• 27 اپریل, 2024

اسیران راہ مولیٰ اور حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا درد

مکرمہ امة الباری ناصر۔ امریکہ سے تحریر کرتی ہیں۔
الفضل آن لائن 23اگست 2022ء میں مکرم محمد عمر تماپوری۔ انڈیا کا مضمون ’’خطوط طاہرؒ اور اسیران راہ مولا‘‘ پڑھ کر بہت کچھ یاد آیا۔ پہلے تو موصوف کا شکریہ ادا کرتی ہوں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے دل گداز خطوط کا انمول خزانہ کھول کر رکھ دیا فجزاہ اللّٰہ تعالیٰ احسن الجزاء۔

اسیرانِ راہِ مولا کی بے گناہی اور قید و بند کی مصیبتوں پر ہر احمدی کا دل دکھتا ہے۔ خاص طورپر خلیفۂ وقت کی تکلیف کا سوچ کر یہ دُکھن دو چند ہو جاتی ہے۔دعا کی تحریک ہوتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد میں ایسے ہی سانحوں سے اکثر یہ دعائیں آنسوؤں سے بھیگے ہوئے الفاظ میں نظم ہو جاتیں۔ خاکسار کی ایک نظم ’’اسیرانِ راہِ مولا‘‘ الفضل میں شائع ہوئی۔ موضوع ایسا تھا جو خاص طور پر پیارے آقا کے دل کو لگا۔ نظم دیکھئے تا کہ حضورؒ کی مشفقانہ داد کا زیادہ لطف آئے۔

جہانِ عشق کی تقدیر تم نے چمکا دی
نثار ایسی اسیری پہ لاکھ آزادی
بلا کشانِ تعصب تھے یک دل و یک جان
نہ سوچنا کہ یہ قربانی تم نے تنہا دی
رُندھے گلے سے لیا جب بھی ان کا نام لیا
جو بدلی غم کی اُٹھی دل پہ تھوڑی برسا دی
نہ دیکھی جاتی تھی ہم سے حضور کی تکلیف
قبائے اشک دعاؤں کو ہم نے پہنا دی
عجیب لطف رہا ان دنوں عبادت کا
جنوں پسند طبیعت کچھ اور چمکا دی
ستم بڑھا ہے تو بڑھتا ہے ابر فضل و کرم
ہوئے ہیں ایک تناسب سے دونوں ایزادی
اس انتقامِ مشیت پہ سب کو حیرت ہے
وہ خود کہاں ہے ہمیں جس نے اتنی ایذادی
وہ لوگ رکھتے ہیں نشتر ہماری شہ رگ پر
گوارا ہم کو نہیں پھر بھی اُن کی بربادی
وفا کا قصر ہوا سر بلند و با رونق
تمہاری در بدری سے ہوئی ہے آبادی
تمہارے صبر کی ہوں گی روایتیں تحریر
نئے حوالوں سے تاریخ تم نے لکھوا دی
خوشا نصیب ثباتِ قدم ثباتِ یقین
نثار ایسی اسیری پہ لاکھ آزادی

پیارے آقا نے 17جنوری 1989 ء کو دستِ مبارک سے تحریر فرمایا:
’’ابھی الفضل 11جنوری میں آپ کی نظم ‘‘اسیرانِ راہِ مولا‘‘ پڑھی تو جو بدلی غم کی اُٹھی دل پہ تھوڑی برسا دی۔ ساری نظم ہی بڑی پُر اثر ہے اور فصیح و بلیغ مگر بعض اشعار اور بعض مصرعے تو شوخیٔ تحریر کے فریادی بنے ہوئے ہیں۔ میں نے سوچا کہ پہلے اس سے کہ میری آنکھیں خشک ہو جائیں میں آپ کو بتا دوں کہ نظم پڑھ کراسیرانِ راہِ مولا کے ساتھ ساتھ میرے دل نے آپ کو بھی دعائیں دیں۔ جزاکم اللّٰہ احسن الجزاء فی الدنیاوالاخرۃ‘‘

خاکسار۔ مرزا طاہر احمد

مؤرخ احمدیت محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کی گرفتاری کی خبر احبابِ جماعت پر بجلی بن کر گری۔ بدخواہ ہاتھوں کی بے باکی سے دل ہل گئے۔ ہر خبر پہلے سے سنگین آ رہی تھی۔ اپنے بس میں تو خدا تعالیٰ کے حضور فریاد ہی تھی۔ ایک دن یہ فریاد نظم ہو گئی چند اشعار ہیں۔

وہ دوست محمدؐ کے ہیں شاہد ہیں خدا کے
مولا نے انہیں گود میں رکھا ہے بٹھا کے
قامت میں وہ خلدون سے بالا ہیں مؤرخ
آتا ہے مقدر سے نصیبا کوئی پا کے
پہلے بھی اسیروں کو نہیں بھولے تھے ہم لوگ
اس تازہ مصیبت نے تو رکھا ہے ہلا کے

پیارے حضورؒ نے یکم ستمبر 1990 ء کے مکتوب میں تحریر فرمایا۔
’’مولانا دوست محمد صاحب شاہد کی گرفتاری کی خبر سُن کر جو نظم آپ نے کہی ہے وہ بہت ہی بلندپایہ اور پُر تاثیر ہے۔ نہایت دلنشین اور سلجھا ہو ا کلام ہے ماشاء اللہ۔ چشم بد دور۔ اللہ آپ کی ذہنی وقلبی استعدادوں کو جِلا بخشے اور صحت و عافیت والی خدمت سلسلہ سے معمور، فعال اور کامیاب وکامران لمبی زندگی عطا فرمائے اور ہمیشہ اپنی حفاظت و رحمت کے سائے تلے رکھے۔ اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہو۔‘‘

ایک دن فون پر پیارے حضور نے رس گھولتی آواز میں خاکسار کے مضامین اور نظموں کی بہت پیارے الفاظ میں داد اور دعا دی۔ بلکہ ایک نظم کی اصلاح کرکے کچھ بند سنائے پھر فرمایا: ’’میں نے اپنی نظم ’’جو درد سسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے۔‘‘ اپنی آواز میں آڈیو کیسٹ میں بھری ہے۔ بالکل چھپ کے الگ بیٹھ کے پڑھی ہے گلا ٹھیک نہیں تھا مگر سمجھ آ جائے گی۔ دوکیسٹس بھری ہیں۔ مردوں میں عبید اللہ علیمؔ صاحب کو بھجوا رہا ہوں اور عورتوں میں آپ کے لئے بھیجی ہے۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ شاعر ہیں آپ ہی سمجھ سکتی ہیں ایک شاعر کی کیفیات۔ کہ کیا کیا گزرتی ہے۔ آواز بہت صاف نہیں ہے گلا خراب تھا مگر آپ سمجھ لیں گی۔ ببی کے ہاتھ بھیجی ہے آپ جانتی ہیں ببی کو۔۔۔بی بی باچھی کا بیٹا قمر سلیمان احمد۔۔۔آپ اُس سے حاصل کر لیں۔ وہ کراچی گیا ہے۔‘‘

اللہ اللہ! کیا ذرہ نوازی تھی علیم صاحب تو آسمان شعر پر جگمگا رہے تھے اور خاکسار ایک خذف چین۔ مگر آقا نے گدا کو شاہ بنا دیا۔ اور پھر وہ آڈیو کیسٹ ملی جس میں آپ کے دل کی ترجمانی الفاظ اور آواز دونوں سے ہو رہی تھی۔ بہت رُلایا۔ بہت دعا کی

جو درد سسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے
شاید کہ یہ آغوشِ جدائی میں پلا ہے
میں تجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں گا کسی سے
میں تیرا ہوں، تو میرا خدا، میرا خدا ہے

جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا۔ اپنی آواز میں پڑھ کر علیمؔ صا حب اور خاکسار کو بھجوائی تھی۔ 3 اکتوبر 1993ء کے خاکسار کے نام ا یک مکتوب میں اسی بات کے تسلسل میں آپ نے علیمؔ صاحب کابہت محبت سے ذکر فرمایا اور ان کو نظم بھجوانے کی وجہ انتہائی خوب صورت الفاظ میں بیان فرمائی: ’’آپ کو اور مکرم عبید اللہ علیم صاحب کو یہ نظم بھجوانے میں حکمت یہ تھی کہ آپ دونوں چونکہ اس کیفیت سے بخوبی آگاہ ہیں جو شعر ڈھلتے وقت دل کی ہوتی ہے اس لئے آپ کو میری آواز میں یہ نظم سن کر صحیح اندازہ ہو سکے گا کہ کس قلبی کیفیت نے اس نظم کا روپ دھارا۔ اس سے زیادہ کوئی مقصد نہیں تھا۔ ورنہ عبید اللہ صاحب علیمؔ کو ترنم سے نظم پڑھ کر بھجوانا تو ایک خلافِ حکمت بات تھی۔ ان کو تو خدا نے ایسی دلکش آواز اور ترنّم کے زیر و بم پر اختیار عطا فرمایا ہے کہ ان کوتو یہ نظم ترنم کے نمونہ کے طور پر بھجوانا ایک مضحکہ خیزبات ہوتی۔ یہ نظم بعد میں کسی وقت گلے کی بہتر حالت کے وقت بہتر رنگ میں بھی ادا ہو سکتی تھی مگر مشکل یہ تھی کہ عزیزم قمرسلیمان کو دوسرے دن ربوہ واپس جانا تھا۔ اگر اُن کے جانے سے پہلے کیسٹس تیار نہ ہو جاتیں تواسیرانِ راہِ مولا کو نہ بھجوا سکتا۔ دراصل یہ ان کی امانت تھی۔ اُمید ہے ان تک پہنچ چکی ہوگی۔ عزیزم عبید اللہ صاحب علیمؔ کو بھی بات سمجھا دیں۔ ورنہ وہ بیچارے حیران بیٹھے رہیں گے کہ یہ مجھے کیا سوجھی۔ ادب، محبت اور اخلاص کا پتلا ہیں۔ طبعی ردِّ عمل کو ذہن کے پردے پر الفاظ میں ڈھلتا دیکھ کر بھی گھبرائیں گے۔ لیکن اصل نیت معلوم ہو جائے تو سب اُلجھن ختم ہو جائے گی۔پچھلے دنوں بعض مشاعروں کی کیسٹس سننے کا موقع ملا۔ ان کا کلام سُنتے ہوئے بعض دفعہ قلم توڑنے کے محاورہ کی حقیقت سمجھ آ جاتی ہے اور یہ بات کوئی شاعرانہ مبالغہ نہیں دیتی۔ میرے نزدیک تو اس دور کے تمام شعراء آسمانِ شعر و ادب میں اِن سے بلندپرواز کرنے والا اورکوئی شاعر دکھائی نہیں دیتا۔ بعض اُڑانوں نے تو ہفت آسمان سر پر اُٹھا رکھا ہے۔کئی دفعہ سوچا اُن کوخط لکھنے کا مگر پھر اتنا لکھنا پڑے گا اور پھر بھی سیری نہ ہوگی تو کیا فائدہ۔بہتر ہے آپ ہی کی معرفت یہ دو حرفی پیغام بھیج کر کم از کم ان کایہ مسئلہ تو حل کر دوں کہ اب تک خاموش کیوں ہوں۔اسے جبر و اختیارکا مسئلہ ہی سمجھ لیں مگر بندے میں یہ طاقت کہاں کہ آغاز سے اُٹھائے اور انجام تک کے سب مراحل طے کر ڈالے‘‘

خاکسار مرزا طاہر احمد

اسیران راہ مولا کی قربانیوں کی قدر میں ساری جماعت دعاؤں میں مصروف رہتی ہے۔ خلیفۂ وقت کی دعا میں شامل رہتی ہے۔ یہ ہماری جماعت کے ساتھ خاص اللہ پاک کا احسان ہے کہ سب کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ایک ساتھ دعا کے ہاتھ اٹھتے ہیں۔ سب ایک دوسرے کی خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ میرے پاس وہ حوصلہ نہیں اور اظہار کی طاقت نہیں جو اپنے ہی دل کی ترجمانی اور اظہار تشکر کر سکوں۔ اللہ پاک کی اس خاص عنایت پر لاکھوں بار الحمدللّٰہ ثم الحمدللّٰہ۔

نعمت ہے بہت وسعتِ افلاک میں اُڑنا
مولا کے لئے قید میں گو لطف بڑاہے
رمضان ہو یا عید بقر عید کا موسم
لگتا ہے کہ یہ سال گزشتہ سے کڑا ہے
ہم اُن کی رہائی کی دعا مانگ رہےہیں
ہر لفظ میں اِک آنکھ کا موتی بھی جڑا ہے
سوچی نہیں جا سکتی اسیری کی اذیت
گھر والوں پہ بھی وقت بڑا سخت پڑا ہے
مولا ترے دربار میں کس شے کی کمی ہے
اک شخص لئے دیر سے کشکول کھڑا ہے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اگست 2022

اگلا پڑھیں

دعا عبادت کا مغز ہے