• 20 اپریل, 2024

حضرت محمد ﷺ کی عائلی زندگی مبارکہ

عائلی زندگی یا گھر یلو زندگی کے لئے انگریزی زبان میں Familylife کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں عائلہ کا لفظ بیوی کے لئےاور گھر کے افراد کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں زیادہ موزوں الفاظ خاند ان، کنبہ اور گھرانہ ہے۔ خاندان ایک قدیم ترین معاشرتی ادارہ ہے۔ علمائے معاشرت نےاسے پوری انسانی زند گی کی بنیاد قرار دیا ہے۔ علمائے معاشرت نے خاند ان کے عناصر ترکیبی پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس میں بنیادی اکائی مرد و عورت ہیں، اس کے بعد اولاد، والدین اور رشتہ دار وغیرہ خاند ان کے استحکام کا دارومدار اس امر پر ہے کہ اس کے اجزاء ترکیبی باہم د گر کس حد تک مر بوط ہوتے ہیں۔

عائلی زندگی میں رسول کریمﷺ کا بہترین نمونہ

حضور اکرمﷺ کے اسوہ حسنہ میں خاندان کے جملہ عناصر ترکیبی مثلاً والدین، ازواج، اولاد، اقربا ء اور غلاموں کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔

والدین

والدین اگرچہ خاند ان کے ضمن میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں لیکن بنی کریمؐ کو اپنے والدین کی خدمت کا موقع میسر نہیں آیا کیو نکہ وہ آپﷺ کی عملی زند گی سے پہلے وفات پاچکے تھے۔ البتہ ایک آدھ روایت میں آپؐ کے اس طرز عمل کا ذکر ملتا ہے جو آپؐ نے اپنی رضاعی والد ہ یا بہن سے کیا۔

(ابو داؤد، کتاب الادب)

حضرت عمر و بن العاصؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیاکہ میرے پاس مال ہے اور صاحب اولاد ہوں اور میرا والد میرے مال کی حاجت رکھتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا تم بھی اپنے باپ کا مال ہو اور تمہاری متاع بھی۔

حضرت ابودرداؓ ء کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ والد جنت کے دروازوں کا درمیانی حصہ ہے اگر تو چاہے تو اس دروازے کو ضائع کردے یا حفاظت کرے۔

بنی کریمﷺ کے ارشاد ات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خاندان میں والدین کو بنیاد ی اہمیت حاصل ہے۔ والدین کو پوری عزت و وقارنہ دینےسے خاند انی نظم برقرار نہیں رہ سکتا۔ گو آپﷺ کو عملاً والدین کی ودیعت اور ان کی خدمت کرنے کا موقع نہیں ملاتا ہم آپﷺ نے کمال حکمت سے ان کی حیثیت متعین کردی۔

بے مثال شوہر

خانگی زند گی میں سب سے پہلا تعلق خاوند بیوی کا تعلق ہے۔ آپﷺ نے ایک سے زائد نکاح کئے اور تمام ازواج سے مثالی سلوک کیا۔ ایک خاوند کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بیوی کو سکون، اعتماد اور تحفظ مہیا کرے۔ حضورﷺ کی عائلی زندگی کے مطالعے کے لئے مندرجہ ذیل نکات پیش کئے جارہے ہیں۔

I.وفا دار شوہر
II.حقوق کا خیال
III.خانگی زندگی کے بشری مظاہر
IV.تنظیم امور

وفادار شوہر

میاں بیوی کے تعلق میں بنیاد ی چیز وفا کا وہ رشتہ ہے جو جا نبین کو ایک دوسرے سے مربوط رکھتا ہے۔ آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ میں یہ وصف نمایاں نظر آتا ہے۔ وفا کا اولین اظہار حضرت خدیجہؓ کے ضمن میں ہوتا ہے۔ آپؐ کو حضرت خدیجہؓ سے بےانتہاء محبت تھی۔ جب وہ عقد میں آئیں تو ان کی عمر چالیس برس تھی

(طبقات حصہ اول صفحہ 132)

نکاح کے بعد پچیس بر س زند ہ رہیں اوران کی زندگی تک آنحضرتؐ نے دوسری شادی نہیں کی۔ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپؐ کا معمول تھا کہ جب کبھی گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو آپؐ ڈھونڈ ڈھونڈ کر حضرت خدیجہؓ کی ہم نشین عورتوں کے پاس گوشت بھجواتے تھے۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ خدیجہؓ کی بہن ہالہ بنت خویلد نے آنحضرتﷺ سے اند رآنے کی اجازت طلب کی تو آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کا اجازت مانگنا سمجھا۔ آپؐ (مارے رنج)کے لرزنے لگے۔ پھر آپؐ نے فرمایا ! خدایا ! یہ تو ہالہ ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں مجھے بڑا رشک آیا تو میں نے کہا آپؐ بھی کیا یاد کرتے ہیں۔ یعنی ایک سرخ رخساروں والی قریشی بڑھیا کو جسے مرے ہوئے زمانہ ہوگیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ان سے بہتر بد ل عطافرمایا ہے (مسلم کتاب فضائل الصحابہ) ابن عبد البر نے حضورؐ کا جواب بھی نقل کیا ہے۔ آنحضرتؐ نے عائشہؓ کے جواب میں فرمایا ہر گز نہیں جب لوگوں نے میری تکذیب کی تو انہوں نے تصدیق کی۔ جب لوگ کافر تھے تو وہ اسلام لائیں۔ جب میرا کوئی مدد گار نہ تھا تو انہوں نے میری مد د کی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے اولاد دی اور ان کے سوا سب کو اس سے محروم رکھا

(الاستیعاب حصہ 4صفحہ 279)

آنحضرتؐ کے دامادابو العاص جنگ بد ر کے اسیر وں میں آئے تھے۔ ان کے پاس فدیہ کی رقم نہ تھی۔ آنحضرتؐ کی صاحبزادی زینبؓ کو (جو ان کی زوجہ تھیں اور مکہ میں تھیں )کہلا بھیجاکہ فدیہ کی رقم بھیج دیں۔ حضرت زینبؓ کا جب نکاح ہوا تھا تو حضرت خدیجہؐ نے جہیز میں ان کو ایک قیمتی ہار دیا تھا۔ حضرت زینبؓ نے زر فدیہ کے ساتھ و ہ ہار بھی گلے سے اُتار کر بھیج دیا۔ آنحضرتؐ نے جب ہار دیکھا تو 25برس کا محبت انگیز واقعہ یاد آگیا۔ آپ بے اختیار رو پڑے اور صحابہؓ سے فرمایا کہ تمہاری مرضی ہوتو بیٹی کو ماں کی یاد گار واپس کر دوں۔ سب نے تسلیم کی گردنیں جھکا دیں اور ہار واپس کردیا۔

(سیرۃ، حصہ 2صفحہ 308)

حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپؐ نےمتعد د نکاح کئے اور سب کے ساتھ محبت و وفا کا تعلق اس طرح قائم رکھا کہ کسی کو شکایت کا موقع نہیں ملا۔ حضرت عائشہؓ سے بہت محبت تھی۔ لیکن یہ محبت دوسری ازواج کی حق تلفی کا باعث نہ تھی۔ چنانچہ آپؐ نے آخری مرض کے ایا م میں تمام ازواج مطہرات سے اجازت لی اور اپنی زندگی کے آخری دن حضرت عائشہؓ کے حجرے میں بسر کئے۔ (بخاری، کتاب المغازی) آنحضورؐ کی وفااس لحاظ سے اور بھی بے نظیر لگتی ہے کہ آپؐ کثیر الازواج تھے مگر کسی زوجہ کو بھی احساس بیگانگی نہیں ہوا۔

حقوق کا خیال

بنی کریمؐ کی ایک سے زائد بیویاں تھیں ایسے میں ان کے حقوق کا لحاظ اور ان کے درمیان عدل و توازن آپؐ کا ایسا کارنامہ ہے جو مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپؐ نے نہ صرف یہ کہ اپنی ازواج مطہرات کے وقار کا خیال رکھا بلکہ عورت کو بیوی کی حیثیت میں بلند مقام عطا کیا۔

رسول اکرمؐ نے فرمایا تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر وں کے لئے بہتر ہے اور میں اپنے گھروں کے لئے بہتر ہوں۔

رسول اکرمؐ نے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کا شاند ار معیار قائم کیا۔ اپنی بیویوں سے آپؐ کو جو تعلق خاطر تھا اور جس طرح ان سے بر تاؤ کرتے تھے ان کا اندازاہ ان واقعات سے ہوتا ہے جو حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجو د ہیں۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ جب سفر کرتے تو اپنی ازواج کے بارے میں قرعہ اند ازی فرماتے (ابو داؤد کتاب النکاح)حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نماز عصر کے بعد اپنی بیو یوں کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور کسی کے پاس کچھ دیر ٹھہر تے۔ ایک دن حفصہؓ کے پاس تشریف لے گئے اور وہاں معمول سے زیادہ ٹھہرے۔ (بخاری، کتاب النکاح) حضوراکرم کو آخری دم تک یہ احساس تھا۔ چنانچہ آپؐ نے مر ض الموت میں بھی اس امر کا اہتما م کیا کہ حضرت عائشہ کے گھر میں رہنے کے لئے دوسر ی ازواج مطہر ات سے اجازت طلب کی۔

معاشی حقوق

بیویوں کے حقوق میں معاشی تحفظ کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ قرآن پاک نے ان کے مہر و نفقہ کا حکم دیا ہے۔ فرمایا
اور تم بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دے دیا کر ووہاں اگر وہ بیبیاں تم کو اس کا کچھ حصہ خوش دلی سے چھو ڑدیں تو خوشگوار ہوکر کھاو۔

(النساء، آیت نمبر 4)

حضرت ابو سلمہؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ نبیؐ کا مہر کتنا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ آپؐ کا مہر اپنی بیویو ں کے لئےبارہ اوقیہ اور ایک نش تھا۔ پھر عائشہؓ نے کہا نش جانتے ہومیں نے کہا نہیں۔ کہا نصف اوقیہ اور سب ملا کر پانچ سو درہم ہوئے۔

نجاشی نے ام جیبہؓ کا نکاح حضو رؐ سے کیا تو حق مہر چار ہزار درہم مقرر کیا۔ (ابوداؤد، کتاب النکاح، حصہ 2)گو آپؐ کم مہر کو پسند فرماتے تھے لیکن اس کو عورت کا حق قر ار دیتے اور اسے ادا کرنا ضروری سمجھتے تھے

مہر کے بعد اہم چیز بیوی کے اخراجات کی ذمہ داری ہےنبیؐ نے اس سلسلے میں بھی اصولی تعلیم عطا فرمائی ہے۔

حکم بن معاویہ اپنے باپ سے روایت کر تے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ! شوہر پر بیوی کا کیا حق آپؐ نے فرمایا جب کھائےتو اسےکھلائے اور جب پہنے تو اسے پہنائے اس کے چہر ے پر نہ مار ے۔ اسے بُرا نہ کہے اور گھر کے سوا اس سے علیحدگی نہ اختیا ر کرے۔

(ابوداؤد، کتاب النکاح)

حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ہم لوگوں کو آگ جلائے ہوئے ایک ایک مہینہ گزر جاتا تھا کبھی ہم صرف کھجوریں اور پانی استعمال کرتےتھے مگر یہ کہ تھوڑا گوشت ہم لوگوں کےپاس آجاتا تھا تو اس کو پکا لیتے تھے۔

(مسلم، کتاب الزحد)

ان حالات میں شکایا ت کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا چنا نچہ ازواج مطہرات کی طرف سے مطالبات ہوئے تو ارشاد باری تعالیٰ ہوا :
ترجمہ : اے نبیؐ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی چاہتی ہوتو آؤ میں تمہیں بہت کچھ دے دلا کر اچھی طرح رخصت کر دوں اور اگرتم خدا اوراس کے رسول اور دار الاخرت کو پسند کرتی ہوتو خدا نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لئے اجر عظیم تیا ر کر رکھا ہے۔

(الاحزاب)

ام المومنین حضرت عائشہؓ اس واقعہ پر ازواج مطہر ات کا ردعمل بیان کرتی ہیں اس سے اندازہ ہوتاہےکہ آپؐ کے عادلانہ رویہ سے ازواج مطہرات کتنی مطمئن تھیں۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ہمیں اختیا ر دیا تو ہم نے اللہ اوراس کے رسو ل کو پسند کیا اور آپؐ نے اسی اختیا ر کو

(بخاری، کتاب الطلاق)

رسول اکرمؐ کی معاشی زند گی ایک استثنائی کیفیت تھی۔ اس کے باوجود آپؐ نے اہل خانہ کی کفالت کی حتی المقدور کوشش فرمائی اور امت کو عورتوں کے حقوق کی خصوصی وصیت کی۔

خانگی زند گی سے بشری مظاہر

اس انسان کامل کی بشری زندگی کا جو پہلو بہت متاثر کرتا ہے وہ یہ کہ آپؐ کے ہاں مرتبے کی تما م عظمتوں کے باوجو د انسانی زندگی کے شائستہ مظاہر نظر آتے ہیں۔ آپؐ اپنے گھر میں ازواج مطہر ات کی باتیں سنتے، ان کے اختلافات مٹاتے اور دلچسپ گفتگو فرماتے تھے۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ اپنی کسی بیوی کے پاس تھے کہ آپؐ کی دوسری بیوی نے ایک رکابی میں کھانا بھیجا۔ جس بیوی کے گھر آپؐ تشریف فرماتھے اس نے غلام کے ہاتھ پر ہاتھ مارا جس سے رکابی گر کر ٹوٹ گئی۔ نبیؐ نے اس کے ٹکڑے جمع کئے پھر اس میں جو کھانا تھا اسے سمیٹتے جاتےتھے اور کہتے جاتے تھے کہ تمہاری ماں نے بھی ایسی غیر ت کی تھی۔ پھر آپؐ نے خادم کو ٹھہرا لیا او ر اس کی بیوی سے جس کے گھر آپؐ تھے دوسری رکابی منگو ا کر اس کو دلو ادی جس کی رکابی ٹوٹی تھی اور وہ ٹوٹی ہوئی رکابی ان کے گھر رکھ دی جنہوں نے توڑی تھی

(بخاری۔ کتاب النکاح)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے مجھ فرمایا میں جان لیتا ہوں جب تو مجھ سے خوش ہوتی ہے اورجب مجھ سے نا خوش ہوتی ہے۔ میں نے عرض کیا۔ یہ آپؐ کیونکر جان لیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا جب تو خوش ہوتی ہے تو کہتی ہے نہیں قسم محمدؐ کے رب کی اور جب ناراض ہوتی ہے تو کہتی ہے نہیں قسم ہے ابراہیم ؑکے رب کی۔ میں نے عرض کیا بیشک خد ا کی قسم (جب نا راض ہوتی ہوں، تو آپؐ کا نا م چھوڑ دیتی ہوں۔

(مسلم، کتاب فضائل الصحابتہ)

حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہؐ مجھے اپنی چادر میں چھپائے ہوئے تھے اور میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی جو مسجد میں کھیل رہے تھے جب میں تھک جاتی تو آپؐ مجھے ہٹالیتے اس بات سے تم اندازہ کر لو کہ کمسن لڑکی کو کھیل کود دیکھنے کا کتنا شوق ہوتا ہے۔

(بخاری، کتاب الادب)

حضرت نعمانؓ بن بشیر سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ آنحضرتؐ سے برہم ہوکر بلند آواز سے باتیں کررہی تھی۔ اتفاقاًحضرت ابوبکرؓ آگئے۔ حضرت عائشہؓ کو پکڑ کر تھپڑ مارنا چاہا کہ رسولؐ اللہ سے چلاکر بولتی ہے۔ آنحضرتؐ حضرت عائشہؓ کے آڑے آگئے حضرت ابو بکرؓ غصہ سے بھرے باہر چلے گئے۔ حضورؐ نے حضرت عائشہؓ سے کہا کیوں ؟کس طرح تم کو بچالیا۔ چند روز بعدحضرت ابوبکرؓ آنحضرتؐ کی خد مت میں حاضر ہوئے تو وہ حالت بدل چکی تھی۔ بولے مجھ کو بھی صلح میں شریک کر لو جیسا کہ اس دن میں نے جنگ میں شرکت کی تھی آپؐ نے فرمایا ہاںاور ہاں

(ابوداؤد کتاب الادب)

ایک مرتبہ رسول اکر مؐ حضرت صفیہؓ کے پاس تشر یف لے گئے دیکھا کہ رورہی ہیں۔ آپؐ نے رونے کی وجہ پوچھی انہوں نے کہا کہ عائشہؓ اور زینبؓ کہتی ہیں کہ ہم ازواج سے افضل ہیں۔ ہم آپؐ کی زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپؐ کی چچازاد بھی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ ہارون میر ے باپ موسیٰ میرے چچااور محمدؐ میرے شوہر ہیں اس لئے تم لوگ کیونکر مجھ سے افضل ہوسکتی ہو۔

(ترمذی، کتاب الادب)

عورت چونکہ طبعاً نازک اور ضعیف القلب ہوتی ہے اس لئے آپؐ ہمیشہ ان کی خاطر داری فرماتے۔ انجشہ نامی ایک حبشی غلام حدی خوان تھے ایک دفعہ ازواج مطہرات ساتھ تھیں۔ انجشہ حدی پڑھتے جاتے تھے اور اونٹ تیز چلنے لگے تو آپؐ نے فرمایا۔ انجشہ دیکھنا آبگینے ٹوٹنےنہ پائیں

(بخاری، کتاب الادب)

تنظیم امور

آنحضورؐ نے اپنی بودو باش بہت سادہ رکھی تھی۔ قنا عت و توکل کا سہارا تھا اس لئے گھر کے معاملات سید ھے سادھے تھے۔ علامہ شبلی حضورؐ کے گھر کا نقشہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ ’’انسان بذات خود فاقہ کشی کرسکتا ہے۔ سخت سے سخت تکلیفیں اٹھاسکتا ہے۔ زخارف دنیوی کو کلیۃ ًچھوڑ سکتا ہے۔ لیکن وہ اپنے اعزہ و اقرباء بالخصوص عزیز ترین اولاد کو اس قسم کی سادہ اور مشفقانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ آپ کی نو بیویاں تھیں جن میں بعض نازو نعمت میں پلی تھیں اور اکثر معزز گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ آنحضرتؐ کواعزّو اولاد اور ازواج مطہرات کے ساتھ سخت محبت تھی۔ آپؐ نے رہبانیت کا بھی قلع قمع کر دیا تھا اور فتوحات کی کثرت مدینہ میں مال و زر کے خزانے لٹا رہی تھی لیکن بایں ہمہ آنحضرتؐ نے اپنی ذات کی طرح ان کو بھی زخارف دنیوی کا خوگر نہیں بنایا بلکہ ہر موقع پر ہر روک ٹوک کی۔ اس کی بنا پر آپؐ کے تمام خاندان کی زندگی آپؐ کے اسوہ حسنہ کا اعلیٰ ترین نمونہ تھیں (سیرۃ النبیؐ حصہ 2) ازواج مطہرات کے ساتھ آپ کو جو محبت تھی اس کا اظہار کبھی دنیا دارانہ طریقہ سے نہیں کیا۔ تمام ازواج میں حضرت عائشہؓ سب سے زیادہ محبوب تھیں لیکن یہ محبت رنگین لباسوں اور سنہرے زیوروں کی صورت میں کبھی نہیں ظاہر ہوئی۔ تمام بیویوں کا جو لباس تھا وہی حضرت عائشہ کا تھا چنانچہ وہ فرماتیں ہیں : ’’ہم تمام بیویوں کے پاس صرف ایک ایک جوڑا تھا۔‘‘

(ابوداؤد، کتاب الطہارۃ)

نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے نبی کریم سے روایت کیا آپؐ نے خیبر کے یہودیوں سے غلہ اور پھل کی آدھی پیداوار پر معاملہ کیا تو اس میں سے آپ بیویوں کو 100 وسق دیتے تھے 80وسق کھجوراور بیس وسق جو دیتے تھے۔

(بخاری، کتاب الوکالتہ)

محمد حسین ہیکل نے آپ کی گھریلو زندگی پر بڑا جامع تبصرہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’اپنے اہل کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے۔ اپنی پوشاک خود دھو لیتے، پیوند لگانا ہوتا تو اپنے ہاتھ سے رفو کرتے۔ بکری کا دودھ دوہتے۔ پاپوش سی لیتے۔ اپنے کام اپنے ہاتھ سے کر لیتے۔ اسی طرح اپنی ناقہ خود باندھتے۔ خادم کے ساتھ ایک برتن میں کھا لینے میں تکلف نہ تھا۔ اپنے گھر کی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دیتے۔ اگرچہ خود کتنی ہی تکلیف برداشت کرنا پڑتی۔ گھر میں کسی شے کا اندوختہ نہ رکھتے اور تو اور وفات کے بعد معلوم ہوا کہ سیدالمرسلینؐ اپنی زرہ بکتر گھریلو ضروریات کے لئے ایک یہودی کے ہاں گروی فرما چکے تھے۔‘‘

(حیات محمد)

شفیق باپ

آنحضرتﷺ نے ایک شفیق باپ کی حیثیت سے نہایت عمدہ اسوہ چھوڑا ہے۔ کسی شخص کو اچھے والد کی حیثیت سے جاننے کے لئے ان تین امور کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

1۔ بچوں کی پرورش
2۔ ان سے محبت و شفقت کا سلوک
3۔ عام بچوں کے متعلق رویہ

حضورؐ ان تینوں اعتبار سے مثالی باپ تھے

1۔ بچوں کی پرورش: حضورؐ کی زیادہ دیر رہنے والی صرف لڑکیاں تھیں اور یہ سب بعثت سے پہلے پیدا ہوئیں (ایک روایت کے مطابق حضرت فاطمہ (ایک) نبوی میں پیدا ہوئیں)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک عورت مانگنے کے لئے آئی اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں تھیں اس نے میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہیں پایا۔ میں نے اسے وہی دے دی۔ اس نے اسے دونوں بیٹیوں میں تقسیم کر دیا پھر کھڑی ہوئی اور باہر چلی گئی۔ اس کے بعد نبی کریمؐ گھر تشریف لائے تو میں نے آپؐ کو بتایا آپؐ نے فرمایا جو ان بیٹیوں کی وجہ سے آزمائش میں ڈالا گیا ہے اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو اس کے لئے آگ سے آڑ ہو گی۔

(بخاری، کتاب الادب)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی حتی کہ وہ بالغ ہو گئیں۔ وہ اور میں قیامت کے روز اس طرح آئیں گے اور آپ نے اپنی انگلیوں کو ملایا۔

(مسلم، کتاب البر)

ابن سعیدؓ اور ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اسے اس کا اچھا نام رکھنا چاہئے۔ اس کی بہتر تربیت کرنی چاہئے اور جب وہ بالغ ہو اس کی شادی کرنی چاہئے۔ اگر وہ بالغ ہو اور ا سکی شادی نہ کی اور اس نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کا گناہ باپ کے سر پر ہے۔

(مشکوۃ کتاب النکاح)

2۔محبت و شفقت :حضورؐ کو اپنی اولاد سے نہایت محبت تھی لیکن ایک شفیق باپ کی حیثیت سے آپؐ نے مختلف مواقع پر اپنی محبت کا اظہار فرمایا۔ بچپن میں وفات پانے والے بیٹے، شادی شدہ بیٹیاں، نواسے اور نواسیاں، داماد، چچا زاد اور پھوپھی زاد سب آپؐ کی رحمت و محبت سے بہر ہ ور ہوئے۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ سے زیادہ میں نے کسی کو عیال و اطفال پر مہر بان نہیں دیکھا۔ (اپنے صاحبزادے) ابراہیمؑ کے دودھ پینے کا انتظام مدینہ کے بالائی حصہ میں تھا آنحضرتﷺ وہاں تشریف لے جاتے۔ ہم بھی آپؐ کے ساتھ ہوتے۔ گھر میں دھواں بھرا ہوتا تھا مگر آپؐ اندر چلے جاتے کیونکہ ابراہیم ؑکے رضاعی ماں کے شوہر لوہار تھے۔ آنحضرتؐ ابراہیم ؑکو گود میں لیتے اور بوسہ دیتے تھے۔

پھر اس بچے کا انتقال ہوتا ہےتو آنحضرتؐ کا رد عمل پدری شفقت و محبت کے تمام مظاہر سمیٹے ہوئے ہے۔ اظہار غم کے بشری تقاضے کو روکا نہیں اور مصنوعی ضبط سے غیر فطری طرز عمل کا مظاہر نہیں کیا۔

(طبقات، حصہ1ص 136)

حضرت فاطمہؓ جب آپ کی خدمت میں تشریف لاتیں تو آپ کھڑے ہو جاتے۔ ان کی پیشانی چومتے اور اپنی نشست گاہ سے ہٹ کر اپنی جگہ پربیٹھ جانے کا اشارہ فرماتے۔

(مسلم، کتاب فضائل الصحابتہ)

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے حسن بن علی کا بوسہ لیا۔ آپؐ کے پاس اقرع بن حابس بیٹھے ہوئے تھے۔ اقرع نے کہامیرے دس بچے ہیں میں نے ان میں سے کسی کا بوسہ نہیں لیا۔ رسولؐ اللہ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

(رسائل و مسائل)

قرابت داروں سے ہمدردی

حضرت خاتم الانبیاء ؐجس طرح دوسرے معاملات میں مثالی فکرو عمل کے حامل تھے۔ اس طرح قرابت داروں سے تعلقات کے سلسلے میں بھی بے نظیر حیثیت رکھتے تھے۔ حضور ؐکا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے ایک طرف عصبیت جاہلیہ کا قلع قمع کر دیا تودوسری جانب اپنے اقارب سے حسن سلوک کا معیاری نمونہ پیش کیا۔ اور آپؐ کی ہی نوازش ہے کہ روابط میں مقصدی وابستگی اور انسانی ہمدردی کے واضح نقوش میسر آئے۔ کتب حدیث و سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے کے دو پہلو ہیں۔

1۔ اقارب کے سلسلے میں اصولی تعلیم
2۔ آپ کا اپنا طرز عمل

اصولی تعلیم

اقارب کے متعلق ارشادات رسولؐ کے دو عناوین بنتے ہیں۔ ایک صلہ رحمی اور دوسرے قطع رحمی۔ قرآن پاک نے اقرباء سے حسن سلوک پر بڑا زور دیا ہے۔ فرمایا:
اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت داروں سے نیکی کرو (النساء آیت 36)

حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھ کو ایسا کام بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ آپؐ نے فرمایا:بلا شرکت اللہ کی عبادت کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو

(بخاری کتاب الادب)

2۔آپ کا طرز عمل

آپؐ کا طرز عمل اسی اصولی تعلیم کا حقیقی مظہر تھا۔ آپ نے جب نبوت کا اعلان فرمایا تو سب سے پہلے اقارب کوہدایت ربانی کی طرف بلایا۔ (طبقات حصہ 1صفحہ 200)۔ جناب ابوطالب کی معاشی حالت اچھی نہ تھی اس لئے آپؐ نے حضرت علیؓ کی کفالت اپنے ذمہ لے لی تھی

(زرقانی، حصہ1 صفحہ 208)

مکی زندگی میں آپؐ کے اقارب نے ہمیشہ مخالفت کی۔ آپؐ کے بعض انتہائی قریبی رشتہ دار آپ کو ختم کرنے کی سازش میں شریک تھے لیکن آپ نے اس کے بارے میں ہمیشہ کلمہ خیر کہا۔ مدینہ طیبہ میں منتقل ہونے کے بعد قریش مکہ کے ساتھ براہ راست تصادم ہو گیا۔ قریش مکہ کے قریباً تمام لوگوں سے کسی نہ کسی طرح آپؐ کی قرابت داری تھی

(بخاری کتاب الادب باب فضل صلہ رحم)

آپؐ کے جن قریبی رشتہ داروں نے اسلام قبول کر لیا تھا ان کے ساتھ تو حسن سلوک تھا مگر جن لوگوں نےاسلام قبول نہیں کیا تھا ان سے بھی نہایت اچھا سلوک کیا۔ ان قریبی رشتہ داروں میں آپ کے چچا، چچازاد بھائی، چچازاد بہن، پھوپھیاں اور پھوپھے، پھوپھی زاد بھائی وغیرہ شامل ہیں۔ آپ نے اقرباء کے سلسلہ میں ہمیشہ رحم و عفو اور خدمت و احسان پر عمل کیا۔ ان تعلقات میں یہ خاص نقطہ ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے۔

غلاموں سے حسن سلوک

آنحضرتؐ غلاموں سے خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ جو تمہارا تمہارے مزاج کے مطابق ہو تو جو تم کھاتے ہو وہی ان کو کھلاؤ، اور جو خود پہنتے ہو ان کو پہناؤ۔ جو نا موافق ہوں انہیں بیچ دو اور خلق خدا کو عذاب نہ دو۔

(ابوداؤد کتاب الادب باب فی حق المملوک)

آنحضرتؐ کی ملکیت میں جو غلام آتے تھے آپؐ ان کو ہمیشہ آزاد فرما دیتے تھے لیکن وہ حضورؐ کے احسان و کرم کی زنجیر سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ ماں باپ قبیلہ و رشتہ داروں کو چھوڑ کر عمر بھر آپ کی غلامی کو شرف جانتے تھے۔حضرت زیدؓ بن حارثہ غلام تھے۔ آنحضرتؐ نے آزاد کر دیا۔ان کے والد لینے آئے لیکن وہ آستانہ رحمت پر باپ کےظل عاطفت کو ترجیح نہ دے سکے اور جانے سے قطعاً انکار کر دیا۔

(طبقات حصہ 3صفحہ 41)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم صحیح معنوں میں اپنی زندگیوں کو رسول اللہﷺ کے پاک اسوہ اور خلق عظیم کے رنگ میں رنگین کرنے والے ہوں اور وہ پاکیزہ معاشرہ استوار کریں جس کے قیام کے لئے ہمارے سیدومولیٰ صلی الله علیه وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔

(درثمین خان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اکتوبر 2020