھا دی۔ بعد میں کسی نے یہ چادر میرے نانا سے لی اور واپس نہ کی۔ میرے نانا آنسو بھری آنکھوں سے یہ واقعہ بیان کرتے تھے کہ کس طرح وہ اس چادر سے محروم ہو گئے۔ میرے نانا کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت اور آپ کے خاندان سے عزت کا جذبہ بہت عظیم تھا اور یہی خاصیت آپ کی اولاد میں اور اگلی نسلوں میں منتقل ہوئی۔ میرے نانا نے نور ہسپتال میں کام کرنے کے بعد قادیان میں اپنا شفا خانہ کھولا اور ایک کامیاب معالج کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ آپ نہایت متقی دین دار اور کم گو شخصیت کے مالک تھے اور آپ کے کردار کی بلندی ہر کسی کو پسند تھی۔ آپ نہایت سنجیدہ تھے اور زیر لب ذکر الہی میں مصروف رہتے اور دوا دیتے وقت نسخہ لکھتے اور مرہم پٹی کرتے ہوئے ’’اللہ شافی‘‘ کا ورد کرتے۔ آپ کی فرشتہ سیرت اور اعلیٰ اخلاق کے باعث سب آپ کو بھائی جی کہتے تھے۔ یہ لفظ خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ صحابہ کے لیے استعمال ہوا ہے مثلاً بھائی عبدالرحمن قادیانی، بھائی عبدالرحیم قادیانی اور میرے نانا بھائی محمود احمد قادیانی۔ میں نے اپنے نانا کو اکثر رقت آمیز آواز سے یہ شعر گنگناتے سنا تھا۔

شاہ ہو کر آپ کیا لیں گے غریبوں سے حساب
میں ہوں خالی ہاتھ مجھ کو یونہی جانے دیجئے

صحابی منشی امام دین صاحب پٹواری
اور میرے نانا کی شادی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اولین صحابہ میں ایک نام عبدالعزیز صاحب پٹواری کا ہے جو اوجلہ سے تعلق رکھتے تھے اور 1891ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے۔ آپ پٹواری کے طور پر سیکھواں میں رہتے تھے۔ جہاں سیکھواں برادران نے بھی احمدیت قبول کر لی۔ عبدالعزیز صاحب کا نام بھی تین سو تیرہ صحابہ کی لسٹ میں درج ہے۔ منشی عبدالعزیز صاحب کی بہن کی شادی قلعہ درشن سنگھ کی ارائیں برادری کے امام دین کے ساتھ ہوئی۔ جو لوہ چپ میں پٹواری کے طور پر کام کر رہے تھے۔ منشی عبدالعزیز صاحب نے اپنے برادر نسبتی منشی امام الدین صاحب کو تبلیغ کرنی شروع کی تا کہ وہ جلد احمدی ہو جائیں اور اس طرح ان کی بہن کریم بی بی بھی احمدیت قبول کر سکیں۔ 1894ء میں منشی امام الدین نے بیعت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ منشی عبدالعزیز صاحب اور جمال الدین صاحب سیکھوانی آپ کو لے کر قادیان گئے۔ بیعت کا واقعہ بہت ایمان افروز ہے اور منشی امام الدین صاحب نے اسے خود بیان کیا تھا جسے اصحاب احمد جلد 1 حصہ اوّل صفحہ 147 اور الحکم میں 1905ء میں درج کیا گیا۔ منشی صاحب نے فرمایا۔
’’ہم تینوں شام کے وقت قادیان پہنچے اور حضرت اقدس کے پیچھے نماز ادا کی اس کے بعد منشی عبدالعزیز صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے کہا ’’حضور ان کی بیعت لے لیں‘‘ حضور نے فرمایا اندر آ جائیں۔ جب میں اکیلا بیت الفکر میں گیا تو حضور ایک چارپائی کی پائنتی کی طرف بیٹھ گئے اور مجھے چارپائی کے سرہانے بیٹھنے کو کہا۔ میں پہلے تو جھجکا مگر حضور کے دوبارہ ارشاد فرمانے پر بیٹھ گیا اور حضور نے بیعت لی۔ حضور کا یہ برتاؤ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ کہاں وہ پیر جن کے برابر بھی کوئی نہیں بیٹھ سکتا اور کہاں اللہ کا مسیح موعود جو ایک ناچیز خادم کو چارپائی کے سرہانے بٹھاتا ہے۔ اخویم منشی عبدالعزیز کمرے کے اندر داخل نہ ہوئے تھے لیکن باہر سے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے‘‘

منشی امام الدین صاحب کی تبلیغ سے جلد ہی آپ کی اہلیہ کریم بی بی نے بھی بیعت کر لی۔ منشی صاحب کی احمدیت سے وابستگی کی وجہ سے ان کو تبلیغ کا بہت شوق پیدا ہوا اور آپ کی کوشش سے اور تبلیغ کے نتیجہ میں موضع لوہ چپ اور قلعہ گلانوالی کی جماعتیں قائم ہوئیں۔ جلد ہی آپ پندرہ پندرہ دن کے لیے تبلیغ پر جانے لگے اور کئی بار مخالفین کی سختیاں برداشت کیں۔ آپ ہر جمعہ کو پیدل سفر کر کے اپنی اہلیہ کے ساتھ جمعہ پڑھنے کے لیے قادیان مسجد مبارک حاضر ہوتے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں بیٹھے رہتے اور آپ سے بے حد عقیدت اور محبت رکھتے تھے۔ آپ حضرت اقدس کے ان واقعات کے گواہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اردگرد بیٹھے ہوئے افراد کے دل میں جو سوال ہوتے تھے۔ حضور ان ہی موضوعات پر نصائح فرماتے تھے اور ایسے واقعات بارہا ازیاد ایمان کا باعث بنتے تھے۔ منشی صاحب کے دوسرے بیٹے کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظہور احمد رکھا۔ جب منشی صاحب اسے اٹھا کر حضور اقدس کی خدمت میں لے گئے۔ منشی صاحب نے بیان کیا کہ یہ نام میرے انہی خیالات کے مطابق ہوا جو دل میں آرہے تھے۔ منشی صاحب ایک اور نشان کے بھی گواہ تھے۔ وہ واقعہ اس طرح ہے کہ منشی محمد حسین بٹالوی والے مقدمہ زیر دفعہ 107 کی پیشی دہاریوال میں مقرر ہوئی تھی۔ اس موقعہ پر منشی صاحب حضور اقدس کی خدمت میں حاضر تھے اور کہا ’’حضور محمد بخش تھانے دار کہتا ہے ’’مرزا مقدمات سے بچ کر نکل جاتا ہے اب میرا ہاتھ دیکھے گا‘‘ حضور نے فرمایا
’’میاں امام دین اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا‘‘

منشی امام دین کہتے ہیں اس کے بعد میں نے دیکھا اس کی ہتھیلی میں شدید درد ہوتا تھا اور وہ اس درد سے تڑپتا تھا اور اسی سے اس دنیا سے گزر گیا۔ اس تھانے دار کے پوتے ڈاکٹر لیفٹیننٹ غلام احمد آئی ایم ایس نے تصدیق کی کہ اس کے دادا کی موت ہاتھ کے ایک خطرناک پھوڑے کی وجہ سے ہوئی۔ میں نے اپنی والدہ سے بھی یہی قصہ سنا جو امام دین صاحب کی نواسی تھیں۔ میاں امام دین کی زندگی کے تمام حالات اصحاب احمد جلد 1 صفحہ 147 سے 157پر درج ہیں۔ اسی طرح روایات کے رجسڑ میں روایات کے تمام رجسڑ میں بھی ہیں۔

میرے نانا کی شادی

قادیان میں منشی امام دین صاحب مسجد مبارک میں نماز کے دوران ہمیشہ ایک گوری رنگت والے خاموش طبع فرشتہ سیرت نوجوان کو دیکھتےتھے۔ آپ نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یتیم بچہ ہے بالکل اکیلا ہے اور ہجرت کر کے ڈنگہ سے آیا ہے وہاں صرف ایک بھائی ہے جو ڈیرہ اسماعیل خان میں نوکری کرتا ہے۔ ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بیٹا بنا رکھا ہے۔ نام محمود احمد ہےاور نور ہسپتال میں کام کرتا ہے۔ منشی صاحب نے جلد ہی اپنی بیٹی زینب کی شادی اس نوجوان سے کر دی اور بہت مطمئن اور خوش ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت متقی اور دین دار داماد سے نوازا۔ اس کے بعد منشی صاحب نے اپنی دوسری بیٹی آمنہ کی شادی بھی اپنے داماد کے بھتیجے ڈاکٹر محمد دین سے کی۔ جو اس وقت ڈنگہ میں تھے بعد میں ڈاکٹر صاحب کی فیملی بھی قادیان آکر آباد ہو گئی۔ منشی صاحب کی ایک اور بیٹی کا خاندان بعد میں برطانیہ میں آباد ہوا جن کی اولاد میں مشہور احمد گلزار کی شادی ماریشس کی خاتون رقیبہ سے ہوئی جو ایم ٹی اے کی اولین کام کرنے والی اور دین کے لیے وقف ہیں۔ رقیبہ کی ساس مسعودہ گلزار منشی امام دین وہاڑی پاکستان کے مشہور احمدی متمول خاندان کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ ان کی اولاد نیک دین دار خادم دین اور اعلی کردار کی وجہ سے جماعت میں عزت اور عقیدت سے دیکھی جاتی ہے۔ آمنہ اور ڈاکٹر محمد دین کی بیٹی رضیہ کی شادی میرے ماموں زاد ودود احمد کے ساتھ ہوئی جو بہت سال قبل برطانیہ میں قیام پذیر ہوئے اور آجکل ٹلفورڈ اسلام آباد کے قریب Aldershot رہتے ہیں اور اپنے والد محترم بھائی محمود احمد صاحب کی طرح اعلی کردار کے مالک نہایت متقی احمدی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ اسی طرح ان کی اہلیہ نیکی، تقوی، محبت، رواداری، اعلی اخلاق اور صلہ رحمی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح نیکی اور تقوی اور اعلی اخلاق و بلند کردار صحابہ کی نسلوں میں منتقل ہوتا ہے اور اگلی نسلوں کے لیے مثال بن جاتا ہے۔ میرے ماموں کے داماد اویس جنود کا تعلق ایک عظیم خاندان سے ہے جو ترکی سے پیدل ہجرت کر کے قادیان آئے۔ منشی امام دین کے بڑے بیٹے چوہدری نثار احمد کی شادی حضرت ڈاکٹر عبد اللہ احمدی کی بیٹی رضیہ احمدی سے ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب گورالی ضلع گجرات پاکستان سے تعلق رکھتے تھے اور 1896ء میں قادیان آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا۔ آپ کی پوسٹنگ نیروبی کینیا میں ہو گئی اور آپ اپنی فیملی کے ساتھ وہیں رہائش پذیر ہو گئے۔ آپ وہاں ڈاکٹر احمدی کے نام سے شہرت رکھتے تھے اور آپ نے قبول احمدیت کے بعد اپنے نام کے ساتھ احمدی لفظ کو فخر کا باعث سمجھا۔ حضرت ڈاکٹر عبداللہ احمدی کے بیٹے غضنفر احمدی کی اولاد سڈنی آسڑیلیا میں آباد ہوئی اور سبھی اپنے نام کے ساتھ احمدی ہی لکھتے ہیں اور احمدیت کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ حضرت عبداللہ احمدی صاحب کی دوسری بیٹی صفیہ کی شادی منشی امام دین صاحب کے بیٹے اور میرے ماموں ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب کے ساتھ ہوئی۔ حضرت عبداللہ احمدی صاحب کی وفات 1950ء میں نیروبی میں ہوئی۔ موصی ہونے کی وجہ سے ان کا یادگار کتبہ بہشتی مقبرہ میں نصب کیا گیا۔

رضیہ احمدی صاحبہ میری والدہ کی ممانی کی بڑی بیٹی آنسہ صاحبہ کی شادی منشی امام دین صاحب کے برادر نسبتی عبدالعزیز صاحب پٹواری صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے کے پوتے محترم احمد جان صاحب جو بہت لمبا عرصہ راولپنڈی کے امیر رہےان کے بیٹے محمود جان صاحب سے ہوئی۔ اس طرح ڈاکٹر عبداللہ احمدی صاحب جو قادیان سے دور دراز ملک کینیا میں رہے کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی اولاد سے دین گاہ (ڈنگہ) کے قدیم ترین صحابہ کے ساتھ قائم ہوا اور ان کی نسلیں آج دنیا کے ہر حصہ میں موجود ہیں۔ حضرت منشی امام دین یعنی میرے نانا کے سسر کی وفات 28 جولائی 1932ء کو قادیان میں ہوئی آپ کا جنازہ سید سرور شاہ صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ماموں) نے پڑھایا۔ تدفین ہونے والی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی بھائی عبدالرحمان صاحب نے تجویز کیا کہ منشی صاحب پرانے صحابی ہیں اس لیے قطعہ خاص میں دفن کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جو اس وقت دھرم سالا میں تھے وہاں پر ہی تار بھجوایا اور حضور نے قطعہ خاص میں تدفین کی منظوری دی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جنازہ کو کندھا اور تدفین کے بعد دعا کروائی۔ منشی امام دین صاحب کی اہلیہ کریم بی بی صاحبہ کے بھائی منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری کی بیٹی سکینہ بیگم کی وفات بھی 1948ء میں ہوئی۔ دونوں کی اولین قبریں بہشتی مقبرہ ربوہ میں ساتھ ساتھ ہیں اور انہی کے ساتھ قطعہ خاص کی دیوار تعمیر کی گئی۔ منشی عبدالعزیز صاحب کے ایک بیٹے مولوی رحمت علی مبلغ انڈونیشیا تھے۔ پس یہ میری بڑی خوش قسمتی ہے کہ میں اپنی والدہ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جید صحابہ سے تعلق رکھتی ہوں اور میں اس سے بڑھ کر اور بھی خوش قسمت ہوں کہ میری پہچان میرے عظیم والد چوہدری رحمت علی مسلم کی وجہ سے جو اردو فارسی کے پروفیسر اور جماعت میں بہت بڑے عالم کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ ان کا ذکر بعد میرے نانا کے داماد کے طور پر کیاجائے گا۔

میرے نانا ڈاکٹر بھائی محمود احمدؓ کا خاندان

میرے نانا نے بہت چھوٹی عمر میں یعنی عین جوانی میں ہی نور ہسپتال قادیان میں نوکری شروع کر دی تھی اور ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کی زیر نگرانی بہت تجربہ حاصل کیا۔ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے زیر اثر دیسی دواؤں اور حکمت کا بھی علم تھا اور آپ طب کے دونوں میدانوں میں ایک کامیاب معالج مانے جاتے تھے۔ آپ نے کافی عرصہ نور ہسپتال میں کام کرنے کے بعد قادیان کے مین بازار کے چوک میں اپنا شفا خانہ کھول لیا۔ آپ قادیان اور اردگرد کے تمام علاقوں میں ایک انتہائی نیک متقی اور کامیاب معالج کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور خلق خدا کو آپ کی ذات سے بہت فائدہ پہنچا کیونکہ آپ ضرورت مندوں کی مدد کرتے اور غریبوں کا علاج مفت کرتے تھے۔ آپ کی سنجیدگی اور کردار کی بلندی کے سبھی مدح تھے۔ آپ ہمیشہ زیر لب ذکر الہیٰ میں مصروف رہتے اور نسخہ لکھتے وقت، دوا دیتے ہوئے اور مرہم پٹی کرتے وقت ’’اللہ شافی‘‘ کا ورد کرتے۔ میں نے ساری زندگی اپنے نانا کو دیکھا کہ کبھی بھی دنیا کی کوئی بات نہ کی ہمیشہ ’’دست درکار دل بایار‘‘ کی سچی تصویر تھے۔ اکثر اوقات فارغ وقت میں رقت آمیز آواز سے یہ شعر گنگناتے۔

شاہ ہو کر آپ کیا لیں گے غریبوں سے حساب
میں ہوں خالی ہاتھ مجھ کو یوں ہی جانے دیجئے

آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت اور محبت کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اورمسیح مہدی علیہ السلام کے خاندان سے دلی لگاؤ تھا۔ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خاص دعاؤں سے بڑاحصہ پایا اور دار الرحمت قادیان میں وسیع مکان کی تعمیر کی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مکان کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے ایک دن علی الصبح پیدل تشریف لائے۔ دو اینٹیں بنیاد میں نصب کیں اور انہیں گاڑا ڈال کر فکس کیا۔پھر فرمایا پلاٹ کافی بڑا ہے۔ پھل دار پودے ضرور لگائیں۔ چنانچہ میرے نانا نے بہت پھلوں کے درخت لگائےاور دو بھینسیں اور بکری بھی پال لیں تاکہ گھر میں ہی اچھی کھاد کا انتظام ہو جائے۔ میری والدہ کو خاص طور پر سبزیاں اور پھول پھل والے پودوں کو شوق ہوا اور بہت اچھا باغیچہ ہرا بھرا گھر کی تعمیر کے ساتھ ہی قائم ہو گیا۔ ایک دن صبح سویرے میرے نانا مطب جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اپنے چار بیٹوں کے ساتھ تشریف لائےہیں تاکہ تعمیر شدہ گھر کو دیکھیں۔ حضور نے سارا گھر دیکھا اور چھت پر بھی گئے۔ اس کے بعد باغیچہ اور پھل دار درختوں کو دیکھ کر بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا اور دریافت کیا کہ اتنے ہرے بھرے کیسے ہیں؟ میرے نانا نے بتایا کہ کھاد گھر میں بنتی ہے۔ پھر حضور نے فرمایا ‘‘اپنی فیکٹری کی کھاد ہمیں ضرور بھجوائیں کیونکہ ہمارے دارالانوار والے گھر کے پودوں کو پھل پھول نہیں لگتے’’ میرے نانا نے اسی دن کھاد بھجوائی۔ حضور کافی دیر گھر میں تشریف فرما رہے کھانا بھی کھایا۔ خاص طور پر آم کے اچار کی فرمائش کی نیز فرمایا کھانا بہت لذیذ ہے۔ میری والدہ صالحہ خاتون ہمیشہ بہت محبت اور چاہت سے خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور آپ کے خاندان کے ساتھ تعلق کے واقعات بیان کرتی تھیں۔ میرے نانا کی ساری اولاد نے مسیح مہدی علیہ السلام اور آپ کے خاندان سے عقیدت احترام کا تعلق رکھا۔ خاص طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی والدہ اور آپ کی بہنوں کے ساتھ بہت محبت اور عقیدت تھی۔ میرے نانا کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں اور آٹھ بیٹیوں سے نوازا جن کی بہترین تربیت کی اور خاص طور پر دینی تعلیم اور قرآن کا علم میری والدہ اور ان کی بڑی بہن آمنہ نے حاصل کیا۔ میرے نانا کو قرآن سے غیر معمولی عشق تھا خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کرتے۔ اپنے بڑے بیٹے کو چھوٹی عمر میں ہی حافظ قرآن بنانے کی سعادت پائی۔ حافظ مسعود احمد صاحب نے بعد میں ڈاکٹری کی ڈگری بھی حاصل کی لیکن جماعت میں شروع سے ان کی وجہ شہرت حسن قرآت اور انتہائی خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت تھی۔ آپ نے جلسہ سالانہ قادیان اور ربوہ میں ہمیشہ اتنی خوبصورت آواز میں تلاوت کی کہ سامعین پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ آپ کی تلاوت کا انداز اور آواز کا سریلا پن بالکل نرالا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کا ذاتی محبت اور عقیدت کا دوستانہ تعلق تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطوط اور تحریر اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں جو میرے چھوٹے ماموں ودود احمد کے پاس محفوظ ہیں۔ میرے نانا نے اپنے بڑے بھائی حافظ احمد دین صاحب کے بیٹے غلام محمد کے قادیان آنے کے بعد کفالت کی اور ان کی شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی میاں خیر الدین سیکھوانی (313صحابہ میں نمبر 31مع اہل بیت) کی بیٹی آمنہ سے ہوئی۔ محترم غلام محمد صاحب پاکستان بننے کے بعد ہجرت کر کے سرگودھا میں آباد ہوئے۔ میرے نانا کی سب سے بڑی بیٹی آمنہ کا نکاح نذیر احمد مبشر صاحب (جن کا تعلق سیالکوٹ سے تھا )سے ہوا۔ جنہوں نے دینی تعلیم مکمل کی اور انہیں مبلغ کے طور گھانا جانا پڑا اور میری خالہ آمنہ کی رخصتی نہ ہو سکی کیونکہ میرے خالو اپنی بیوی کو ساتھ نہ لے کر جا سکتے تھے اور آپ نے نہایت نامساعد حالات میں گھانا میں تبلیغ کی شاندار خدمات انجام دیں اور کئی سال بعد پاکستان بننے کے بعد میری خالہ گھانا جا سکیں۔ اسی طرح میری والدہ صالحہ خاتون کے نکاح کا واقعہ ہے۔ میرے والد رحمت علی مسلم جالندھر مشرقی پنجاب کے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے اسکول کے احمدی ہیڈ ماسڑ سے متاثر تھے اور احمدیت کے بارے معلومات حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔ ہیڈ ماسڑ صاحب نے میرے والد صاحب کو میڑک کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے جو دیں جس کے بعد میرے والد صاحب نے بیعت کی خواہش کی۔ ہیڈ ماسڑ صاحب نے دعا کرنے کے لیے کہا۔ چنانچہ رمضان میں میرے والد صاحب نے بہت دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے آخری عشرہ میں خواب میں دکھایا کہ بلاؤں سے بچنے کے لیے جس منارہ میں پناہ ممکن ہے وہ قصر احمدیت کا ہے۔ میرے والد نے قادیان میں آکر بیعت کر لی جب ان کی عمر 18 سال تھی۔ گھر سے شدید مخالفت کا سامنا ہوا اور واپس قادیان چلے آئے یہ 1935ء کی بات ہے۔ یہاں نہ رہنے کو گھر نہ کھانے کو پیسے لیکن اللہ کی قدرت سے حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ کو علم ہوا اور آپ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ذکر کیا جنہوں نے ازراہ شفقت سندھ میں صدر انجمن کی زمینوں کے لیے نوکری دی۔ اسی اثناء میں حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ نے ان کے لیے میرے نانا سے اپنی کسی بیٹی کے لیے رشتے کا کہا اور یوں میری والدہ سے ان کا نکاح ہوا۔ اسی دوران دوسری عالمی جنگ شروع ہو چکی تھی اور میرے والد جو تعلیم یافتہ ہونے کے باعث برطانوی فوج میں ایجوکیشن کور میں بھرتی کر لیا گیا اور میری والدہ کی رخصتی التواء میں پڑ گئی کیونکہ میرے والد کو برطانوی فوج کے ساتھ جزائر الہند جانا پڑا جہاں جلد ہی تمام فوج جاپانیوں کی قید میں جزائر میں محصور کر دی گئی۔ پاکستان بننے کے بعد میرے والد صاحب رخصتی کے بعد میری والدہ کو لے کر راولپنڈی آئے۔ جب کہ میرے نانا کا خاندان ہجرت کر کے سرگودھا آیا۔ جہاں میرے نانا کو ان کے شفا خانے کے بدلے میں ایک بہت بڑا گھر حکومت نے دیا جس میں ڈاکٹر کا کلینک بھی تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے نانا اور ان کے بڑے بیٹے ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب مخلوق خدا کی خدمت میں پھر سے مصروف ہو گئے۔ آپ دونوں کے اخلاق و کردار اور خداداد شفا کی صلاحیت تھی کہ لوگ دور دراز سے علاج کی غرض سے آپ کے پاس آتے۔ میرے نانا خاص طور پر بہت دعا گو، عبادت گزار نیک بزرگ کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ 1948ء میں قادیان سے ہجرت کر کے حاجی جنود اللہ صاحب ترکی بھی سرگودھا آگئے۔ میرے نانا نے ازراہ شفقت حاجی جنود اللہ صاحب کو اپنے گھر کا حصہ جو آپ کے کلینک کے ساتھ متصل تھا رہنے کو دیا تاکہ جنود اللہ صاحب اپنا ڈینٹل کلینک وہاں کھول لیں۔ جنود اللہ صاحب احمدیت کے لیے ایک نشان تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1982ء میں فرمایا تھا۔
’’جنود اللہ صاحب کا خاندان احمدیت کے نشانات میں سے ایک نشان ہے۔ بلکہ ایک ایسا نشان جس کا براہ راست تعلق حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی اور ایک نصیحت سے ہے۔ آپ نے فرمایا ’’جب تم امام مہدی کے ظاہر ہونے کی خبر سنو تو اگر برف کے تودوں پر سے گھٹنوں کے بل چل کر بھی جانا پڑے تو اس تک پہنچو اور میرا سلام کہو اور دوسری حدیث میں آتا ہے اس کی بیعت کرو۔ حاجی جنود اللہ صاحب مرحوم اور ان کے بڑے بھائی اُلِ احمد صاحب اور ان کی والدہ روس ترکستان میں احمدی ہوئے جب انہیں خبر پہنچی کہ امام مہدی ظاہر ہو گئے ہیں اور پھر وہاں سے ہجرت کر کے واقعتاً ہجرت کر کے برف کے تودوں سے گزر کر آئے اور نہایت شدید مشکلات اور صعوبتیں برداشت کیں۔ کئی ماہ سفر کر کے دیار مہدی تک 24 نومبر 1938ء کو پہنچے۔ ترکستان میں ان کے حالات بہت اچھے تھے اور بہت معزز خاندان تھا لیکن مسیح مہدی کی بیعت کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا۔‘‘

میرے نانا کا خاندان قادیان میں حاجی جنود اللہ صاحب کی فیملی سے واقفیت رکھتا تھا اور جانتے تھے کہ کس طرح احمدیت کے ایک مخلص فدائی عدالت خان صاحب کی قربانیوں اور دعا کے نتیجے میں محمد رفیق صاحب کاشغر پہنچے تھے اور ان کے ذریعے حاجی صاحب اور ان کی خاندان احمدی ہوئے۔ میرے نانا نے بعد میں حاجی صاحب کی فیملی کو اسی ڈینٹل کلینک پر گھر بنانے کی اجازت دی جو میرے نانا کے گھر کا ایک کونہ تھا۔ 1974ء میں احمدیت کے دشمنوں نے میرے نانا کی اس عمارت، گھر اور کلینک کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ میرے عظیم ماموں ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب نے اسی ملبہ پر لکڑی کا بنچر رکھ کر پھر سے انہی لوگوں کی خدمت شروع کر دی۔ حاجی صاحب کی اولاد نے بھی وہیں گھر تعمیر کر لیا۔ میرے ماموں کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار فضلوں سے نوازا اور اسی ملبے کو صاف کر کے بہت بڑی عمارت بنانے کی توفیق دی۔ حاجی جنود اللہ صاحب کے چھوٹے بیٹے سے میرے نانا کی پوتی کی شادی ہوئی اور حاجی صاحب کے نواسے سے میرے ماموں کی پوتی کی شادی ہوئی۔ اس طرح اس ’’آیت اللہ‘‘ خاندان سے تعلق مزید مضبوط ہوا۔

میرے ناناکو جاننے والے سبھی افراد جو قادیان سے تعلق رکھتے تھے وہ آپ سے بہت محبت اور عقیدت رکھتے تھے وہ آپ سے بہت محبت کرتے اور عقیدت رکھتے تھے اور آپ کی بے لوث خدمات کی ہمیشہ تعریف کرتے تھے۔ آپ بہت مہمان نواز تھے اس لیے آپ کا گھر ہمیشہ مہمانوں سے بھرا رہتا تھا۔ آپ نے بہت لوگوں کی کفالت کی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ کئی یتیموں اور بیواؤں کی خبرگیری کی۔ قادیان کے اردگرد بے شمار ہندو اور سکھ آپ کے معتقد تھے۔ اسی طرح سرگودھا اور اردگردکے علاقوں کے لوگ آپ سے ہی دوا لیتے اور آپ کو مسیحا مانتے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ سے ملنے کی خواہش لیے بے شمار لوگ آتے رہے۔ میرے نانا کی وفات 29 جون 1970ء کو ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں تدفین ہوئی۔ آپ کی یاد میں الفضل اخبار میں بہت سے مضامین شائع ہوئے جن میں آپ کو بہترین الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا اور آپ کے بیٹوں کا ذکر کرنے کے علاوہ آپ کے دو دامادوں کو بھی یاد رکھا۔ محترم مولانا نذیر احمد مبشر صاحب مربی انچارج و امیر جماعت گھانا جو بعد میں ناظم دار القضاء اور وکیل اعلیٰ تحریک جدید رہے اور دوسرے میرے والد محترم رحمت علی مسلم صاحب لیکچرار گورنمنٹ کالج سرگودھا جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی وقف کی اور تعلیم الاسلام کالج اور پھر باقی ساری عمر جامعہ احمدیہ ربوہ میں خدمات سر انجام دیں اور اللہ کے فضل سے بہت عزت و احترام کا مرتبہ حاصل کیا۔ میرے والد صاحب اردو اور فارسی کے بہت بڑے عالم تھے تاریخی اور دینی علوم پر عبور حاصل تھا۔ مولانا روم، سعدی، شیرازی،عمر خیام، غالب،اقبال کے علاوہ تمام قدیم شعرا کے کلام کا بہت گہرا مطالعہ تھا اور کمال کا حافظہ پایا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور فارسی شاعری کا بہت علم رکھتے تھے اور مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کی عزت کے لیے کیا عجب غیرت رکھتے تھے۔ اس کی بڑی کم مثال ملتی ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور ایک گواہ کے طور پر ہوں گے یعنی ’’حجۃ اللہ‘‘ کہ انہوں نے احمدیت قبول کر کے سچ کا ساتھ دیا۔ اپنا گھر، اپنی زمین، جائیداد اور خاندان سب کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔ کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا نہ کبھی پچھتاوا ہوا۔ کبھی شکوہ نہ کیا ہمیشہ کہا اللہ تیرا شکر ہے۔ میرے والد نے ساری زندگی انتہائی سادگی سے فقیرانہ اور درویشانہ گزاری۔ جامعہ احمدیہ ربوہ کے بے شمار فارغ التحصیل طلباء اس بات کے گواہ ہیں کہ مسلم صاحب نہایت سادہ اور سیدھے انسان تھے۔ تنخواہ کے بغیر اپنی قلیل پنشن میں گزارا کیا اور اپنے خداداد علم سے بہتوں کو فائدہ دیا۔ میں نے اپنے والد کو ساری زندگی کپڑوں کے دو جوڑے اور دو جوتوں میں دیکھا۔ ایک گھر کے لیے ایک باہر کے لیے اور ایک اچکن اور ایک ٹوپی۔ ان کے پاس شاید ہی کوئی صندوق تھا۔ مزدور کی طرح کام کیا اور گھر والوں کی اور جماعت کی خدمت کی اونچی آواز سے تلاوت کرتے کہ ہمسائے بھی قرآن سن کر محظوظ ہوتے تھے۔ وفات کے بعد بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے۔

’’خدا رحمت کند ایں عاشقاں پاک طینت را‘‘

یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں اور اس باپ کی بیٹی ہوں جن سے میں نے علم سیکھا اور لکھنے اور تقریر کرنے کا ملکہ پایا۔ میں نے اللہ اور اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق اور خلفائے مسیح مہدی سے عقیدت و محبت اور اطاعت کا جذبہ اور غیرت دینی اپنے والدین سے ورثہ میں پائی۔ جس طرح میرے والدین نے ساری زندگی اسلام احمدیت کے لیے وقف رکھی۔ انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میں نے بھی ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام احمدیت کے لیے زندگی وقف کرنے کی توفیق پائی ہے۔

این سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

(وسیمہ اُپل۔آسڑیلیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اگست 2022

اگلا پڑھیں

دعا عبادت کا مغز ہے