• 27 اپریل, 2024

خطبات امام، ہماری روحانی ترقی کا ذریعہ

خطبات امام، ہماری روحانی ترقی کا ذریعہ
تقریر جلسہ گاہ مستورات جرمنی 2022ء

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیس مقامات میں اپنی صفت رب العالمین کا ذکر فرماتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر عالم کا رب ہے وہ عالم جسمانی ہو یا روحانی۔ اس کی ربوبیت ہر لحاظ سے کامل ترین ہے اور پھر ہر عالم کو مختلف درجات میں کامل کیا جس کی طرف وہ اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے

الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ ﴿۴﴾ ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ یَنۡقَلِبۡ اِلَیۡکَ الۡبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ہُوَ حَسِیۡرٌ

(الملک: 2-5)

ترجمہ: وہی ہےجس نے سات آسمانوں کو طبقہ در طبقہ پیدا کیا۔ تُو رحمان کی تخلیق میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا۔ پس نظر دوڑا۔ کیا تو کوئی رخنہ دیکھ سکتا ہے؟ نظر پھر دوسری مرتبہ دوڑا، تیری طرف نظر ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہاری ہوگی۔

خدا تعالیٰ کے اس کامل نظام میں انسان جب اپنی کمزوری، سُستی اور لاپرواہی سے اس نظام کی افادیت سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہو جاتا ہے اور ہلاکت جسمانی و روحانی ہی اسے اپنے چاروں طرف دکھائی دینے لگتی ہے تو اس حالت میں اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت کا پھر ایک بار جلوہ دکھاتا ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’قانون قدیم حضرت رب العالمین کا یہی ہے کہ جب دنیا میں کسی نوع کی شدت اور صعوبت اپنے انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو رحمت الٰہی اس کے دور کرنے کی طرف متوجہ ہوتی ہے جیسےجب اِمساک باران سے غایت درجہ کا قحط پڑ کر خلقت کا کام تمام ہونے لگتا ہے تو آخر خداوند کریم بارش کر دیتا ہے اور جب وبا سے لاکھوں آدمی مرنے لگتے ہیں تو کوئی صورت اصلاح ہوا کی نکل آتی ہے یا کوئی دوا ہی پیدا ہو جاتی ہے اور جب کسی ظالم کے پنجے میں کوئی قوم گرفتار ہوتی ہے تو آخر کوئی عادل اور فریاد رس پیدا ہو جاتا ہے۔ پس ایسا ہی جب لوگ خدا کا راستہ بھول جاتے ہیں اور توحید اور حق پرستی کو چھوڑ دیتے ہیں۔ تو خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کسی بندہ کو بصیرت کامل عطا فرما کر اور اپنے کلام اور الہام سے مشرف کر کے بنی آدم کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے کہ تا جس قدر بگاڑ ہو گیا ہے اس کی اصلاح کرے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد1 حاشیہ صفحہ113-114)

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مومنوں پر ایک عظیم الشان احسان کا تذکر ہ ان الفاظ میں فرماتا ہے۔

لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ

(آل عمران: 165)

ىقىناً اللہ نے مومنوں پر احسان کىا جب اس نے ان کے اندر انہى مىں سے اىک رسول مبعوث کىا وہ ان پر اس کى آىات کى تلاوت کرتا ہے اور انہىں پاک کرتا ہے اور انہىں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔

خدا تعالیٰ کے اسی قدیم قانون کے مطابق انبیاء علیہم السلام کی بعثت ایسے وقت میں ہوتی ہے جبکہ دنیا میں ظلمت اور تاریکی کا دور دورہ ہوتا ہے اور ’’ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ‘‘ کی کیفیت ہوتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے طفیل اللہ تعالیٰ ان ظلمتوں اور اندھیروں کو اپنے نور کے ذریعہ زائل کرتا ہے اور ایمان لانے والی اور عمل صالح کرنے والی جماعتیں کھڑی کر دیتا ہے۔ نورنبوت کے فیضان کو امت میں لمبے عرصہ تک ممتد کرنے کے لئے ان ایمان داروں اور عمل صالح کرنے والے لوگوں میں خلافت کا سلسلہ جاری فرماتا ہے۔ ہمارے اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے احیاء اور شریعت اسلامیہ کے قیام کی غرض سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپؑ کی وفات کے بعد جماعت میں اپنی قدرت ثانیہ کا ظہور فرماتے ہوئے سلسلہ خلافت کو قائم فرمایا۔ جس کی حکمت بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
’’خلیفہ درحقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلّی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔‘‘

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ353)

حضرت مصلح موعودؓ روحانی ترقی کے حصول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ملائکہ سے فیوض حاصل کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ خلفاء سے مخلصانہ تعلق قائم رکھا جائے اور ان کی اطاعت کی جائے۔۔۔ تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نئے دل ملیں گے جن میں سکینت کا نزول ہوگا اور خدا تعالیٰ کے ملائکہ ان دلوں کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔۔۔ تعلق پیدا کرنے کے نتیجہ میں تم میں ایک تغیر عظیم واقع ہو جائے گا، تمہاری ہمتیں بلند ہو جائیں گی، تمہارے ایمان اور یقین میں اضافہ ہو جائے گا ملائکہ تمہاری تائید کے لئے کھڑے ہو جائیں گے اور تمہارے دلوں میں استقامت اور قربانی کی روح پھونکتے رہیں گے۔ پس سچے خلفاء سے تعلق رکھنا ملائکہ سے تعلق پیدا کر دیتا ہے اور انسان کو انوار الہیہ کا مَہبط بنا دیتا ہے۔‘‘

(خلافت علی منہاج النبوۃ جلد3 صفحہ392)

جس طرح انسان کی جسمانی زندگی کا سارا دارومدار ظاہری پانی پر ہے اسی طرح اس کی روحانی زندگی اور بقاء کا سارا دار و مدار آسمانی پانی پر ہے۔ اس زمانہ میں ربّ العالمین خدا نے اپنےمحبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے فیض کو جاری رکھتے ہوئے، اس رحمۃ اللعالمین کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ اب تا قیامت اس روحانی پانی کے سامان کئے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار

پھر ایک مقام پر آپؑ اس پانی کی روحانی اور ترقی عطا کرنے کی تاثیر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جو شخص میرے ہاتھ سے جام پیئے گا جو مجھے دیا گیا وہ ہرگز نہیں مرے گا۔‘‘

(ازالہ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد3 صفحہ104)

اسی روحانی جام کی اہمیت واضح کرتے ہوئے ایک اور مقام پر حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :
’’میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے۔ جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اُس روشنی سے حصّہ لے گا۔مگر جوشخص وہم اور بدگمانی سے دور بھاگتاہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا۔اس زمانہ کا حِصنِ حصین میں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزّاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گامگر جو شخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے! اور اُس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ34)

حضرت مسیح موعودؑ کے بعد آپ کی نیابت میں اب وہ حِصن حصین خلافت حقہ کا نظام ہے۔ جو خدا تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق ہمیں عطا فرمایا ہے۔ جو بھی اس خلافت سے چمٹ جائے گا اور اپنی نسلوں کو چمٹا دے گا وہی خوش نصیب ہے جو اپنی اور اپنی اولاد کی روحانی ترقی کے سامان کرنے والا ہے۔

خلافت سے وابستگی ہے کیا؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میری بڑی آرزو ہے کہ ایسامکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور درمیان میں میرا گھر ہو اور ہر ایک گھر میں میری ایک کھڑکی ہو کہ ہر ایک سے ہر ایک وقت واسطہ و رابطہ رہے‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹیؓ صفحہ 24
سٹیم پریس قادیان طبع سوم 1935ء)

اپنی اور اپنی اولاد کی روحانی ترقی کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی خواہش کے مطابق جب تک خدا تعالی ٰ کے مقرر کردہ مبارک وجود سے ایک ذاتی واسطہ اور رابطہ نہ ہو یہ مقصد پانا محال ہے۔اللہ تعالیٰ کا یہ احسان عظیم ہے کہ اکناف عالم میں بسنے والے احمدیوں کے لئے ایم ٹی اے کی شکل میں یہ کھڑکی اب ہر گھر میں کھل چکی ہے۔ ہمارے پیارے امام 24 گھنٹوں میں کئی بار اس کے ذریعہ اپنے دیدار سے نوازتے ہوئے سلامتی کے پیغام اور زندگی کی حلاوت عطا کرنے والے مبارک کلمات سے پیاسی روحوں کی پیاس بجھانے کے تازہ بہ تازہ سامان مہیا فرماتے ہیں۔ اور یہ زندگی بخش جام پورا فائدہ اسی کو ہی دیتا ہے جو خود براہ راست اس کو ساقی سے لے کر نوش کرتا ہے۔ اسی لئے خلفاء احمدیت نے اس پر بار بار زور دیا کہ خلیفۂ وقت کی آواز کو براہ راست سنیں۔ روحانی ترقی کے لئے خلافت کی آواز کو ہر ایک کا براہ راست سننا کیوں ضروری ہے وہ درج ذیل ارشادات سے واضح ہو جاتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:
’’میرا تجربہ ہے کہ خلیفۂ وقت کی طرف سے جو بات کوئی دوسرا پہنچاتا ہے اس کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا براہ راست خلیفۂ وقت سے کوئی بات سنی جائے۔ میرا اپنا زندگی کا لمبا عرصہ دوسرے خلفاء کے تابع ان کی ہدایت کے مطابق چلنے کی کوشش میں صرف ہوا ہے اور میں جانتاہوں کہ کوئی پیغام پہنچائے فلاں خطبہ میں خلیفہ نے یہ بات کی تھی اور خطبہ میں خودحاضر ہو کر وہ بات سننا ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 8جنوری 1993ء خطبات طاہر جلد 12 صفحہ20)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’اس طرف بہت توجہ کریں، اپنے گھروں کو اس انعام سے فائدہ اٹھانے والا بنائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہماری تربیت کے لئے ہمارے علمی اور روحانی اضافے کے لئے ہمیں دیا ہے تاکہ ہماری نسلیں احمدیت پر قائم رہنے والی ہوں۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے جوڑیں۔ اب خطبات کے علاوہ اور بھی بہت سے لائیو پروگرام آرہے ہیں جوجہاں دینی اور روحانی ترقی کا باعث ہیں وہاں علمی ترقی کا بھی باعث ہیں۔ جماعت اس پر لاکھوں ڈالر ہر سال خرچ کرتی ہے اس لئے کہ جماعت کے افراد کی تربیت ہو۔ اگر افراد جماعت اس سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھائیں گے تو اپنے آپ کو محروم کریں گے۔۔۔ ایم ٹی اے کی ایک اور برکت بھی ہے کہ یہ جماعت کو خلافت کی برکات سے جوڑنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ پس اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 2013 ء بحوالہ روزنامہ الفضل 3 دسمبر 2013ء صفحہ5)

قرآن کریم اور ارشادات رسولﷺ کی روشنی میں یہ بات تو ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس دجّالی قوتوں کے غلبہ کے زمانہ میں انسان خدائی عطا کردہ نظام کے ساتھ جب تک چمٹ کر نہ رہے بچ نہیں سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم احسان ہے کہ اس کے عطا کردہ اس نظام کے سربراہ ہمیں ہر قدم پر راہنمائی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ کس طرح اور کس حد تک چمٹنا ہے چنانچہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بڑے ہی دلکش انداز میں ایک واقعہ کے ذریعہ ہماری راہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک بادشاہ محمود غزنوی کا ایک خاص جرنیل تھا۔ بڑا قریبی آدمی تھا اس کا نام ایاز تھا۔ انتہائی وفادار تھا اور اپنی اوقات بھی یاد رکھنے والا تھا۔ اس کو پتہ تھا کہ میں کہاں سے اٹھ کر کہاں پہنچا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد رکھنے والاتھا اور بادشاہ کے احسانوں کو بھی یاد رکھنے والا تھا۔ ایک دفعہ ایک معرکے سے واپسی پر جب بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ جا رہا تھا تو اس نے ایک جگہ پڑاؤ کے بعد دیکھا کہ ایاز اپنے دستے کے ساتھ غائب ہے۔ تو اس نے باقی جرنیلوں سے پوچھا کہ وہ کہاں گیا ہے تو ارد گرد کے جو دوسرے لوگ خوشامد پسند تھے اور ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ کسی طرح اس کو بادشاہ کی نظروں سے گرایا جائے اور ایاز کے عیب تلاش کرتے رہتے تھے تو انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا کہ بادشاہ کو اس سے بد ظن کریں۔اپنی بدظنی کے گناہ میں بادشاہ کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے فوراً ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں جس سے بادشاہ کے دل میں بد ظنی پیدا ہو۔ بادشاہ کو بہر حال اپنے وفادار خادم کا پتہ تھا۔ بد ظن نہیں ہوا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے تھوڑی دیر دیکھتے ہیں۔ آ جائے گا تو پھر پوچھ لیں گے کہ کہاں گیا تھا۔ اتنے میں دیکھا تو وہ کمانڈر اپنے دستے کے ساتھ واپس آرہا ہے اور اس کے ساتھ ایک قیدی بھی ہے۔ تو بادشاہ نے پوچھا کہ تم کہاں گئے تھے۔ اس نے بتایا کہ میں نے دیکھا کہ آپ کی نظر باربار سامنے والے پہاڑ کی طرف اُٹھ رہی تھی تو مجھے خیال آیا ضرور کوئی بات ہو گی مجھے چیک کر لینا چاہئے، جائزہ لینا چاہئے، تو جب میں گیا تو میں نے دیکھا کہ یہ شخص جس کو میں قیدی بنا کر لایا ہوں ایک پتھر کی اوٹ میں چھپا بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں تیر کمان تھی تاکہ جب بادشاہ وہاں سے گزر ہو تو وہ تیر کا وار آپ پر چلائے۔ تو جو سب باقی سرداروہاں بیٹھے تھے جو بدظنیاں کر رہے تھے اور بادشاہ کے دل میں بد ظنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ سب اس بات پر شرمندہ ہوئے۔

تو اس واقعہ سے ایک سبق بد ظنی کے علاوہ بھی ملتا ہے کہ ایاز ہر وقت بادشاہ پر نظر رکھتا تھا۔ ہر اشارے کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پس یہ بھی ضروری ہے کہ جس سے بیعت اور محبت کا دعویٰ ہے اس کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے اور اس کے ہر اشارے اور حکم پر عمل کرنے کے لئے ہر احمدی کو ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر حکم کو ماننے کے لئے بلکہ ہر اشارے کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 26 مئی 2006ء)

حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس ارشاد کے الفاظ ’’جس سے بیعت اور محبت کا دعویٰ ہے اس کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے اور اس کے ہر اشارے اور حکم پر عمل کرنے کے لئے ہر احمدی کو ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔‘‘ پر عمل تبھی ہو سکتا ہے جب ہر کوئی پیارے آقا کے خطبات کو براہ راست سنے اور ان پر فوری عمل کر ے جس کا لازمی نتیجہ روحانی ترقی کی صورت میں سامنے آئے گا۔

مؤثر ترین نصیحت

قرآن کریم اللہ تعالیٰ اور رسول کے احکامات کی بابت نصیحت کرتا ہےکہ

يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ

(الانفال: 25)

اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ اور رسول کى آواز پر لبىک کہا کرو جب وہ تمہىں بلائے تاکہ وہ تمہىں زندہ کرے۔

خلیفۂ وقت اپنے خطبات جمعہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پہنچاتے ہیں۔ ان کی نصیحت کسی بھی دوسرے واعظ سے ہزار ہا گنا زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ خطبہ جمعہ دنیا کے ہر احمدی کےلیے راہ نمائی کا موجب ہو کر اس کی زندگی میں ایک انقلاب لاتا ہے۔ یہی وہ صداقت ہے جس کا تذکرہ ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان الفاظ میں فرمایا:
’’ہر خطبہ کا مخاطب ہر احمدی ہوتا ہےچاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو…مختلف ممالک سے احمدیوں کے،جو وہاں کے مقامی احمدی ہیں، خطوط بڑی کثرت سے آنے لگ گئے ہیں کہ خطبات نے ہم پر مثبت اثر کرنا شروع کر دیا ہے اور بعض اوقات تربیتی خطبات پریوں لگتا ہے کہ جیسے خاص طور پر ہمارے حالات دیکھ کر ہمارے لئے دئیے جار ہے ہیں۔ بلکہ شادی بیاہ کی رسوم پر جب میں نے خطبہ دیا تھا تو اس وقت بھی خط آئے کہ ان رسوم نے ہمیں بھی جکڑ اہوا ہے اور خطبہ نے ہمارے لئے بہت سا تربیتی سامان مہیا فرمایا ہے۔ تو جو احمدی اس جستجو میں ہوتے ہیں کہ ہم نے خلیفہ وقت کی آواز کو سننا ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے،اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہے وہ نہ صرف شوق سے خطبات سنتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی ان کا مخاطب سمجھتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23اپریل 2010ء)

خلیفہ وقت کا خطبہ جمعہ دنیا بھر میں بسنے والے مخاطبین کو امت واحدہ بنانے کا سامان کرتا اور احباب کو روحانی وجود بننے میں مدد کرتا ہے۔ اس حقیقت کو منکشف کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’آپ اپنی نسلوں کو خطبات باقاعدہ سنوایا کریں یا پڑھایا کریں یا سمجھایا کریں کیونکہ خلیفہ وقت کے یہ خطبات جو اس دور میں دیئے جارہے ہیں یہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والی نئی ایجادات کے سہارے بیک وقت ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں اورساری دنیا کی جماعتیں ان کو براہ راست سنتی اورفائدہ اٹھاتی اورایک قوم بن رہی ہیں ….اگر خلیفہ وقت کی نصیحتوں کو براہ راست سنیں گے تو سب کی تربیت ایک رنگ میں ہو گی ….وہ ایسے روحانی وجود بنیں گے جو خدا کی نگاہ میں مقبول ٹھہریں گے کیونکہ وہ قرآن کریم کی روشنی میں تربیت پا رہے ہوں گے اور قرآن کے نور سے حصہ لے رہے ہونگے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 31مئی1991ء)

بڑے تو بڑے خلیفہ وقت کے مقدس الفاظ کو خود سننا کس طرح بچوں کے رُخ روحانی ترقیات کی طرف پھیر دیتا ہے اس کا اندازہ درج ذیل واقعہ سے ہوتا ہے۔ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقعہ پر احمدی نونہالوں کی سعید فطرت کا ذکر کرتے ہوئے احمدی والدین کو اس فطرت کی حفاظت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’ایم ٹی اے پر سننے والوں کی میں نے بات کی ہے تو ا ُن کی طرف سے بھی مجھے اظہار جذبات کے خطوط مل رہے ہیں بلکہ بعض بچوں کے والدین کے تاثرات بھی مل رہے ہیں کہ ہمارے بچوں نے، اطفال نے آپ کا خطاب سنا تو ان دس گیارہ سال کے بچوں کے چہروں پر شرمندگی کے آثار تھے۔ بلکہ ایک بچے کی ماں نے مجھے بتایا کہ میرا بچہ جب خطاب سن رہا تھا تو اس نے منہ کے آگے Cushion رکھ لیا کہ میں بعض وہ باتیں کرتا ہوں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔ میرے متعلق کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ٹی وی پر مجھے دیکھ دیکھ کر یہ باتیں کر رہے ہیں، خطاب کر رہے ہیں تو میں نے منہ چھپا لیا کہ نظر نہ آؤں۔

پس یہ سعید فطرت ہے، یہ وہ روح ہے جو اللہ تعالیٰ نے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے بچوں میں بھی پیدا کی ہوئی ہے کہ نصیحتوں پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے بلکہ شرمندہ ہو کر اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ بعضوں نے اپنے موبائل فون بند کر دیئے ہیں۔ سکول میں بیٹھ کر بجائے پڑھائی پر توجہ دینے کے بعض بچے اس سوچ میں رہتے تھے کہ ابھی بریک ہوئی یا ابھی چھٹی ہو گی تو پھر اپنے موبائل پر کوئی گیم کھیلیں گے یا اور اس قسم کی فضولیات میں پڑ جائیں گے جو فونوں پر آجکل مہیا ہوتی ہیں۔ اب میری باتیں سنی ہیں تو انہوں نے کہا یہ سب فضولیات ہیں، ہم اب اس کو استعمال نہیں کریں گے،ان کھیلوں کو نہیں کھیلیں گے۔ یہ کھیلیں ایسی ہیں جو صحت نہیں بناتیں، جو دماغی ورزش بھی نہیں ہے بلکہ ایک نشہ چڑھا کر مستقل انہی چیزوں میں مصروف رکھتی ہیں، ایک پاگل پن (یا انگلش میں جسے craze کہتے ہیں) وہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ہم صرف اس بات پر خوش نہیں ہو سکتے۔ جو ہوشمند اور بڑے ہیں ان کوتو خود اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور مستقل مزاجی سے ان جائزوں کی ضرورت ہے۔ ان جائزوں کو لیتے چلے جانا ہے اور اسی طرح والدین کو مستقل اپنے بچوں کو یادہانی کروانے کی ضرورت ہے کہ جب ایک اچھی بات عادت تم نے اپنے اندر پیدا کر لی ہے تو پھر اسے مستقل اپنی زندگی کا حصہ بناؤ۔ ماحول سے متاثر نہ ہو جاؤ۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 2011 ء بحوالہ روزنامہ الفضل 15 نومبر 2011 ء صفحہ 2-3)

تزکیہ نفس کے لیے
انفاق فی سبیل اللہ بھی ایک بڑا ذریعہ ہوتا ہے

خطبات جمعہ کے ذریعہ خلیفہ وقت اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال خرچ کرنے کی تحریک فرماتے ہیں۔ اس ذریعہ سے احباب اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ آسڑیلیا میں ایک خاتون نے جب وقف جدید کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ کا خطبہ سنا تو وہ بہت متاثر ہوئیں۔ اور دو ہزار ڈالر ان کے پاس تھے،وہ فوری طور پر انہوں نے ادا کردیئے۔

(خطبات مسرور جلد14 صفحہ25)

ماریشیس کے ایک احمدی وقف جدید کے بارے میں حضور کا خطبہ سننے پر سوچ میں پڑ گئے کہ میں نے تو کبھی یہ چندہ نہیں دیا۔ خطبہ کے دوران ہی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ اگر مجھے یہ کام مل گیا تو پچیس ہزار ماریشین روپے وقف جدید میں ادا کروں گا۔ چند دن بعد ہی انہیں پانچ لاکھ روپے کا ایک کنٹریکٹ مل گیا۔ انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کے بدلہ میں بیس گنا زائد عطا فرمایا ہے اور اس کے ملتے ہی انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنا چندہ ادا کردیا۔

(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 8جنوری 2016ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29جنوری 2016ء صفحہ7)

خلیفہ وقت کے زندگی بخش کلمات اپنے تو اپنے غیروں پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:
’’پھر اب اسی دورے میں آخن (Aachen) کی اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر اور ہناؤ (Hanau) کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر مقامی لوگوں نے جو مختلف طبقات کے تھے، سیاستدان بھی تھے، کاروباری بھی تھے، ٹیچر بھی تھے اور دوسرے پڑھے ہوئے لوگ بھی تھے۔ مرد بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں۔ ان میں سے بہت سوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ایک نے کہا کہ میری بہت سے احمدیوں سے واقفیت ہے اور احمدیت کے بارے میں میَں سمجھتی تھی کہ بہت سمجھتی ہوں اور مجھے اس واقفیت کی وجہ سے بہت کچھ پتا ہے لیکن کہنے والے کو انہوں نے کہا کہ جو تمہارے خلیفہ کی باتیں سن کر مجھ پر اثر ہؤا ہے وہ پہلے نہیں ہوا۔ مجھے اسلام کے متعلق حقیقت اب صحیح طور پر پتا چلی ہے جو دل میں اتری ہے۔ تو یہ فضل ہیں اللہ تعالیٰ کے جو خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ میَں تو ایک عاجز انسان ہوں۔ اپنی حالت کا مجھے علم ہے میری کوئی خوبی نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خلافت سے تائید کا وعدہ فرمایا ہے، نصرت کا وعدہ فرمایا ہے اور خدا تعالیٰ یقینا سچےّ وعدوں والا ہے وہ ہمیشہ خلافت کی تائید و نصرت فرماتا رہا ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی فرماتا رہے گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ 29 مئی 2015ء)

انسان کی روحانی ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو سلسلہ انبیاء اور انبیاء کے بعد خلفاء کا مقرر فرما دیا ہے اور پھر اس کو اپنی ذات کے پانے کے لئے ایک وسیلہ قرار دیا ہے۔ کوئی انسان بھی ان مقدس وجودوں سے منہ موڑ کر روحانی ترقی حاصل نہیں کر سکتا اس کو حضرت مسیح موعودؑ ایک اور رنگ میں بیان فرماتے ہیں:
’’انسان کو چاہئے کہ ہر وقت اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ کی دعا پر کاربند رہے اور اسی سے توفیق طلب کرے۔ ایسا کرنے سے انسان خدا کی تجلیات کا مظہر بھی بن سکتا ہے۔ چاند جب آفتاب کے مقابل میں ہوتا ہے تو اسے نور ملتا ہے مگر جوں جوں اس سے کنارہ کشی کرتا ہے توں توں اندھیرا ہوتا جاتا ہے۔ یہی حال ہے انسان کا جب تک اس کے دروازہ پر گرا رہے اور اپنے آپ کو اس کامحتاج خیال کرتا رہے تب تک اللہ تعالیٰ اسے اٹھاتا اور نوازتا ہے ورنہ جب وہ اپنی قوّتِ بازو پر بھروسا کرتا ہے تو وہ ذلیل کیا جاتا ہے۔‘‘

(الحکم جلد7 نمبر9 مؤرخہ 10 مارچ 1903ء صفحہ13)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ آفتاب جو مبداء الانوار ہے کے ذریعہ ہی وہ روشنی حاصل کی جا سکتی ہے جو خدا تک پہنچنے یعنی روحانی ترقی کا زینہ ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
’’اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود ؑ سے جوڑ کر پھر خلافت سے کامل اطاعت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہی چیز ہے جو جما عت میں مضبوطی اور روحانیت میں ترقی کا با عث بنے گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ 31 جنوری 2014ء)

ایک اور جگہ پر اس طرح نصیحت فرمائی ہے فرمایا:
’’سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ لوگ ہر جمعہ کو نشر ہو نے والا خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سنیں۔ اور دیگر ایسے پروگرامز بھی دیکھیں جن میں میری شمو لیت ہو تی ہے۔ ان پروگراموں کو دیکھنا ان شاء اللہ آپ لو گو ں کے لئے فا ئدہ مند ثابت ہو گا‘‘

(خطاب حضور انور مجلس شوریٰ یو کے 2013ء)

خلافت سے تعلق پیدا کرنے اور روحانی ترقیات کے لئے سب سے پہلا زینہ ہر احمدی کے لئے خلیفہ وقت کی آواز کو براہ راست سننا ہے۔ اس کے لبوں اور زبان سے کب کیا نکلتا ہے۔ اس کی جستجو میں ہمیشہ رہے۔ قرآن کریم میں مومنین کی جماعت کا شعار سمعنا و اطعنا کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ نیکی کی باتوں کو توجہ سے سنتے، سمجھتے اور یاد رکھتے ہیں اور پھر ان باتوں پر دل وجان سے عمل بھی کرتے ہیں۔ جو شخص سنے گا نہیں وہ عمل کیا کرے گا؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا: اوصیکم بتقوی اللّٰہ و السمع والطاعۃ۔

(ترمذی، کتاب الایمان، کتاب الاخذ بالسنۃ)

یعنی میں تمہیں اللہ کا تقوی اختیار کرنے نیز سننے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ آنحضرتﷺ کے اس ارشاد سے بھی پتہ چلتا ہے کہ حصول تقویٰ کے دو ہی بڑے زینے ہیں کان کھول کر ہدایات کو سننا اور ان پر عمل کرنا۔

اس کے بر خلاف خلیفہ وقت کے ارشادات کو نہ سننا اور توجہ نہ دینا اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو خدا کے فضلوں اور روحانی ترقی سے محروم کرنے کا سبب بنتا ہے۔اس کے بارے میں ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اگر خلیفہ وقت کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے تو آہستہ آہستہ نہ صرف اپنے آپکو خدا تعالیٰ کے فضلوں سے دور کر رہے ہوں گے بلکہ اپنی نسلوں کو بھی دین سے دور کرتے چلے جائیں گے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد ہشتم صفحہ191-192)

درحقیقت ایک حقیقی احمدی کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے ہر فرمودہ کو توجہ سے سنے کیونکہ یہ مقدس آواز ایک سچے مومن کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور اس کی برکات مضمر ہوتی ہیں۔ چنانچہ خلیفہ وقت اللہ تعالیٰ کے خاص اذن سے بولتا ہے۔ معارف اس کی مقدس زبان پر جاری کئے جاتے ہیں جن سے کہ یہ دنیا محروم ہوتی ہے اور ڈھونڈنے سے نہیں مل سکتے۔ وہ عین ضرورت اور منشاء الٰہی کے مطابق مومنوں کو دعوت عمل دیتا ہے اور اس طرح وہ سانچہ ایک خلیفہ ہی بنا سکتا ہے جس میں پھر صلاحیت کے عمل ڈھل سکتے ہیں۔ ہمہ وجوہ روحانی ترقیات کی راہیں خلیفہ وقت کی ہدایات کی بدولت ہی صحیح طور پر طے کی جا سکتی ہیں۔ لہذا خلیفہ وقت کے پُر معارف خطبات، خطابات، کلاسز اور پیغامات کو باقاعدگی اور توجہ سے خود سننا، بچوں کو سنانا، اہل وعیال کو سنانا اور دیگر دوستوں، رشتہ داروں اور حلقہ احباب کو تحریک کرنا ہر ایک احمدی مرد و عورت کا فرض ہے۔اس طرح کرنے سے ہی معلوم ہو سکتا ہے کہ خلیفہ وقت کیا فرما رہےہیں، وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں، ہم سے کیا توقعات رکھتےہیں وغیرہ؟ جو احمدی بھی ان ارشادات اور ہدایات کو اہتمام کے ساتھ نہیں سنتا وہ کامل طور پر اطاعت کی سعادت سے محروم ہے جو دونوں جہان میں ناقابل تلافی خُسْران مبین پر منتج ہوتا ہے۔

ایک اور موقع پر آپ نے اس کے بارے میں فرمایا:
’’یاد رکھیں اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور حضرت مسیح موعودؑ کے واضح ارشادات کی روشنی میں خلافت سے تعلق کے نتیجہ میں ہی ایمانی اور عملی ترقی ہو گی۔ چاہے کوئی کتنا ہی بڑا عالم یا مدبر یا بظاہر کسی روحانی مقام پر پہنچا ہوا ہو، اگر خلیفہ وقت سے تعلق کا وہ معیار نہیں جو ہونا چاہیے تو جماعتی ترقی یا کسی کی روحانی ترقی میں اس کے اس مقام کا رتّی برابر اثر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس بات کو اس کی گہرائی میں جا کر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ممبران شوریٰ (پاکستان) 2014ء کے نام پیغام بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 23مئی تا 29 مئی 2014ء)

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلیفہ وقت کے ارشادات پر عمل کرتے ہوئے روحانی ترقیات کے یہ زینے طے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(امة الجمیل غزالہ۔ نیشنل سیکرٹری تعلیم جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اگست 2022

اگلا پڑھیں

دعا عبادت کا مغز ہے