• 26 اپریل, 2024

موت

ہر ایک کو دکھاتی ہے اپنی بہار موت
ہر ایک ہی کے ہوتی ہے سر پر سوار موت

پنجے سے اُس کے چھوٹ کر جائے کوئی کہاں
پھیلائے جال بیٹھی ہے ہر سُو ہزار موت

جو مرمٹے ہیں مرکے بھی زندہ رہیں گے وہ
جتنا نکالنا ہو نکالے بخار موت

تیغِ نگاہ ِیار کا کشتہ ہوں مَیں،جبھی
ڈرتا نہیں کبھی بھی ڈرائے ہزار موت

میری دکھوں میں شدتِ طبع کو دیکھ کر
ہوتی ہے دل ہی دل میں بہت شرمسار موت

مرنا تو وصلِ یار ہے یہ جانتا ہوں میں
مجھ کو بھلا ڈراتی ہے کیوں بار بار موت

مسلم کو وصلِ یار ہے، کافر کو وصلِ نار
اخبارِ آخرت کا ہے نامہ نگار موت

خواہش اگر کوئی ہے تو احمد کی ہے یہی
اسلام پر ہی دے مجھے پروردگار موت

(کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 5۔6)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اکتوبر 2020