• 20 اپریل, 2024

ہستی باری تعالیٰ

تبرکات حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ
(قسط نمبر5)

ساتویں دلیل

ساتویں دلیل اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کے منوانے کے لئے قرآن مجید میں یہ بیان فرمائی ہے کہ میں یہ کتاب یعنی قرآن مجید نازل کرتا ہوں اور یہ کتاب کیا بلحاظ فصاحت و بلاغت اور کیا بلحاظ اپنی معنوی خوبیوں کے ایسی بے مثل ہے کہ اس کی نظیر کوئی نہیں بنا سکتا اور اگر کسی میں طاقت ہے تو وہ آزما دیکھے۔ پھر زور دے کر فرمایا کہ اگر دنیا کے جن و اِنس اگلے اور پچھلے عالم اور جاہل مل کر بھی اس پایہ کی کتاب بنانا چاہیں تو بھی نہیں بنا سکتے۔ اور یہ بات دلیل ہے اس امر کی کہ یہ کتاب کسی انسان کی نہیں۔ کیونکہ اگر کسی انسان کی تصنیف ہوتی تو اور بہت سے انسان ایسی تصنیف کر سکتے لیکن جب کوئی شخص خواہ کتنا ہی بڑا عالم ہو اس کی مثل لانے پر قادر نہیں۔ اس لئے نتیجہ یہ نکلا کہ یہ انسانی فعل نہیں بلکہ کسی وراء الوراء ہستی کا ہے جو تمام انسانوں سے زیادہ قادر اور علیم و حکیم ہے اور اسی کو دوسرے لفظوں میں مسلمان خدا کہتے ہیں۔ غرض قرآن کا بے مثل ہونا اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ایک بڑا زبردست ثبوت ہے۔

آٹھویں دلیل

دنیا میں جس قدر چیزیں ہم کو نظر آتی ہیں اصل میں ان کی ذات ہم نہیں دیکھ سکتے بلکہ صفات کو دیکھتے ہیں۔ مثلاً ہماری آنکھوں کے سامنے ایک درخت ہے اور ہم اسے د یکھ رہے ہیں تو اس کی ذات کو نہیں دیکھتے بلکہ کچھ صفتوں کو دیکھ رہے ہیں۔ مثلاً اس کا طول و عرض نظر آتا ہے اور طول و عرض صفات میں سے ہے نہ کہ ذات سے۔ پھر اس کا رنگ دیکھتے ہیں اور وہ صفت ہے نہ کہ ذات۔ پھر ہاتھ لگا کر اس کی سختی نرمی معلوم کرتے ہیں تو وہ بھی ذات نہیں بلکہ صفات ہیں۔ پھر اس کا میوہ کھاتے ہیں تو اس کی ذات نہیں معلوم ہوتی۔ بلکہ مزا محسوس کرتے ہیں۔ اور یہ بات صاف ظاہر ہے کہ مزیدار ہونا میوہ کی ایک صفت ہے نہ کہ ذات۔ غرض جمادات، نباتات، حیوانات ان تمام قسموں میں سے ہم جب کوئی چیز دیکھتے ہیں تو اس کی ذات ہمیں نظر نہیں آتی بلکہ صفات ہی صفات دیکھتے ہیں۔ طول عرض، رنگ، سختی نرمی، مزہ وغیرہ یہی باتیں ہم کو نظر آ تی ہیں۔ اس لئے یہ مطالبہ کرنا کہ خدا کی ذات ہمیں دکھا دو ایک بے ہودہ مطالبہ ہے۔ کیونکہ ذات تو کسی چیز کی بھی نظر نہیں آتی۔ سب چیزوں کو ان کی صفات کے ذریعہ ہم پہچان سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم بھی خداتعالیٰ کو اس کی صفات دیکھ کر تسلیم کرتے ہیں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں رحمانیت ہو رہی ہے اور بہت سی چیزیں ہمیں بغیر ہماری محنت کے بے مانگے کے مل رہی ہیں۔ مثلاً سورج، چاند، ہوا، پانی وغیرہ یہ سب کچھ نعمتیں ہمیں بے محنت کے ملی ہیں اور اسی کا نام رحمانیت ہے۔ سو جب ہم رحمانیت کی صفت دنیا میں دیکھتے ہیں تو اس کا موصوف بھی ماننا پڑے گا۔ کیونکہ کوئی صفت بغیر موصوف کے نہیں ہوتی۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ربوبیت ہو رہی ہے۔ دیکھو جب ہم ماں کے پیٹ سے نکلے اس وقت ہمارے لئے دودھ مہیا کیا گیا۔ اور ہم نے ایک دو سال تک بڑے آرام سے زندگی بسر کی۔پھر جبکہ ماں کی چھاتیوں میں دودھ نہ رہا اور اناج وغیرہ کے کھانے کی ضرورت پڑی تو ہمیں دانت دیئے گئے تاکہ سخت چیزیں ہم چبا سکیں۔ سو جب ہم دنیا میں صفت ربوبیت کا مشاہدہ کر رہے ہیں تو اس کے موصوف کا کیوں انکار کریں۔

پھر صفت علیم کو دیکھو۔ اس کا بھی قانون قدرت سے پتہ لگتا ہے۔ مثلاً جب ایک مقام پر سورج بنایا تو اس بنانے والے کو باقی جگہوں کی بھی اطلاع تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اس سورج سے اتنے فاصلہ پر انسانی آنکھ ہے نہ تو سورج کو زیادہ قریب کیا کہ انسان کی آنکھیں چندھیا جاویں اور وہ کچھ دیکھ نہ سکے۔ اور نہ اس قدر دور کہ وہ اندھا ہو جاوے اور کھیتیاں بھی نہ بچیں۔ غرض انسانی آ نکھ اور سورج دونوں کے تعلقات سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں کا بنانے والا ایک ہے اور سورج بناتے وقت اسے آنکھ کا اور آنکھ بناتے وقت اسے سورج کا علم تھا۔ پھر جب ہمارے کان بنائے۔ تو ادھر خوش آوازی بھی پیدا کی۔ اور جب ذائقہ کی قوت زبان میں ودیعت کی تو میووں اور بہت سے کھانوں کو مزیدار بنایا۔ اسی طرح ناک میں قوت شامہ رکھی۔ تو ادھر بہت سے خوشبودار پھول بھی اس کے لئے پیدا کئے۔ غرض دنیا کی چیزیں آپس میں ایک گہرا تعلق رکھتی ہیں اور یہ بات علم پر دلالت کرتی ہے اور علم بغیر عالم کے نہیں ہوتا کیونکہ کوئی صفت بغیر موصوف کے قائم نہیں ہوتی۔ سو اسی عالم کو ہم اپنی اصطلاح میں خدا کہتے ہیں۔

نویں دلیل

دنیا میں جس قدر چیزیں ہم کو نظر آتی ہیں سب مرکب ہیں کوئی بھی مفرد نہیں۔ ہوا کو لو۔ وہ بھی مختلف گیسوں سے مرکب ہے۔ پانی بھی مرکب ہے۔ غرض دنیا مرکبات کا مجموعہ ہے۔ ان مرکبات کا کوئی جوڑنے والا اور مرکب کرنے والا تسلیم کرنے پڑے گا اور وہی خدا ہے لیکن اگر کہو کہ یہ خودبخود مرکب ہوئے ہیں اور مرکب ہونا ان کی خاصیت ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ کیونکہ اگر مرکب ہونا ان کا خاصہ ہے تو چاہئے کہ جب ہم ان چیزوں کو توڑ دیں تب بھی وہ دوبارہ مرکب ہو جایا کریں۔ کیونکہ بقول تمہارے مرکب ہونا ان کا اپنا خاصہ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ دیکھو جب ہم ایک درخت سے اس کے پھل پھول، پتے، شاخیں، ڈالیاں، تنے جدا کر دیں تو وہ پھر کبھی نہیں جُڑتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جڑنا اور مرکب ہونا درخت کا اپنا خاصہ نہیں۔ ورنہ توڑنے کے بعد پھر دوبارہ جڑ جاتا اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ مرکب ہونا چیزوں کا اپنا خاصہ نہیں تو لامحالہ ایک مرکب کرنے والا ماننا پڑے گا۔ یہ بات گھڑے سے خوب حل ہوتی ہے۔ گھڑا پہلے مٹی تھا لیکن ایک شخص نے اپنے ارادہ سے اس مٹی کو پانی سے مرکب کیا۔ پھر ایک خاص صورت بنائی۔ پھر اُسے آگ میں ڈالا اور تب جا کر وہ گھڑا بنا۔ اب بتاؤ کہ وہ گھڑا خودبخود بنا۔ یا اسے کسی نے بنایا۔ اگر کہو کہ خودبخود بنا تو ہم کہتے ہیں آؤ اسے تھوڑی دیر کے لئے توڑ دیں۔ پھر دیکھیں کہ آ یا یہ دوبارہ ویسا بن جاتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ گھڑے نے موجودہ صورت خودبخود اختیار نہیں کی بلکہ اس کا کوئی بنانے والا ضرور موجود ہے۔ اسی طرح دنیا کی تمام چیزیں مرکب اور ایک خاص صورت پر ہیں۔ اگر کہو کہ وہ خودبخود اس ترکیب سے اور اس ہیئت پر ہیں تو یہ تو صریحاً غلط ہے۔ ان کو توڑ کر دیکھ لو۔ دوبارہ کبھی خود بخود نہ بن سکیں گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کا ترکیب دینے والا کوئی اور وجود ہے۔

دسویں دلیل

سورج روشنی دیتا ہے۔ کھیتیاں پکاتا ہے۔ ہمیں گرمی پہنچاتا ہے۔ گندے اجرام ہلاک کرتا ہے۔ چاند رات کی مشعل ہے۔ میوے پکاتا ہے۔ مدو جزر پیدا کرتا ہے۔ پانی ہماری پیاس بجھاتا ہے۔ ہمارے اور بہت سے کاموں میں کارآمد ہے۔ غرض دنیا میں بہت سی چیزیں انسان کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ ان کے متعلق تین ہی صورتیں عقل میں آ سکتی ہیں۔ یا تو کہا جاوے کہ یہ سب اتفاقی ہوتی ہیں لیکن یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ اتفاقیہ وہی بات ہوتی ہے جو کبھی ہو اور کبھی نہ ہو۔ لیکن سورج کا چڑھنا اتفاقیہ نہیں۔ ہر روز چڑھتا ہے اور وقت معین پر غروب ہوتا ہے۔ اور جب سے دنیا بنی اور انسانی تاریخ گواہی دیتی ہے یہی ہوتا چلا آیا کہ وقت مقررہ پر سورج نکلا اور مقررہ پر ہی غروب ہوا۔ گرمی ہو۔ سردی ہو۔ برسات ہو۔ بہار ہو خزاں۔ ہمیشہ طلوع ہوا اور ہمیں روشنی بخشی۔ ہماری کھیتیاں پکائیں۔ اسی طرح چاند کا بھی یہی حال ہے۔ پانی کو لو وہ بھی ایسا ہی پایا جاتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ سورج کا چڑھنا، چاند کا طلوع ہونا، پانی کا پیاس بجھانا اتفاقیہ نہیں کیونکہ ا تفاقیہ اسے کہتے ہیں جو کبھی ہو اور کبھی نہ ہو۔ کیا کبھی وہ لڑکا جو روز مدرسہ میں حاضر ہوتا ہے وہ کبھی کہہ سکتا ہے کہ میں مدرسہ میں اتفاقیہ جایا کرتا ہوں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ یہ باتیں اتفاقیہ نہیں ہوتیں بلکہ سورج چاند پانی اپنے ارادہ اور مرضی سے ایسا کرتے ہوں۔ مثلاً سورج خود مہربانی سے انسانوں پر رحم کرنے کے لئے دن کو نکلتا اور رات کو غروب ہوتا ہو اور ہمارے آ رام کے لئے وہ اناج، غلے پکاتا ہو۔ اور چاند بھی اپنی مرضی سے نکلتا اور چھپتا ہو۔ اور پانی بھی جان بوجھ کر اپنی مرضی سے ہماری پیاس بجھاتا ہو۔ سو اس صورت میں چاہئے کہ دہریئے بجائے ایک خدا ماننے کے بہت سے خداؤں کا اقرار کریں۔ سورج کا بھی شکریہ ادا کریں اور اس کی عبادت کریں اور اس کے حضور عرض کریں کہ اے ہمیں روشن کرنے والے! ہمیں اناج اور غلے دینے والے! تو ہم سے خوش رہ اور کبھی ہم سے ناراض نہ ہونا کیونکہ اگر تو ناراض ہوا تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔ اسی طرح چاند کی بھی پرستش کریں اور پانی کو بھی پوجیں کیونکہ جب یہ چیزیں اپنے ارادہ اور اپنی مرضی سے ایسا کرتی ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ایک دن ایسا کرنا چھوڑ دیں کیونکہ مختار جو ہوئیں کسی کی قید میں تو وہ نہیں ہیں۔ دیکھو جو شخص ایک کام اپنے ارادہ سے اور اپنی مرضی اور خوشی سے کرتا ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ ایک وقت میں اُسے چھوڑ دے۔ اس لئے چاہئے کہ دہریہ لوگ سورج چاند اور پانی ہوا وغیرہ کی عبادت کریں۔ ان کو پوجیں۔ ان سے دعا وغیرہ کریں۔ کیونکہ وہ اپنی مرضی اور خوشی سے ایسا کرتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ناراض ہو کر ہمیں تباہ کر دیں۔ غرض اگر یہ مانا جاوے کہ سورج اور چاند وغیرہ کے فوائد اور منافع اتفاقیہ نہیں بلکہ وہ اپنی خوشی اور ارادہ سے ایسا کرتے ہیں تو پھر تو بجائے ایک خدا کے بہت سے وجود قابل عبادت ہو گئے۔ چنانچہ اسی لئے بعض قومیں کواکب پرست اور شمس و قمر پرست ہیں۔

تیسری صورت یہ ہے کہ نہ یہ تمام باتیں اتفاقیہ ہیں اور نہ سورج چاند وغیرہ اپنی مرضی اور خوشی سے چڑھتے اور غروب ہوتے ہیں بلکہ کوئی ان پر حکمران ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں یہ سب چیزیں ہیں۔ جس کے حکم سے چڑھتے اور غروب ہوتے ہیں۔ اس تیسری صورت کو تسلیم کرتے ہوئے ہم کہیں گے کہ بس اسی متصرف کو ہم خدا کہتے ہیں۔ اور یہی اس کے وجود کی دلیل ہے۔ غرض دنیا کے کارخانہ اور اس کے نظام کے متعلق تین ہی صورتیں ہیں۔ یا تو کہا جاوے کہ یہ سب کام اتفاقیہ ہیں تو اعتراض ہوتا ہے کہ اتفاقیہ نہیں۔ کیونکہ ایک بے نظیر باقاعدگی پائی جاتی ہے اور اتفاقیہ کام تو وہ ہوتا ہے جو کبھی ہوا اور کبھی نہ ہوا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ہوا، پانی، سورج، چاند سب اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں تو یہ بھی دہریہ نہیں مانتے اور اگر مانیں تو پھر دہریہ نہیں رہتے۔ کیونکہ ایک خدا چھوڑ اُنہیں بہت سے خدا ماننے پڑیں گے اور ان سب چیزوں کی پرستش کرنی پڑے گی اور ان سب کا شکریہ ادا کرنا پڑے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ یہ سب چیزیں اپنی مرضی سے کام نہیں کرتیں بلکہ کسی کے حکم سے۔ تو پھر بھی دہریوں کا مذہب باطل ہو گیا کیونکہ اسی حاکم کو ہم خدا کہتے ہیں۔

گیارہویں دلیل

دنیا کے وجود کے متعلق دو باتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ کہ وہ خودبنی ہے دوسرے یہ کہ اسے کسی نے بنایا ہے۔ اگر کہو کہ خودبخود بنی ہے تو یہ غلط ہے کیونکہ عدم سے وجود میں آ نا ایک فعل ہے اور فعل بغیر فاعل کے نہیں ہوتا اور فاعل ہمیشہ اپنے فعل سے پہلے موجود ہوتا ہے۔ سو اگر اس عدم سے وجود میں آنے کا فاعل خود دنیا ہے تو اس کے یہ معنیٰ ہوئےکہ دنیا اپنے خودبخود بننے سے پہلے بھی موجود تھی۔ کیونکہ خودبخود بن جانا ایک فعل ہے اور دنیا اس کی فاعل۔ اور فاعل فعل سے پہلے موجود ہوتا ہے۔ اس لئے نتیجہ یہی نکلے گا کہ دنیا اپنے پیدا ہونے سے پہلے بھی موجود تھی حالانکہ یہ بات ایسی بےہودہ ہے کہ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ کوئی چیز اپنے پیدا ہونے اور بننے سے پہلے نہیں ہوتی۔ اس بات کا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ردّ کرتا ہوا فرماتا ہے۔ اَمْ ھُمُ الْخَالِقُوْنَ (الطور:36)۔ خیر یہ بات تو اس طرح بالکل باطل ہوئی۔ اب دوسری بات لو یعنی یہ کہ دنیا خودبخود نہیں بنی بلکہ اس کا بنانے والا کوئی ایک وجود ہے۔ سویہ بات واقعہ میں درست ہے اور اس بنانے والے کو ہم خدا کہتے ہیں۔

بارہویں دلیل

دہریوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ ہم خودبخود دنیا میں پیدا ہوئے یہ غلط ہے۔ کیونکہ خودبخود پیدا ہونا ایک ترجیح ہے۔ یعنی نیست پر ہست کو ترجیح دی گئی اور ترجیح بلا مرجح ہوتی نہیں۔ضرور کوئی مرجح ماننا پڑے گا۔ اگر دہریہ کہیں کہ خود مرجح ہیں تو یہ غلط ہے کیونکہ مرجح ترجیح سے پہلے ہوتا ہے۔ اور ہم اپنے عدم سے وجود میں آنے سے پہلے موجود نہ تھے۔ کیونکہ اگر ہم عدم سے وجود میں آنے سے پہلے بھی موجود ہوتے تو عدم سے وجود میں آنا کیسا۔ غرض ہم مرجح نہیں ہو سکتے اور جب ہم نہ ہوئے تو کوئی اور ہو گا۔ بس اسی کو ہم خدا کہتے ہیں۔

(الفضل قادیان 7 فروری 1915ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اکتوبر 2020